عروہ بن زبیرؒ

مصنف : محمد وسیم اختر مفتی

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : دسمبر 2004

یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد حکومت تھا۔ چار نوجوان مسجد حرام میں نماز سے فارغ ہوئے۔باتوں باتوں میں ہر ایک نے اپنے مستقبل کی تمناؤں کا ذکر کیا۔ ایک نے کہا ،میری آرزو ہے کہ میں خلیفہ بنوں اور حرمین شریفین پر میرا جھنڈا لہرائے۔ دوسرے نے تمنا کی میں پوری اسلامی سلطنت کا خلیفہ بنوں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جاں نشینی مل جائے۔ تیسرے کا کہنا تھا ، میری خواہش ہے کہ عرب و عجم میری فرماں روائی میں ہوں اور قریش کی دو حسین لڑکیاں سکینہ بنت حسین اور عائشہ بنت طلحہ میری زوجیت میں آ جائیں۔ چوتھے نوجوان کاارمان بالکل مختلف تھا۔ اس نے کہا، میں چاہتا ہوں ، مجھے دنیا کے اندر علوم دینیہ میں کمال حاصل ہو جائے، مخلوق مجھ سے فیض یاب ہو اور آخرت میں جنت میں جگہ مل جائے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چاروں نوجوانوں کی مرادیں برآئیں۔ پہلے نوجوان کا نام عبداللہ بن زبیر ، دوسرے کاعبدالملک بن مروان، تیسرے کا مصعب بن زبیر اور چوتھے کانام عروہ بن زبیر تھا۔

عروہ بن زبیر ۲۳ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا آخری سال تھا۔ آپ کے والد زبیر بن عوام نبیؐ کی پھوپھی صفیہ کے بیٹے تھے۔ ان کا شجرۂ نسب پانچویں پشت قصی بن کلاب میں نبیؐ سے جا ملتا ہے ۔ وہ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے اور ان کے بارے آپؐ نے فرمایا، ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر بن عوام ہے ۔ حضرت عروہ کی والدہ بھی حسب و نسب والی خاتون تھیں اور وہ تھیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اسما۔

اس زمانے میں اسلامی حکومت انتہائی وسیع ہو چکی تھی اور مسلمان خوشحال تھے۔ عروہ نے بڑی دل جمعی سے علم حاصل کیا۔ اپنے والد زبیر اور بھائی عبداللہ کے علاوہ، حضرت علی، حضرت سعید بن زید، حضرت زید بن ثابت ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت اسامہ بن زید، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہم سے کسب فیض کیا۔ عورتوں میں سے آپ کی والدہ حضرت اسماء ، خالہ حضرت عائشہ ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنھن نے آپ کی تربیت میں حصہ لیا۔ آپ تابعین سے علم حاصل کرنے میں بھی پیچھے نہ رہے۔ نافع بن جبیر ، حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام حمران اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان ان میں شامل ہیں۔

سب سے بڑھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کی تربیت کی۔ وہ خود فرماتے ہیں، میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے چار سال پہلے ان سے تمام علوم سیکھ چکا تھا اور ان کی روایت شدہ تمام احادیث مجھے زبانی یاد تھیں۔ آپ کو قرآن مجید سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آتی تو فوراً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کرتے۔ چنانچہ سعی بین الصفا والمروہ کے بارے میں آپ کے اشکال کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے دور کیا۔ عروہ کا کہنا تھا کہ قرآن کے الفاظ سے لگتا ہے کہ یہ سعی ضروری نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا، بات یہ نہیں بلکہ ہم دور جاہلیت میں سعی کو گناہ سمجھتے تھے اور ہمارے استفسارپر اللہ تعالی کا ارشاد نازل ہوا کہ اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں۔ اسی طرح سورۂ یوسف کی آخری سے پہلے والی آیت کے بارے میں انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ جھوٹے وعدے کا گمان کرنے والے رسول نہیں بلکہ ان کے پیرو کار ہیں۔ لہٰذا آیت کا صحیح ترجمہ یوں ہو گا ‘‘یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔’’ (آیت :۰ ۱۱)

علم حدیث میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ اس کی دلیل وہ اسناد ہیں جو اب بھی کتب حدیث میں موجود ہیں۔ ان میں بے شمار دفعہ عروہ کا نام آیا ہے۔ زہری کہتے ہیں کہ وہ ایک اتھاہ سمندر کی حیثیت رکھتے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز ان کو بڑا عالم سمجھتے تھے اور سب محدثین نے ان کو کثیر الحدیث اور ثقہ مانا ہے۔

علم فقہ میں عروہ کی مہارت ایک مانی ہوئی بات ہے۔ انہیں مدینے کے سات فقہا میں شامل کیا گیا جن کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ یہ فقہائے سبعہ حسب ذیل ہیں۔ ۱۔ سعید بن مسیّب، ۲۔ عروہ بن زبیر، ۳۔ خارجہ بن زیدبن ثابت، ۴۔ عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ۵۔ قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق ، ۶۔ ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث اور ۷۔ سلیمان بن یسار۔ آپ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی دس فقہاپر مشتمل مجلس مشاورت میں بھی شامل تھے۔

رائج علوم کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد آپ مسند تدریس پر فائز ہوئے جو آپ کی بچپن کی آرزو تھی۔ مسجد نبوی میں آپ کا حلقۂ درس پر ہجوم ہوتا۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ صحابہ بھی ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ اپنے بچوں کو نصیحت کرتے کہ علم حاصل کرلو اس لیے کہ علما کے علم سے سب سے زیادہ بے پروا ان کی اولاد ہی ہوتی ہے ۔ آپ نے فقہ میں کئی کتابیں لکھیں۔ واقدی کہتے ہیں، وہ پہلے آدمی تھے جنھوں نے مغازی میں کتاب لکھی۔ اس زمانے میں لوگ کتاب اللہ کے علا وہ کوئی تحریر لکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ عروہ نے بھی حرہ کی جنگ کے بعد اپنی کتابیں ضائع کردیں تاہم بعد میں افسوس کرتے کہ اب کتاب اللہ کا متن مستحکم ہو چکا ہے اور اس میں آمیزش کاخطرہ نہیں رہا، کاش میری کتابیں محفوظ ہوتیں۔

آپ کے شاگردوں میں سے تمیم بن ابوسلمہ، سعد بن ابراہیم، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن ذکوان، عبداللہ بن عروہ، عطابن ابورباح، علی بن زید، عمرو بن دینار، زھری، محمد بن منکدر اوریحییٰ بن ابو کثیر مشہور ہیں۔ علم و فضل کا حامل ہونے کے ساتھ عروہ عبادت گزار بھی تھے۔ ہر روز مصحف میں سے دیکھ کر ربع قرآن تلاوت کرتے اور پھر تہجد میں اسے دہراتے۔ نماز خشوع و خضوع سے پڑھتے۔ ایک شخص کو جلدی جلدی، مختصر نماز پڑھتے دیکھا تواسے کہا، کیا تمھیں اپنے رب سے کچھ مانگنا نہیں ہوتا؟ مسلسل روزے رکھتے۔ جس روز انتقال ہوا، اس دن بھی روزے سے تھے۔

آپ کسی کام سے ولید بن عبدالملک سے ملنے دمشق گئے۔ رستے میں آپ کے پاؤں میں ورم آگیا اور اس نے ایک مہلک پھوڑے کی شکل اختیار کرلی اس کا زہر اوپر کی طرف پھیلنا شروع ہوا تو دمشق کے اطبا نے اسے کاٹنے کا مشورہ دیا۔ آپ کو کہا گیا کہ تھوڑی سی شراب پی لیں تو آپریشن آسان ہو جائے گا لیکن آپ نے ذکر و تسبیح اور نماز میں مشغول ہونے کو ترجیح دی۔ اسی حالت میں آپ کا پاؤں کاٹا گیا۔ ولید بھی پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا اسے خبر تک نہ ہوئی البتہ جب گوشت جلا کر خون بند کیا گیا تو اس کی بو سے اسے معلوم ہواکہ پاؤں کٹ چکا ہے۔ آخر میں عروہ بے ہوش ہو گئے۔ آپریشن کے بعد بھی آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اے اللہ! تو نے ایک عضو لیا اور تین باقی رہنے دیے۔ سب سے اچھی تعزیت عیسیٰ بن طلحہ نے کی۔ انھوں نے کہا ہم آپ سے پہلوانی اور گھڑسواری نہیں چاہتے۔ ہم تو آپ سے علم و فضل سیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اللہ نے سلامت رکھا ہے۔

اسی سفر میں آپ کو ایک اور صدمہ پیش آیا ۔ آپ کا بڑا بیٹا محمد جو آپ کا رفیق سفر تھا۔ چھت سے اصطبل میں جا گرا اور گھوڑوں نے اسے کچل دیا۔ تب بھی آپ نے صبر کیا اور کہا ،اللہ شکر ہے تو نے سات بیٹوں میں سے ایک کو وفات دی اور چھ کو زندہ رکھا ہے۔ واپسی پر جب پاؤں میں درد شروع ہوا تو اتنا کہا‘‘لَقَدلَقِیْنَا مِنْ سَفَرِناَھٰذَا نَصَبَا’’ ہمیں اپنے اس سفر میں بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ (سورۂ کہف : ۶۲)

اس واقعے کے بعد آٹھ سال تک آپ زندہ رہے۔اورنیکی کے کاموں میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ مدینے میں ایک کنواں کھدوایا جو بئر عروہ کے نام سے مشہور ہے اور ٹھنڈا میٹھا پانی دیتا ہے۔ جب آپ کے باغات میں کھجوریں اور پھل لگتے تو اس کی دیوار میں شگاف ڈال دیتے تاکہ لوگ خوب فائدہ اٹھا لیں۔ آپ عربی شاعری سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے بعد عبدالملک بن مروان سے اپنے بھائی کی تلوار لینے گئے۔ اس نے بہت سی تلواریں آپ کے آگے ڈھیر کر دیں۔ آپ نے جھٹ سے عبداللہ بن زبیر کی تلوار نکال لی۔ عبدالملک نے پوچھا، آپ نے تلوار کیسے پہچانی ۔ انھوں نے کہا اصل میں یہ میرے والد زبیر بن عوّام کی تلوار تھی اور انھوں نے جنگ بدر میں اسے استعمال کیا تھا، تب سے اس میں ایک دندانہ پڑا ہوا ہے اور عربی کا شعر پڑھا ۔ بھن فلول من قراع الکتائب۔ ان تلواروں میں بس اتنا ہی عیب ہے کہ لشکروں سے ٹکرانے کے باعث ان میں دندانے پڑے ہوئے ہیں۔

عروہ خوش لباس تھے۔ بالوں پر خضاب لگاتے۔ چار بیویوں اور دو باندیوں سے ان کے اٹھارہ بچے ہوئے۔ ان میں سے یحییٰ، ہشام، عبداللہ اور عثمان نے روایت حدیث میں بڑا حصہ لیا۔

 زین العابدین اور عروہ نماز عشاء کے بعد مسجد نبوی کے آخری حصے میں بیٹھ جاتے اور باہم گفتگو کرتے۔ ایک دن بنو امیہ کے مظالم کا ذکرچھڑ گیا تو دونوں نے مشورہ کیا کہ ان میں گھل مل کر رہنا اور ان پر نکیر نہ کرنا عذابِ الٰہی کا باعث بن سکتا ہے۔ عروہ نے مشورہ دیا کہ ظالموں سے چند میل دور رہ لینا ہی مناسب ہے چنانچہ وہ عقیق میں منتقل ہو گئے ۔

آپ کی وفات ۹۴ ہجری میں آپ کے باغات پر ہوئی جو فرع کے مقام پر تھے۔ وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔ اس سال کو فقہا کی موت کا سال کہا جاتا ہے۔ آغاز میں علی بن حسین زین العابدین فوت ہوئے پھر عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب اور آخر میں ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث اللہ کو پیارے ہوئے۔