چشمِ بددور

مصنف : مشکور حسین یاد

سلسلہ : کہانی

شمارہ : نومبر 2004

            ‘‘یار یہ تم نے کیا لڑکا پیدا کیا ہے؟’’

            ‘‘کیوں؟’’

            ‘‘بالکل گول مٹول سا ہے اور شرارت قطعی نہیں کرتا؟’’

            ‘‘کرتا ہے۔’’

            ‘‘کب؟’’

            ‘‘جب اس کا جی چاہتا ہے۔’’

            ‘‘میرا خیال ہے ایک صدی بعد اس کا جی شرارت کو چاہتا ہو گا۔ میں نے تو جب سے گود میں لیا ہے، اس نے ایک بار بھی کوئی ہل جل نہیں کی۔ کبھی میرے گھر آنا اور میرے بیٹے کو دیکھنا کتنا شرارتی ہے۔’’

            ‘‘ماشاء اللہ!’’ میں نے محمود کو داد دی…… محمود میرا بچپن کا دوست ہے …… میری اور اس کی شادی اتفاق سے ایک ہی دن قرار پائی تھی اور ایک ہی شہر میں فرق صرف اتنا سا تھا کہ اس کا نکاح صبح ہوا اور میرا شام کو …… اسی طرح پہلے اس کے لڑکا ہوا، تو میرے بھی لڑکا ہی ہوا…… لیکن وہ شادی کراکے ایک سال بعد سعودی عرب چلا گیا اور میں یہیں پاکستان رہا…… اب وہ اڑھائی سال کے بعد وطن واپس آیا ، تو سب سے پہلے گھر پہنچا اور کسی اطلاع کے بغیر…… آتے ہوئے وہ اپنی بیوی بچے کراچی چھوڑ آیا، کیونکہ آج کل اس کی بیوی کے والدین کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ محمود جب تک ہمارے پاس بیٹھا رہا زیادہ تر اپنے بیٹے کے بارے ہی میں باتیں کرتا رہا۔ کہتا تھا: ‘‘بیٹا کیا ہے، گھر کی رونق ہے، زندگی ہے ،چہل پہل ہے ، روشنی ہے، بجلی ہے۔ غرض وہ کچھ ہے کہ اس کی ذات سے گھر میں اس کے ہونے کا ثبوت خود بخود ملتا رہتا ہے اور معاف کرنا ایک تمھارا لڑکا ہے کہ بالکل ٹھس۔’’

            میں نے کہا:‘‘یار یہ لڑکا ٹھس کیسے نہ ہو، اس کا باپ بھی تو اللہ میاں کی گائے ہے۔’’

            بولا: ‘‘بکواس بند کرو جی! میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں، ایک فتنہ ہو فتنہ! معلوم نہیں اس لڑکے کی تربیت کس فضول طریقے سے کر رہے ہو کہ غریب کو بالکل دبو بنا ڈالا ہے۔’’

            دس پندرہ روز بعد محمود کی بیوی اور بچہ کراچی سے آگئے۔ میں اسی دن شام محمود کے گھر پہنچا۔ گھنٹی بجائی تو فوراً اڑھائی پونے تین سال کا ایک صحت مند بچہ بھاگا ہوا باہر آیا ۔ میں سمجھ گیا کہ یہی محمود کا بیٹا ہے …… میں نے اس سے بغلگیر ہونے کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور بیٹھے ہوئے اس سے کہا: ‘‘آؤ بیٹے جی، چاچا کی گود میں جلدی سے آجاؤ اور کلیجے میں ٹھنڈک ڈال دو۔’’ بچے نے ایک لمحے کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر چاچا کہہ کر یوں لپٹ گیا جیسا وہ مجھے بہت پہلے سے جانتا ہو۔ میں اسے گود میں لے کر کھڑا تو ہو گیا، لیکن میرا برا حال تھا۔ برخوردار نے اپنے ہاتھوں سے میرے دونوں کان زور سے پکڑ رکھے تھے اور میری ٹھوڑی میں اپنے دانت گاڑدیے تھے۔ پہلے تو میں اس کا لحاظ کرتے ہوئے کہتا رہا: ‘‘نا بیٹے ، چاچا کے کان نہیں پکڑا کرتے بری بات ہے۔’’ لیکن جب اس نے میرے کان چھوڑنے کی طرف کوئی توجہ نہ دی تو میں نے اسے ذرا ڈانٹ پلائی۔ ادھر مجھے شرم بھی آ رہی تھی کہ محمود میرا دوست کیا کہے گا کہ اس کے بیٹے کو پہلے پہل دیکھ رہا ہوں اور ابھی ملاقات کو کچھ دیر بھی نہیں ہوئی ہے کہ اپنی بزرگی جتانا شروع کر دی …… بہرحال اس نے میرے کان چھوڑے تو دونوں رخسار مضبوطی سے پکڑ لیے۔ اس کے علاوہ جب تک برخوردار کے ہاتھ میں کان رہے اس وقت تک میری ٹھوڑی پر اس کے دانتوں کا دباؤ زیادہ نہ تھا، لیکن کان چھوڑتے ہی اور رخساروں کو قبضے میں کرتے ہی اس نے ٹھوڑی میں اس زور کے ساتھ کاٹا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے جھلا کر اسے اپنے سے الگ کیا، تو میری ٹھوڑی لہو لہان ہو گئی …… میں نے جلدی سے جیب میں سے رومال نکالا اور اپنی ٹھوڑی صاف کی اتنے میں محمود بھی پہنچ گیا۔ کہنے لگا: ‘‘یار! یہی تو میرا بیٹا ہے۔’’

            میں نے کہا : ‘‘جی ہاں معلوم ہو گیا ہے۔’’

            ‘‘مگر یہ تو بڑا ملنسار ہے تم نے اسے ذرا یہ کہا ہوتا کہ میں تمھارا چاچا ہوں۔ فوراً تم سے بے تکلف ہو جاتا۔’’

            ‘‘برخوردار بے تکلفی سے ملاقات کر چکے ہیں۔’’

            ‘‘یار! یہ ذرا کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو جاتا ہے، مگر جو کچھ کرتا ہے، پیار میں کرتاہے۔’’

            ‘‘جی !’’

            ‘‘تم چپ چپ کیوں ہو؟’’

            ‘‘نہیں تو۔’’

            ‘‘ارے ہاں، یہ تمھارے کان؟ اور تمھاری ٹھوڑی؟’’

            ‘‘جی؟’’

            ‘‘جی …… جی …… کیا کر رہے ہو؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے بھتیجے سے تمھاری باقاعدہ ملاقات ہو چکی ہے۔ اگر میرا اندازہ صحیح ہے، تو پھر تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا بیٹا جس کو پسند کرتا ہے ایک تو پیار میں آ کر اس کے کان کھینچتا ہے اور دوسرے جہاں موقع ملتا ہے اپنے ننھے منے دانت بھی گاڑ دیتا ہے…… مجھے اس سے اپنے کان پکڑوا کر بہت مزہ آتا ہے۔’’

            ‘‘ماشاء اللہ!’’

            ‘‘اسی طرح جب یہ اپنے موتی سے پیارے پیارے ننھے منے دانت جسم کے کسی حصے میں گاڑتا ہے، تو مجھے اس وقت بھی بہت مزہ آتا ہے۔

            ‘‘خوب!’’

            ‘‘خوب خوب کیا کیے جا رہے ہو؟ ما شاء اللہ کہو! تمھارا یہ بھتیجا اس قدر سمجھ دار ہے کہ جب تک کوئی صاحب اس حرکت پر ڈانٹ نہیں پلاتے اس وقت تک نہ یہ زور سے کان کھینچتا ہے اور نہ دانتوں کو تکلیف دینے کی حد تک دباتا ہے …… بس اس کی یہ دونوں حرکتیں محبت اور پیار کی نشانی ہیں…… تم چونکہ سمجھ دار آدمی ہو اس لیے تم نے اسے ڈانٹ نہ پلائی ہو گی۔ اسی لیے اس نے بھی تمھارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔’’

            مجھے خاموش دیکھ کر محمود ذرا رک کر پھر بولا: ‘‘یار! اپنے بھتیجے سے کان کھنچوا کر اور اس کے دانتوں سے کٹوا کر تمھیں کوئی مزہ نہیں آیا؟’’

            ‘‘بہت مزہ آیا۔’’ میں نے جل کر کہا جسے محمود نہ سمجھ سکا اور وہ اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا۔

            ‘‘تمھاری بھابی نے بتایا ہے کہ کراچی میں اس نے اپنے نانا کے بھی اسی طرح پیار میں کان کھینچے تھے، لیکن انھوں نے ڈانٹ دیا ، تو پھر اس نے اس زور سے کان کھینچے اور ان کی ناک پر اس طرح کاٹ کھایا کہ سنا ہے اس کے بعد موصوف کو بخار چڑھ گیا تھا۔ کیوں یار مجھے تواس بیان میں مبالغہ نظر آتا ہے۔ ناک پر کسی بچے کے کاٹ لینے سے بخار کیسے چڑھ سکتا ہے، یہ تو خواہ مخواہ کی نزاکت ہے؟’’

            ‘‘مجھے فی الحال اس کا تجربہ نہیں، البتہ کل تک اس ضمن میں کچھ عرض کر سکوں گا۔’’

            ‘‘کیا مطلب؟’’

            ‘‘مطلب یہ ہے کہ برخوردار نے میری ٹھوڑی پر بھی خاصی مشق فرمائی ہے، دیکھتا ہوں مجھے بخار چڑھتا ہے یا نہیں۔’’

            ‘‘ارے! تم بھی اس قدر ڈرپوک اور وہمی آدمی ہو۔’’ ہم اندر برآمدے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ محمود کا بیٹا میری گود میں آ بیٹھا …… ایک دو منٹ تو پہلے اس نے بغور میرے منہ کی طرف بڑے تجسس اور شوق سے نگاہ کی اور پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ میری ایک جانب کی لہلہاتی مونچھوں پر اس زور سے جھپٹا مارا کہ جس وقت میں نے اس کا ہاتھ چھڑایا میری مونچھوں کے پانچ چھ بال اکھڑ چکے تھے۔ جی چاہا کہ برخوردار کے ایک زناٹے کا چپت رسید کروں، مگر محمود کا لحاظ کرتے ہوئے کھسیانی سی ہنسی ہنس کر رہ گیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ میں یہ توقع کر رہا تھا کہ ابھی محمود اپنے لاڈلے کی اس گستاخی پر اول تو ایک زور دار چپت لگائے گا ورنہ کم از کم اسے برا بھلا ضرور کہے گا …… مگر میری ان توقعات کے برعکس محمود نے ہنس کر کہا : ‘‘پیارے تم نے اندازہ لگایا کہ اتنی سی چھوٹی عمر میں میرے بیٹے کی انگلیوں میں کتنی توانائی ہے۔’’

            میں نے محمود سے جل کر پوچھا: ‘‘تم نے کبھی اپنی مونچھیں ان برخوردارِ سعادت اطوار سے …… ’’

            ‘‘بھائی میں تمھاری طرح بے وقوف آدمی نہیں۔ میں نے اپنی مونچھیں اسی لیے کٹوا دیں تھیں کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ورنہ تمھیں یاد ہو گا شادی کے وقت میرے منہ پر بھی کس قدر رشکِ بہار مونچھیں ہوتی تھیں۔ ’’ مجھے محمود کا یہ جواب قطعی پسند نہ آیا۔ علاوہ ازیں میں نے اس کے اس جواب کو زیادہ غور سے سنا بھی نہیں۔ مجھے تو اپنی مونچھوں کا خیال آ رہا تھا کہ میں نے انھیں کس شوق سے پالا پلوسا تھا اور اس گستاخ لڑکے نے کس طرح ایک لمحے میں انھیں برباد کر ڈالا۔ برخوردار پر نظر ڈالی تووہ نہایت بے تکلفی سے ہنس رہا تھا۔ میں اپنی مونچھوں پر ہلکے ہلکے انگلی پھیر کر یہ اندازہ کرنے میں مصروف ہو گیا کہ ان میں کس قدر ہلکا پن پیدا ہو گیا ہے۔ ابھی اندازہ لگا رہا تھا کہ محمود کے بیٹے نے دوسری جانب سے بھی میری مونچھوں پر حملہ کر ڈالا۔ ‘‘یااللہ!’’ میری زبان سے بے ساختہ نکلا …… اس بار محمود اپنے بیٹے کو ڈانٹتا تو کیا اسے داد دیتے ہوئے بولا: ‘‘واہ واہ کیا کہنے اب بنی بات دونوں طرف کی مونچھیں ہم وزن ہو گئیں۔ دیکھا یار! میرے بیٹے میں ابھی سے حسن توازن کس قدر پختہ ہے۔’’

            غصے سے میرا برا حال تھا۔ محمود کے بیٹے نے ہنستے ہوئے اپنی ننھی منی چٹکی میرے سامنے کھول کر رکھ دی۔ میں یہ دیکھ کر واقعی حیرا ن ہوا کہ اس دفعہ بھی اس نے میری مونچھوں کے اتنے ہی بال اکھاڑے تھے گویا دونوں طرف کی مونچھیں یکساں قرار پاگئیں۔

            محمود مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کیے جا رہا تھا، لیکن مجھے بار بار اپنی مونچھوں کا خیال آ رہا تھا۔ مونچھوں کے خیال سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجھے ان کے اکھڑنے کا غم کوئی زیادہ تھا، بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں مونچھوں کے اکھڑنے کا غم تو بڑے سے بڑے مچھیل کو بھی نہ ہوتا ہو گا۔ اس ضمن میں اصل غم تو وہ تکلیف ہوتی ہے جو فوری طور پر مونچھوں کے اکھڑنے سے ہوتی ہے، چنانچہ میری مونچھوں کے دونوں جانب بھی یہی تکلیف مجھے پریشان کر رہی تھی۔ میں ابھی اس تکلیف میں مبتلا ہی تھا کہ محمود کے بیٹے نے میرے سر کے عین درمیان میں ٹن سے ڈنڈا مارا۔ اف ایک دفعہ تومیرا سر جھن جھنا اٹھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا ، تو برخوردار نہایت بے رحمی سے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ محمود پھر بولا: ‘‘یار! ممکن ہے بچے کے ڈنڈا مارنے سے تمھیں اس وقت معمولی سی تکلیف ہوئی ہو، لیکن میرے بیٹے کی اس سعادت مندی اور احتیاط پر داد دو کہ اس نے اول تو تمھارے صرف ایک ڈنڈا مارا ہے، دوم عین تمھارے سر کے درمیان میں یعنی تمھاری چندیا پر مارا ہے۔ کوئی دوسرا بچہ ہوتا تونامعلوم اب تک تمھارے سر پر کتنے ڈنڈے پڑ گئے ہوتے اور پھر یہ کیا ضروری تھا کہ عین تمھاری چندیا پر پڑتے ادھر ادھر بھی پڑ سکتے تھے۔’’

            میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میں محمود اور اس کے بیٹے کے ساتھ کیا سلوک کروں مجھے تو اس وقت دونوں باپ بیٹے زہر لگ رہے تھے۔ اتنے عرصے کے بعد دوست اور اس کے بیٹے سے میری ملاقات ہو رہی تھی اور اس شان کے ساتھ کہ قریب قریب میرا کچومر نکل چکا تھا۔

            محمود میری حالتِ زار سے بے خبر ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف تھا، لیکن اس کی ان تمام باتوں کی تان آخر میں ٹوٹتی تھی آکر اس کے بیٹے کی تعریف پر …… وہ بار بار مجھے یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ بچوں کی پرورش کے لیے نہایت ضروری اصول یہ ہے کہ انھیں کم سے کم روکنا اور ٹوکنا چاہیے، بلکہ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ انھیں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ یعنی ان کا جو جی چاہے وہ کرتے پھریں۔ اسی طرح کی آزاد فضا میں پروان چڑھنے والے بچے نہ صرف توانا و تندرست افرادِ قوم ثابت ہوتے ہیں بلکہ ان کی ذہانت بھی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کی مثال پیش کرتا اور کہتا کہ میرے بیٹے کو دیکھ لو کس قدر بہادر ، توانا اور ذہین ہے ۔مجھے محمود کی یہ باتیں قطعی فضول اور بے کار نظر آ رہی تھیں۔ اگرچہ میں اس کے لحاظ میں اپنی زبان سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا، مگر دل ہی دل میں بری طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اب میں پہلے اپنی دونوں طرف کی مونچھوں پر انگشت شہادت سے خارش کرتا اور اس کے بعد اپنی چندیا کو سہلاتا تھا۔ مونچھوں کے دونوں جانب مرچیں سی لگ رہی تھیں اور کھوپڑی کے عین درمیان میں ڈنڈا پڑنے سے درد ہو رہا تھا۔ اتنے میں مجھے محسوس ہوا جیسے میرے کان میں کوئی کیڑا گھسا چلا جا رہا ہے۔ میں نے گھبرا کر کان پر ہاتھ مارا تو محمود اور ان کے صاحبزادہ صاحب بیک وقت ہنس پڑے۔ محمود کے بیٹے نے میرے کان میں جھاڑو کی سینک ڈالنے کی سعی بلیغ فرمائی تھی۔ میں نے محمود سے جل کر پوچھا: ‘‘کیوں صاحب! اس فعل سے آپ کے فرزند ارجمند کی کون سی عمدہ صلاحیت کا پتا چلتا ہے؟’’

            محمود بولا: ‘‘یار! تم تو ابھی تک بچوں کی پرورش اور ان کی نفسیات کے ضمن میں بالکل چغد معلوم ہوتے ہو۔ بچے کا ایک کان میں جھاڑو کی سینک چلانے کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ اس میں زندگی کی نزاکتوں اور باریکیوں سے عہدہ برآہونے کی پوری پوری صلاحیت ہے۔’’

            ‘‘کیسے؟’’ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

            وہ بولا: ‘‘ارے بندۂ خدا! میرے بیٹے نے آپ کے کان میں باریک سینک ہی چلائی ہے، ہاں اگر وہ سینک کے بجائے برف توڑنے کا سوا یا کوئی ڈنڈا تمھارے کان میں چلاتا تب اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس میں تناسب کی حس بالکل نہیں ہے اور اسے زندگی کی باریکیوں سے نمٹنے کا شعور کبھی حاصل نہ ہو سکے گا۔’’ شاید ہماری ان باتوں سے متاثر ہو کر یا اپنی اپچ سے محمود کے بیٹے نے میرے دوسرے کان میں بھی جھاڑو کی سینک چلانا چاہی، لیکن اس دفعہ میری آنکھ میں داخل ہوتے ہوتے رہ گئی۔ میں نے طیش میں آ کر کہا: ‘‘خدا کے لیے محمود صاحب! اپنے بچے سے مجھے بچائیے۔’’

            محمود نے میری اس فریاد کا اس طرح ہنس کر جواب دیا جیسے کوئی خاص بات نہیں ہوئی، چنانچہ وہ نہایت معمول کے مطابق بولا: ‘‘دوست! میرا بیٹا تمھارے ساتھ کوئی گڑ بڑ نہیں کر رہا ہے، بلکہ تم ہی آرام سے اور نچلے ہو کر نہیں بیٹھتے۔ اس واقعہ پر غور کرو کہ تم حرکت نہ کرتے تو میرے بیٹے کی سینک سیدھی تمھاری کان میں جاتی، لیکن تم عین وقت پر ہل گئے ، اس لیے وہ کان کے بجائے تمھاری آنکھ کی طرف ہو گئی۔ دراصل بچوں کو ڈانٹنا آسان ہے ان کی باریک اور نازک حرکتوں کو سمجھنا بے حد مشکل۔ تم نے میرے بیٹے کو اپنے بیٹے کی طرح بدھو کیوں تصور کر لیا ہے۔ اس کے پاس بیٹھنا ہے تو ذرا سنبھل کر بیٹھو۔’’

            ‘‘کیا کچھ کسر باقی رہ گئی ہے؟’’

            ‘‘ارے یار! ابھی اس معصوم نے تمھارے ساتھ کیا ہی کیا ہے؟’’

            ‘‘خوب!’’

            ‘‘یہ تم طنز کے طور پر کہہ رہے ہو؟’’ محمود نے میری کیفیت قلب سے بے نیاز ہو کر پوچھا۔

            ‘‘نہیں داد کے طور پر۔’’

            ‘‘تو پھر ما شاء اللہ کہو۔ قسم خدا کی تمھارا بھتیجا الو کا پٹھا بہت استاد ہے۔ یہ اس چھوٹی سی عمر میں بڑے کرتب دکھاتا ہے۔’’ محمود نے یہ فقرہ مکمل ہی کیا تھا کہ میں نے اس کے بیٹے کو دیکھا کہ وہ اپنے منہ میں بلیڈ لیے اسے چوس رہا تھا۔ میں ایک دفعہ تو گھبرا گیا ، لیکن محمود نے میری گھبراہٹ کو محسوس کرکے کہا: ‘‘تم بالکل نہ گھبراؤ یہ اکثر اس طرح اپنے منہ میں بلیڈ لے کر دیر تک چوستا رہتا ہے۔دیکھیے ایسے موقعوں پر بچوں سے چھین جھپٹ نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔’’

            ‘‘مگر یار …… !’’

            ‘‘مگر وگر کچھ نہیں تم اس کی طرف دیکھنے کی زحمت نہ کرو۔ کوئی دوسرا موضوع لو۔ ہاں اور سناؤ آج کل ہماری بھابی کا کیا حال ہے؟’’ محمود نے گفتگو کا رخ بدلا، تو میں نے اسے غنیمت سمجھ کر اپنے اور اس کے گھر والوں کے بار ے میں بات چیت شروع کر دی۔ کچھ دیر کے لیے محمود کا بیٹا میرے ذہن سے بالکل اتر گیا، حالانکہ وہ میرے آس پاس ہی کھیلنے میں مصروف تھا۔ اس دوران میں وہ ایک دو بار میری ٹانگوں کے درمیان بھی آ کر کھڑا ہوا۔ میں آرام کرسی پر نہایت آرام سے ٹانگیں پسارے قریب قریب لیٹا ہوا تھا اور محمود کی باتوں میں محو تھا۔ میں نے جو ذرا کی ذرا ٹانگیں سکیڑیں ، تو مجھے ایسا لگا جیسے تازہ ہوا کا جھونکا سامنے سے میری پتلون میں گھس آیا ہے۔ میرے ہاتھ غیر ارادی طور پر پتلون کے بٹنوں کی طرف گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ بٹنوں کے پاس سے محمود کے نورِ چشم نے بہ وسیلہ بلیڈ میری پتلون کو کاٹ ڈالا ہے۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے پتلون سے زیادہ اپنی بے پردگی کا خیال آیا اور اس خیال کے تحت میں جو سنبھل کر بیٹھا تو محمود نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا: ‘‘اپنے بھتیجے کا کمال دیکھو کہ اس نے تمھاری پتلون پر کس صفائی سے بلیڈ چلایا ہے اور پھر سب سے زیادہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس نے تمھاری پتلون کو نازک جگہ سے کاٹا بھی، لیکن اس کے باوجود تمھاری بے پردگی نہیں ہوئی۔ بھئی کیا عرض کروں تمھارا یہ بھتیجا جوان ہو کر یقینا کوئی بہت بڑا فن کار بنے گا۔’’

            میں نے خون کے گھونٹ پیتے ہوئے جواب دیا: ‘‘چلیے میری پتلون اور بے پردگی پر تو لعنت بھیجے، اگر ان حضرت کی اس حرکت سے میں لہولہان ہو جاتا تب کیا ہوتا؟’’

            محمود نے پھر میرے جذبات کی نزاکت کا خیال کیے بغیر کہا: ‘‘کچھ بھی نہ ہوتا اور اگر کچھ ہوتا، تو تمھارے حق میں بہتر ہوتا۔’’

            ‘‘کیا مطلب؟’’ میں نے غصے سے پوچھا۔

            ‘‘ابھی کوئی دو تین مہینے پہلے کی بات ہے، ہماری ملازمہ کا ایک لڑکا بھی میرے اس بیٹے کا ہم عمر تھا۔ یہ دونوں کھیل رہے تھے کہ میرے بیٹے کے ہاتھ میں ایک بالکل نیا بلیڈ آگیا، بس پھر کیا تھا ان حضرت نے اس بچے کو لہولہان کرڈالا۔ میں نے گھبرا کر ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے زخم دھو کر دیکھا تو اس کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی، کہنے لگا۔ محمودصاحب مبارک ہو، آپ کے بیٹے نے اپنے دوست کی ختنہ کر ڈالی ہیں اور وہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ، میں نے کہا ‘‘واقعی؟’’ ڈاکٹر بولا آپ مذاق سمجھ رہے ہیں اور میں حیران ہو رہا ہوں کہ اس بچے نے کس ماہرانہ چابکدستی سے ایک سرجن کا کام سر انجام دیا ہے۔ یہ سن کر ہمارے گھر میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور محلے میں لڈو بانٹے گئے۔’’

            محمود نے مجھے خاموش پایا تو وہ ذرا رک کر بولا: ‘‘کیا بات ہے تمھیں یقین نہیں آتا تو میں اس بچے کو ابھی بلائے دیتا ہوں …… تم خود اپنی نگاہوں سے اپنے بھتیجے کے ہاتھ کی صفائی ملاحظہ کر سکتے ہو۔’’

            میں نے اٹھتے ہوئے کہا: ‘‘اب اجازت دیجیے میں آپ کے بیٹے کی فنی مہارت کا قائل ہو گیا ہوں واقعی جوان ہو کر تو کیا بڑا آرٹسٹ بنے گا وہ تو اسی وقت فقیدلمثال فن کار ہے۔’’