ایلن کی واپسی

مصنف : سلطان محمود

سلسلہ : جسے اللہ رکھے

شمارہ : نومبر 2004

            یہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۹ء کے ایک دلخراش واقعہ کی روئیداد ہے۔

            رات کی تاریکی کے سائے ہر سمت اپنی گرفت کی دھاک جما چکے تھے، اس رات گھپ اندھیرے کا غرور معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ادھر کڑاکے کی سردی بھی انسانی اعصاب کو شل کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اندھیری رات اور موسمی سردی کی بد مزاجی کے تانے بانے میں لا طینی امریکا کے ایک اہم ملک کیوبا کے ایک قدرے ویران اور غیر آباد ساحلی علاقہ سے ایک ۱۶ فٹ لمبی خستہ حالت کی موٹر بوٹ (کشتی) سمندر کی سرکش لہروں میں اتری۔

            اس موٹر بوٹ میں ۱۳۔ افراد سوار تھے جن میں ایک چھ سالہ نہایت پیارا سا بچہ ایلین گون زالہ (Elian Gonzalez)بھی شامل تھا جو سمندری لہروں کی سرمستی کے خوف سے اپنی ماں میگیل کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔ یہ لوگ اپنی آنکھوں میں خوشحالی کی امید کی چمک سجائے اور دلوں میں حسین خوابوں کو بسائے امریکا کے مشہور علاقے فلوریڈا جانے کے آرزومند تھے کہ یہ علاقہ کیوبا کے نزدیک ترین تھا۔ ان لوگوں کے پاس پاسپورٹ تھے اور نہ ہی ویزے ۔ یہ لوگ چھپ چھپا کر غیر قانونی طریقے سے امریکا میں گھسنے کے تمنائی تھے۔

            جس موٹر بوٹ میں چھ سالہ ایلین اپنی ماں میگیل اور دیگر افراد کے ساتھ سوا ر تھا وہ فلوریڈا اور کیوبا کے درمیان سمندری طوفان سے پاش پاش ہو گئی۔ آناً فاناً ایلین کے سوا تمام افراد اذیت ناک موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔

            اس جان لیوا سانحہ سے ایلن کیسے زندہ بچ رہا۔ یہ واقعی جسے اللہ رکھے کی یادگار مثال ہے

ایلن دو دن تک سمندر کی بپھری لہروں کے تھپیڑے کھاتا رہا۔ کئی بار سطح سمندر کے نیچے اترا لیکن ہر بار قدرت اسے اپنی بانہوں کا سہارا دے کر پھر اوپر کر دیتی۔ وہ کئی بار بے ہوش ہوا لیکن ہر بار موت اس کی زندگی کو تحفظ مہیا کر دیتی اور اس کے جسم کا رشتہ پھر سے سانسوں سے جڑ جاتا۔ وہ مسلسل دو دن تک زندگی اور موت کی دو متوازی راہوں پر چلتا رہا۔ اسی اثنا میں امریکی نیوی کی ایک بہت پاورفل تربیتی موٹر بوٹ کا ادھر سے گزر ہوا۔ بحریہ حکام بھی وقتاً فوقتاً سمندر میں غیر قانونی تارکین کی کشتیوں کا سراغ لگانے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ امریکی بحریہ کی یہ بوٹ کسی ایسے ہی مشن پر نکلی ہوئی تھی کہ نیوی حکام کو دور ایک ‘‘تھیلا’’ سا سمندر میں اوپر نیچے ہوتے دکھائی دیا۔ وہ قریب گئے تو یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ یہ ایک لڑکے کی ‘‘نعش’’ ہے انھوں نے اسے پانی سے نکال کر اپنی بوٹ میں سوار کیا چند ساعتوں کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ بچہ رک رک کر سانس لے رہا ہے اور اس کی نبض بھی چل رہی ہے۔ ان افسران کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بچے کا پورا جسم مسلسل دو دن تک یخ بستہ پانی میں غوطے کھانے کی وجہ سے برف جیسا ٹھنڈا تھا۔ پیٹ میں پانی جانے کی وجہ سے اس کا سارا جسم سوجا ہوا تھا۔ اس کی رنگت بالکل نیلی ہو چکی تھی۔ بحریہ حکام کو یقین تھا کہ یہ بچہ بس گیا ہی گیا تاہم انھوں نے اسے طبی امداد بہم پہنچانے کا عمل فوراً شروع کر دیا جس کی وجہ سے ایلین نے حیرت انگیز طور پر نہ صرف آنکھیں کھول لیں بلکہ وہ اٹھ کر بھی بیٹھ گیا۔ متعلقہ افسران کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتاہے لیکن ایلین معجزاتی طور پر بچ گیا تھا اور بحریہ حکام نے ایلین کو ہسپتال پہنچانے کے لیے اپنی بوٹ کا رخ فلوریڈا کی طرف موڑ دیا۔

            ایلین کے ماں باپ کیوبا کے دارالحکومت ہوانا کے رہائشی تھے۔ یہ مختصر سا کنبہ معاشی لحاظ سے ایک طرب آفریں اور پر سکون جھولا جھول رہا تھا۔ ایلین کی ۳۶ سالہ خوش شکل ماں میگیل کا ایک شخص سے معاشقہ ہو گیا اور یہ بدکردار عورت اپنے محنت کش شوہر جاین گون زالہ(Juan Gonzalez) سے چوری چھپے اپنی نئی چاہت کی خلوت و جلوت کے تقاضوں کی غلاظت میں دھنستی چلی گئی تاہم اسے یہ دھڑکا مسلسل خوف و ہراس کا قیدی بنائے رکھتا کہ اگر اس کے شوہر جاین کو اس کی اس عشق بازی کا پتا چل گیا تو اس کی خیر نہیں ہو گی۔ میگیل نے اپنے اس خدشے کا اظہار اپنے عاشق نامراد سے کیا تو ان دونوں نے اپنے گھروں سے بھاگ کر کسی محفوظ مقام پر اپنی نئی دنیا بسانے کا فیصلہ کیا۔ انھیں یہ احساس تھا کہ انھیں یہ محفوظ مقام کیوبا میں تو ملنے سے رہا کہ جاین انھیں ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے رازدارانہ انداز میں امریکا جا کر آباد ہونے کا پروگرام بنایا۔

            میگیل کو اپنے اکلوتے بیٹے ایلن سے بے حد پیار تھا وہ اس کے بغیر ایک پل بھی گزارنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی چنانچہ اس بھگوڑے جوڑے نے ایلین کو بھی اپنے ساتھ لے لیا اس کے بعد اس بد نصیب موٹر بوٹ’ جس پر یہ لوگ سوار تھے جو کچھ گزری اس کا سطور بالا میں تفصیلاً ذکر ہو چکا ہے۔ سمندری لہروں نے سب مسافروں کو نگل لیا تھا لیکن رضائے ایزدی سے ان تیز و تند لہروں نے ایلین کو بخش دیا تھا۔

            ایلن کا معجزاتی طور پر زندہ بچ نکلنا عالمی میڈیا کی خصوصی توجہ کا مرکز بن گیا۔ بی بی سی ورلڈ سروس، سی این این سمیت دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو اسٹیشنوں نے اس واقعہ کو وسیع پیمانے پر کوریج دی۔ یہ بچہ مغربی اخبارات کی جلی سرخیاں بھی بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سپر سٹار کی طرح وہ دنیا بھر میں مشہور ہو گیا وہ لوگوں کا محبوب موضوع سخن بن گیا۔ایلین کی ماں کی طرف سے کافی رشتہ دار امریکا کے شہر میامی میں رہتے تھے۔ ان رشتہ داروں میں اس کی سگی خالہ بھی شامل تھی۔ ان سب رشتے داروں نے ٹی وی اور اخبارات میں بے حساب چھپنے والی تصویروں سے ایلین کو پہچان لیا۔ اس کی خالہ کو اگرچہ اس بات کا شدید دکھ اور صدمہ تھا کہ اس کی پیاری بہن اب اس دنیا میں نہیں رہی تاہم وہ اس وجہ سے حد درجہ خوش تھی کہ اس کی نشانی یعنی ایلین زندہ ہے۔ چنانچہ وہ امریکا کے متعلقہ حکام کو ایلین سے اپنی قریبی رشتے داری کا دستاویزی ثبوت فراہم کرکے اسے اپنے گھر لے آئی اور اسے اپنے بیٹے کے طور پر اپنانے کے لیے امریکی قانون اور ضابطوں کے مطابق کارروائی میں منہمک ہو گئی۔ اس سلسلہ میں اسے اپنے تمام رشتے داروں کے علاوہ لاکھوں کروڑوں عام امریکنوں کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگ دور دراز سے ایلین کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کشاں کشاں میامی آنا شروع ہو گئے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ اسے دینے کے لیے قیمتی تحفے لاتے تھے۔ بے شمار لوگ ایلین کی خالہ کا گھر ڈالروں سے بھی بھرنے لگے۔ ادھر کیوبا میں ایلین کے باپ جاین کو بھی اپنے ملکی ذرائع ابلاغ کے توسط سے جب یہ معلوم ہوا کہ اس کا لخت جگر میامی میں اپنی خالہ کے پاس ہے اور یہ لوگ اسے ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں تو اس کے پدرانہ خون نے جوش مارا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ کسی کو بھی اپنے بیٹے کو اپنانے کی اجازت نہیں دے گا اور وہ ہر حالت میں اپنے بیٹے کو واپس کیوبا لا کر ہی دم لے گا۔ ایلین کی خالہ بھی اس پر اڑ گئی کہ اس کی بہن میگیل امریکا میں ایلین کو سیٹل کرنے کی آرزومند تھی کہ امریکا جیسے خوشحال ترین ملک میں بچے کا مستقبل بہت روشن ہے اس نے بھی اپنے عزم و عمل کی قسم کھا لی کہ وہ اپنی آنجہانی بہن کی یہ خواہش پوری کرکے ہی چین سے بیٹھے گی۔

            اگر ایلن کی خالہ کو امریکی عوام کی بھر پور معاونت اور سرپرستی حاصل تھی تو اس کے باپ کے پیچھے بھی کیوبا کی پوری قوم تھی۔ ہر کیوبن کا یہی مطالبہ تھا کہ ایلن کو کیوبا واپس لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے کیوبن عوام نے جاین کے لیے مالی امداد کا طومار باندھ دیا۔ چنانچہ عوامی ایثار اور تعاون سے جاین نے ایلن کی امریکا ‘‘واگزاری’’ کے مقصد سے ہوانا کی مجاز عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے قراردیا کہ ایلن کیوبا کا پیدائشی ہے اور کیوبا میں اس کا سب سے بڑا خونی رشتہ یعنی باپ رہتا ہے۔ لہٰذا ایلن کوفی الفور کیوبا بھیجا جائے لیکن امریکی عوام اور بالخصوص امریکا میں مقیم ایلن کے ماں کی طرف سے تمام رشتے داروں نے اس عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اندریں حالات جاین کے لیے امریکا آ کر اپنے بیٹے کی واگزاری کے لیے مقامی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا ناگزیر ہو گیا۔ کیوبا کے عوام نے اس کے لیے ایک جہاز چارٹر کیا اور امریکا میں طعام و قیام اور مقدمہ لڑنے کے لیے اسے لاکھوں ڈالروں سے لاد کر بڑے شاہانہ انداز میں واشنگٹن روانہ کیا۔ ہوانا کے بین الاقوامی ایئر پورٹ پر لاکھوں لوگوں نے اسے اپنی دعاؤں کے ساتھ الوداع کیا۔ جاین اپنے ساتھ اپنی ماں ایلن کی عمررسیدہ دادی اور نانی کو بھی واشنگٹن لایا تھا۔

            جاین پورے سات ماہ تک امریکا کی مختلف عدالتوں میں اپنے بیٹے کی بازیابی کا مقدمہ لڑتا رہا۔ اس تمام دورانیہ میں ہر روز کیوبا بھر میں جاین کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہوتے رہے اور عوام کے اس نعرہ ‘‘ایلن ! کیوبا تمھارے لیے اداس ہے، تمھیں ملکی فضائیں بلا رہی ہیں’’ نے ایک قومی نغمہ کی شکل اختیار کر لی۔ اسکولوں اور گرجا گھروں میں جاین کی کامیابی کے لیے اجتماعی دعائیں مانگی جاتی رہیں۔ ان مظاہروں اور مجالس میں سڑکوں پر جھاڑو پھیرنے والے ایک خاکروب سے لے کر ملک کا چیف جسٹس تک حصہ لیا کرتا تھا۔ ایلن کی بازیابی کے لیے ہوانا میں ایک سرکاری سطح پر ریلی بھی ہوئی جس کی قیادت کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے کی۔ اس موقع پر انھوں نے عوام سے جو خطاب کیا وہ زبان و بیان کا عظیم شاہکار تھا۔ ہر شخص کی آنکھ پرنم ہو گئی۔ اس ریلی میں ۳۰ لاکھ افراد نے شرکت کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ ماضی قریب میں انسانوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔ ادھر امریکا میں بھی عوام ہر روز غیر معمولی مظاہروں کے ذریعے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ ایلن کو کیوبا ہرگز نہ بھیجا جائے۔ اس نزاعی تکرار نے اس قدر شدت اختیار کی کہ صدر بل کلنٹن کو کئی بار اپنے عوام کو صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کرنی پڑی۔ امریکی عوام نے کئی بار وائٹ ہاؤس کا گھیراؤ کیا۔ دھرنے دیے۔ قصہ مختصر یہ کہ معاملہ امریکا کی سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ایلن پر سب سے زیادہ حق اس کے باپ جاین کا ہے اور وہ اسے کیوبا لے جانے میں بالکل آزاد اور حق بجانب ہے۔ اس فیصلے سے اہل کیوبا خوشی سے جھوم اٹھے اور ناچتے گاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ کیوبا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں زبردست آتش بازی کی گئی۔ مے خانوں میں خوب جام لنڈھائے گئے۔ جب ایلن ۲۸ جون کو ہوانا ایئرپورٹ پر اترا تو اس کا ایک قومی ہیرو کے طور پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اس قسم کا استقبال آج تک امریکی صدر اور ملکہ برطانیہ کے حصہ میں بھی نہیں آیا۔

            اس واقعہ سے جہاں اس بات پہ ایمان و یقین بڑھتا ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ زندہ قومیں اپنے افراد اور خصوصأً اپنے بچوں کی عظمت و عصمت ، تقدس اور ان کی شخصی اہمیت کو کس قدر حساس انداز میں لیتی ہیں۔ بچے ہر ملک کی دولت ہوتے ہیں۔ انھوں نے ہی آگے چل کر اپنے ملک کی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوتا ہے۔ ایک چھ سالہ بچہ ایلین کی وجہ سے امریکی اور کیوبن عوام آپس میں بری طرح بھڑ گئے تھے۔ دونوں ممالک کے عوام کو بچے کے مفادات عزیز تھے۔ امریکا اور کیوبا کے درمیان ایلین کے حوالے سے باہمی محاذ آرائی اور کھینچا تانی کی یہ داستان ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہیے لیکن ہمارا کردار تو یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو بردہ فروش اغوا کرکے بیگار اڈوں پر پہنچا دیتے ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بچوں سے بے حسی پر ہمیں شرم آنی چاہیے۔ شاید ہم شرم محسوس کرنے کا ہنر بھی بھول گئے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے ۔ آمین

(بشکریہ نوائے وقت، ۲۰؍ اگست ۲۰۰۰ء)