انتقام کی آگ

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اکتوبر 2004

            اس نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ اس منظر کو بھول جائے لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ بار بار وہی منظر اس کی نگاہوں میں گھوم جاتا تھا۔ تلواروں کی جھنکار، تیروں کی بوچھاڑ، زخمیوں کی پکار، اور ان سب کے درمیان دشمن کی للکار…… جب بھی وہ اکیلا ہوتا جنگ کا یہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ لیکن جس منظر سے اسے سب سے زیادہ نفرت تھی، جو اس کے لیے عذاب بن گیا تھا، وہ منظر تھا جب دشمن نے اس کے بیٹے کو بے بس کرکے گرفتار کر لیا تھا اور وہ خود اپنی جان بچا کر میدانِ جنگ سے بھاگ جانے پر مجبور ہوگیا تھا …… اس کا اکلوتا اور بہادر بیٹا دشمن کی قید میں چلا گیا تھا …… پھر اسے اپنے دوست یاد آتے، وہ بڑے بڑے سردار نگاہوں کے سامنے آجاتے جن کی گردنیں دشمن نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالی تھیں اور جن کی لاشیں ایک کنویں میں پھینک دی گئی تھیں۔ وہ یہ ساری باتیں کیسے بھلا سکتا تھا۔ واقعی ماضی کے اس عذاب سے جان چھڑانا اسے ممکن نظر نہیں آ رہا تھا …… ہاں البتہ ایک صورت تھی ، اس تلخ اور تکلیف دہ یاد سے پیچھا چھڑانے کی …… وہ صورت تھی انتقام کی …… بھیانک انتقام کی……

            وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: ‘‘عمیر کن خیالوں میں کھوئے ہوئے ہو؟’’

            ‘‘صفوان! تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے آج کل کن خیالوں نے گھیرا ہوا ہے …… میں تو ہر دم اپنے بیٹے کی فکر میں رہتا ہوں۔ مجھے خوف ہے کہ دشمن میرے بیٹے کو زندہ نہیں چھوڑے گا …… میں نے تو ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہوا……’’ آنے والا، جسے صفوان کے نام سے پکارا گیا تھا، لمبی سانس لے کر کہنے لگا: ‘‘ٹھیک کہتے ہو بھئی، یہ جنگ بھی کیا خوفناک جنگ تھی …… اس میں تو وہ کچھ ہو گیا جس کا ہم نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ دشمن نے ہمیں چیونیٹوں کی طرح مسل کر رکھ دیا۔ اس بستی کے سارے بہادر سردار چن چن کر مار ڈالے۔ خدا کی قسم اب تو زندہ رہنے میں کوئی مزا نہیں۔’’

            ‘‘کعبہ کے رب کی قسم آپ نے بالکل سچ کہا …… بھلا اب ہمارے زندہ رہنے کا کیا فائدہ!’’ پھر دونوں جنگ کے بارے میں باتیں کرنے لگے کہ ان کے کتنے لوگ قید ہوئے اور کتنے مارے گئے اور کیسے ان سب کی لاشیں قلیب نامی کنویں میں پھینکی گئیں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد عمیر بولا: ‘‘کاش…… کاش مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میں بیوی بچوں والا نہ ہوتا تو اس کعبہ کے رب کی قسم میں دشمن کے سردار کو ابھی جا کر ٹھکانے لگا دیتا …… اسی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے …… ’’ یہ کہہ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ دوبارہ بولا: ‘‘اور اگر میں اپنے بیٹے کی خبر لینے دشمن کے شہر چلا جاؤں تو کوئی مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم یہان کیا کرنے آئے ہو؟ میں موقع پا کر دشمن کے سردار کو قتل کر سکتا ہوں۔ یہ ممکن تو ہے مگر …… ’’ صفوان فوراً بولا: ‘‘عمیر تم فکر نہ کرو، تمھارا سارا قرض میں ادا کروں گا۔ اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو میں تمھارے سارے خاندان کی ذمے داری قبول کرلوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ میرے پاس بہت مال و اسباب ہے آخر وہ کب کام آئے گا!’’

            عمیر نے امید بھری نظروں سے اپنے دوست صفوان کی طرف دیکھا اور سرگوشی سے بولا: ‘‘تو پھر اس بات کو اپنے تک ہی رکھنا۔ کسی سے ذکر نہ کرنا،اور اپنا وعدہ یاد رکھنا۔’’

            صفوان بولا: ‘‘تم بھی کسی کو مت بتانا کہ کہاں جا رہے ہو۔’’

            دونوں دوست ایک دوسرے کو رازداری کی تلقین کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ عمیر نے گھر آ کر تیاری شروع کر دی۔ ان دنوں کئی لوگ دشمن کے شہر اپنے قیدیوں کی خیریت دریافت کرنے جا رہے تھے۔ عمیر کو یقین تھا کہ وہ بھی بیٹے کے بہانے وہاں پہنچ جائے گا۔ کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہو گا کہ وہ کس ارادے سے یہاں آیا ہے۔ عمیر نے اپنی تلوار تیز کرکے اسے زہر میں بھگویا اور اگلے ہی دن انتقام کا طوفان سینے میں چھپائے ، دشمن کا نام و نشان مٹانے چل پڑا۔

            منزلوں پر منزلیں مارتا وہ دشمن کے شہر پہنچ گیا۔ یہ شہر اس کے شہر سے تین راتوں کے فاصلے پر تھا۔ شہر میں آ کر وہ پہلے تازہ دم ہوا، کپڑوں کا گردوغبار جھاڑا اور دشمن کے سردار کی تلاش میں گھومنے لگا۔ جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ اگر وہ مسجد کے قریب رہے تو اسے کامیابی ہو سکتی ہے۔

            مسجد کے قریب آ کر اس نے اپنا گھوڑا ایک طرف باندھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی اس نے نظریں اٹھائیں، اس کے سامنے ایک ایسا شخص کھڑا تھا جس کی مثال کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ کسی زمانے میں اس کا اچھا ملنے والا ہوتا تھا مگر اب …… اب تو وہ بھی اس کا دشمن بن چکا تھا۔ اور یہ باوقار اور بارعب شخص اسی جنگ کے قیدیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا۔ اسی لمحے اس کی نظر عمیر پر پڑی جو گلے میں تلوار لٹکائے مسجد کی طرف آ رہا تھا۔

            اس بارعب شخص نے اپنی بات روکی اور عمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ‘‘ارے یہ ہمارا دشمن عمیر! خدا کی قسم یہ یقینا یہاں برے ارادے سے آیا ہو گا۔ اسی نے شہر کے لوگوں کو جنگ پر ابھارا تھا۔ یہ ہماری جاسوسی بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی کسی کام سے آیا ہو گا۔’’ پھر وہ فوراً مسجد کے صحن کی طرف لپکا۔ وہاں اس کے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے ساتھی کو حکم دیا کہ اپنے سردار کو اپنی حفاظت میں لے لے کہ کہیں عمیر جیسا چالاک دشمن کوئی چال نہ چل جائے۔ پھر اس نے اپنے سردار سے کہا کہ عمیر ادھر ہی آ رہا ہے اور اس جیسے مکار دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سردار نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لے آؤ۔

            یہ حکم سنتے ہی وہی با وقار شخص واپس مڑا اور عمیر کے پاس پہنچ کر اسے خبردار کیا کہ وہ کوئی حرکت نہ کرے اور خاموش کھڑا ہوجائے۔ پھر اچانک اس نے اپنی تلوار کا پٹہ اس کی گردن میں ڈال کر اس پر قابو پا لیا اور اسے سردار کے سامنے پیش کر دیا۔ سردار نے عمیر کو اس حالت میں دیکھا تو فوراً حکم دیا کہ اس کی گردن کو آزاد کر دیا جائے۔ عمیر کی گردن آزادکر دی گئی۔ سردار نے جب باوقار شخص سے کہا کہ وہ پیچھے ہٹ جائے تو اس نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر وہ عمیر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ‘‘عمیر، تم قریب آجاؤ۔’’

            عمیر کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ اب منزل بہت قریب ہے، انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ میں قریب جاتے ہی پھرتی سے تلوار نکال کر اپنا کام کر دکھاؤں گا۔ وہ نپے تلے قدم اٹھاتا سردار کی طرف بڑھا اور ایک دو قدموں کے فاصلے پر جا کر رک گیا اور بولا: ‘‘صبح بخیر۔’’ یہ ان کے ہاں سلام کرنے کا طریقہ ہوتا تھا۔

            ‘‘عمیر اللہ تعالیٰ نے ہمیں تم سے بہتر سلام کا طریقہ بتایا ہے یعنی السلام علیکم۔’’

            ‘‘آپ کا سلام ہمارے سلام سے کوئی زیادہ مختلف تو نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی بات ہی بڑی انوکھی ہے۔’’

            سردار نے اس کے تبصرے کو نظر انداز کیا اور کہا: ‘‘کہو عمیر، کیسے آنا ہوا؟’’

            ‘‘میں اپنا قیدی چھڑانے آیا ہوں۔میرا بیٹا آپ کے قبضے میں ہے۔ برائے مہربانی اسے چھوڑ دیں اور مجھ پر احسان فرمائیں۔’’

            ‘‘مگر تمھاری گردن میں تو تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کا کیا مقصد ہے؟’’

            ‘‘افسوس یہ تلوار ناکارہ ہو گئی ہے۔ جس دن آپ لوگوں سے جنگ ہوئی، اس دن کے بعد اس کی دھار کند ہو گئی ہے۔’’

            ‘‘نہیں عمیر، تم سچ بولو کہ کیسے آنا ہوا؟’’ سردار کی بات نے پہلی دفعہ عمیر کے دل میں ہلچل مچائی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پاتے ہوئے کہا: ‘‘میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں اپنا قیدی چھڑانے آیا ہوں۔’’

            سردار نے فرمایا: ‘‘تم اور تمھارا دوست صفوان، حطیم کے پاس بیٹھے قلیب کنویں میں پھینکی گئی لاشوں کے متعلق باتیں کررہے تھے۔ پھر تم نے یہ کہا کہ اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میں بیوی بچوں والا نہ ہوتا تو یقینا دشمن کے سردار کو قتل کرنے کی مہم پر نکل پڑتا۔ پھر صفوان نے تمھارا قرض اتارنے اور بیوی بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا وعدہ کیا اور تم مجھے قتل کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے…… مگر اللہ نے تیرے اس گھناؤنے منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔’’

            عمیر یہ سب کچھ سن کر حیران رہ گیا۔اسے سخت حیرت ہو رہی تھی کہ صفوان کے ساتھ کی گئی یہ باتیں تو ان دونوں کے سوا کسی نے نہیں سنیں۔ اس نے تو اپنی بیوی کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا اور صفوان کی بھی یہی کیفیت تھی۔ پھر ان تک یہ باتیں کیسے پہنچ گئیں۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کسی سخت خول میں بند تھا اور اب یہ خول ٹوٹنے لگا ہے۔ اس کے وجود پر ان دیکھی زنجیروں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی ہے۔ آخر وہ پکار اٹھا:

            ‘‘اے سردار! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ محمد، اللہ کے رسول ہیں …… آپ مکہ میں جب ہمیں آسمانی خبریں بتلاتے تھے تو ہم انھیں تسلیم نہیں کرتے تھے، لیکن صفوان اور میرے درمیان ہونے والی گفتگو کا تو ہمارے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ خدا کی قسم اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ خبر آپ کو اللہ ہی نے دی ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے آپ کے پاس لایا تاکہ مجھے اسلام کی دولت نصیب ہو۔’’

            اور عمیر بن وھب نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔

            اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ‘‘عمیر اب تمھارے بھائی ہیں۔ انھیں دین سمجھاؤ، قرآن مجید کی تعلیم دو اور ان کے قیدی کو آزاد کر دو۔’’

            تمام صحابہ کرام عمیر بن وھب کے اسلام قبول کرنے پربہت خوش ہوئے۔ وہ باوقار شخصیت جس نے دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ عمیر کس ارادے سے آئے ہیں، اس کا نام حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھا۔ وہ بھی عمیر بن وھب کے اسلام قبول کرنے پر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے فرمایا: ‘‘جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا تو مجھے بہت برا لگا تھا لیکن اب اسلام قبول کرنے کے بعد یہ مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارا لگتا ہے۔’’

            ادھر مکہ میں صفوان بڑی بے چینی سے مدینہ سے کسی بڑی خبر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ جب بھی دوستوں کی مجلس میں بیٹھتا تو کہتا: ‘‘اے قریش! تمھیں جلد ہی ایک ایسی خبر ملنے والی ہے جو غزوہ بدر کی یاد بھلا دے گی۔’’

            مگر صفوان کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا اور اسے وہ خبر ہرگز نہ ملی جس کی اسے توقع تھی۔ اس کے برعکس ایک دن مدینہ سے آنے والے ایک شخص نے اسے بتایا کہ عمیر رضی اللہ عنہ تو مسلمان ہو گئے ہیں۔ یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری۔ اس نے یہ کہہ کر اس خبر کو ماننے سے انکار کر دیا کہ ساری دنیا مسلمان ہو سکتی ہے لیکن عمیر مسلمان نہیں ہو سکتا۔

            ایک دن اس کے گھر پر دستک ہوئی۔ وہ باہر نکلا تو سامنے عمیر رضی اللہ عنہ’ کھڑے تھے۔ صفوان نے غور سے ان کی طرف دیکھا۔ اسے یوں لگا کہ جیسے وہ اس عمیر کو نہیں دیکھ رہا جسے اس نے اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ عمیر رضی اللہ عنہ تو بالکل ہی کوئی دوسرا شخص دکھائی دیتا تھا۔ عمیر رضی اللہ عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں گھر کے اندر لے گئے۔

            صفوان نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔

            حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے اسے سارا واقعہ بتایا اور پوچھا کہ کیا تم نے ہمارے درمیان ہونے والی باتیں کسی اور شخص کو بتائی تھیں؟ صفوان نے کہا کہ نہیں، اس نے اس راز کو ہمیشہ اپنے تک ہی رکھا تھا۔ تب حضرت عمیررضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسی لیے اسلام قبول کر لیا ہے اور مدینہ میں رہتے ہوئے میں نے اسلام کی تعلیمات بھی سیکھی ہیں اور قرآن بھی یاد کیا ہے اور اب میں یہاں رہ کر اسلام کی تبلیغ کروں گا۔ انھوں نے سب سے پہلے صفوان ہی کو اسلام کی دعوت دی۔ مگر صفوان نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو ٹال دیا۔ اس کے بعد حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے دوستوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔