ابوالعاصؓ اور سیدہ زینبؓ

مصنف : آصف علی خان

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : نومبر 2018

سیرت صحابہؓ
ابوالعاصؓ اور سیدہ زینبؓ
آصف علی خان

ابوالعاص بعثت سے پہلے ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: میں اپنے لئے آپ کی بڑی بیٹی زینب کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ان کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ گھر جا کر رسول اللہ ﷺنے زینب سے کہا: ’’تیرے خالہ کے بیٹے نے تیرا نام لیا ہے کیا تم اس پر راضی ہو؟‘‘ سیدہ زینب کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائیں۔ رسول اللہﷺ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور ابو العاص بن الربیع کا رشتہ زینب کیلئے قبول کر لیا۔ یہاں سے محبت کی ایک داستان شروع ہوتی ہے۔ ابو العاص سے زینبؓ کا بیٹا ''علی'' اور بیٹی''امامہ'' پیدا ہوئے۔ پھر آزمائش شروع ہوجاتی ہے کیونکہ نبی ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپﷺ اللہ کے رسول بن گئے۔ ابو العاص کہیں سفر میں تھے۔جب واپس آئے تو بیوی اسلام قبول کر چکی تھی۔جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو بیوی نے کہا: میرے پاس تمہارے لئے ایک عظیم خبر ہے۔ یہ سن کر ابو العاص اٹھ کر باہر نکلے۔ سیدہ زینب خوفزدہ ہو کر ان کے پیچھے پیچھے باہر نکلتی اور کہتی ہیں: میرے ابو نبی بنائے گئے ہیں اور میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔ ابو العاص: تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب دونوں کے درمیان ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو کہ عقیدے کا مسئلہ تھا۔ سیدہ زینبؓ : میں اپنے ابو کو جھٹلا نہیں سکتی، نہ ہی میرے ابو کبھی جھوٹے تھے، وہ تو صادق اور امین ہیں۔میں اکیلی نہیں ہوں، میری ماں اور بہنیں بھی اسلام قبول کر چکی ہیں،میرا چچا زاد بھائی (علی بن ابی طالبؓ ) بھی اسلام قبول کر چکے ہیں، تیرا چچازاد (عثمان بن عفانؓ ) بھی مسلمان ہوچکے ہیں، تیرے دوست ابو بکرؓ بھی اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ابو العاص نے کہا: مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ اپنی قوم کو چھوڑ دیا، اپنے آباؤ اجداد کو جھٹلایا، میں تیرے ابو کو ملامت نہیں کررہا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اپنے شوہر اور بچوں کے پاس ہی رہو۔‘‘ وقت گزرتا گیا اور دونوں اپنے بچوں کے ساتھ مکہ میں ہی رہے یہاں تک کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا اور ابو العاص قریش کی فوج کے ساتھ اپنے سسرﷺ کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے ۔ زینب خوفزدہ تھیں کہ ان کا شوہر ان کے ابا کیخلاف جنگ لڑے گا اس لئے روتی ہوئی کہتی تھیں: ’’اے اللہ! میں ایسے دن سے ڈرتی ہوں کہ میرے بچے یتیم ہوں یا اپنے ابو کو کھودوں۔‘‘ ابو العاص بن الربیع رسول اللہ ﷺ کیخلاف بدر میں لڑے، جنگ ختم ہوئی تو داماد سسر کی قید میں تھا، خبر مکہ پہنچ گئی کہ ابو العاص جنگی قیدی بنائے گئے۔ سیدہ زینبؓ پوچھتی رہیں کہ میرے والد کا کیا بنا؟ لوگوں نے بتا یا کہ مسلمان تو جنگ جیت گئے، اس پرسیدہ زینبؓ نے سجدہ شکر ادا کیا۔ سیدہ زینب نے پھر پوچھا: میرے شوہر کا کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: اس کو ان کے سسر(ﷺ) نے جنگی قیدی بنایا۔ سیدہ زینبؓ نے کہا: میں اپنے شوہر کا فدیہ (دیت) بھیج دوں گی۔ شوہر کا فدیہ دینے کیلئے سیدہ زینبؓ کے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں تھی اس لئے اپنی والدہ ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کا ہار اپنے گلے سے اتار دیا اور ابو العاص بن الربیع کے بھائی کو دے کر اپنے والد ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ ایک ایک قیدی کا فدیہ وصول کر کے ان کو آزاد کر رہے تھے کہ اچانک اپنی زوجہ سیدہ خدیجہؓ کے ہار پر نظر پڑی تو پوچھا: ’’یہ کس کا فدیہ ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: یہ ابو العاص بن الربیع کا فدیہ ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ روپڑے اور فرمایا:یہ تو خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کا ہار ہے، پھر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: ’’اے لوگو!یہ شخص بُرا داماد نہیں، کیا میں اس کو رہا کروں؟ اگر تم اجازت دیتے ہوتو میں اس کا ہار بھی اس کو واپس کردوں؟‘‘ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ!۔
رسول اللہ ﷺ نے ہار ابوا لعاص کو تھمادیا اور فرمایا: ’’زینب سے کہو کہ خدیجہ کے ہار کا خیال رکھے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے ابو العاص! کیا میں تم سے تنہائی میں کوئی بات کر سکتا ہوں؟‘‘ ان کو ایک طرف لے جا کر فرمایا: ’’اے ابو العاص! اللہ نے مجھے کافر شوہر اور مسلمان بیوی کے درمیان جدائی کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے میری بیٹی کو میرے حوالے کرو گے؟ ابو العاص نے کہا: جی ہاں۔ دوسری طرف سیدہ زینبؓ شوہر کے استقبال کیلئے گھر سے نکل کر مکہ کے داخلی راستے پر ان کی راہ دیکھ رہی تھیں۔ جب ابو العاص کی نظر اپنی بیوی پر پڑی تو فوراً کہا: میں جا رہا ہوں۔ سیدہ زینبؓ نے کہا: کہاں؟ ابو العاص نے کہا: تم اپنے باپ کے پاس جانے والی ہو۔ سیدہ زینبؓ : کیوں؟ ابو العاص: میری اور تمہاری جدائی کیلئے۔ جاؤ اپنے باپ کے پاس جاؤ۔ سیدہ زینبؓ : کیا تم میرے ساتھ چلوگے اور اسلام قبول کرو گے؟ ابو العاص: نہیں۔ سیدہ زینبؓ اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر مدینہ منورہ چلی گئیں جہاں 6 سال کے دوران کئی رشتے آئے مگرسیدہ زینبؓ نے قبول نہیں کیا اور اسی امید سے انتظار کرنے لگیں کہ شوہر شاید اسلام قبول کر کے آئے گا۔
6 سال کے بعد ابو العاص ایک قافلے کے ساتھ مکہ سے شام کے سفر پر روانہ ہوئے، سفر کے دوران راستے میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت ان کو گرفتار کر کے ساتھ مدینہ لے گئے۔مدینہ جاتے ہوئے ابو العاص نے سیدہ زینبؓ اور ان کے گھر کے بارے میں پوچھا۔ فجر کی اذان کے وقت وہ سیدہ زینبؓ کے دروازے پر پہنچے۔ سیدہ زینبؓ نے ان پر نظر پڑتے ہی پوچھا: کیا اسلام قبول کرچکے ہو؟ ابو العاص نے کہا:نہیں سیدہ زینبؓ : ڈرنے کی ضرورت نہیں، خالہ زاد کو خوش آمدید، علی اور امامہ کے باپ کو خوش آمدید۔ رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی تو مسجد کے آخری حصے سے آواز آئی: میں ابو العاص بن الربیع کو پناہ دیتی ہوں۔نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگوں نے سن لیا جو میں نے سنا ہے؟‘‘ سب نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسولﷺ! سیدہ زینبؓ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! ابو العاص میرا خالہ زاد ہے اور میرے بچوں کا باپ ہے میں ان کو پناہ دیتی ہو۔ نبی ﷺ نے قبول کر لی اور فرمایا: ’’اے لوگو!یہ برا داماد نہیں،اس شخص نے مجھ سے جو بھی بات کی سچ بولا اور جو وعدہ کیا وہ نبھایا۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اس کو اس کا مال واپس کر کے اس کو چھوڑ دیا جائے یہ اپنے شہر چلا جائے یہ مجھے پسند ہے۔ اگر نہیں چاہتے ہو تو یہ تمہارا حق ہے اور تمہاری مرضی ہے میں تمہیں ملامت نہیں کروں گا۔‘‘ لوگوں نے کہا: ہم اس کا مال اس کو واپس کر کے اس کو جانے دینا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے زینب! تم نے جس کو پناہ دی ہم بھی اس کو پناہ دیتے ہیں۔‘‘ اس پر ابو العاص سیدہ زینبؓ کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے اور رسول اللہ ﷺ نے سیدہ زینبؓ سے فرمایا: ’’اے زینب! ان کا اکرام کرو یہ تیرا خالہ زاد ہے اور بچوں کا باپ ہے مگر یہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال نہیں۔‘‘ سیدہ زینبؓ نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسولﷺ! سیدہ زینبؓ نے گھر جا کر ابو العاص بن ربیع سے کہا: اے ابو العاص جدائی نے تجھے تھکا دیا ہے، کیا اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ رہو گے؟ ابو العاص نے کہا: نہیں، اوراپنا مال لے کر مکہ روانہ ہو گئے، مکہ پہنچے تو کہا:اے لوگو! یہ لو اپنے اپنے مال، کیا کسی کا کوئی مال میرے ذمے ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ تمہیں بدلہ دے، تم نے بہتر وعدہ نبھایا۔ ابو العاص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔
اس کے بعد وہ مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ پہنچے تو فجر کا وقت تھا۔سیدھا نبی ﷺ کے پاس گئے اور کہا: کل آپﷺ نے مجھے پناہ دی تھی اور آج میں یہ کہنے آیا ہوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپﷺ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔ سیدناابو العاصؓ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا زینب کے ساتھ رجوع کی اجازت دیتے ہیں؟ نبی ﷺ نے سیدنا ابوالعاصؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: آؤ میرے ساتھ اور سیدہ زینبؓ کے دروازے پر لے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور سیدہ زینبؓ سے فرمایا: ’’یہ تمہارا خالہ زاد واپس آیا ہے، تم سے رجوع کی اجازت مانگ رہا ہے کیا تمہیں قبول ہے؟‘‘ سیدہ زینبؓ کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعے کے صرف ایک سال بعد سیدہ زینبؓ کا انتقال ہوگیاجس پرسیدنا ابو العاصؓ زارو قطار رونے لگے حتیٰ کہ لوگوں کے سامنے رسول اللہ ﷺ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی دیتے تھے، جواب میں سیدنا ابو العاصؓ کہتے: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم زینب کے بغیر میں دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا اور ایک سال کے بعد ہی سیدنا ابوالعاصؓ بھی انتقال کر گئے۔

***