ظالم سائے

مصنف : راشد سعید

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اکتوبر 2004

راشد سعید - ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل

وہ آپ کی ، ہماری بیٹی تھی مگر ہوس کے شکاریوں نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا......ایک طالبہ کی عبرت ناک آپ بیتی

            آج دنیا مجھے ہیروئن کی اسمگلر نادیہ کھوکھر کے حوالے سے جانتی ہے،لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ میں پوزیشن لی تھی اور میں سہالہ کے گرلز کالج میں لیکچرار تھی اور اس جرم کے ارتکاب میں میری رضا بالکل شامل نہیں تھی تو میری اس بات پرکون یقین کرے گا۔

            میں اس وقت جو ہوشربا آپ بیتی سنا رہی ہوں اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی جوان لڑکیاں اور ملازمت پیشہ عورتیں میری اس داستان حیات سے عبرت پکڑیں اور سہیلیوں اور دوستوں کے ساتھ دوستی میں ایک حد قائم رکھیں اور اتنی آگے نہ بڑھ جائیں کہ ان کے لیے واپسی کا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے، نیز وہ والدین بھی جو اپنی لڑکیوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور ان کی ہر بات کو حدیث کا درجہ دیتے ہیں، محتاط رہیں۔ یہاں میں خصوصی طور پر ان والدین، شوہروں اور بھائیوں کو متوجہ کروں گی جن کی لڑکیاں، بیویاں اور بہنیں کپڑے ، پرفیوم اور سامان تعیش سے بھرے شاپنگ بیگ لے کر گھر آتی ہیں اور انھیں بتاتی ہیں کہ ان کی سہیلی کا بھائی سعودی عرب، دبئی یا امریکا سے یہ چیزیں لایا ہے اور سہیلی نے انھیں یہ تحفتاً دی ہیں اور وہ لوگ خاموش رہتے ہیں۔

            میں ببانگ دہل یہ کہوں گی کہ معاشی مسائل اور ظاہری نمودونمائش کی لعنت نے ہمارے ملک کے سینکڑوں والدین، شوہروں اور بھائیوں کو بے غیرت بنا دیا ہے۔ وہ اپنی لڑکیوں کے بیرون خانہ دوستانوں سے چشم پوشی کرتے ہیں بلکہ جان بوجھ کر انھیں کھل کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔ پھر کھیل کھیل میں نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ لڑکے لڑکی کے لیے شادی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا اور وہ یا تو خفیہ طور پر شادی کر لیتے ہیں یا پھر کورٹ میرج کرکے الگ الگ رہنے لگتے ہیں۔ اس سے والدین کا بھرم قائم رہتا ہے اوروہ اپنے داماد اور لڑکی سے بظاہر کچھ عرصہ ناراض رہنے کے بعد یہ کہہ کر راضی ہو جاتے ہیں کہ ہمارے دل میں تمھیں شادی پر دنیا کی ہر چیز دینے کی حسرت تھی مگر جب تم لوگوں نے خود ہی شادی کر لی تو بھلا ہم کیا کر سکتے ہیں!

            ہمارے خاندان کو جانے کس نے اس بات کی دعا تھی تھی یا بد دعا کہ اول تو کوئی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوتی تھی اور اگر کہیں پیدا ہو بھی جاتی تو وہ چند روز کے اندر ہی اللہ کو پیاری ہو جاتی تھی۔ میرے والد، چچا، تایا، ماموں، خالہ اور پھوپھی سب ہی کے ہاں لڑکے پیدا ہوتے تھے۔انھیں اس بات کی بڑی تمنا تھی کہ ہمارے خاندان میں بھی کوئی لڑکی پیدا ہو کر زندہ رہے۔ بڑی منتوں مرادوں کے بعد جب میں پیدا ہوئی تو جہاں ایک طرف سب کو خوشی ہوئی وہاں یہ خدشہ بھی ہوا کہیں میں بھی مر ہی نہ جاؤں۔ میری پیدائش پر پورے خاندان والوں نے بڑی نذر نیاز اور دعائیں کیں کہ میں بچ جاؤں۔ جانے کس کی دعا و التجا پر اللہ کریم کو رحم آگیا کہ میں جی گئی۔ آج میرے خاندان والے یہ ضرور کہتے ہوں گے کاش میں پیدا ہوتے ہی دوسری لڑکیوں کی طرح مر گئی ہوتی تاکہ انھیں یہ بدنامی اور ذلت نہ اٹھانی پڑتی۔

            اپنی تعریف خود کرتے مجھے کچھ اچھاتو نہیں لگ رہا مگر حقیقت یہ ہے کہ میں شروع ہی سے بہت خوب صورت تھی۔ آج جب اتنے مسائل ، قید و بند ، تفکرات اور پریشانیوں کو جھیلنے کے بعد بھی لوگ مجھے حسین گنواتے ہیں تو سوچیں ماضی میں جب کہ میں آزاد تھی اور مجھے کوئی فکر و فاقہ نہیں تھا تو اس وقت میرے حسن کا عالم کیا ہو گا۔ میں پانچ سال کی ہوئی تو مجھے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ مجھے کھانے پینے، کھیلنے اور پڑھنے کے سوا اور کوئی کام نہیں تھا۔ حسن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے ذہانت کی نعمت بھی عطا کی تھی۔ میرا حافظہ بلا کا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں کم پڑھنے کے باوجود ہر کلاس میں فرسٹ آتی رہی۔ پندرہ سال کی عمر میں، میں نے دسویں کا امتحان فسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔

            میرے میٹرک میں پاس ہونے کے بعد ایک بار پھر ہمارے خاندان میں مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ میں آگے تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی جبکہ ہمارے خاندان والے اس کے مخالف تھے۔ ان کی مخالفت کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ کم عمری کے باوجود حسن کے ساتھ ساتھ مجھ پر بے تحاشا امنڈ آنے والے شباب نے مجھے کچھ سے کچھ بنا دیا تھا جس کی وجہ سے میرے خاندان والے ایک انجانے اندیشے کے پیش نظر خائف خائف سے رہنے لگے تھے، دوسرے یہ کہ خاندان میں جو ان لڑکوں والے مجھ پر نظریں جمائے ہوئے تھے اور ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ پیشتر اس کے کہ مجھے کوئی اور اچک لے، میں اس کے لڑکے کے پلے بندھ جاؤں۔

            خاندان کی بھر پور مخالفت کے باوجود میری خواہش اور ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے میرے والد نے مجھے کالج میں داخل کرا دیا۔ میں حسین ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج بھی تھی، لہٰذا اپنی کلاس کی لڑکیوں ہی میں نہیں بلکہ اپنے سے سینئر لڑکیوں میں بھی مقبول ہو گئی اور ان کے ساتھ بھی میرا اٹھنا بیٹھنا ہو گیا۔ وقت گزرتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے میں نے بی ۔ اے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں کر لیا۔

            بی اے کا رزلٹ نکلتے ہی ایک بار پھر ہمارے خاندان میں ہلچل مچی۔ سب ہی میرے والد سے کہنے لگے کہ بس بہت پڑھ چکی نادیہ! اب اس کا گھر بسا دو۔ گو ان میں سے ہر کوئی مجھے اپنی بہو بنانے کا خواہشمند تھا مگر اپنے دل کی صاف بات کوئی نہیں کرتا تھا۔ بس اشاروں کنایوں میں مجھ سے دلچسپی و محبت ظاہر کی جا تی تھی۔ میری پڑھائی کی مخالفت کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہمارے خاندان کے تمام لڑکے گو مختلف قسم کے کاروبار کرکے مالی طور پر تو خاصے مستحکم اور امیر ہو گئے تھے مگر تعلیم کے معاملے میں سب ہی پھسڈی تھے۔ ایف اے سے آگے کوئی پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔ میری مزید پڑھائی کے سلسلے میں خاندان والوں کی مخالفت نے میرے والد کو ایک بار پھر شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔ مجھے بے پناہ چاہنے کے باوجود ایک روز انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ اب میں اور نہ پڑھوں تو میں نے پیار سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر منت کرتے ہوئے کہا بس مجھے ایم اے کرلینے دیں، اس کے آگے میں بالکل نہیں پڑھوں گی۔ میں اپنے والد کی چہیتی اور لاڈلی تھی، لہٰذا خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود انھوں نے ایک بار پھر مجھے آگے پڑھنے کی اجازت دے دی۔ میں نے یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں داخلہ لے لیا اور یونیورسٹی جانے لگی۔

            ہمارے شعبے میں لڑکوں کے علاوہ یوں تو کئی لڑکیاں تھیں مگر زرمین کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ ایک بڑے باپ کی حسین، لا ابالی طبیعت کی اورہر وقت ہنستی رہنے والی لڑکی تھی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن میں اس کا عالیشان بنگلہ تھا۔ تین بھائی یورپ میں اچھے عہدوں پر فائز تھے۔ اس کی اپنی علیحدہ کار تھی جس پر وہ روزانہ یونیورسٹی آتی۔ زرمین کے ساتھ میری پہلے دن ہی دوستی ہو گئی۔ دوستی کا سبب جہاں میری اور اس کی عادتوں کا مشترک ہونا تھا وہاں سچی بات یہ ہے کہ میں اس کی امیری سے بھی بہت مرعوب ہو گئی تھی۔ گو زرمین کو پتا تھا کہ میں اس کے برابر امیر تو کیا اس سے دسویں حصے سے بھی کم ہوں مگر بقول اس کے میں اپنی اچھی شکل و صورت کی وجہ سے اسے بھا گئی تھی۔

            زرمین مجھے ہر دوسرے تیسرے دن کلاس ختم ہوجانے کے بعد یونیورسٹی سے اپنے گھر لے جانے لگی جہاں ہم سارا دن خوش گپیاں کرتے یا پھر وی سی آر پر فلمیں دیکھتے رہتے۔ شروع شروع میں تو میرے گھر والوں نے اس کے ہاں باقاعدگی سے جانے پر اعتراض کیا مگر بعد میں ایک دوبار میری امی بھی اس کے ہاں گئیں تو انھوں نے اعتراض کرنا چھوڑ دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی دوران میں ایک بار جب میں زرمین کے ہاں سے شام کو واپس آئی تو میرے والد نے روز روز اس کے ہاں جانے پر کچھ منہ سا بنایا جس پر میری امی نے ان سے کہا کیا ہو گیا جو نادیہ اپنی سہیلی کے ہاں جاتی ہے۔ وہ شریف اور امیر لوگ ہیں۔ زرمین کے تین بھائی باہر اچھے عہدوں پر ہیں۔ کیا خبر ہماری بچی انھیں بھا جائے اور اس کا زرمین کے کسی بھائی سے رشتہ طے پا جائے۔ ایسا ہو جائے تو ہماری لڑکی کے تو بھاگ ہی جاگ اٹھیں گے۔ یہ سن کر میرے والد بھی خاموش ہورہے۔ واقعی مجبوری اور بے بسی انسان کی زبان پر تالا لگا دیتی ہے۔

            میری امی تو پہلے ہی زرمین کے ہاں آنے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کرتی تھیں، ایک والد صاحب کی باز پرس کا ڈر لگا رہتا تھا ۔ انھوں نے بھی جب مصلحتاً چپ سادھ لی تو گویا مجھے کھلی چھٹی مل گئی۔ پہلے تو میں زرمین کے ہاں سے شام ہونے سے قبل ہی گھر واپس آجاتی تھی مگر اب میں گھر والوں کو بتا کر اکثر رات کو بھی اس کے ہاں ٹھہرنے لگی۔ زرمین اور اس کے گھر والوں کا میرے ساتھ سلوک بالکل ایسا ہوتا تھا جیسے میں بھی انہی کے گھر کی کوئی فرد ہوں۔ جب بھی زرمین کا کوئی باہر سے آتا تو اس کی امی لائے ہوئے سامان میں سے میرے لیے بھی حصہ نکالتیں۔ زرمین کے بھائیوں کا رویہ بھی میرے ساتھ بالکل بہن بھائیوں جیسا تھا۔

            آج سے تقریباً سات سال قبل کی بات ہے، میں اور زرمین دونوں ہی ایم اے فائنل ایئر میں تھیں اور ہمارے سالانہ امتحان میں صرف دس دن باقی تھے۔ امتحانات کی تیاری کے لیے میں اپنے گھر والوں سے کہہ کر اپنا بوریا بستر زرمین کے ہاں سمیٹ لائی تاکہ رات کو دونوں اکٹھے مطالعہ کر سکیں۔ ان دنوں زرمین کا منجھلا بھائی اعجاز بھی لندن سے آیا ہوا تھا۔ یوں تو اس کے تمام ہی بھائی شکل و صورت اور مزاج کے اچھے تھے مگر اعجاز کی بات ہی کچھ اور تھی۔ وہ شکل میں سب سے منفرد، انتہا درجے کا خوش باش اور خوش مزاج تھا۔ گو اس نے کبھی کوئی ایسی بات یا حرکت نہیں کی تھی مگر جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں اسے بھا گئی ہوں اور وہ میری جانب مائل ہو رہا ہو۔ پہلے تو میں نے اسے اپنا وہم سمجھا مگر جب ایک دن باتوں باتوں میں زرمین نے مجھ سے کہا کہ نادیہ! ہم دونوں آپس میں گہری سہیلیاں ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری یہ دوستی اور محبت سدا قائم رہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اس میں ایسی کون سی بات ہے؟ دوستی سدا ہی ان شاء اللہ رہے گی۔ زرمین کہنے لگی کہ امی چاہتی ہیں کہ اعجاز بھائی کے لندن جانے سے پہلے کہیں ان کی شادی کی بات پکی کر دی جائے تاکہ جب وہ اگلی بار آئیں تو ان کی شادی ہو جائے۔ پھر وہ ایک لمحہ رک کر کہنے لگی کہ اعجاز بھائی سے میں نے شادی کا تذکرہ کیا تھا تو انھوں نے اشارتاً تمھارے بارے میں اپنی خواہش ظاہر کی۔ اب تم بتاؤ کہ تمھاری کیا مرضی ہے؟

            زرمین کے منہ سے یہ سن کر میرے تو دل میں لڈو ہی پھوٹنے لگے۔ اگر فطری شرم مانع نہ ہوتی تو میں اسی وقت کہہ دیتی کہ دیر کیوں کر رہی ہو، اپنے بھائی سے میری شادی ابھی کرا دو، مگر میں نے دبے منہ صرف یہ کہا کہ میں تمھیں اپنی سہیلی ہی نہیں بہن بھی سمجھتی ہوں جو تمھاری مرضی ہو کر لو، لیکن اس کے لیے تمھیں میرے گھر والوں کو راضی کرنا ہو گا۔ زرمین مارے خوشی کے جھوم اٹھی۔ مجھے اپنی بانہوں میں لے کر پیار کرتے ہوئے بولی آنٹی کی تم فکر مت کرو، انھیں میں اور میری امی راضی کر لیں گے۔ بس تم ایک کام کرو …… وہ یہ کہ بھائی جان سے ذرا فری ہو جاؤ۔ میں نے کہا وہ تو شادی کے بعد ہو ہی جائے گا۔ اس پر زرمین کہنے لگی دیکھو نادیہ! اعجاز بھائی لندن میں رہتے ہیں۔ وہاں مرد عورت شادی سے پہلے ہی ایک دوسرے سے اتنے گھل مل جاتے ہیں کہ شادی کے بعدآپس میں کوئی اجنبیت یا جھجک نہیں رہتی۔ تمھیں بھی مستقبل میں وہیں رہنا ہو گا۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں اعجاز بھائی اور تم سے اپنی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر کہوں گی کہ میں سونے جا رہی ہوں، تم دونوں اعجاز بھائی کے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرو۔ اس کے بعد وہ نہایت اپنائیت سے بولی دیکھو نا نادیہ! مرد خواہ کیسا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، عورت کے لیے اس کے دل میں جگہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ وہ تمھاری طرف مائل تو ہیں ہی، تم ان سے ایسے طریقے سے پیش آنا کہ وہ تمھارے ہی گن گانے لگیں۔

            زرمین کی یہ بات مجھے عجیب سی لگی مگر شاندار مستقبل اور پر تعیش زندگی کے لالچ نے میری غیرت اور سوچ پر پردے ڈال دیے۔ پھر بھی میں نے شرماتے شرماتے کہا کہ چلو میں جانتی ہوں کہ بات چیت کی حد تک تو ٹھیک ہے ، میں خود بھی اس بات کی قائل ہوں کہ شادی سے پہلے لڑکے لڑکی کو ایک دوسرے کے خیالات اور پسندو نا پسند سے آگاہ ہو جانا چاہیے مگر ذرا سوچوتو اگر تنہائی میں اعجاز بہک گئے تو ……! بھئی میں لاکھ روشن خیال سہی مگر اب اتنی بھی نہیں ہوں کہ …… اس سے آگے میں کچھ نہ کہہ سکی۔ یہ سن کر زرمین بولی: ‘‘اتنی پڑھ لکھ کر بھی تم رہیں نا جاہل کی جاہل کیا کر لیں گے اعجاز بھائی تمھیں؟کوئی کھا تو نہیں جائیں گے؟ کیا شادی کے بعد بھی تم کانچ کی گڑیا ہی بنی رہو گی؟ بدھو کہیں کی! آج کے دور میں بھلا کون سی ایسی لڑکی ہے جو آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کے باوجود بھی چھوئی موئی بنی رہے، بلکہ سچ پوچھو تو میں تمھیں یہ مشورہ دوں گی کہ تم ان سے زیادہ سے زیادہ بے تکلف ہو کر خود ہی انھیں اس بات کا موقع دو کہ وہ سب کچھ کر گزریں۔’’ میں نے کہا کہ‘‘ مجھے تو مشورہ دے رہی ہو کہ میں اعجاز کو ہر دہلیز پھلانگ لینے دوں، اگر تم میری جگہ پر ہوتیں تو کیا یہ کچھ کرتیں؟’’

            ‘‘بالکل کرتی! ویسے جناب کی اطلاع کے لیے یہ عرض ہے کہ جب میں میٹرک میں تھی، اس وقت ہی میں نے ہر دہلیز پار کر لی تھی اور آج تک میں ان گنت بار یہ سفر طے کر چکی ہوں۔ میں نے کچھ بولنا چاہا مگر زرمین نے مجھے بولنے ہی نہیں دیا۔ کہنے لگی چلو اب وقت ضائع نہ کرو، میں تمھارے لیے ایک اچھا سا سوٹ نکال رہی ہوں، تم جلدی سے جا کر نہا آؤ۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے باتھ روم میں دھکیل آئی۔

            رات کو کھانے سے فراغت کے بعد زرمین نے اپنے کمرے میں لے جا کر مجھے خوب بنایا، سنوارا اور میرا میک اپ کیا۔ پھر ہاتھ پکڑ کر اپنے بھائی اعجاز کے کمرے میں لے گئی اور مسکرا کر کہنے لگی چلو اب تم دونوں آپس میں خوب باتیں کرو، میں چلی سونے۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ۔ ارے! کہاں جا رہی ہو؟ کیا میں تمام رات یہاں اکیلی رہوں گی؟ اس پر وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے ہنس کر بولی۔ اکیلی کیوں رہو گی؟ اعجاز بھائی بھی تو ہوں گے تمھارے ساتھ۔ بھلا ہونے والے میاں بیوی کے درمیان میں کیوں کباب میں ہڈی بنوں۔ پھر آگے بڑھ کر اعجاز سے کہنے لگی۔ بھائی جان! دروازہ بند کر لیں اور ہاں! ہماری یہ پیاری سہیلی کانچ کی طرح بالکل نازک ہے، اس کا ابھی تک کسی مرد سے سابقہ نہیں پڑا، اس لیے ذرا صبر اور احتیاط برتئے گا۔ یہ نہ ہو کہ میری پیاری سی سہیلی کو چکنا چور ہی کر بیٹھیں۔اعجاز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ‘‘زرمین جان! تم فکر ہی نہ کرو۔ صبح اپنی سہیلی سے پوچھنا کہ میں ان کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ اگریہ میری تعریف نہ کریں تو پھر کہنا۔’’ یہ کہتے ہوئے اس نے دروازہ بند کر لیا اور آ کر میرے برابر بیٹھ گیا۔

            گو میں خود بھی آزاد خیال تھی مگر مجھے ان دونوں بہن بھائی کی یہ انتہائی بے باک گفتگو سن کر حیرت ہوئی۔ میں سوچنے لگی کیا سگے بہن بھائی بھی گفتگو کے معاملے میں اس حد تک بے باک ہو سکتے ہیں؟ …… اور پھر اعجاز بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلاتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ باتوں باتوں میں اس کے گستاخ ہاتھ میرے بدن پر بھی بہکنے لگے۔ شروع شروع میں تو میں کسمسائی اور میں نے دبے منہ اسے منع بھی کیا مگر کچھ تو اس کی پیار بھری باتوں کی مٹھاس اور کچھ اس کے ہاتھوں کے لمس نے میری سوچ سمجھ کی قوت سلب کر کے رکھ دی۔ اور پھر وہ کچھ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جب جذبات کی طغیانی تھمی تو مجھے ہوش آیا کہ یہ کیا ہو گیا …… میں نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا۔ اس نے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ڈارلنگ تم تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، تمھیں تو اتنی چھوٹی سی بات پر توجہ بھی نہیں دینی چاہیے۔ پھر اس نے کہا کہ حیرت ہے زرمین نے اتنی پروگریسیو ہوتے ہوئے تمھیں اتنی گہری سہیلی کیسے بنا لیا؟ اب جاؤ باتھ روم میں جا کر ہاتھ منہ دھو آؤ، فریش ہو جاؤ گی۔

            میں اپنے وجود کو سنبھالتے ہوئے باتھ روم میں چلی گئی۔ منہ ہاتھ دھو کر واپس آئی تو اس نے پھر مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور لگاخرمستیاں کرنے۔ شروع شروع میں تو میں نے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کی مگر پھر یہ سوچ کرکہ جب ایک بار سب ہی کچھ ہو چکا ہے تو کیوں نہ وقت سے فائدہ اٹھاؤں اور جی بھر کر لطف اندوز ہوں۔ یوں میں نے سپر ڈال دی …… اور پھرتمام رات ہم اٹکھیلیاں کرتے اور جذبات کے طوفان میں ڈوبتے ابھرتے رہے۔

            دوسری صبح میرا اور زرمین کا آمنا سامنا ہوا تو مجھ سے مارے شرم کے اس سے آنکھیں ہی نہیں ملائی گئیں۔ اس نے بڑے پیارسے میرے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا: ‘‘ارے تم اتنی معمولی سی بات پر آخر اتنا جھینپ کیوں رہی ہو؟ بھئی آخر اس میں ہوا کیا ہے؟ جو کچھ تم دونوں کو کل کرنا تھا وہ آج کر لیا۔ بس یہی نا! یہ کوئی ایک دفعہ کر لینے کی بات تو ہے نہیں، ساری زندگی تمھیں یہی کچھ کرنا ہے۔ تم ہمیشہ اسی طرح شرماتی رہو گی تو کام کیسے چلے گا۔’’ ابھی اس نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کی اس کی امی آ گئیں اور کہنے لگیں چلو لڑکیو چل کر ناشتہ کر لو۔ ہم دونوں جا کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئیں اور ناشتہ کرنے لگیں۔ دوپہر کو میں اپنے گھر چلی گئی۔

            اعجاز کی ایک ہی رات کی قربت نے میری تو دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ مجھے اپنے اس گھر میں جہاں میں پلی بڑھی تھی اور جہاں مجھے ہر جگہ سے زیادہ سکون اورپیار ملتا تھا ایک پل بھی چین نہیں آ رہا تھا ہر دم دل یہی چاہ رہا تھا کہ فوراً پر لگا کر زرمین کے ہاں چلی جاؤں، جہاں کہ اعجاز ہے …… اور پھر میں اور اعجاز کسی ایسی جگہ چلے جائیں، جہاں ہمارے سوا اور کوئی نہ ہو۔ گو میں زرمین سے یہ کہہ کر آئی تھی کہ مجھے گھر میں کچھ کام ہے، اس لیے میں تین چار دنوں کے بعد ہی آؤں گی مگر میرے لیے تو ایک رات ہی کاٹنا دوبھر ہو گیا۔ تمام رات کروٹیں بدل بدل کر گزری اور دوسرے دن ہی زرمین کے ہاں جا دھمکی۔

            جب میں زرمین کے ہاں پہنچی تو وہ اور اس کی امی کہیں شاپنگ کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ اعجاز اکیلا ڈرائنگ روم میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھا اور لپک کر مجھے اپنی بانہوں میں لے کر میرے گال چومنے لگا۔ گو ابتدا میں میں نے بھی جذبات میں آ کر اسے اپنی بانہوں میں بھینچا مگر پھر اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے کہا۔ ارے ! یہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کی امی یا زرمین نے دیکھ لیا تو وہ کیا کہیں گی؟ اعجاز کہنے لگا کہ بے فکر رہو، وہ دونوں ابھی ابھی شاپنگ کے لیے گئی ہیں۔ وہ دو تین گھنٹے سے پہلے تو آتی نہیں۔ رہے نوکر تو وہ باہر کام کر رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے وہیں صوفے پر بٹھا دیا اور میری گردن میں اپنی بانہیں ڈال دیں۔ میں نے بمشکل کہا کہ دروازہ تو بند کرلیں، کوئی اچانک ادھر آگیا تو ہمیں اس حالت میں دیکھ کر کیا سوچے گا۔ وہ ہنستے اٹھا اور یہ کہتے ہوئے دروازہ بند کرنے چلا گیا کہ سوچے گا کیا، یہی کہ دیکھو ان میاں بیوی میں کتنا پیار ہے کہ رات تو رات ، دن میں بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے …… اور پھر شیطان ہم پر غالب آگیا اور ہم اس کے اشاروں پر چلتے گئے۔

            دو تین دن کے بعد زرمین اور اس کی امی ہمارے ہاں اعجاز کی شادی کا پیغام لے کر آئیں۔ میری امی تو خدا سے چاہتی تھیں کہ ایسا ہو جائے مگر بہرحال انھوں نے بظاہر رسمی سے انکار کے بعد وہ رشتہ قبول کر لیا۔ آپس میں طے پایا کہ کچھ دنوں بعد میرے امتحان ہونے والے ہیں نیز اعجاز تین دن بعد واپس لندن جا رہا ہے ، اس لیے بات پکی کرنے کے لیے اگلے دن مجھے اور اعجاز کو انگوٹھی پہنا کر منگنی کی رسم ادا کر دی جائے۔ کچھ عرصہ بعد جب اعجاز آئے گا تو باقاعدہ شادی کر دی جائے گی۔

            دوسرے دن چند قریبی رشتے داروں اور جاننے والوں کی موجودگی میں ہماری منگنی کی رسم ادا کی گئی۔ منگنی کے بعد جب سب مہمان چلے گئے تو زرمین میری امی سے اصرار کرکے مجھے اپنے ہاں لے گئی۔ گو امی نے سرسری طور پر اور ابو نے پر زور طور پر میرے جانے پر مخالفت کی مگر زرمین نے یہ کہہ کر اپنی بات منوا لی کہ آج نہیں تو کل آخر نادیہ کو ہمیشہ کے لیے رہنا تو ہمارے ہاں ہی ہے۔ اب جبکہ بات پکی ہو گئی ہے اور نادیہ میری عزیز سہیلی ہے اور اس سے پہلے بھی کئی بار میرے ہاں رہ چکی ہے تو پھر آج اس کے میرے ہاں چلے جانے میں کیا حرج ہے۔ سچ پوچھیں تو خود میرا اپنا دل بھی یہی چاہ رہا تھا کہ جتنے دن اعجاز یہاں ہے میں اس کے نزدیک ہی رہوں۔ زرمین کے ہاں پہنچ کر کچھ دیر بعد جب اس کی امی سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں تو زرمین نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ لائن کلیئر ہو گئی ہے ، چلو اب تم اعجاز بھائی کے کمرے میں چلی جاؤ۔ جب سے میں زرمین کے ہاں گئی تھی میں خود دل سے یہی چاہ رہی تھی کہ کاش ایسا ہو جائے مگر فطری شرم میری راہ میں حائل تھی۔ اب جو زرمین نے خود کہا تو میں نے ایک نظر اس کی طرف ڈالی اور اعجاز کے کمرے میں چلی گئی۔

            آج جب میں زرمین اور اس کے گھر والوں کے رویوں پر غور اور ان کا تجزیہ کرتی ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتی ہوں کہ اس پورے گورکھ دھندے میں زرمین ہی اپنے بھائی سے ملی ہوئی نہیں تھی بلکہ اس کی امی بھی شریک تھی، ورنہ بھلا کوئی غیر ت مند ماں یہ چاہے گی کہ اس کے بیٹے کے ساتھ شادی سے قبل کوئی غیر لڑکی تمام رات بند کمرے میں گزارے خواہ وہ لڑکی اس کی ہونے والی بہو ہی کیوں نہ ہو۔ اگلی صبح میں منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز پر جانے لگی تو زرمین کی امی نے مجھے الگ لے جا کر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ نادیہ تم پہلے نہا آؤ، فریش ہو جاؤ گی۔ ان کے منہ سے یہ سن کر میں گھبرا سی گئی کہیں انھیں میرے اعجاز کے کمرے میں رات گزارنے کے بارے میں پتا نہ لگ گیا ہو اور وہ اس بات پر ناراض نہ ہوں۔ میں نے جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا امی میں تو بالکل فریش ہوں، ابھی ابھی تو نہا کر آئی ہوں۔ اس پر انھوں نے ہنس کر میرے کولھے پر چٹکی بھری اور پیار بھرے لہجے میں کہا کہ جھوٹ مت بولو تم۔ کہاں نہائی ہو؟ صرف منہ ہاتھ تو دھو کر آئی ہو۔ پھر مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمام رات مشقت جھیلی ہے تم نے۔ نہا لو گی تو بدن صاف ہونے کے ساتھ ساتھ تازہ دم بھی ہو جاؤ گی۔ یہ کہتے ہوئے وہ میرا ہاتھ پکڑ کر باتھ روم کی طرف لے گئیں اور مجھے دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ گھبراؤ نہیں۔ کیا ہوا جو تم نے اعجاز کے ساتھ دو گھڑیاں گزار لیں۔

            اس واقعے کے دو روز بعد اعجاز جلد ہی دوبارہ آنے کا کہہ کر لندن چلا گیا۔ جانے سے پہلے اس نے زرمین سے کہا کہ نادیہ جونہی امتحان سے فارغ ہو جائے، اسے کسی ڈرائیونگ اسکول میں لے جانا تاکہ یہ ایک دو مہینوں میں ڈرائیونگ سیکھ لے۔ لندن میں ڈرائیونگ بہت کام آتی ہے۔ امتحان سے فارغ ہوتے ہی زرمین مجھے ایک اچھے ڈرائیونگ اسکول میں لے گئی اور اپنے پاس سے پیسے دے کر مجھے وہاں داخل کرا دیا۔

            میرے امتحان کا نتیجہ دو مہینے بعد آیا۔ میری پوزیشن آئی جب کہ زرمین بھی اچھے نمبروں میں پاس ہو گئی۔ نتیجہ آنے سے پہلے ہی میں نے ڈرائیونگ اچھی طرح سیکھ لی، بلکہ یہ کہیں کہ میں ڈرائیونگ میں طاق ہو گئی۔ قسمت ہر طرح میرا ساتھ دے رہی تھی۔ رزلٹ آنے کے ڈیڑھ دو ہفتے بعد ہی مجھے سہالہ کے گرلز کالج میں لیکچرار شپ کی جگہ مل گئی، چنانچہ میں وہاں چلی گئی۔ شروع شروع میں تو میں روزانہ ہی راولپنڈی سے سہالہ آتی جاتی رہی مگر پھر کچھ دنوں بعد کالج کے ہاسٹل میں رہنے لگی۔ ہر ہفتے، جمعرات کی دوپہرکو پنڈی میں اپنے گھر جاتی اور ہفتے کی صبح واپس چلی آتی۔ ملازمت کے بعد اعجاز سے میری کالج کے پتے پر خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ مجھے اس کے خط کا ہر وقت بڑی شدت سے انتظار رہتا۔وہ اپنے ہر خط میں مجھ سے بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل میں اچھی زندگی گزارنے کے بارے میں لکھتا رہتا اور پھر ایک دن میرے کالج میں زرمین کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ اعجاز کا لندن سے فون آیا ہے کہ وہ پرسوں دس دنوں کے لیے پاکستان آ رہا ہے۔ اس نے تمھیں کہلوایا ہے کہ تم بھی پرسوں سے ایک ہفتے کی چھٹی لے لو تاکہ آئندہ کے پروگرام طے ہو جائیں۔

            اعجاز کے آنے کی خبر سن کر مجھ پر تو جیسے شادی مرگ ہی طاری ہو گئی۔ کچھ دیر کے لیے تو میرے منہ سے کچھ نکل ہی نہیں سکا، پھر خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے زرمین سے کہا کہ چھٹی تو خیر میں لے لوں گی مگر یہ بتاؤ کہ مجھے کیا پروگرام طے کرنا ہے۔ اس پر اس نے شوخی سے کہا کہ بھئی میں کیا جانوں تم میاں بیوی کے پروگراموں اور باتوں کو، جیسا تمھارے میاں صاحب نے مجھ سے کہا ویسا میں نے بیگم صاحبہ سے کہہ دیا۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے اگلے ہی روز دس دن کی چھٹی لے لی اور اپنے گھر چلی آئی۔

            اعجاز کو لینے کے لیے زرمین اور اس کی امی ایئر پورٹ گئیں تو مجھے بھی ساتھ لیتی گئیں۔ ہوائی اڈے سے اپنے گھر جانے سے پہلے اعجاز ہمارے ہاں گیا اور امی ابا سے ملا۔ ان کے اپنے گھر جاتے وقت میں اپنے ہاں رکنے لگی مگر زرمین نے میری امی سے یہ کہہ کر مجھے بھی ساتھ لے لیا کہ جتنے دن اعجاز یہاں ہے نادیہ ہمارے ہاں ہی رہے تاکہ ان دونوں کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ ہو جائے۔ میرے گھر میں میرے ابا بے چارے کی تو کچھ چلتی ہی نہیں تھی۔ امی ہی کی مرضی چلتی تھی اور امی پر تو جیسے زرمین اور اس کے گھر والوں کی دولت اور اعلیٰ رہن سہن کا جادو چڑھا ہوا تھا، انھوں نے زرمین کی تائید ہی نہیں کی بلکہ پر زور طریقے سے حامی بھی بھر ی۔ رات کو حسب سابق جب میں اعجاز کے کمرے میں گئی تو اس نے کمرے کا دروازہ بند کرکے کہا کہ کل دوپہر کی فلائٹ سے میں اورتم ملتان چلیں گے۔ وہاں رات ہم ایک ہوٹل میں گزاریں گے۔ پرسوں صبح میں تمھیں ایک کار دلادوں گا اسے لے کر تم کراچی چلی جانا۔ ملتان سے کراچی کار کا راستہ بمشکل دس گیارہ گھنٹے کا ہے، تم وہاں مہران ہوٹل میں آجانا، میں تمھیں وہیں ملوں گا۔

            میں آنکھیں پھاڑے حیرت سے اس کی ساری بات سنتی رہی، پھر اس سے کہا اعجاز! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ہمیں ملتان جا کر رات گزارنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ یہاں اس کمرے میں تمھاری وہ کون سی خواہش ہے جو نہیں پوری ہو رہی اور پھر ملتان سے کراچی بائی روڈ میں اکیلی بھلا کیسے جا سکوں گی؟ اگر ملتان سے کراچی بائی روڈ جانا اتنا ہی ضروری ہے تو تم میرے ساتھ کیوں نہیں چل رہے، اکیلے کیوں جا رہے ہو؟ اعجاز نے میری بات سن کر پیار سے میرے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا نادیہ! تمھیں آئندہ اپنی زندگی میرے ساتھ لندن میں گزارنی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہاں جانے سے پہلے تمھاری ذہنی تربیت ہو جائے اور تم میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ میں نے اسے اس کے ارادے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی مگر وہ میری ایک نہ مانا۔ جب میں نے بہت ضد کی تو اس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تم میری ایک معمولی سی خواہش کا احترام نہیں کر رہی ہو تو آئندہ زندگی میں، میں تم سے کیا توقع رکھوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور کہا کہ تم جا سکتی ہو۔

            میں یہ سب کچھ دیکھ کر سناٹے میں آگئی۔ اگر میرے ساتھ بیتے ہوئے واقعات مختلف ہوتے تو میں کمرے سے باہر چلی جاتی مگر میں تو ایک بار نہیں کئی بار اپنا سب کچھ لٹاچکی تھی۔ میرے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اس کی بات مان لوں۔ میں نے اٹھ کر دروازہ اندر سے بند کیا اور اس کے سینے سے لگ کر کہا کہ تم برا مان گئے! تم ہی میرے سب کچھ ہو ، تم جیسا کہو گے ویسے ہی کروں گی۔ یہ سنتے ہی اس نے مارے خوشی کے مجھے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا اور پھر ہم ایک دوسرے کی ذات میں ڈوب گئے۔

            دوسرے دن ناشتے کے بعد اعجاز اور میں گھر سے ملتان کے لیے روانہ ہوگئے۔ اعجاز نے غالباً اپنے گھر والوں کو پہلے ہی سب کچھ بتا رکھا تھا جبھی سب ہی نارمل رہے، کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ اعجاز کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا سوٹ کیس تھا جس میں اس کے اور میرے ایک دوجوڑے کپڑوں کے علاوہ کچھ اور سامان بھی تھا۔ ہم اسلام آباد ایئرپورٹ سے جہاز سے سوا گھنٹے میں ملتان پہنچ گئے۔ وہاں سب سے بڑے ہوٹل میں ہم ایک فرضی نام سے میاں بیوی کی حیثیت سے ٹھہرے۔ میں نے اعجاز سے ہوٹل میں فرضی نام بتانے کی وجہ پوچھی تو اس نے یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ ہماری تھوڑے ہی دنوں میں شادی ہونے والی ہے، میں یہ نہیں چاہتا کہ کل کو ہمارا کوئی دشمن یا مخالف تمھیں اس بات پر بدنام کرتا پھرے کہ تمھارے شادی سے قبل ہی میرے ساتھ میاں بیوی جیسے تعلقات تھے اور تم دوسرے شہروں میں جا کر اکیلی میرے ساتھ ہوٹلوں میں رہتی تھی۔

            میرا تو خیر ملتان میں سرے سے کوئی واقف ہی نہیں تھا اور میں سمجھتی تھی کہ شاید اعجاز بھی میری طرح یہاں اجنبی ہوں گے مگر مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ شام سے لے کر رات تک کئی لوگ اعجاز سے ملنے آتے رہے۔ جب بھی کوئی اس سے ملنے آتا، وہ اسے لے کر ہوٹل کے ریستوران میں چلا جاتا، حالانکہ اکیلے پن کے ڈر کی وجہ سے میں اسے کہتی بھی تھی کہ میں ویسے کون سا پردہ کرتی ہوں جو تمھارے دوستوں کے سامنے آنے کی وجہ سے بے پردگی ہو جائے گی، تم اپنے دوستوں کے ساتھ یہیں کمرے میں بیٹھ کر بات کر لیا کرو مگر وہ یہ کہہ کر ہنس کر ٹال دیتا کہ کاروباری باتیں رازداری میں کی جاتی ہیں، کسی کے سامنے نہیں اور پھر میں بھی نہیں چاہتا کہ تمھارا حسن عام ہو۔

            اگلے دن صبح ہم ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہوٹل کے بیرے نے آ کر اعجاز کو کار کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ گاڑی باہر کھڑی ہے ۔ کچھ دیر بعد میں اور اعجاز ہوٹل سے باہر نکلے۔ اعجاز نے اپنا سوٹ کیس کار کی پشت کی سیٹ کے نیچے چھپایا اور مجھے پانچ ہزار روپے دیتے ہوئے کہا کہ پٹرول کی ٹینکی بالکل بھری ہوئی ہے۔ یہ پیسے تم احتیاطاً رکھ لو اور اب تم چلو میں تمھیں کراچی میں مہران ہوٹل کے لاؤنج میں شام کو ملوں گا۔

            کار کی سیٹ کے نیچے سوٹ کیس کے چھپانے پر میری چھٹی حس جاگی اور مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ سوٹ کیس سیٹ کے نیچے کیوں رکھا ہے، سامنے کیوں نہیں رکھا؟ اس پر اس نے بڑے اطمینان سے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ یہاں سے کراچی تک راستے میں کئی جگہ چیک پوسٹ آئیں گی، اس لیے میں نے اسے سیٹ کے نیچے رکھ دیا ہے۔ پھر اس نے مجھے تاکید کی کہ اگر مجھ سے کوئی سامان کے بارے میں پوچھے تو میں صاف کہہ دوں کہ میرے پاس کوئی سامان نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے الوداع کیا اور میں کراچی کے لیے چل دی۔

            ملتان سے گھوٹکی تک راستے میں کئی جگہ چیک پوسٹ آئیں جہاں میری گاڑی روک کر مجھ سے رسمی سی پوچھ گچھ کی گئی مگر میرے پر اعتماد لہجے اور حسن کی دلکشی نے ہر کسی کو مطمئن کر دیا مگر قسمت کی خرابی کو کیا کہا جائے کہ گھوٹکی میں چیک پوسٹ پر متعین عملہ میرے پراعتماد لہجے سے مطمئن ہوا نہ میرے حسن کی دلکشی سے مرعوب ہوا۔ میں نے لاکھ کہا کہ میرے پاس کوئی سامان نہیں مگر کسی نے میری ایک نہ سنی۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں کار سے باہر نکل جاؤں۔ ناچار میں کار سے باہر نکل گئی، تاہم مجھے اطمینان تھا کہ زیادہ سے زیادہ کار اور سوٹ کیس کی تلاشی ہی لیں گے۔ جب میرے پاس ایسی ویسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو یہ بھلا میرا کیا بگاڑ لیں گے۔

            چیک پوسٹ کے عملے نے پہلے تو میری گاڑی کی ڈگی وغیرہ کی خوب اچھی طرح تلاشی لی، پھر گاڑی کی سیٹ کے نیچے دیکھا۔ وہاں انھیں سوٹ کیس دکھائی دیا تو انھوں نے اسے باہر نکال لیا اور اس کی تلاشی لینے لگے۔ سوٹ کیس کی ایک بار تلاشی لینے کے بعد انھوں نے اس میں رکھے ہوئے تمام کپڑے اور سامان نکال کر باہر ایک کرسی پر رکھ دیا، پھر ایک ہتھوڑے سے سوٹ کیس کی تہہ پر چوٹ لگائی تو وہ تہہ ٹوٹ گئی۔ انھیں اپنے سوٹ کیس کو توڑتے دیکھ کر میں غصے سے چلائی بھی کہ اسے کیوں توڑ رہے ہو، مگر انھوں نے میری ایک نہ سنی بلکہ مضحکہ خیز لہجے میں کہنے لگے کہ بیگم صاحب ہم آپ کو جادو کا ایک کھیل دکھا رہے ہیں۔ اس اٹیچی کیس کی تہہ کے اندر سے سونے کی چڑیا نکلے گی۔ اور پھر جب اس کی تہہ توڑی گئی ، اس کے اندر سے کسی سفوف سے بھری ہوئی پلاسٹک کی بہت سی تھیلیاں نکلیں جنھیں چیک پوسٹ کے عملے نے دیکھا اور کہا یہ ہیروئن ہے۔

            اس سانحے سے قبل میں نے یوں تو ہیروئن کے بارے میں ہزاروں دفعہ سنا تھا مگر اس کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں رونے لگی اور کہا کہ یہ میری نہیں، مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا مگر جناب مجرم کی بھلاسنتا کون ہے۔ مجھے حراست میں لے کر تھانے لے جایا گیا جہاں مجھ سے تفتیش شروع کر دی گئی۔ دورانِ تفتیش میں نے ساری بات سچ سچ بتا دی۔ یہ بھی کہ جس شخص نے مجھے یہ سوٹ کیس دیا تھا وہ میرا منگیتر ہے اور اس نے مجھ سے شام کو مہران ہوٹل کراچی کے لاؤنج میں ملنے کو کہا تھا۔ اس پر مجھے فوری طور پر کراچی لے جایا گیا۔ مہران ہوٹل سے کچھ دور مجھے اکیلا چھوڑ کر ہوٹل کے لاؤنج میں جانے کو کہا گیا۔ میں اکیلی لاؤنج میں گئی۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر سادہ کپڑوں میں پولیس والے بظاہر مجھ سے لا تعلق ہو کر کھڑے تھے۔ لاؤنج میں جا کر میں نے اعجاز کو دیکھا مگر وہ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ میں سمجھی اسے کوئی کام پڑ گیا ہو گا، اس لیے شاید اسے آنے میں دیر ہو گئی ہو۔ چنانچہ میں وہیں ایک صوفے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ مگر جب رات گئے تک وہ نہ آیاتو میں سمجھ گئی کہ میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوا ہے۔ مجھے اپنا بنا کر اور مجھ سے اپنایت کا اظہار کرکے مجھے لوٹا اور برباد کیا گیا ہے۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ اعجاز کا تعلق منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے ایک بڑے نامی گرامی گروہ سے تھا۔

            بہرحال جب رات گئے تک اعجاز نہیں آیا تو پولیس والوں نے ، جو سادہ لباس میں میرے ارد گرد ہی تھے، مجھے اشارہ کیا کہ میں ہوٹل سے باہر نکلوں۔ میں باہر آئی تو انھوں نے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور پھر ہم اس کار میں سکھر پہنچ گئے جہاں عدالت میں میرا چالان پیش کر دیا گیا۔ جس پولیس پارٹی نے مجھے پکڑا تھا اس میں ایک شریف النفس اور ہمدرد افسر بھی تھا۔ اس نے مجھے مشورتاً کہا کہ میں عدالت میں جاتے ہی اقبال جرم کر لوں، اس سے فوری طور پر مجھے سزا ہو جائے گی اور میں بلا وجہ کی مقدمہ بازی کی طوالت سے بچی رہوں گی۔ میں نے بھی سوچا کہ مانا میں سوٹ کیس میں ہیروئن کی موجودگی سے لا علم تھی اور دیکھا جائے تو اس معاملے میں بے گناہ تھی مگر چونکہ ہیروئن میری ہی تحویل سے نکلی تھی، اس لیے میں لاکھ سر پٹکوں مگر کوئی میری سچ بات پر یقین ہی نہیں کرے گا۔ سب یہی کہیں گے کہ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت اتنی بدھو ہو کہ اسے اس پورے ڈرامے کا علم ہی نہ ہو۔ عدالت نے میرے اقبال جرم پر میری تعلیم اور دیگر چیزوں کے پیش نظر مجھ پر رحم کھا کر قانون کی حد گنجائش میں رہتے ہوئے کم سے کم سزا دے دی جو کہ پانچ سال ہے۔

(بشکریہ: اردو ڈائجسٹ ۔ جون ۱۹۹۷)