ایک مہینہ

مصنف : مظفر بیگ

سلسلہ : گوشہ رمضان

شمارہ : اکتوبر 2004

آپ مالک کو مالک سمجھتے ہیں

آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے

ہر لحظہ، ہر آن، ہر جا،

آپ جانتے ہیں کہ آپ اس سے چھپے ہوئے نہیں ہیں

٭٭٭

آپ کا ایمان ہے کہ وہی عطا فرماتا ہے

وہی خالق ہے، وہی رازق ہے

یہ لقمہ، جو آپ کو نصیب ہو گا، اسے منظورہو گا تو نصیب ہو گا

اس لقمے کا سارا سفر اس کی اجازت سے طے ہوتا ہے

وہ چاہتا ہے تو بیج پھوٹتے ہیں

وہ طے فرماتا ہے تو بادل آتے ہیں

کھیت لہلہاتے ہیں، کسان حرکت میں آجاتے ہیں، انسان آگے بڑھتے ہیں

اور فاصلے سمٹ جاتے ہیں

لقمے کا سارا سفر اس کی اجازت سے طے ہوتا ہے

٭٭٭

آپ کے علم میں ہے کہ اس کا حکم ہوتا ہے تو آپ نعمتیں پاتے ہیں

وہ لمحات جو آپ پاتے ہیں

وہ سکھ جو آپ کے بس میں نہیں ہوتا لیکن آپ کو ملتا ہے

وہ راحت جو آپ کو مل نہیں سکتی، اگر اس کا فیصلہ نہ ہو

اور وہ چین جو آپ پا نہیں سکتے، اگر اس کی دین نہ ہو

آپ آگاہ ہیں کہ وہ ہر شے پر قادر ہے

اور وہ ہر شے پر قادر ہے تو آپ کو اتنا کچھ نصیب ہوتا ہے

٭٭٭

ہاں وہ پروردگار ہے، وہی پالن ہار ہے، وہی عطا فرماتا ہے

کوئی عطا اس کے سوا نہیں

کوئی کرم نہیں، اگر اس کا کرم نہیں

یہی آپ کا ایمان ہے، اسی کا آپ کو یقین ہے، یہی آپ کا دین ہے

لیکن …… کیا گواہی دینے کے لیے صرف الفاظ پیش ہوں گے؟

٭٭٭

دن طلوع ہوتا ہے اور غروب ہو جاتا ہے

راتیں آتی ہیں اور بیت جاتی ہیں

ہفتے اور مہینے گزرتے چلے جاتے ہیں

اور اسی دوران میں چند دن ایسے بھی آجاتے ہیں

جب آپ اپنی اس گواہی دینے کے لیے الفاظ ہی نہیں عمل بھی پیش کر سکتے ہیں

اس بات کا ثبوت، کہ آپ مالک کو مالک سمجھتے ہیں

اور اس کا ہر حکم مانتے ہیں

ہر سال ایک مہینہ یہی ثبوت دیکھنے آتا ہے

وہ مہینہ آگیا ہے

ثبوت دیجیے۔

اس کے قدموں کی چاپ سنو

جیسے دل دھڑک رہا ہو

وہ جانے والا، جو آزردہ ہو کر چلا گیا تھا، ایک بار پھر آ رہا ہے۔

٭٭٭

کوئی جانے والا دکھی ہو کر جائے تواس طرح پلٹ کر نہیں آتا

جس کا استقبال نہ کیا جائے

اور جسے پیار کے ساتھ رخصت نہ کیا گیا ہو

وہ اس طرح تو پلٹ کر نہیں آتا۔

٭٭٭

لیکن دیکھ لو

وہ آتا ہے، دستک دیتا ہے اور کیسی محبت سے پکارتا ہے

اور پھر انتظار کرتا ہے

ایک آس لیے کھڑا رہتا ہے

وہ بھکاری نہیں ہے

اس کا دامن ہمیشہ بھرا رہتا ہے

کیا کچھ لے کر نہیں آتا

اور کیا کچھ دے کر جانا نہیں چاہتا

لیکن کیا ستم ہے کہ جنھیں بہت کچھ دینے کے لیے آتا ہے

وہ منہ لپیٹے پڑے رہتے ہیں

اور جو بہت کچھ لٹانے کے لیے آتا ہے

وہ سب کچھ لیے لوٹ جاتا ہے۔

٭٭٭

یہ ہمارا طرزِ عمل ہوتا ہے جو ہمارے اور ہماری بھلائی کے درمیان حائل ہوجاتا ہے

یہ ہم ہیں جو رحمتوں سے کہتے ہیں لوٹ جاؤ

یہ ہمارے اعمال ہیں جو ہمیں ڈبو سکتے ہیں

ہماری کشتیوں کا شگاف ہماری اپنی غفلت ہے

٭٭٭

لوگو!

آنے والے کی دستک کو سنو

اس کی صدا کو سنو

اسے نہ سن کر کہیں کے نہ رہو گے

…… اسے کب تک نہ سنو گے

کیا اس بار بھی نہیں؟

٭٭٭

وہ ہر سال آتا ہے

اس سال بھی آیا ہے

لیکن اگر ہم اس کے لیے آگے نہ بڑھے

اگر اس سال بھی اس کے لیے نہ اٹھے

تو کون جانے، اگلے برس یہ ماہ مبارک آئے

…… اور ہمیں نہ پائے۔

رمضان المبارک۔

یقینا مبارک۔

٭٭٭

کیسی رحمت، کیسی سعادت،

کہ مالک بندے کو قریب تر ہونے کے لیے کہے۔

کتنا انعام ، کس قدر اکرام

کہ خالق، تخلیق کو اعزاز بخشے

کتنی عنایت ، کتنی شفقت

کہ سانسوں کا پیدا کرنے والا سانسوں میں خوشبو پائے۔

کیسی قبولیت، کس قدر شرف،

کہ جسم و جاں کا دینے والا جسم و جاں کا مول بڑھائے۔

٭٭٭

رمضان المبارک

یقینا مبارک، لمحہ لمحہ مبارک

جب شب و روز میں اس کی رضا

جب طلوع و غروب میں اس کی خوشنودی

جب سونا اس کی ہدایت پر

جب جاگنا اس کے حکم پر

جب حدود اس کی طے کر دہ

جب وقت اس کامقرر کیا ہوا

اور جب انتظار اس کی اجازت کا

لمحہ لمحہ مبارک۔

٭٭٭

جب ہر آن اس کا دھیان

جب اٹھتے بیٹھتے اس کا شعور

جب بول اس کے، جب بات اس کی، جب خاموشی اس کے لیے

جب اضطراب میں تسکین، جب بے چینی میں چین

جب بھوک عبادت، جب پیاس طریقت، جب زندگی سجدہ، جب صرف بندگی حقیقت۔

لمحہ لمحہ مبارک۔

٭٭٭

حیات کے کس قدر قیمتی لمحات

کہ سنبھلنے والے کے لیے سنبھالنے والا موجود ہو

…… اور سنبھالنے والا خود خدا ہو۔

٭٭٭

ایسے میں اسے دیکھو جس کا کوئی معمول نہ بدل سکا

جس کے لیے چاند کچھ نہ لایا

جس کے لیے سورج روز کی طرح طلوع ہوا

جس نے کچھ نہ دیکھا، جس نے کچھ نہ سنا

جو اپنے آپ کو چرتے پھرتے جانوروں سے الگ نہ کر سکا

جو اپنے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہ دکھا سکا

جس کے دن نہ بدلے، جس کی دنیا نہ بدلی

جس نے دامن نہ پھیلایا

جس نے کچھ بھی تو نہ پایا

…… جب کہ دینے والا کبھی نہ تھکنے والا

جب کہ رحمت ہر لحظہ منتظر

جب کہ بھلائی پلٹ پلٹ کر پکارتی ہوئی۔

٭٭٭

رمضان المبارک

یقینا مبارک

مگر کس کے لیے ……؟

٭٭٭