سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب: سجاد خالد)

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اکتوبر 2004

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔ اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔ (ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ تاخیر کرتے ہیں۔’’ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔

            اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔

            اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:        ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

            ۲۔اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

            ۳۔جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

            ۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

            ۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

            ۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

            ۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

            ۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔

            براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتا ہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)