آفتاب یا آفتابِ ولایت؟

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : ستمبر 2004

               میں نے دیکھا کہ ایک نحیف و نزار شخص جس کی عمر ساٹھ سے کم نہ ہوگی جون کی چلچلاتی دھوپ میں کھڑا مسجد کے تعمیر اتی کا م کی نگرانی کر رہا ہے اور بڑ ی تندہی کے ساتھ مستری مزدوروں کو ہدایات دے رہا ہے۔ کبھی وہ مستری کی طرف لپکتا ہے تو کبھی مزدور کی طرف۔کبھی وہ میٹریل کو چیک کرنے لگتا ہے تو کبھی نقشے کو۔ اگر چہ اس کی پیشانی سے بڑھاپے کے آثار پوری طرح ہویدا تھے مگر اس کی آواز میں وہی کڑک اور اس کے انداز میں عزم و ہمت کاوہی بانکپن تھا۔جو کبھی جوانی میں اس کا خاصا رہا ہو گا۔میں نے اسے پیش کش کی کہ آپ سایے میں تشریف رکھیں ۔ کا م چلتا رہے گا ۔ اس نے کہا کہ تعمیراتی کا م ایسے نہیں ہو ا کرتا یہ کام ان لوگوں سے لینا پڑتا ہے۔ مسلسل کئی دن میں اسے اسی حالت میں دیکھتارہا ۔ وہ صبح گھر سے آتا اورشام تک بغیر کسی آرام اور وقفے کے نگرانی میں مصروف رہتا۔ نہ اسے آرام کی فکر تھی نہ دھوپ اور گرمی کا خوف۔چند روز بعد مجھے پتاچلا کہ یہ شخص تو دل کا مریض ہے اور اس کا آپریشن بھی ہو چکا ہے ۔ تو میں نے از راہ نصیحت اسے عرض کرنے کی کوشش کی کہ آپ کی صحت کیلئے یہ مشقت مو زوں نہیں ۔ اس نے کہا کہ مشقت دنیا کے کام میں ہوتی ہے دین کے کام میں نہیں ۔اس کا یہ فلسفہ’ فکر و عمل کے جس رخ کی نشاندہی کر رہا تھا اسے سمجھنے کیلئے شاید میرے پاس مطلوبہ لیاقت نہ تھی اس لئے میں خاموش ہو رہا۔

                کام جب اپنے آخر ی مراحل میں تھا تو ایک دن وہ چوٹ آنے سے زخمی ہو گیا لوگ جب اس کی خبر گیری کرتے تو وہ کہتا کہ یہ زخم دین کے راستے کا ہے اس کا کیا غم!یہ تو میرا سرمایہ ہے ۔ وہ اسی جانفشانی اور لگن سے لگاتار چھ ماہ تک یہ سرمایہ اکٹھا کرتا رہااور جب اس مسجد کے افتتاح کی باری آئی تووہ آخر ی صفوں میں بیٹھا تھا انتظامیہ نے جب اس کی خد مت میں نذرانہ پیش کرنا چاہا تو میں نے دیکھا کہ دو آنسو اس کے چہر ے کی جھریوں پر ڈھلک آئے تھے اور ان جھریوں میں اترے ہوئے یہ دو آنسو یوں لگ رہے تھے کہ گویا کوثر و تسنیم سے دو چھوٹی چھوٹی نالیاں زمیں پر اتر آئی ہوں۔ اور پھر وہ انتظامیہ کو عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا تھا۔لوگ پہلے بھی اسے دیکھ کر حیران ہوتے تھے اور آج بھی حیران تھے۔سچ ہے کہ اہل دنیا کے مقد ر میں حیرانی کے سوا اور ہوتا بھی کیا ہے۔ عرفان کی دولت تو آخرت کیلئے جینے والے لے اڑا کرتے ہیں۔ و ہ بھی غالبا ًیہی دولت سمیٹ کر روانہ ہو چکا تھا۔

               عجیب بات ہے کہ اتنے دنوں اس کا نام پوچھنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی سب کی طرح میں بھی انہیں شیخ صاحب ہی کہہ لیا کرتا تھا۔ افتتاح والی رات جب نام پوچھا توپتا لگا کہ اس کا نا م آفتاب ہے مگر بعد کے برسوں میں جب بھی اس کی یاد آئی تو میں یہ فیصلہ نہ کر پا یا کہ اسے آفتاب کہوں یا آفتاب ِولایت!

               مگر اب جب مجھے معلوم ہو ا کہ دس برس بعد آج بھی و ہ ڈوبتی نبضوں کے سنگ بہاول نگر کے دور افتادہ گاؤں میں ویسے ہی کھڑا ایک اور مسجد کی تعمیر کروا رہا ہے تو مجھے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی کہ اسے آفتاب نہیں بلکہ آفتابِ ولایت ہی کہنا چاہیے۔

٭٭٭

               ۴۸۳۔ایچ سبزہ زارلاہورکے باسی شیخ آفتاب احمد صاحب کے بارے میں یہ سطور قلمبند ہو چکی تھیں کہ معاً ایک دن خبر آئی کہ سبزہ زار کے یہ باسی ابد ی سبزہ زارکی طرف انتقال کر گئے۔انکی صحت تو کئی ماہ سے اس بات کی چغلی کھا رہی تھی مگر وہ مسجد کی تکمیل کی دھن میں ہر چیز سے بے نیاز مصروف عمل تھے۔ وفات سے صرف دو دن قبل ملاقات ہوئی تو میں نے پھر عرض کیا کہ اب بہاولنگر نہ جایئے گا آپ کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ کہنے لگے بس معمولی سا کام باقی ہے۔ مجھے یہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ میری وجہ سے کام میں تاخیر ہو جائے۔ کہنے لگے کہ بس صبح جاؤں گا اور متعلقہ لوگوں کو معاملات سمجھا کر واپس آ جاؤں گا۔ مگرانہیں کیا معلوم تھا کہ صبح تو انہیں اس سفر کی طرف روانہ ہونا تھا کہ جہا ں بار بار نہیں جایا جاتا۔وہ بڑے ہی بے ضرر سے انسان تھے کسی کوتکلیف دینا انہیں معلوم ہی نہ تھا ۔ اللہ نے ان کی اس صفت کی لاج رکھی ۔ رات کو دنیا میں سوئے اور صبح آخرت میں آنکھ کھولی۔ سوتے سوتے ہی رخصت ہو گئے ۔ نہ اولاد کو ہسپتال بھاگنا پڑا اور نہ کسی کو تیمار داری کی تکلیف ہوئی۔

               کسی نے کہا ہے کہ بعض جنازے نماز پڑھنے والوں کی بخشش کا باعث بن جاتے ہیں اور بعض نماز پڑھنے والے جنازے کی بخشش کا۔ شیخ صاحب کی نماز ِ جنازہ پڑھاتے ہوئے میرا گمان پہلی بات کی طرف زیاد ہ تھا۔ میں نے بہت چاہا کہ اس موقع پر لوگو ں کو تفصیل کے ساتھ ان کے اوصاف سے آگاہ کروں اور انہیں بتاؤں کہ لوگو ! ولیوں کو تم جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتے رہتے ہو لیکن ولی تمہارے درمیان ہی ہوا کرتے ہیں لیکن تم انہیں پہچان نہیں پاتے ۔ شیخ صاحب بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔ پھر چاہا کہ ان سے کہہ دوں کہ لوگو ہمارے ہاں ولی بننے کیلئے مرنا شرط ہے ۔ لو اب تویہ شرط بھی پوری ہو گئی۔ لیکن فرط جذبات میں میں کچھ بھی نہ کہہ سکا سوائے اس کے کہ لوگو ہم شیخ صاحب کی میت کو دفن نہیں کر رہے بلکہ مروت’ محبت ’ وفا داری’ وضع داری اور شرافت کی میت کو دفن کر رہے ہیں۔ لوگو ان کے ساتھ ہی اللہ کے گھروں سے محبت کا ایک عہد ختم ہو گیا ہے اور اب شاید مستقبل قریب میں لوٹ کر نہ آئے اور اگر آئے بھی تو نہ جانے کس شکل میں آئے ۔

٭٭٭