سید نفیس الحسینی

مصنف : محمد راشد شیخ

سلسلہ : ہمارا تہذیبی ورثہ اور شخصیات

شمارہ : ستمبر 2004

سید انور حسین نفیس الحسینی (نفیس رقم) المعروف بہ سید نفیس شاہ صاحب ۱؂ اس عہد میں پاکستان کے بزرگ ترین خطاط ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت خواجہ بندۂ نواز گیسودرازؒ تک پہنچتا ہے۔ حضرت گیسو درازؒ کی اولاد میں ایک بزرگ شاہ حفیظ اللہ حسینی ۱۱۳۴ھ میں گلبر کہ سے بغرض تبلیغ اسلام منتقل ہو کر ، سیالکوٹ آ بسے تھے۔ سید نفیس شاہ صاحب انہیں بزرگ کی اولاد میں سے ہیں۔ شاہ صاحب کے والد گرامی سید محمد اشرف علی سید القلم ۲؂ اور آپ کے سسر ، حکیم سید نیک عالم ۳؂ ماہر خطاط گزرے ہیں۔ ان دونوں بزرگوں کا کتابتِ قرآن مجید سے خاص تعلق تھا اور دونوں نے زندگی بھر سب سے زیادہ کام کتابت قرآن مجید ہی کا کیا۔

سید نفیس شاہ صاحب ۱۱، مارچ ۱۹۳۳ء مطابق ۱۳،ذیقعدہ ۱۳۵۱ھ کو موضع گھوڑیالہ ، ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے۔ ۴؂ آپ کے عہدطفولیت میں گھوڑیالہ میں آپ کے والد گرامی کے علاوہ حکیم سید نیک عالم اور حکیم سید محمد عالم معروف اساتذہ خطاطی موجود تھے۔ تقسیم سے کچھ عرصہ قبل آپ گھوڑیالہ سے لائل پور (موجودہ فیصل آباد) چلے گئے اور ۱۹۴۸ء میں سٹی مسلم ہائی اسکول ، لائل پور سے فرسٹ ڈویژن میں میڑک کاامتحان پاس کیا۔ اسکول کے نصاب میں ہندی کا مضمون بھی تھا چنانچہ آپ نے ہندی زبان میں خطاطی بھی سیکھی۔ میٹرک کے بعد آپ نے اپنے والد گرامی کی زیر نگرانی باقاعدہ کتابت کا آغاز کیا اور بقیہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔۵؂ ۱۹۵۰ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لائل پور میں داخلہ لیا اور یہاں سے ایف اے کاامتحان پا س کیا۔ لائل پور سے جب روزنامہ ‘‘انصاف ’’ جاری ہوا تو آپ نے اس کے پہلے شمارے پر پیشانی اور علامہ اقبال کی نظم ‘‘لاالہ الہ اللّٰہ ’’ لکھی ۔ آپ کی کتابت کردہ پہلی کتاب جو زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ، وہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری کی مشہور کتاب سیرت ‘‘رحمتہ للعالمین ﷺ ’’ ہے جسے لاہور کے ایک معروف ناشر نے شائع کیا۔۱۹۵۱ء میں آپ لائل پور سے لاہور منتقل ہوگئے ۔ قیام لاہور کے ابتدائی عرصے میں آپ نے اورنیٹل کالج کے شعبۂ اردو و فارسی میں تعلیم بھی حاصل کی۶؂ ۔۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۶ء تک آپ نے روزنامہ نوائے وقت لاہور میں بحیثیت سرخی نویس کام کیا۔ ۱۹۵۵ ء سے ۱۹۷۰ء تک آپ نے چٹان بلڈنگ ، لاہور میں پرائیوٹ طور پر خطاطی کاکام کیا۔ اسی دوران مختلف اوقات میں آپ روزنامہ احسان لاہور اور روزنامہ آزاد لاہور سے بحیثیت سرخی نویس وابستہ رہے۔ ۱۹۷۰ء سے اب تک آپ اپنے گھر پر ہی پرائیوٹ طور پر خطاطی کرتے اور طلبہ کو اصلاح دیتے ہیں۔ اس دوران ہزار ہا طالب علموں نے آپ سے اکتساب فن کیا اور یہ چشمہ فیض ہنوز جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوں میں برصغیر پاک و ہند میں سب سے زیادہ افراد نے آپ ہی سے یہ فن سیکھا ہے۔اس وقت آپ کی شخصیت ایک منارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔دوردور سے لوگ آپ کے پاس یہ فن سیکھنے آتے ہیں اور مطلوبہ استعداد حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں چلے جاتے ہیں۔اب چونکہ کمپیوٹر کے ذریعے نستعلیق کی کتابت عام ہوچکی ہے اس لیے آپ سب سے پہلے خطِ نسخ کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کتابتِ قرآن مجید کا کام جاننے والے ہوں تاکہ آیندہ اس شعبے میں ماہر افراد کی قلت کا احساس نہ ہو۔

یوں توشاہ صاحب نے متعدد کتابوں کی پاکیزہ کتابت اپنے خوبصورت خط میں کی ہے مگر آج کل شدید مصروفیات ، مسلسل اسفار اور دیگر کاموں کی وجہ سے صرف ٹائیٹل سازی کاکام ہی کرتے ہیں ۔ آپ اب تک بے شمار کتب و رسائل کے ٹائیٹل تیار کر چکے ہیں ۔ اس شعبے میں بھی آپ نے کئی اجتہادی تبدیلیاں کی ہیں۔ یوں تو آپ تمام مروجہ خطوط پر یکساں عبور رکھتے ہیں مگر ٹائیٹل میں عموماً سب سے زیادہ خط نستعلیق ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں خط نستعلیق سے سب زیادہ مانوسیت ہے۔نستعلیق کے علاوہ آپ ثلث، نسخ ،دیوانی ، رقعہ، کوفی وغیرہ بھی بڑی مہارت سے لکھتے اور ٹائیٹل پر ان خطوط کا مناسب جگہ پر خوبصور تی سے استعمال کرتے ہیں۔ شاہ صاحب کے ہر کام سے آپ کی ذہانت کا اظہار ہوتاہے مثلا عبارت کے مطابق خط کا استعمال اور ہر خط کے لیے مناسب قط کا استعمال تاکہ عبارت واضح اور دلکش نظر آئے ۔ ٹائیٹل کی تیاری میں آپ مناسب رنگوں (Colour Scheme) کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں جس سے اس کی جاذبیت اور حسن میں بے حد اضافہ ہو جاتاہے ۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوں میں برصغیر پاک و ہند میں آپ سے زیادہ کسی دوسرے خطاط نے ٹائیٹل تیار نہیں کیے ۔ دنیا کی ہر ایسی لائیربری میں ، جہاں اردو زبان کی دینی ، علمی و ادبی کتب رکھی جاتی ہوں، آپ کے خط کا کوئی نہ کوئی نمونہ ضرور ملے گا۔ اس کا اندازہ راقم کو بعض بیرونی ممالک کے اسفار میں ہوا۔اب تک پاکستان کے جن معروف علمی ، دینی وادبی اداروں کے ٹائیٹل آپ نے تیار کیے ان میں سے چند یہ ہیں: پنجاب یونیورسٹی، مجلس ترقی ادب، مرکزی اردو بورڈ (موجودہ اردو سائنس بورڈ) ، اقبال اکیڈمی ، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ادارہ القرآن والعلوم الاسلامیہ ، ادارۂ اسلامیات ، مکتبۂ مدینہ، مکتبۂ رشیدیہ ، مکتبۂ سید احمد شہیدؒ ، ادارۂ ادب و تنقید ، مرکزی انجمن خدام القرآن ، مکتبۂ بینات، مکتبۂ اہل سنت وجماعت، دارالاشاعت اور مجلس نشریات اسلام وغیرہ۔

شاہ صاحب کے فنی سفر کا اگر مطالعہ کیاجائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہر بڑے خطاط کی طرح، آپ کے خط کے مختلف ادوار ہیں۔ جو رنگ آج سے تقریباً تیس برس قبل تھا وہ آج نہیں۔ آپ کا خط مسلسل ارتقائی منازل طے کرتارہاہے۔آج کل آپ کے خط نستعلیق میں ایرانی نستعلیق کی جھلک واضح ہے۔ جب کہ پہلے جس طرح آپ نستعلیق لکھتے تھے، اس میں ‘‘پروینی نستعلیق ’’ کا رنگ زیادہ گہرا تھا۔ ایک موقع پر آپ نے اس بارے میں ، راقم سے فرمایا کہ آپ نے ہردور میں خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھی ہے، اسی لیے آپ کے خط میں زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ اب جس طرح آپ نستعلیق لکھتے ہیں اس کے جوڑاور پیوند ‘‘پروینی نستعلیق’’ کے جوڑ اور پیوندوں سے پتلے اورنازک ہیں۔شاہ صاحب کا فنی سفر تقریباً نصف صدی کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ اگر کوشش کی جائے تو شاہ صاحب کے نوادر جمع کرکے ایک عمدہ ‘‘مرقع ’’ کی صورت میں چھاپے جا سکتے ہیں۔ راقم الحروف نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں جن چند نوادر کی تفصیل حاصل کی وہ یہ ہیں : خط نسخ میں قرآن پاک کے کئی اجزاء کی کتابت کر چکے ہیں اور یہ کام ہنوز جاری ہے، دیوان غالب (مکمل کتابت) جسے پنجاب یونیورسٹی نے غالب صدی کے موقع پر ۱۹۶۹؁ء میں شائع کیا، کلام بلّھے شاہ (مکمل کتابت) جسے معروف طباعتی ادارے پیکیجز نے شایع کیا، کلّیات میرؔ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی (مکمل کتابت) ، شعر ناب مرتبہ غلام نظام الدین (مکمل کتابت) سیرت سید احمدشہیدؒ (جلد دوم) از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور قادیانیت ازمولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی مکمل اور خوبصورت کتابت کی۔ جن معروف کتب کے ٹائیٹل آپ نے تیار کیے ان میں مولانا ابو الکلام آزاد کے مشہور اخبار ‘‘الہلال’’ کی مکمل عکسی اشاعت ، تفسیر معارف القرآن از مفتی محمد شفیع صاحبؒ ، معارف الحدیث از مولانا محمد منظور نعمانی ؒ ، سیرت النبی ﷺ از علامہ شبلی نعمانی و علامہ سید سلیمان ندوی کے علاوہ ماہنامہ البلاغ کراچی کے ‘‘مفتی ٔ اعظم نمبر ’’ اور ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور کے ‘‘ قرآن نمبر’’ میں بھی آپ کے خط کے عمدہ نمونے موجود ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد جن کے آپ نے خوبصورت ٹائیٹل تیار کیے ان میں قومی ڈائجسٹ ، ندائے ملت ، بادبان، صحافت ، رحیق ، الرشید، انوارمدینہ،البلاغ ، بینات، حق چاریار شامل ہیں۔آپ نے ٹیکسٹ بک بورڈ کی فرمایش پر جماعت نہم ودہم کے طلبہ کے لیے ‘‘کتاب خطاطی ’’ بھی لکھی ہے جس میں مختلف خطوط سیکھنے کے لیے مشقیں موجود ہیں۔ یہ کتاب ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔

پتھروں پر آپ کی خطاطی کے نمونوں ہیں: لاہور میں مسجد صلاح الدین ٹمبر مارکیٹ ، مسجد حضرت علیؓ چوک مو ہنی روڈ، مسجد فیض الاسلام گنپت روڈ، مسجد چوہدری ہسپتال شیش محل روڈ، مال روڈ پر سمٹ مینار کا پتھر نیز پروفیسر حمید احمد خاں اور محمد طفیل (مدیر نقوش) کے الواحِ مزار قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال میوزیم (جاوید منزل) کے لیے اسٹیل کی تین پلیٹوں پر خط نستعلیق میں خطاطی آپ کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کچھ عرصہ قبل آپ نے ایوان قبال ، لاہور میں آویزاں کرنے کے لیے کینوس (Canvas) کی تقریباً پچاس شیٹوں پر نستعلیق جلی میں علامہ اقبال کے متفرق اشعار لکھے ہیں۔ رنگ آمیزی کے بعد یہ خطاطی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اسی طرح آپ نے چھ خطوط میں درود شریف بھی لکھا ہے جس میں نہایت عمدگی اورمہارت سے ثلث ، نسخ ، نستعلیق ، کوفی ، دیوانی اور رقعہ کا استعمال کیا ہے۔خطِ ثلث جلی میں اسمائے حسنیٰ بھی آپ کی خطاطی کی خوبصورت مثال ہے۔

شاہ صاحب کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ ایک مختصر مضمون میں تمام جہات کا احاطہ ممکن نہیں البتہ کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات درج کی جائیں۔ شاہ صاحب ایک نامور خطاط تو ہیں ہی ، اس کے علاوہ علم وادب سے بھی آپ کا گہرا تعلق ہے۔ آپ کا ذاتی کتب خانہ ہزار ہا دینی ، علمی وادبی کتب کے علاوہ کئی نایاب اور غیر مطبوعہ نسخوں پر مشتمل ہے۔ آپ ایک عمدہ مضمون نگار کے علاوہ اردو اور فارسی کے قادر الکلام شاعر بھی ہیں۔ آپ کے مضامین میں تحقیقی شان پائی جاتی ہے۔ آپ کے فن خطاطی سے متعلق جومضامین راقم کی نظر سے گزرے ان میں : ‘‘خطاطی ، تاریخی عظمت کا شاہ کار ایک بے مثال فن ’’، ‘‘خطاطانِ قرآن، ‘‘خطاطانِ قرآن۔عہد نبوی ﷺ سے خلافت عباسیہ تک ’’، ‘‘خطاط الملک تاج الدین زرّیں رقم ’’، اسلامی خطاطی اور اقسام خط’’ ‘‘ایک خوشنویس خاندان ’’ اور حافظ محمد یوسف سدیدی ’’ شامل ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ فن خطاطی کے محققین اور شائقین کے لیے یہ مضامین نہایت پر از معلومات اور مستند ہیں۔ گاہے گاہے آپ کی شاعری کے نمونے بھی نظر آجاتے ہیں۔ ان میں خوبصورت نعت ‘‘تجھ ساکوئی نہیں’’ اپنے پیرومرشد حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری ؒ کے وصال پر لکھی گئی نظم ‘‘رثا’’ اپنے والد محترم کے انتقال پر لکھی گئی نظم ‘‘یاد ’’ تاج الدین زریں رقم کے انتقال کے بعد ان کے بارے میں لکھی گئی نظم اور اپنے قدیم ساتھی اور نامور خطاط حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم کے انتقال پر کہے گئے اشعار انتہائی متاثر کن ہیں۔

شاہ صاحب کوفن خطاطی میں نمایاں خدمات کے صلے میں اب تک جو جو اعزازات عطا کیے گئے ان میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے تمام خطاطوں میں پہلا پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور میڈل ، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی نمائش خطاطی ۱۹۸۰؁ء میں اول انعام، قرآنی خطاطی کی کل پاکستان نمائش ، زیر اہتمام پاکستان پبلک ریلیشنز سوسائٹی، لاہور منعقد ۱۹۸۲ء میں اول انعام شامل ہیں۔اس کے علاوہ شاہ صاحب پاکستان کے واحد خطاط ہیں جنہیں بغداد میں منعقدہ عالمی مقابلۂ خطاطی اور نمائش ۱۹۸۸ء اور اسلامی ورثہ کے تحفظ کے بین الاقوامی کمیشن (ICIPICH) کے تحت یا قوت المستعصمی کے نام پر استنبول میں منعقدہ دوسرے عالمی مقابلہ ٔ خطاطی ۱۹۸۹؁ء میں بطور منصف (Member of jury) مدعو کیا گیا۔

اب تک شاہ صاحب کی شخصیت کا محض ایک پہلو یعنی بحیثیت نامور خطاط پیش کیا گیاہے۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ آپ کی شخصیت کے دوسرے اور اہم پہلو پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔ شاہ صاحب ایک ماہر خطاط کے علاوہ ایک بلند پایہ صوفی بزرگ اور شیخ طریقت بھی ہیں۔آپ مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری ؒ کے خلیفہ مجاز ہیں۔روزانہ بے شمار افراد آپ کی محفل میں شر کت کے لیے آتے اور فیضیاب ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب ہر ایک سے نہایت خندہ پیشانی اور محبت کا برتاؤ کرتے ہیں ۔ ناممکن ہے کہ کوئی ایک مرتبہ آپ سے ملاقات کرے اور آپ کی محبت، شفقت ، مہمان نوازی اور اخلاقی بلندی کا گہراتاثر لے کر نہ اٹھے ۔ آپ کی شخصیت میں قدرت نے عجب جاذبیت اورکشش رکھی ہے۔ راقم الحروف نے متحمل مزاجی اور نرم کلامی میں شاہ صاحب سا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔ بلند اخلاقی کا یہ عالم ہے کہ گھنٹوں نشست کیجیے کبھی آپ اکتاہٹ یا بیزاری کا اظہار نہیں فرماتے۔نامور خطاط اور اس عہد کے ایک بڑے شیخ طریقت ہیں مگر خردنوازی کا یہ عالم ہے کہ آپ کی محفل میں چھوٹے خود کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ خشونت، درشتی اور تلخی نام کو بھی نہیں۔ آپ کے ہاں دیکھا گیا کہ جدید اور قدیم دونوں طبقوں کے افراد آپ سے یکساں محبت کرتے اور فیضیاب ہوتے ہیں۔اگر دینی طبقے میں مساجد و مدارس سے متعلق حضرات آپ کے ہاں دیکھے گئے توجدید تعلیم یافتہ طبقے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے پروفیسر حضرات اور طالب علم بھی ۔ ہر ایک سے آپ یکساں محبت اور مہمان نوازی سے پیش آتے ہیں۔

آخر میں آپ سے متعلق یہ فارسی اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو برسوں پہلے آپ کی شخصیت اور فن سے متعلق غلام نظام الدین نے کہے تھے:

سیدِّ حق شناس کانِ کرم

صاحبِ لوح، شہر یارِ قلم

شاعر باعمل، حکیمِ حکم

کاتبِ بے بدل، نفیس رقم۷؂

حواشی:

۱؂ ۔ عموماً آپ اردو یا فارسی زبان میں خطاطی کے لیے ‘‘نفیس رقم ’’جبکہ عربی میں خطاطی کے لیے ‘‘نفیس الحسینی ’’ لکھتے ہیں۔

۲؂ ۔ سید محمد اشرف علی ‘‘سید القلم’’ ۱۹۰۷ء میں موضع گھوڑیالہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اپنے تایا زاد بھائیوں حکیم سید نیک عالم اور حکیم سید محمد عالم سے اکتساب فن کیا۔ آپ نے ۱۹۲۲ء میں کتابت کا آغاز کیا۔ آپ کا کتابت کردہ پہلا قرآن پاک ۱۹۳۰ء میں مطبع قیومی (کانپور) سے شائع ہوا۔ ابتدا میں آپ زیادہ تر خطِ نستعلیق لکھتے تھے۔ بعد میں کتابت کلام الہٰی سے آپ کو خاص شغف ہوگیا اور صرف خط نسخ لکھنے لگے۔ آپ کا کتابت کردہ کلام پاک تاج کمپنی نے بھی شائع کیا۔ آپ نے زندگی میں سولہ مرتبہ قرآن مجید کی کتابت کی ۔ آپ کا انتقال ۲۸ اگست ۱۹۹۵ء کو لاہور میں ہوا۔ تدفین قبرستان میانی صاحب ، لاہور میں ہوئی۔

۳؂۔ حکیم سید نیک عالم ۱۸۹۵ء میں گھوڑیالہ ، ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اکتساب فن ، اپنے بڑے بھائی حکیم سید محمد عالم سے کیا۔ تما م عمر قرآن مجید کی کتابت کی ۔ آپ نہایت زود نویس خطاط تھے۔ ایک حمائل شریف صرف ۲۳ دن میں کتابت کی جو ۱۹۳۳ء میں شائع ہوئی ۔زندگی میں ۵۹ قرآن مجید تحریر کیے ۔ زیادہ تر لاہور ،دہلی اور کانپور کے اداروں کے لیے کتابت قرآن مجید کی۔اخیر عمر میں لاہور تشریف لے آئے جہاں ۴ ستمبر ۱۹۶۷ء کو آپ نے وفات پائی ۔ گڑھی شاہو لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ آپ کے صاحبزادے سید ثقلین زیدی ایک ماہر خطاط کی حیثیت سے معروف طباعتی ادارہ پیکیجز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ محمد صدیق الماس رقم بھی حکیم سید نیک عالم کے شاگرد تھے۔

۷؂۔ ‘‘فن کار سے ملیے ’’ از غلام نظام الدین ، پندرہ روزہ نیا پیام لاہور ، ۱۵، جون ۱۹۷۱ء ، ص ۳۲۔

۴؂ ۔ ‘‘اردو صحافت میں خطاطی کی تاریخ ’’ از خالد محمود غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم اے (صحافت ) مخزونہ پنجاب یونیورسٹی لائیربری ، ص ۱۹۳۔

۵؂۔ حقیقت ہے کہ شاہ صاحب نے فن خطاطی کی مکمل تعلیم اپنے والد محترم ہی سے حاصل کی البتہ نظری مشق کئی خطاطوں کے کام کودیکھ کر کی۔ انہی خطاطوں میں تاج الدین زریں رقم (وفات ۱۳جون ۱۹۵۵ء) بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں شاہ صاحب اپنے مضمون ‘‘خطاط الملک تاج الدین زریں رقم ’’ (مشمولہ روزنامہ کوہستان لاہور بابت ۱۴ جون ۱۹۶۴ء) میں لکھتے ہیں‘‘اگرچہ حالات نے باقاعدہ مشق و اصلاح کا مجھے موقع نہ دیا اور تعلق صرف ‘‘نظری استفادہ ’’تک محدود رہا لیکن انہوں نے اپنے خاص تلامذہ ہی کی طرح مجھے عزیز رکھا اور ایک شفیق استاد کی طرح سرپرستی کی ۔’’

۶؂۔ ‘‘آہوانِ صحرا ’’ از ڈاکٹر عبارت بریلوی ادارۂ ادب و تنقید لاہور ۱۹۹۰ء ، ص ۹۳۔

۷؂۔ ‘‘فن کار سے ملیے ’’ از غلام نظام الدین ، پندرہ روزہ نیا پیام لاہور ، ۱۵، جون ۱۹۷۱ء ، ص ۳۲۔

بشکریہ راشد شیخ بحوالہ تذکرۂ خطاطین