سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، محمد عبداللہ بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : ستمبر 2004

جواب: یہ بالکل ٹھیک اور صحیح حدیث ہے ۔قرآن مجید پر مبنی ہے ۔مضمون کے لحاظ سے بھی بالکل ٹھیک ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہستی کو آ پ اللہ کے پیغمبر کی حیثیت دیتے ہوں اورپھر کسی اور سے اس سے بڑھ کر تعلقِ خاطر رکھتے ہوں یہ نہیں ہو سکتا۔پیغمبر کو پیغمبر ماننے کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے محبت سب سے بڑھ کر ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دونوں میں آدمی بے وفائی کرتا ہے ایک میں خدا سے کرتا ہے اور دوسرے میں بیوی سے کرتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ بڑی خوبصورت ادبی تعبیر ہے اس بات کی کہ خدا کے عرفان کی جو صلاحیت اور اللہ کی صفات کا جوشعور ایک بندہ مومن کے دل میں ہوتا ہے وہ بڑی حد تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا احاطہ کر لیتا ہے ۔ ِجبکہ زمین و آسمان اس سے عاجز ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ انسان کا بڑا شرف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ اور بھی بہت سے محققین کی رائے ہے کہ ذوا لکفل سے مراد بدھا ہے مولاناابو الکلام آزاد کابھی خیال یہ ہی تھا۔بدھا چونکہ کپل بستو کی ریاست میں پیدا ہوئے ہیں تو ان کا کہنا یہ ہے کہ ‘پ’ ‘ف’ میں بدل گئی ہے ۔ بدھا کی تعلیمات کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ اپنی اصل صورت میں موجو د نہیں ہیں اورجس صورت میں موجود ہیں اس میں توسرے سے خدا ہی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اس لئے کوئی تبصر ہ کرنا بہت مشکل ہے ۔البتہ جو ہندوؤں کا دین ہے ۔وہ ویدو ں کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ نوحؑ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: کہہ سکتے ہیں یعنی آپ اس اہتمام کے ساتھ یہ بات کر سکتے ہیں کہ پروردگار اس کے لئے سلامتی کا اہتمام کر۔اسکو ہدایت دے یہ توآ پ کی نیت پر ہے۔کوئی ممانعت نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: عربی زبان میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے مراد اچھی باتوں کی تلقین کرنا اور بری باتوں سے لوگوں کوروکنے کی کوشش کرناہے ۔تبلیغ اور دعوت کے مفہوم میں یہ قرآنِ مجید میں عام استعمال ہوا ہے۔باقی جہاں تک طاقت کے ذریعے کسی منکر کو ختم کرنے کا تعلق ہے وہ دائرہِ اختیار میں ہوگا۔یعنی باپ کو اپنے دائرہِ اختیار میں روکنا چاہئے ۔شوہر کو اپنے دائرہِ اختیار میں روکنا چاہئے۔اسی طرح کسی ادارے کے سربراہ کو اپنے دائرہِ اختیا ر میں روکنا چاہئے۔ اورحکومت کو اپنے دائرہِ اختیار میں روکنا چاہئے۔وہ جو مشہور حدیث ہے اس کا تعلق دائرہِ اختیار سے ہی ہے ۔ اگر اس کو دائرہ اختیار سے متعلق نہ کیا جائے تو پھر معاشرے میں شدید قسم کا فساد برپا ہو جائے گا۔جس کا جہاں جی چاہے گا طاقت کا استعمال شروع کر دے گا اس طرح ایک انارکی کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ہاں اگر میرا دائرہ اختیار ہے اورمیرے پاس مطلوبہ طاقت بھی ہے تو پھر میں اس کو طاقت سے روک دینے کا مکلف ہوں ۔ اب اگر یہ طاقت استعمال کرنے کا حوصلہ اور ہمت نہیں تو پھر زبان سے تلقین یا یہ بھی نہیں توپھر دل سے برا جاننا ضروری ہوگا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ سب قیاسات ہیں ۔کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ حتمی طور پر بات اسی وقت کہنی چاہئے کہ جب اسکے لئے آپ کے پاس دلائل موجود ہوں ۔بہت سے لوگ اس کی بہت سی وجوہ بیان کرتے ہیں ۔کوئی حملہ ہوا اس کے نتیجے میں غارت گری ہو گئی ۔کوئی عذاب آیا اس کے نتیجے میں غارت گری ہو گئی ۔ بعض لوگ طوفانِ نوح سے بھی ان کا تعلق جوڑتے ہیں ۔لیکن بظاہر جو کچھ ہمیں طوفان نوح کے بارے میں قدیم صحیفو ں سے معلوم ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا یہ علاقہ نہیں ہے اس کا علاقہ بالکل دوسرا ہے ۔تو کچھ ایسے قیاسات ہیں جو قرین قیاس ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔اچھی بات وہی ہے جو ہمارے ایک شاعر نے کہی ہے۔کہ لوگ ہڑپہ کو دیکھ تو لیتے ہیں اور وہاں سے کلچر تو منوں کے حساب سے برآمد کر لیتے ہیں مگرعبرت کی ایک چھٹانک بھی حاصل نہیں کرتے۔بہر حال عبرت کاایک مرقع ہے۔ان تہذیبوں کی تباہی کا باعث کیا چیز بنی وہ ایک تاریخی تحقیق کا معاملہ ہے کرتے رہنا چاہئے کوئی واضح بات سامنے آجا ئے گی تو پھر آپ کو اسے کہنا چاہئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سب سے اچھی دعا اور کلمہ یہ ہے کہ آپ غصے کے مقابلے میں اپنے اندر ضبط پیدا کریں ۔اس سے بہتر کوئی دعا نہیں۔ آدمی جب غصے کا جواب غصے سے دیتا ہے تو اصل میں اس سے ساری خرابی پیدا ہوتی ہے ۔غصے کے بارے میں اصولی بات ذہن میں رکھنی چاہئے ۔کہ غصہ بعض اوقات بے وجہ بھی آجاتا ہے۔ اور بعض اوقات اس کے وجوہ اور اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ہماری معاشرتی زندگی میں ہر شخص کے ساتھ یہی معاملہ ہے ۔ اسی طریقے سے بیوی ،شوہر کے تعلق میں بھی یہ چیزہو جاتی ہے ۔ اول تو غصہ آنا نہیں چاہئے۔آگیا ہے تو اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ غصے کا جواب آپ غصے سے نہ دیں۔یعنی آپ کا ٹھنڈا رویہ تھوڑی دیر میں معاملات کو نارمل کر دے گا۔انسان کے اندر ایک بڑا غیر معمولی داعی بیٹھا ہوا ہے ۔جیسے ہی آپ جواب میں غصے کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ معاملے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔کوئی ایک فریق جب یہ طے کر لیتا ہے کہ مجھے اس معاملے کو نرم کر دینا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے بعد شیطان کی در اندازی بند ہو جاتی ہے ۔نبی ﷺ نے غصہ کرنے والے کو یہ کہا کہ دیکھو تم اپنی جگہ تبدیل کرو۔کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔پانی کا کوئی گلاس قریب میں ہے تو وہ پینا شروع کر دو ۔یہ بھی ایک نفسیاتی علاج ہے ۔یعنی آدمی ذرا سی تبدیلی کرتاہے اپنے اندرتو اس کیفیت پہ قابو پانے میں اس کو آسانی ہو جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ اللہ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور پر قرآن مجید کی وہ آیات کہ جن میں اللہ نے بڑی تعریف کی ہے ان لو گوں کی جواپنے غصے پر قابو پا لیتے ہیں ۔ان آیا ت کے ترجمے اور مفہوم کو سمجھ کرپڑھیں تو امید یہ ہے کہ آپ کو بھی غصے پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔اور شوہر کو بھی ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے سے ہی تھا ۔اصل میں ایک واقعے سے لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے ہوا یہ تھا کہ حضرتِ عمرؓ لیٹے ہوئے تھے تو موذن نے اذان دینے کے بعد ان کے پاس کھڑے ہو کے ان کو جگانے کے لئے کہا کہ .......الصلوۃ خیرمن نوم.........تو سیدنا عمرؓ کو یہ خیا ل ہو ا کہ یہ کوئی بدعت نہ بن جائے۔ تو انہوں نے کہا کہ بھئی اس کو اذان ہی میں رکھو ۔یعنی یہ کلمہ اذان کا ہے اذان ہی میں رہنا چاہئے ۔مجھے جگانے کے لئے اور الفاظ بھی بولے جاسکتے ہیں ‘‘تو اس کو اذان ہی میں رکھو’’ اس جملے کو لوگوں نے غلط سمجھ کر خیال کیا کہ پہلے نہیں تھاعمرنے کہا کہ اذان میں رکھو۔یہ غلط فہمی ہے

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ ہمارے ہاں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ہم اس بات کے عادی ہی نہیں رہے کہ دوسروں کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔اختلاف کو سلیقے سے حل کرنا ہمارا شیوہ نہیں۔ مذہب کی جزیات اور علما آئمہ کی آرا کوبھی ہم نے عین دین بنا لیا ہے ہم سمجھنے ’سمجھانے،ڈائیلاگ کرنے،بات سننے ،سنانے کے ببجائے اس میں سے فتویٰ بر آمد کرتے ہے ۔اور فتوی لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔یہ تربیت کا فقدان ہے ۔ اس کا اسلام یا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اسلام اور دین نے ہمیں جو تربیت دی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے مختلف بات کرے ، اختلاف کرے یا آپ کی کسی بات پہ تنقید کرے ۔تو سب سے بڑھ کر اس کی بات سنئے۔اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی غلطی پر ہوں اور وہ آپ کا محسن ہو اور وہ آپ کو اس غلطی سے نکالنا چاہتا ہو۔

 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:culture  کا ہم اپنی زبان میں ترجمہ ثقافت سے کرتے ہیں۔ civilization کو ہم تہذیب سے تعبیر کرتے ہیں۔اور تمدن تو خیر ہماری ہی اصطلاح ہے۔ یہ الفاظ بڑی حد تک مترادف بولے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر تھوڑا تھوڑا فرق بہر حال ہے ۔وہ چیزیں جو ہمارے رہن سہن اورملنے جلنے کے آداب مقرر کرتی ہیں ۔ ان کے لئے ثقافت کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔ یعنی انسان دوسروں کے ساتھ کیسے معاملہ کرتا ہے وہ میزبانی کے کیا آداب اختیار کرتا ہے ’رہن سہن کے کیاطریقے اختیار کرتا ہے وغیرہ ۔اسے کلچریا ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔انسان کے عقائد،نظریات ،رسوم ،روایات اور ساری وہ چیزیں جو کلچر سے متعلق ہیں۔وہ سب جب مل جاتی ہیں تو ہم اس کے لئے تہذیب کا لفظ بولتے ہیں۔تہذیب گویا ایک زیادہ بڑا لفظ ہے ۔اور ثقافت اس کا ایک حصہ اورجز ہے ۔ تہذیبی روایت کے تحت جو دنیا وجود میں آتی ہے ۔اس کو تمدن کہتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)