بازگشت

مصنف : علی احمد باکثیر الیمنی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2005

علی احمد باکثیر الیمنی / قلب بشیر خاور بٹ

پہلا منظر

(ہارون الرشید کی سواری جا رہی ہے، جلوس کے درمیان میں سے ایک آواز بلند ہوتی ہے)

آواز:     اے امیر المومنین…… ! اے امیر المومنین! میرے پاس ایک امانت ہے۔

ہارون:    اس شخص کو راستہ دو!

آوازیں: راستہ چھوڑ دو۔ اس کو راستہ دے دو۔ (ایک شخص خلیفہ کی سواری کے قریب آتا ہے)

آدمی:    السلام علیکم …… اے امیر المومنین!

ہارون:    وعلیکم السلام …… کیا بات ہے؟

آدمی:    میرے پاس آپ کے لیے ایک امانت ہے۔

ہارون:    امانت؟

آدمی:    جی ہاں …… مجھے یہ انگوٹھی آپ تک پہنچانے کے لیے کہا گیا ہے۔

ہارون:    (بھرائی ہوئی آواز میں) یہ انگوٹھی تم کہاں سے لائے ہو؟

آدمی:    اے امیر المومنین! انگوٹھی کے مالک سے لایا ہوں۔

ہارون:    کیا تم اسے جانتے ہو؟

آدمی:    جی امیر المومنین۔ اسی نے تو مجھے آپ تک پہنچانے کے لیے کہا ہے۔

ہارون:    (اپنے غلاموں سے) اس شخص کو اپنے ساتھ سوار کر لو۔ محل میں ہمارے سامنے پیش کرنا۔

آوازیں: امیر المومنین کا حکم سر آنکھوں پر۔

دوسرا منظر

(خلیفہ کا محل غلام اس شخص کو خلیفہ ہارون الرشید کے سامنے پیش کرتے ہیں)

ہارون:    اے شخص ہمارے اور قریب آؤ!

آدمی:    حاضر ہوں امیر المومنین۔

ہارون:    کیا نام ہے تمھارا اور کہاں سے آئے ہو؟

آدمی:    اے امیر المومنین! میرا نام عبداللہ بن الفرج ہے اور بصرہ سے آیا ہوں۔

ہارون:    تم نے کہا کہ تم صاحب انگشتری کو جانتے ہو؟

عبداللہ:  جی ہاں …… اس کا نام ہے احمد السبتی۔

ہارون:    احمد السبتی؟

عبداللہ:  جی ہاں …… ہم وہاں اسے اسی نام سے پکارتے ہیں۔

ہارون:    کہاں؟

عبداللہ:  بصرہ میں۔

ہارون:    وہ اب بصرہ میں ہے؟

عبداللہ:  وہ بصرہ میں رہا کرتا تھا۔

ہارون:    اور اب کہاں ہے؟

عبداللہ:  اللہ آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے اے امیر المومنین! وہ تو فوت ہو گیا۔

ہارون:    فوت ہو گیا؟ (دونوں ہاتھ مل کر افسوس ظاہر کرتا ہے)

عبداللہ:  اس بے چارے کے لیے جس طرح آپ پوچھ رہے ہیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور مزید عظمت عطا کرے۔

ہارون:    اے شخص! ذرا اس کا حلیہ تو بیان کر!

عبداللہ:  اے امیر المومنین! وہ تقریباً بیس سال کا نوجوان تھا…… لمبا قد، چوڑے کھلے شانے، ستواں ناک۔ سیاہ آنکھیں جن میں سرخ ڈورے تھے۔

ہارون:    لیکن تم ہمارے چہرے کی طرف کیوں گھور رہے ہو؟

عبداللہ:  معاف کیجیے گا امیر المومنین، اگر وہ جسمانی طور پر دبلا پتلا نہ ہوتا تو میں کہتا کہ وہ بالکل آپ ہی جیسا تھا۔

ہارون:    بس یا عبداللہ بس کر …… تو یہ وہ تھا ۔ لاحول ولا قوۃ …… انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہائے افسوس احمد…… ساری عمر کا غم دے گیا ہے تو ہمیں

عبداللہ:  اے امیر المومنین کیا وہ آپ کا فرزند ارجمند تھا؟

ہارون:    ہاں عبداللہ! ہاں! وہ میرا سب سے پہلا بیٹا تھا۔ میرا محبوب بیٹا …… کیا اس نے تمھیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا؟

عبداللہ:  نہیں امیر المومنین …… اس نے تو مجھے کچھ نہیں بتایا تھا، البتہ الحاجہ خدیجہ الحمویہ نے مجھے بتایا تھاجس کے ہاں وہ رہائش پذیر تھا۔

ہارون:    اور الحاجہ کون ہے؟

عبداللہ:  یہ ایک بہت ہی نیک خاتون ہیں جو زہد اور تقویٰ میں مشہور ہیں اور احمد نے اپنے بچپن ہی سے ان کے ہاں تربیت پائی تھی۔

ہارون:    اچھا تو تو اس کے متعلق جو کچھ اور جانتا ہے۔ مجھے وہ سب کچھ بتا۔ مجھے بتا کہ تیری اس سے جان پہچان کیسے ہوئی؟

عبداللہ:  جان کی امان پاؤں تو عرض کروں،

ہارون:    تو کس لیے ڈرتا ہے؟

عبداللہ:  اے امیر المومنین، اس کا قصہ بیان کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی ہے۔

ہارون:    اے عبداللہ، بلا خوف و خطر وہ سب کچھ بتا دے جو کچھ تو جانتا ہے۔

عبداللہ:  کیا آپ میری بات مان لیں گے اے امیر المومنین! کہ وہ تھوڑی سی مزدوری پر معمار کا کام کیا کرتا تھا۔

ہارون:    (حالت غم میں) ہائے …… عبداللہ مجھے بتا کہ تیری اس سے ملاقات کیسے ہوئی؟

عبداللہ:  امیر المومنین، ایک دن مجھے گھر کی مرمت کے لیے ایک معمار کی ضرورت پڑی تو معماروں کے ٹھکانے پر گیا وہاں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کی رنگت پیلی تھی اور ایک بڑے سے تھیلے میں اوزار ڈالے کھڑا تھا۔

ہارون:    اف! (سرجھکا لیتا ہے)

تیسرا منظر

(بصرہ کا بازار۔ ایک جگہ بہت سے معمار اور مزدور کھڑے ہیں۔ عبداللہ احمد سے باتیں کر رہا ہے)

عبداللہ:  کیا تم معمار ہو؟

احمد:      جی ہاں۔

عبداللہ:  ایک دن کی کیا مزدوری لو گے؟

احمد:      تین درہم

عبداللہ:  یہ تو بہت زیادہ ہیں دو درہم لے لو۔

احمد:      اللہ آپ کا بھلا کرے کسی اور کو لے جائیں۔

عبداللہ:  جسم سے تو مجھے کمزوردکھائی دیتے ہو۔

احمد:      ان شاء اللہ جب آپ کام دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔

عبداللہ:  اچھا تو چلو میرے ساتھ!

احمد:      لیکن ایک شرط پر۔

عبداللہ:  کیا ہے وہ شرط؟

احمد:      ظہر کی اذان ہوتے ہی نماز کے لیے چلا جاؤں گا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر آؤں گا اور اسی طرح نماز عصر کے لیے بھی چلا جاؤں گا۔

عبداللہ:  لیکن ……!

احمد:      ڈرو نہیں۔ اللہ کا حق ادا کرنے سے آپ کا حق بھول نہیں جاؤں گا۔

عبداللہ:  میں نے تمھاری شرط مان لی چلو میرے ساتھ۔

چوتھا منظر

(خلیفہ ہارون الرشید کا دربار۔ عبداللہ خلیفہ سے باتیں کر رہا ہے)

عبداللہ:  دن ڈھلنے پر جب میں نے دیکھا تو وہ دو آدمیوں کے برابر کام کر چکا تھا۔ میں نے اسے زیادہ مزدوری دینا چاہی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ اے امیر المومنین! بخدا میں اس کا کام دیکھ کر حیران رہ گیا۔

ہارون:    پھر کیا ہوا؟

عبداللہ:  پھر جب بھی مجھے ضرورت پڑتی، تو اسی کو بلاتا۔ میں نے اپنے دوستوں سے اس کا تعارف کروا دیا۔ وہ سب بھی میری طرح اس کے کام کی تعریف کرتے۔ ایک دن ماہِ رمضان میں اس کی ضرورت پڑی، اس دن کمزوری اور بھوک کی وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔

پانچواں منظر

(عبداللہ کا مکان۔ وہ احمد سے باتیں کر رہا ہے)

عبداللہ:  احمد، آج تم بڑے ہی تھکے ہوئے اور کمزور دکھائی دیتے ہو۔ مناسب ہے واپس چلے جاؤ۔

احمد:      حضورِ والا یہ تو صرف روزے کے اثر کی وجہ سے ہے جو آپ کو کمزور دکھائی دے رہا ہوں۔

عبداللہ:  پھر بھی اچھا یہی ہے کہ آج جا کر آرام کرو۔

احمد:      اگر آپ کو میری ضرورت نہیں تو میں کسی اور کے ہاں جا کر کام کر لوں گا کیونکہ مجھے مزدوری چاہیے۔

عبداللہ:  بہت ضرورت مند ہو تو میں تمھیں پورے دن کے پیسے دے دوں گا۔ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔

احمد:      آپ جانتے ہیں کہ میں صدقہ نہیں لیتا۔

چھٹا منظر

(خلیفہ ہارن الرشید کا دربار۔ عبداللہ خلیفہ سے باتیں کر رہا ہے)

عبداللہ:  پھر اے امیر المومنین میں نے اسے کام کرنے کی اجازت دے دی، لیکن ظہر کے وقت میں نے دیکھا کہ وہ پسینے میں شرابور فرش پر بیٹھا ہے اور اس کا سارا جسم کانپ رہا ہے۔ میں نے کہا بیٹے، میں نے کہا نہیں تھا کہ آج کام نہ کرو؟

احمد:      جناب عالی، کیا آپ میرے لیے کوئی نیکی کریں گے؟

عبداللہ:  ہاں، ہاں ضرور۔ بتاؤ کیا بات ہے۔

احمد:      جلدی سے مجھے محلہ الحسن البصری میں الحاجہ خدیجہ الحمویہ کے گھر پہنچا دو۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کو دیکھے بغیر ہی میں مر نہ جاؤں۔ اس کی یہ بات سن کر میں اپنے خچر پر لاد کر اسے الحاجہ کے گھر لے گیا۔ الحاجہ خدیجہ الحمویہ نے اسے بستر پر لٹا دیا۔ اور دردمندی کے لہجے میں کہا۔

الحاجہ:     میں تمھیں نہ کہتی تھی کہ بیٹے آج کام پر نہ جانا!

احمد:      امی جان …… میں اپنے اللہ سے اس حال میں نہیں ملنا چاہتا کہ بیکار ہوں۔

عبداللہ:  محترمہ، یہ لیجیے پیسے یہ ان کی مزدوری ہے۔

احمد:      کتنے پیسے ہیں؟

عبداللہ:  تین درہم۔

احمد:      امی حضور! آپ ان سے صرف آدھے دن کی مزدوری ڈیڑھ درہم لے لیں۔ جزاک اللہ خیرا۔ اے عبداللہ ! کیا میرے ساتھ ایک اور نیکی کریں گے؟

عبداللہ:  اے بیٹے، بڑی خوشی سے۔

احمد:      اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ امی حضور! میرے خیال میں یہ صاحب نہایت امانتدار اور نیک آدمی ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی وصیت کر جاؤں۔

الحاجہ:     پیارے بیٹے جو جی میں آئے کرو۔

احمد:      امی حضور، وہ انگوٹھی کہاں ہے؟

الحاجہ:     یہ ہے انگوٹھی پیارے بیٹے!

احمد:      اے عبداللہ! میری بات غور سے سنو، اگر میں مر جاؤں تو یہ انگوٹھی خلیفہ ہارون الرشید تک پہنچانے کی کوشش کرنا۔

عبداللہ:  ہارون الرشید تک؟ تمھارا مطلب ہے خلیفۃ المسلمین تک؟

احمد:      ہاں، لیکن کس بات نے تمھیں مشکوک کر دیا ہے؟

عبداللہ:  میں انھیں کیسے پہنچاؤں گا۔ بس یہی سوچ کر کسی قدر پریشانی ظاہر ہوئی ہے۔

احمد:      خلیفہ کی سواری والے دن کا انتظار کرنا اور راستہ میں بلند جگہ کھڑے ہو جانا جہاں سے وہ تمھیں دیکھ لیں۔ پھر انھیں یہ انگوٹھی دکھانا۔ وہ تمھیں بلا لیں گے اور عزت و احترام کریں گے۔ پھر جب علیحدگی میں ملاقات ہو تو ان سے کہنا کہ انگوٹھی کے مالک نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔

ساتواں منظر

(خلیفہ کا محل۔ عبداللہ اور خلیفہ باتیں کر رہے ہیں)

ہارون:    اور کیا کہا اس نے جلدی بتاؤ!

عبداللہ:  مجھے معاف کر دیجیے امیر المومنین۔

ہارون:    نہیں نہیں ضرور کہو۔

عبداللہ:  اس نے آپ کے لیے پیغام دیا ہے کہ خدارا اسی گمراہی او ر عیاشی کی حالت میں نہ مرنا۔ اگر اسی گمراہی میں مر گئے تو آپ کے لیے بڑی شرمندگی اور ندامت ہے جو آپ اس دن محسوس کریں گے جب نہ مال و دولت کام آئے گی نہ اولاد سوائے نیک اعمال کے! (خلیفہ بیقرار ہو جاتا ہے)

زبیدہ:    (پردے کے پیچھے) اے امیر المومنین، آپ کے غم نے مجھے بھی نڈھال کر دیا ہے۔ کیا یہ سارا غم آپ کو اپنے بیٹے کی موت کا ہے؟

ہارون:    مجھے اکیلے چھوڑ دو زبیدہ …… خدا کی قسم! اگر میں اس کے لیے ساری عمر بھی روتا رہوں تو کم ہے۔ ہائے وہ دو، دو درہم پر لوگوں کے ہاں معمار کے طور پر کام کرتا رہا اور میرے غلام یہاں محل میں عیش سے زندگی گزار رہے ہیں۔

زبیدہ:    یہ راستہ اس نے خود ہی اپنے لیے اختیار کیا تھا اس میں حضور کا کیاقصور ہے۔

ہارون:    کاش ہم نے اس سے محبت کی ہوتی اور اس کی بات سنی ہوتی جب وہ ہمارے ہاں نصیحت کرنے آیا تھا۔

زبیدہ:    وہ تو چاہتا تھا کہ ہم سب عمر بن عبدالعزیزؒ کی طرح اپنی زندگی گزاریں تو کیا یہ حضورِ انور کے لیے ممکن تھا؟

ہارون:    وہ سمجھانے آیا تھا۔ محبت کرنے آیا تھا۔ ہم نے اس سے غفلت برتی۔ محل کے لوگوں نے نہ اسے بات کرنے دی اور نہ ہی قریب آنے دیا، بلکہ پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑے اور وہ محل سے بھاگ کر کہیں چھپ گیا۔

زبیدہ:    حضورِ انور آپ نے وہی کیا ہے جس میں آپ کی اور اس مملکت خداداد کی بھلائی تھی۔

ہارون:    نہیں، بلکہ تم اس لیے اس سے ڈرتی تھیں کہ کہیں ہم اس کو تمھارے بیٹے کی جگہ ولی عہد نہ مقرر کر دیں!

زبیدہ:    اے امیر المومنین، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس جیسا متشدد عابد اور زاہد حکومت کے لیے موزوں تھا؟ حکمران بن کر سب سے پہلے بنو عباس کی بادشاہت کو ختم کرتا اور ایسا ہوتا تو کیا آپ کا خاندان اسے قتل نہ کر دیتا؟

ہارون:    ان شاء اللہ کل میں بصرہ جاؤں گا اور اس کی قبر کی زیارت کروں گا۔

زبیدہ:    ضرور جائیے اے امیر المومنین، تاکہ یہ غم کچھ ہلکا ہو۔

ہارون:    اور اس کی ماں کو بھی دیکھنے کے لیے جاؤں گا۔

زبیدہ:    اس کی ماں کو؟ آپ نے بتایا نہیں تھا کہ وہ مر چکی ہے۔

ہارون:    اطمینان رکھو زبیدہ، اس کی وہ ماں جس نے اسے جنا تھا اور جس کی وجہ سے تم پریشان ہوئی ہو۔ وہ مر چکی ہے۔ میری مراد اس ماں سے ہے جس نے اسے تربیت دی تھی۔

زبیدہ:    مجھے اندازہ ہے آپ اس سے اس لیے ملنا چاہتے ہیں کہ احمد کی ماں کے بارے میں باتیں کریں جو آپ کے دل کے قریب ہے۔ آخر وہ آپ کی محبوبہ تھی!

ہارون:    کاش ہم نے اسے یہ درجہ دیا ہوتا کاش۔ (اپنی جگہ سے اٹھ جاتا ہے۔ دربار برخاست ہو جاتا ہے)

آٹھواں منظر

(بصرہ کا قبرستان۔ خلیفہ ہارون الرشید اور عبداللہ باتیں کر رہے ہیں)

ہارون:    کہاں ہے اس کی قبر اے عبداللہ بن الفرج؟

عبداللہ:  یہیں ہے امیر المومنین، عبداللہ بن مالک کے احاطہ میں۔

ہارون:    خاموش، مجھے امیر المومنین نہ کہو۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی جان لے کہ میں کون ہوں۔

عبداللہ:  معافی چاہتا ہوں اے امیر!

ہارون:    ہارون۔

عبداللہ:  معافی چاہتا ہوں اے ہارون، مجھ سے غلطی ہو گئی۔

ہارون:    تو مجھے اس کی قبر کے متعلق نہ بتانا۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ قبر میرے پیارے بیٹے کی ہے۔

عبداللہ:  جی ہاں، بالکل ٹھیک، یہی قبر اس کی ہے اور یہ قبر اس کی والدہ کی ہے، دیکھیے اس پر اس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔

ہارون:    (پڑھتے ہوئے روتا ہے) یہ قبر اللہ کی رحمت کے ایک طالب کی ہے۔ احمد السبتی وفات ۱۷ رمضان المبارک بروز بدھ۔

نواں منظر

(الحاجہ کا گھر۔ ہارون الرشید اور عبداللہ اس سے باتیں کر رہے ہیں)

الحاجہ:     بسم اللہ …… خوش آمدید اے عبداللہ بن الفرج۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ سلامتی کے ساتھ واپس پہنچ گئے ہیں۔ کیا میرے بیٹے کی وصیت پہنچا دی تھی؟

عبداللہ:  جی ہاں۔

الحاجہ:     اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

عبداللہ:  محترمہ، آپ کے پاس ایک مہمان بھی آیا ہے۔

الحاجہ:     میں خوش آمدیدکہتی ہوں۔ آئیے اے امیر المومنین، کیا آپ اپنے بیٹے کی قبر کی زیارت کے لیے تشریف لائے ہیں؟

ہارون:    ہاں محترمہ، ہم عبداللہ بن الفرج کے ساتھ زیارتِ قبر کے لیے گئے تھے۔

الحاجہ:     کیا اس کے ساتھ والی قبر کی بھی زیارت کی تھی جناب نے؟

ہارون:    ہاں ہم نے امینہ کی قبر کی بھی زیارت کی تھی۔

الحاجہ:     اللہ تعالیٰ دونوں پر اپنا رحم فرمائے، ماں بیٹا دونوں ہی بڑے پاک سیرت تھے، انھوں نے دنیا سے منہ موڑ کر آخرت سے لو لگا لی تھی، بے شک آخرت کا گھر ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔

ہارون:    محترمہ، اب مجھے پتا چلا ہے کہ احمد نے زہد و تقویٰ کہاں سے حاصل کیا تھا۔

الحاجہ:     جی امیر المومنین، اس نے اپنی والدہ ماجدہ امینہ سے حاصل کیا تھا۔ جو بڑی ہی زاہد اور عابدہ تھی۔

ہارون:    کاش اے محترمہ ، آپ مجھ سے امینہ کے متعلق کچھ دیر باتیں کریں اور بتائیں کہ وہ آپ تک کیسے پہنچی؟

الحاجہ:     کیوں نہیں اے امیر المومنین! امینہ کی محبت مجبور کرتی ہے کہ میں اس کے متعلق باتیں کروں کیونکہ اس کی زندگی نیک اور صالحہ عورتوں کے لیے بھی نمونہ ہے۔ امیر المومنین پچیس سال قبل ایک رات کو میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو حسن و جمال کے پیکر کو اپنے سامنے پایا۔ جس کے چہرے کو حزن و ملال نے اور بھی خوب صورت بنا دیا تھا۔

دسواں منظر

(الحاجہ کا گھر۔ امینہ دروازے پر کھڑی ہے اور الحاجہ سے باتیں کر رہی ہے)

امینہ:      کیا آپ ہیں الحاجہ خدیجہ الحمویہ؟

الحاجہ:     ہاں بیٹی! اندر آجاؤ۔

امینہ:      اے نیک خاتون! میں ایک غریب الدیار، دکھوں کی ماری بے بس عورت ہوں۔ میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے کیا آپ بچے کی پیدائش تک اپنے ہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دیں گی اور تعاون فرمائیں گی؟ میں ساری عمر احسان مند رہوں گی۔

الحاجہ:     اے میری بیٹی! تمھارے والدین کہاں ہیں؟

امینہ:      میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھی جو اب فوت ہو گئی ہے۔

الحاجہ:     یہاں بصرہ میں؟

امینہ:      نہیں محترمہ، وہ بغداد کی ایک نواحی بستی میں رہتی تھیں

الحاجہ:     کیا نام ہے بیٹی تمھارا؟

امینہ:      میرا نام امینہ ہے۔

الحاجہ:     تم بسر و چشم یہاں رہو اور اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔

امینہ:      اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ ان شاء اللہ میں بھی آپ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گی۔

گیارہواں منظر

(الحاجہ کا گھر۔ الحاجہ اور خلیفہ باتیں کر رہے ہیں)

الحاجہ:     اس طرح وہ نیک بخت میرے گھر آئی۔ پھر اپنے زہد و تقویٰ اور نیکی کی وجہ سے اس نے بیٹی کا مقام حاصل کر لیا۔ جب اللہ نے اسے چاند سا بیٹا عطا فرمایا تو ہم نے اس کا نام احمد رکھا اور جب وہ ذرا بڑا ہوا تو معماروں کے پاس کام سکھانے کے لیے بھیج دیا۔ بخدا مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ہارون الرشید کا فرزند ارجمند ہے۔

ہارون:    کیا امینہ نے آپ کو سب کچھ بتا نہیں دیا تھا؟

الحاجہ:     نہیں امیر المومنین، پہلے پہل تو اس نے کچھ بھی نہیں بتلایا تھا۔ اور اللہ مجھے معاف کرے میں خود بھی بس یہی سمجھتی تھی کہ یہ اولاد گناہ کی ہے اور یہ لڑکی اب گناہ سے توبہ کرنا چاہتی ہے اور یہ عمل اللہ کے نزدیک بہت فضیلت والا ہے۔ اسی طرح وہ ہمارے ساتھ رہتی رہی حتیٰ کہ اسے ایک دن جان لیوا مرض نے آلیا۔ میں اور احمد اس کی چارپائی کے پاس بیٹھے تھے اس نے کہا:

امینہ:      اے نیک خاتون آج میں چاہتی ہوں کہ آپ کو بتلاؤں کہ احمد کے والد کا کیا نام ہے۔ اور پیارے احمد تمھارے لیے بھی ضروری ہے کہ میری موت سے پہلے جان لو کہ تمھارے والد محترم کون ہیں۔ ان کا نام ہارون الرشید ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید، لیکن جس وقت انھوں نے میرے ساتھ شادی کی تھی تو بتایا تھا کہ وہ بغداد کے تاجر ہیں۔ بعد میں انھوں نے بتایا کہ وہ امیر المومنین مہدی کے بیٹے اور ولی عہد ہیں۔ شادی کے بعد وہ کچھ دن ہمارے گھر رہے۔ پھر چلے گئے اور دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے۔

الحاجہ:     کیا تمھارا مطلب ہے کہ یہی امیر المومنین ہارون الرشید۔

امینہ:      ہاں …… یہ انگوٹھی انہی کی ہے۔ اب آپ اسے حفاظت سے رکھیں۔ جب احمد بڑا ہو جائے اور اپنے والد سے ملنا چاہے تو اسے یہ انگوٹھی دے دیں۔ وہ اسی انگوٹھی سے اسے پہچان لیں گے۔

بارہواں منظر

(الحاجہ کا گھر۔ الحاجہ اور خلیفہ باتیں کر رہے ہیں)

الحاجہ:     وہ ہم سے جدا ہو گئی۔ احمد مسلسل اصرار کرتا رہا کہ میں اسے آپ کے پاس جانے کی اجازت دے دوں حتیٰ کہ بفضل خدا وہ ایک جواں مرد بن گیا۔ ان دنوں اس نے اصرار کیا کہ …… امی حضور! اب تو میں جوان ہو گیا ہوں براہِ کرم ابا حضور کے پاس جانے کی اجازت دے دیجیے، لیکن میں نے کہا۔ بیٹے! مجھے ڈر ہے کہ تم دوبارہ لوٹ کر میرے پاس نہیں آؤ گے۔ اس نے کہا:

            میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں ڈ ر رہی ہیں، آپ ڈر رہی ہیں کہ کہیں اپنے والد محترم کی بادشاہت اور دنیاوی جاہ و جلال سے مرعوب ہو کر اللہ اور آخرت کو بھول نہ جاؤں …… لیکن اطمینان رکھیے امی حضور، ایسا کبھی نہ ہو گا۔ میں تو صرف اس لیے جانا چاہتا ہوں کہ انھیں کوئی نصیحت کر سکوں۔ شاید میری نصیحت سے وہ، عادل خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی طرح ہو جائیں۔ یا امیرالمومنین! یہ سن کر میں نے اسے اجازت دے دی اور انگوٹھی اور زادِ راہ دے کر رخصت کیا اور پھر جو کچھ وہاں ہوا آپ جانتے ہیں۔

ہارون:    ہاں خاتون! ہم نے اسے ولی عہد بنانا چاہا تو اس نے ہم سے سیرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مطابق زندگی گزارنے کی درخواست کی۔ ہم نے اسے دنیا عطا کرنا چاہی تو اس نے ہمارے لیے آخرت چاہی اور جب اسے وہ سب کچھ نہ ملا جو وہ چاہتا تھا تو وہ محل سے چلا گیا۔ ہم نے اس کے پیچھے آدمی دوڑائے ، مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا، حتیٰ کہ ایک دن یہ عبداللہ بن الفرج اس کی موت کی خبر لے کر آگئے۔

الحاجہ:     اے امیر المومنین، جب وہ واپس آیا تھا تو اس نے مجھے سارا واقعہ سنایا تھا۔

ہارون:    کیا کہا تھا اس نے؟

الحاجہ:     جب وہ مجھے یہ حالات سنا رہا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے کہا تھا امی حضور! ابو جان نے میری بات پر بالکل کان نہیں دھرا، ان کے محل کے سب لوگ خوشامدی ہیں۔ ان میں کوئی نہیں جو اللہ کی طرف رجوع کرے ۔ اس کی بات سن کر میں نے کہا تھا:جو کچھ تم نے اپنے والد سے طلب کیا ہے وہ کوئی آسان کام نہیں ۔ غم نہ کرو، تم نے نصیحت کرکے اپنا فرض ادا کر دیا۔ میری یہ بات سن کر اس نے کہا تھا:امی حضور! مجھے ڈر ہے کہ میدان حشر میں والد محترم کو کہیں ندامت نہ اٹھانی پڑے۔ امی حضور، کیا میں اپنے والد ِمحترم کے لیے کچھ نہیں کر سکتا؟ تب میں نے سمجھایا تھا:کیوں نہیں بیٹا، اللہ سے ڈرتے ہوئے عمل صالح کرتے رہو۔ اور اپنے والد ِمحترم کے لیے اللہ کے حضور دعائیں مانگو۔

ہارون:    ہائے افسوس! میں سمجھتا رہا کہ وہ میرے خلاف دل میں کینہ لیے چلا گیا تھا۔

الحاجہ:     نہیں …… امیر المومنین، وہ تو آپ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہتا تھا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ سارا دن محنت مزدوری کرتا تھا تاکہ فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ و خیرات کر سکے اور رات کو قیام کیا کرتا تھا۔ استغفار کرتے اس کی زبان نہ تھکتی تھی۔ اس مشقت سے اس کے جسم میں کمزوری نمایاں ہونی شروع ہو گئی۔ امیر المومنین، مجھے تو اس پر ترس آتا تھا۔ سمجھاتی، بیٹے تم اپنے آپ کو کیوں ہلکان کر رہے ہو۔ جسم بہت کمزور ہو گیا ہے، اب لوگوں کے ہاں کام کرنا چھوڑ دو۔ میرے پاس اتنا اندوختہ ہے کہ ہم دونوں کا گزارا ہو سکتا ہے، لیکن وہ کہتا۔ نہیں امی حضور، بہترین عمل صدقہ ہے اور بہترین مال وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں سے کماتا ہے۔ مجھے بہترین مال سے صدقہ کرنے دیجیے۔ شاید اللہ سبحانہ’ تعالیٰ میرے والد محترم امیر المومنین کی مغفرت فرما دے۔ (کچھ دیر رک کر)

            اے امیر المومنین، آپ نے مجھ سے بہت سے سوالات پوچھے ہیں۔ کیا مجھے بھی اجازت ہے کہ آپ سے سوال کر سکوں؟

ہارون:    کیوں نہیں ضرور پوچھئے۔

الحاجہ:     آپ نے احمد کی ماں امینہ سے کیسے شادی کی، پھر اسے کیوں چھوڑ دیا؟ حتیٰ کہ اسے یہاں بصرہ میں پناہ لینا پڑی……

ہارون:    بہت اچھا اے نیک خاتون! میں وہ سب کچھ بتاؤں گا جو آپ سننا چاہتی ہیں۔ اپنے والد ِمحترم کے زمانے میں جب کہ میں سترہ برس کا نوجوان تھا۔ ایک دن گھوڑے پر بغداد کے نواح میں سیر کر رہا تھا کہ میں نے ایک دوشیزہ کو دیکھا جو اپنی جھونپڑی کے سامنے بکری کا دودھ دوہ رہی تھی۔ میں بہت پیاسا تھا اس لیے اس سے دودھ مانگ کر پیا۔ اس کی حیا اور میٹھی باتوں نے میرا دل موہ لیا۔ پھر ہر شام اس کے پاس جانا شروع کر دیا۔ اس طرح وہ اپنے بہترین اخلاق کی بدولت میری محبوب ترین ہستی بن گئی۔ میں نے اسے اور اس کے اہل خانہ کو بتایا کہ میں ایک تاجر ہوں۔ پھر میں نے اپنے والد ِمحترم سے چھپ کر اس سے شادی کر لی۔ والد صاحب نے میری منگنی میری چچا زاد سے کر رکھی تھی۔ کچھ دن بعد انھوں نے زبیدہ سے میری شادی کر دی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد والد ِمحترم کا انتقال ہو گیا اور مجھے حکومت کی ذمہ داریوں نے آ گھیرا، تاہم مصروفیت سے ذرا جان چھوٹی تو فوراً ملاقات کے لیے گیاتاکہ حقیقت حال اس پر منکشف کر دوں اور اس کو محل میں لے آؤں۔ ملاقات ہوئی تو امینہ نے کہا۔ اتنا لمبا عرصہ آپ ہم سے دور کیوں رہے؟ میں نے کہا آج دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ اب تم ہمارے ساتھ ہی بغداد کے محل میں رہو گی۔ وہ بولی:کیا آپ نے بغداد میں محل خرید لیا ہے؟ میں نے کہا:نہیں امینہ ہم نے خریدا نہیں ، بلکہ ابا حضور سے ورثے میں ملا ہے۔ وہ بولی:لاحول ولا قوۃ الا باللہ، آپ کے والد محترم وفات پا گئے اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ میں نے کہا:لیکن تم نے ہمارے والد محترم کی وفات کے متعلق ضرور سنا ہو گا۔ وہ بولی:نہیں سرتاج! مجھے کیسے خبر ہو سکتی ہے۔ میں تو انھیں جانتی بھی نہیں۔ بس اتنا ضرور معلوم ہے کہ ان کا اسم گرامی محمد بن عبداللہ ہے۔ میں نے کہا:اس مملکت میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے ہمارے والد محترم کی وفات کا علم نہ ہو۔ وہ بولی:کیا مطلب ہے آپ کا؟ اب میں نے بتایا ،کیا تم نے امیرالمومنین المہدی کی رحلت کی خبر نہیں سنی؟وہ بولی: جی ہاں سنی ہے۔ میں نے کہا:وہی تو ہمارے والد محترم ہیں۔ وہ حیران ہو کر بولی:آپ کے والد؟ کیا وہ آپ کے والد ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اور ہم ہیں ہارون الرشید۔ میری یہ بات سنی تو وہ ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ میں نے کہا کیوں رو رہی ہو پیاری؟ کیا تمھیں خوشی نہیں ہوئی کہ تمھارے شوہر امیر المومنین ہیں۔اس نے کہا: نہیں۔میں آپ کو کھو چکی ہوں ہارون! اب مجھے بھول جائیں۔

            کیا مطلب ہے تمھارا؟ میں نے سوال کیا۔

            تم تو زبیدہ بنت جعفر کے شوہر ہو۔ میں نے سمجھایا:اور امینہ کا شوہر تو زبیدہ سے پہلے ہوں۔چھوڑیئے رہنے دیجیے۔ وہ تو آپ کی چچا زاد ہے اور آپ ہی کے حسب نسب سے ہے۔ میں نے کہا: لیکن تم تو ہماری پہلی محبوبہ ہو۔ وہ بولی:رہنے دیجیے! ہارون بس آج کے بعد ہمیں بھول جاؤ۔امینہ، تمھیں کوئی حق نہیں ہے کہ تم ہماری محبت کا گلا گھونٹ دو۔ اس نے کہا:اچھا تو بتائیں آپ مجھے کہاں رکھنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: اپنے پاس۔ وہ بولی:ملکہ زبیدہ کو تکلیف نہ ہو گی؟یہ بات تمھارے سوچنے کی نہیں ہم جانتے ہیں کہ اسے کیسے خوش رکھا جا سکتا ہے۔اس نے کہا، اب مجھے آپ کی نیت کا پتا چلا ہے۔ میں نے سوال کیا:کیا مقصد ہے تمھارا؟ وہ بولی:اللہ آپ کی محبت میں اضافہ فرماوے کیا آپ محل میں مجھے وہ مرتبہ دے سکیں گے جو آپ نے اپنی چچا زاد ملکہ زبیدہ کو دیا ہے؟ میں اس کی اس بات کا جواب نہ دے سکا اور مجھے خاموش دیکھ کر وہ بولی: کیا بات ہے آپ جواب نہیں دے رہے۔ بولیے۔ جواب دیجیے! میں نے کہا:یہ تو ہم سے نہ ہو سکے گا، لیکن تمھیں ہم محل …… وہ بات کاٹ کر بولی:میری بات غور سے سنئے ہارون ، …… میں نے یہ جانے بغیر آپ سے شادی کی تھی کہ آپ امیر المومنین المہدی کے بیٹے ہیں۔ میں تو آپ کو عام لوگوں میں سے سمجھتی تھی۔ اگر مجھے پتا چل جاتا کہ آپ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ سے کبھی شادی نہ کرتی۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے بہتر طریقے سے طلاق دے دیں۔ میں نے کہا: نہ ، کبھی نہیں، میں طلاق نہیں دے سکتا۔ میں تو تم سے شدید محبت کرتا ہوں۔ وہ بولی:اچھا تو پھر مجھے آپ یہیں اسی حالت میں رہنے دیجیے۔ جب کبھی آپ کا دل کرے مل جایا کرنا۔ میں نے کہا:نہیں امینہ! آج کے بعد میرا یہاں آنا میرے بس میں نہیں۔ وہ طنز بھری آواز میں بولی ،ہاں اس طرح زبیدہ جان جائے گی کہ اس کے علاوہ بھی آپ کی کوئی بیوی ہے اسی بات سے ڈر گئے نا آپ؟ میں بگڑ کر بولا: یہ کیا تم نے زبیدہ زبیدہ کی رٹ لگا رکھی ہے؟ وہ بولی: کیا ان کے ذکر سے آپ کو غصہ آجاتا ہے؟ میں نے کہا: بچوں کی سی باتیں نہ کرو وہ میری چچا زاد بھی ہے۔ اس نے کہا: جائیے امیر المومنین اس سے محبت کیجیے اور مجھے طلاق دے دیجیے۔ میں نے فیصلہ سنا دیا:نہیں! ہم تمھیں کبھی طلاق نہیں دیں گے، بلکہ تمھیں زبردستی محل میں لے جائیں گے۔ یہ سن کر وہ بولی:یاد رکھیے ہارون! میں آزاد ہوں لونڈی نہیں۔ میں نے کہا: ہم امیر المومنین ہیں، وہ کہنے لگی:مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں۔

الحاجہ:     تو پھر اے امیر المومنین، کیا آپ اس سے ملتے رہے؟

ہارون:    نہیں خاتون! ہمیں ندامت ہے کہ ہمیں اس پر غصہ آگیا تھا اس لیے کچھ دن بعد ہم اسے منانے اور اپنے محل میں لانے کے لیے گئے، مگر جھونپڑی کو خالی پایا۔ ہم نے اس کی تلاش میں فوجی دستے بھیجے، مگر کوئی سراغ نہ مل سکا۔

الحاجہ:     کیا آپ جانتے تھے کہ وہ حاملہ تھی؟

ہارون:    ہاں محترمہ، ہمیں پتا تھا۔ اسی غم نے ہمیں نڈھال کیے رکھا اور اس تمام عرصہ میں حسرت و یاس کی تصویربنے رہے۔

الحاجہ:     اللہ اس پر اپنا رحم فرمائے۔ وہ آپ سے شدید محبت کرتی تھی۔

ہارون:    کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ وہ آپ کے ہاں مقیم ہے!

الحاجہ:     جو ہوا سو ہوا امیر المومنین، یہی اللہ کی مشیت تھی۔ (خاتون کی یہ بات سن کر ہارون بے بسی سے آسمان کی طرف منہ اٹھاتا ہے اور پھر سر جھکا لیتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں)