چاہ یوسفؑ (چاہِ کنعان)

مصنف : حافظ نذر احمد

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2005

یوسف علیہ اسلام کے کنوئیں کی تاریخ ایک محقق کے قلم سے

آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

            ارضِ مقدس(فلسطین) کا یہ کنواں ‘‘چاہِ یوسف ؑ’’ اور ‘‘چاہِ کنعان’’ دو ناموں سے مشہور ہے۔ یہ تاریخی کنواں کبھی کا خشک ہو چکا ہے۔ توریت مقدس کا بیان ہے کہ جب ننھے یوسف ؑکو کنوئیں میں گرایا گیا اس وقت اس میں پانی نہ تھا…… لیکن اس کنوئیں کی عظمت اس کے پانی سے نہیں بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ایک گونہ نسبت کے سبب سے ہے۔

            حضرت یوسف علیہ السلام کا زمانہ ۱۹۰۰ تا ۱۸۰۰ قبل مسیح متعین کیا گیا ہے۔ وطن جرون تھا۔ اس قصبہ کا دوسرا نام ‘‘الخلیل’’ ہے۔ کیوں نہ ہو ‘‘ـخلیل اللہ’’ کی اولاد کی نگری ہے۔ یہ بستی ارضِ مقدس کے مشہور شہر بیت المقدس کے قریب ہی واقع ہے۔ چار ہزار سال پرانی یہ بستی آج بھی موجود ہے۔

برادرانِ یوسف:

            حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ سرد مہری برتی۔ بلکہ جو شقاوت اور سنگدلی اختیار کی وہ ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ آج بھی اگر بڑے بھائی اپنے چھوٹے بھائی سے ناروا سلوک کریں تو ‘‘برادرانِ یوسف ؑ’’ کا لقب پاتے ہیں۔

            حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پیاری عادات، موہنی صورت اور عمر میں سب سے چھوٹے ہونے کے سبب سب کے منظورِ نظر تھے۔ خصوصاً حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے اس بچے سے بے پناہ محبت تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان سے جلنے لگے۔ یوں بھی بن یا مین کے سوا ان کا کوئی حقیقی بھائی نہ تھا، اور سوتیلے بہن بھائی اکثر رقابت کا شکار ہو جایا کرتے ہیں …… پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے خوابوں نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ انھوں نے ننھی عمر ہی میں کچھ خواب دیکھے جو ان کے روشن مستقبل کا پتا دے رہے تھے۔ ان کی تعبیر سے سوتیلے بھائیوں کے دلوں میں حسد کی آگ اور بھڑکی۔

برادرانِ یوسف کی سازش:

            یوسف علیہ السلام جیسے معصوم پیارے بھائی کے خلاف ان لوگوں نے ایک خوف ناک سازش کی۔ سب مل کر باپ کے پاس گئے اور یوسف علیہ السلام کو جنگل ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی۔ کہنے لگے ہم بھیڑ بکریاں چرائیں گے۔ شکار کریں گے۔ یوسف ؑہمارے ساتھ کھیلیں گے۔ خوب تفریح رہے گی۔ بیٹوں کے مسلسل اصرار اور حفاظت کے پختہ وعدوں پرحضرت یعقوب علیہ السلام یوسف کوبھیجنے پر بادلِ نخواستہ راضی ہو گئے۔

            گھر سے نکل کر یہ لوگ دریائے اردن کے کنارے پہنچے۔ جنگل میں ‘‘دو تین’’ شہر کے قریب انھوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ بنانا چاہا۔ روبن نے سخت مخالفت کی۔ اس نے مشورہ دیا کہ یوسف ؑکے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگیں، اور اس کا خون اپنے ذمہ نہ لیں، بلکہ کنوئیں میں دھکا دے دیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی راہ چلتا مسافر نکال کر یہاں سے کہیں دور لے جائے۔ اس طرح یہ کانٹا راستہ سے ہٹ جائے گا اور اس کا خون بھی سر نہ چڑھے گا۔روبن کی یہ تجویز ان کی سمجھ میں آ گئی۔ پہلے انھوں نے ‘‘بوقلمونی قبا’’ یوسف علیہ السلام کے جسم سے زبردستی اتاری، پھر کنوئیں میں دھکا دے دیا۔ یہ قبا حضرت یعقوب علیہ السلام نے خاص طور پر ان کے لیے تیار کروائی تھی۔ یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں گرا کر وہ اپنی جگہ بالکل مطمئن ہو گئے۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ آج جسے اپنی راہ کا کانٹا سمجھ رہے ہیں کل وہی ان کا محسن ہو گا، اور پورے خاندان کو فقر و فاقہ سے نجات دلائے گا۔

چاہِ یوسفؑ کی تحقیق:

            قرآن مجید میں اس کنوئیں کا ذکر موجود ہے۔ عربی زبان میں کنوئیں کو ‘‘بئر’’ اور ‘‘جُب’’ کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجیدمیں اس کنوئیں کے لیے لفظ ‘‘جُب’’ ہی آیا ہے۔ ارشاد ہے ‘‘قال قائل منھم لا تقتلوا یوسف والقوہ فی غیابۃ الجب۔’’ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔ یوسف ؑکو قتل نہ کرو۔ بلکہ اسے کنوئیں میں گرا دو۔’’(سورۂ یوسف۱۲:۱۰)

            لفظ ‘‘جُب’’ کے دو معنی ہیں: (۱) جڑ سے کاٹ دینا۔ (۲) کنواں۔ یہاں یہ لفظ اپنے دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ دراصل ‘‘جُب’’ ایسے کنوئیں کو کہتے ہیں جس کی منڈیر اینٹوں وغیرہ سے باقاعدہ نہ بنائی گئی ہو، اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہو۔ جس کنوئیں کی منڈیر اور دیواریں ہوں اسے عربی میں ‘‘بئر’’ کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن۔ راغب)

            اس کنوئیں کا محل وقوع جاننے کے لیے ذرا اس کے گرد و پیش پر نظر ڈال لیجیے۔ بیت المقدس فلسطین کا مرکزی شہر ہے ارضِ مقدس کے اس شہر سے کوئی پچیس میل کے فاصلہ پر دریائے اردن بہتا ہے۔ یہ دریا اس قدر اہم ہے کہ اس کی نسبت سے پورے ملک کا نام ہی شرقِ اردن پڑ گیا۔

            دریائے اردن کے کنارے طبریہ سے دمشق کو جاتے ہوئے تقریباً بارہ میل کے فاصلہ پر چاہِ یوسفؑ کا مقام آتا ہے۔ طبریہ فلسطین کا ایک تاریخی شہر ہے۔ اور دمشق ملک ِشام کا دارالخلافہ ہے۔ طبریہ کے دوسری سمت فلسطین کی ایک دوسری قدیم ترین بستی ناصریہ واقع ہے۔ اسے انگریزی میں ‘‘نزرات’’ (Nazarath) کہتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے انھیں ‘‘مسیح ناصری’’ کہتے ہیں۔ اور ان کے ماننے والے عیسائی اور مسیحی کے علاوہ ‘‘نصرانی’’ اور ‘‘نصاریٰ’’ بھی کہلاتے ہیں۔

            یہ کنواں آبادی سے دور جنگل بیابان میں تھا۔ جیسا کہ بائبل کے اس بیان سے واضح ہے:‘‘اور ان سے کہا۔ خونریزی نہ کرو۔ لیکن اسے کنوئیں میں ڈال دو۔ جو بیابان میں ہے۔’’(کتاب پیدائش ۳۷:۱۹،۲۰)اسی کتاب پیدائش کے باب ۳۷ کی آیت ۲۴ کا بیان ہے۔ ‘‘اسے پکڑ کر کنوئیں میں ڈال دیا۔ وہ کنواں سوکھا تھا۔ اس میں بانی کی بوند نہ تھی۔’’

            ہمارے اکثر مفسرین کرام نے اس بیان سے اختلاف کیا ہے۔

            چاہِ یوسف ؑکا تذکرہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی کیا ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنی سیاحت کے دوران میں اس کنوئیں کی زیارت کی تھی۔ ابن بطوطہ کے بیان کے مطابق یہ کنواں ایک رہگذر پر تھا ۔ اگلے وقتوں میں کنوئیں عام طور پر راستوں پر ہی بنائے جاتے تھے۔ تاکہ مسافروں کو پانی کی سہولت رہے۔ چنانچہ قافلے عام طور پر کارواں سراؤں کے علاوہ کنوؤں پر ہی پڑاؤ ڈالتے تھے۔

            مشہور مفسر امام نسفی نے اپنی کتاب ‘‘مدارک التنزیل’’ میں لکھا ہے کہ یہ کنواں حضرت یعقوبؑ کے گھر سے تین فرسخ یعنی تقریباً بارہ میل کے فاصلہ پر تھا اور اس وقت کنوئیں میں پانی موجود تھا۔ چنانچہ بھائیوں نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں گرایا تو انھوں نے مینڈھ پر پناہ لی۔ اور کنوئیں میں سیدھے کھڑے ہو گئے۔

            حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر کا یہ ابتدائی حصہ تھا۔ بائبل کی روایت کے مطابق اس وقت ان کا سن سترہ برس کا تھا۔ (ملاحظہ ہو ‘‘توراۃ مقدس’’ کتابِ پیدائش باب ۳۷:۳)

            حضرت یوسف علیہ السلام کنوئیں میں کتنا عرصہ رہے؟ اس بارہ میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن قرائن سے اندازہ ہو تا ہے کہ زیادہ عرصہ نہیں رہے۔ جلد ہی ادھر سے ایک قافلے کا گزر ہوا۔ کسی نے پانی نکالنے کے لیے کنوئیں میں ڈول ڈالا۔ آپ نے اسے غیبی مدد جانا۔ ڈول کی رسی پکڑ لی اور اس میں بیٹھ کر باہر نکل آئے۔(اس کے بعد کیا حالات پیش آئے وہ سب قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ ہمارا مقصد چونکہ کنوئیں کی تحقیق تھا اس لیے باقی کہانی میں دلچسپی رکھنے والے قارئین قرآن مجید سے رجوع فرمائیں)

ایک تمثیل:

            حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔

            دونوں کی داستانِ حیات کا آغاز مصائب سے ہوتا ہے …… اپنوں کے ہاتھوں مصائب، قید و بند، جلا وطنی اور ہجرت دونوں کے ہاں مشترک ہیں …… کامیابی اور عروج کا انداز بھی ایک جیسا ہے اور آخر دونوں کے دشمن دست بستہ حاضر ہوتے ہیں۔ اور لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم (سورۂ یوسف ۱۲:۹۲) کا مژدۂ جانفزا سنتے ہیں …… غالباً اسی لیے حضرت یوسف علیہ السلام کی داستانِ حیات کو قرآن مجید میں ‘‘احسن القصص’’ کہا گیا ہے۔

(بحوالہ: دیواریں اور غاریں-مصنفہ: حافظ نذر احمد)