جیسا بونا ویسا کاٹنا ، اور سفر

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2005

سفر کا آغاز ہمیشہ آج سے ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اپنے سفر کا آغاز کل سے کرنا چاہتے ہیں زندگی کے سفر کا سب سے زیادہ کامیاب آغاز یہ ہے کہ آدمی جہاں ہے وہیں سے وہ اپنا سفر شروع کر دے۔ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرکے اپنی دنیا بنائے۔

            انسان کی زندگی دو ادوار میں تقسیم ہے۔ قبل ازموت دور (pre-death period)اور بعد از موت دور (post-death period)۔ موت سے پہلے کا محدود دور ٹسٹ کے لیے ہے اور موت کے بعد کا ابدی دور ٹسٹ کے مطابق اچھا یا برا انجام پانے کے لیے۔ ٹسٹ میں پورا اترنے والوں کے لیے جنت ہے اور ٹسٹ میں فیل ہونے والوں کے لیے جہنم۔

            خالق کے مطابق، یہی اس دنیا کے لیے تخلیق کا نقشہ ہے۔ مگر جنت اور جہنم دونوں کی نوعیت یکساں نہیں۔ تخلیق کا اصل مقصود اہل جنت ہیں۔ جہاں تک اہل جہنم کا تعلق ہے ، وہ تخلیق کا صرف اضافی جز ہیں، وہ اس کا حقیقی جز نہیں۔ اہل جہنم کا اصل رول یہ ہے کہ وہ اس ماحول کو بناتے ہیں جس میں لوگوں کا ٹسٹ لیا جا سکے اور اس کے مطابق اہل جنت کی سلیکشن ہو سکے۔

            موت سے پہلے کی دنیا ٹسٹ کے تقاضوں کے مطابق بنائی گئی ہے۔ ٹسٹ کی مدت پوری ہونے کے بعد نہ اس دنیا کی ضرورت رہے گی اور نہ اس ٹسٹ میں فیل ہو جانے والوں کی۔ اس مدّت کے پورا ہونے کے بعد کائنات میں صرف جنت باقی رہے گی اور وہ لوگ جو جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے لیے منتخب کیے گئے ہوں گے۔

            اس تخلیقی اسکیم سے لوگوں کو با خبر کرنے کے لیے خالق نے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ پہلا انتظام یہ کہ خود انسان کی فطرت میں اس کا گہرا شعور رکھ دیا گیا ہے۔ ہر انسان کا یہ تجربہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کو کامل تسکین نہیں ملتی۔ یہاں نہ غریب آدمی اپنی مطلوب تسکین حاصل کرتا ہے اور نہ امیر آدمی۔ یہاں نہ کمزور آدمی کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور نہ طاقت ور آدمی کو۔ یہاں ہر آدمی بے تسکینی کی حالت میں جیتا ہے اور تھوڑے دنوں کے بعد اسی حال میں مر جاتا ہے۔ یہ عمومی بے تسکینی کی حالت ہر عورت اور مرد کو یاد دلاتی ہے کہ تمھاری منزل کوئی اور ہے۔ تمھاری مطلوب دنیا قبل از موت دورِ حیات میں موجود نہیں۔ اس لیے اس کو بعد از موت دورِ حیات میں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

            اس تخلیقی نقشہ سے با خبر کرنے کے لیے خالق نے بہت سے انتظامات اس دنیا میں کیے ہیں۔مثلاً موجودہ دنیاکو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی آرام کی زندگی نہ پا سکے۔یہاں مسائل ہیں، یہاں بیماری ہے، یہاں حادثات ہیں، یہاں بورڈم ہے، یہاں طرح طرح کے نقصانات ہیں اور پھر تھوڑی مدت کے بعد اچانک مر جانا ہے۔ اس طرح دنیا کے ناموافق حالات بار بار آدمی کو یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ تم اپنی مطلوب دنیا یہاں نہیں بنا سکتے۔ یہ دنیا تمھاری تمناؤں کی تکمیل کے لیے فیصلہ کن طور پر ناکافی ہے۔ یہ ناموافق صورتِ حال آدمی کو مسلسل حقیقت کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔

            اسی طرح موجودہ دنیا میں بہت سے لوگ مصیبت (Suffering) میں مبتلا ہو کر لوگوں کے لیے نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ ایک شخص مفلوج ہو کر وہیل چیئر پر جی رہا ہے، یا کسی لا علاج بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کی کشش کھو دیتا ہے۔ اس طرح کے مختلف لوگ گویا خالق کی طرف سے نشان منزل (Sign post)کا کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا کی زندگی کتنی بے حقیقت ہے۔ ایسے لوگ گویا خاموش زبان میں بتا رہے ہیں کہ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خود سے اپنی مرضی کی دنیا اپنے لیے بنا سکے۔

            حالات کے کورس میں جن لوگوں کو اس طرح سائن پوسٹ کا رول ادا کرنے کا موقع ملے وہ لوگ اگرچہ بظاہر مصیبت میں دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ موت کے بعد آنے والے فیصلہ کے دن ان سے چھوٹے عمل کو قبول کر لیا جائے گا۔ اپنی مصیبت کی بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ وہ کوئی بڑا عمل کر سکیں۔ اس بنا پر ان کے لیے یہی کافی ہو جائے گا کہ وہ اپنے اس رول پر راضی ہو جائیں جو سائن پوسٹ کی حیثیت سے ان کے لیے مقدر ہوا تھا۔ وہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے ہیں اس پر صبر کرلیں۔ صبر اور رضا مندی ہی کی بنا پر کسی مزید عمل کے بغیر ان کو جنت میں داخلہ مل جائے گا۔

            اسی کے ساتھ زندگی کی اس حقیقت کا لفظی اعلان پیغمبروں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ پیغمبروں نے بتایا کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں تم اپنی پسند کی دنیا نہیں بنا سکتے۔ یہاں تم اچھے عمل کرو تاکہ بعد از موت دورِ حیات میں تم اپنی پسند کی دنیا پا سکو۔ جنت اگلی دنیا میں بنے گی، لیکن جنتی انسان آج ہی کی دنیا میں بن رہا ہے۔

            جنت کیا ہے۔ موجودہ دنیا کو دیکھ کر جنت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دنیا ایک اعتبار سے گویا جنت کا تعارف ہے۔ یہ جنت کا ایک بہت چھوٹا نمونہ ہے۔ جنت دراصل موجودہ دنیا کا تکمیلی ایڈیشن ہے۔ موجودہ دنیا میں جو نعمتیں ہیں وہی تمام نعمتیں جنت میں بھی ہیں، فرق یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناقص ہے اور جنت اس کے مقابلہ میں کامل۔ موجودہ دنیا غیر معیاری ہے اور جنت کی دنیا معیاری۔ موجودہ دنیا فانی ہے اور جنت کی دنیا ابدی۔ موجودہ دنیا میں خوف اور حزن ہے، یہاں شور اور تکلیف ہے جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ خوف ہو گا اور نہ حزن، جہاں نہ شور ہو گا اور نہ ہی تکلیف۔موجودہ دنیا محدودیت اور ڈس ایڈوانٹیج سے بھری ہو گی۔ جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ محدودیت ہو گی اور نہ کسی قسم کا ڈس ایڈوانٹیج۔ جنت میں انسان کو فل فلمنٹ حاصل ہو گا جب کہ موجودہ دنیا میں کسی کو بھی فل فلمنٹ حاصل نہیں ہوتا۔

            جہنم وہ جگہ ہے جو اس کے بالکل برعکس ہو گی۔ جہنم کی دنیا میں وہ تمام تکلیفیں مزید اضافہ کے ساتھ جمع کر دی جائیں گی جن کا تجربہ ہم موجودہ دنیا میں کرتے ہیں۔

            موت سے پہلے کا دور اور موت کے بعد کا دور، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بونے اور فصل کاٹنے میں ہوتی ہے۔ موت سے پہلے کا زمانہ گویا بونے کا زمانہ ہے، اور موت کے بعد کا زمانہ گویا فصل کاٹنے کا زمانہ۔ جیسا بونا ویسا کاٹنا، یہ ایک ابدی اصول ہے۔ یہ اصول بعد از موت دورِ حیات پر بھی اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ قبل از موت دورِ حیات پر۔

٭٭٭

            سفر کا آغاز ہمیشہ آج سے ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اپنے سفر کا آغاز کل سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی مزاج ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ اکثر لوگ غیر مطمئن زندگی گزار کر مر جاتے ہیں۔ وہ اپنا نشانہ پورا کیے بغیر موجودہ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

            ہر آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کو کچھ حالات ملتے ہیں۔ اگر بالفرض خارجی طور پر اس کو کچھ چیزیں نہ ملیں تب بھی اس کا اپنا وجود اس کو یقینی طور پر حاصل رہتا ہے۔ زندگی کے سفر کا سب سے زیادہ کامیاب آغاز یہ ہے کہ آدمی جہاں ہے وہیں سے وہ اپنا سفر شروع کر دے۔ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرکے اپنی دنیا بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو چیز اس کو ابھی نہیں ملی ہے اس کو پانے کے لیے اپنی ساری توجہ لگا دے۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میں پازیٹو اسٹیٹس کوازم(Positive Status Quoism)کہا جا سکتا ہے۔ یعنی ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر موجودہ حالات کو قبول کر لینا اور بر وقت جو مواقع(opportunities)موجود ہیں ان کو استعمال کرکے پر امن انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔

            پیدا ہونے کے بعد آدمی کو بر وقت جو کچھ ملا ہوا ہوتا ہے وہ اس کو اپنے حوصلہ کے مقابلہ میں کم معلوم ہوتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ پہلے زیادہ حاصل کرے اور اس کے بعد زندگی کی مثبت تعمیر کی طرف بڑھے۔ مگر یہ سوچ غیر فطری ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ملے ہوئے کو مواقع کی نظر سے دیکھا جائے اور اس کو لے کر فوراً ہی زندگی کی مثبت تعمیر شروع کر دی جائے۔

            حاصل شدہ نقشۂ کار کے اندر مثبت جدوجہد کرنے کا نام پازیٹیواسٹیٹس کوازم ہے۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ جو لوگ حاصل شدہ نقشۂ کار کو ناکافی سمجھ کر نئے نقشۂ کار کی طرف دوڑیں ان کے لیے اس دنیا میں تباہی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔

            زندگی کی جدوجہد ہمیشہ ملے ہوئے سے ہوتی ہے۔ جو لوگ نہ ملے ہوئے سے زندگی کی جدوجہد شروع کرنا چاہیں وہ یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ ان کی جدوجہد کبھی شروع ہی نہ ہو۔