زلزلے ، آفات معصوم لوگوں پر کیوں آتے ہیں؟

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : نومبر 2005

افاداتِ غامدی ’ تحریر: محمد صدیق بخاری

            حالیہ زلزلے کے بعد یہ سوال ایک بار پھر شدت سے دہرایا جار ہا ہے کہ قدرتی آفات ’ زلزلے اورسیلاب وغیر ہ کیوں آتے ہیں اور معصوم بچے ’ بے گناہ عورتیں اورصالح جوان بھی آخر کیوں اس کا شکار ہو جاتے ہیں؟ کیا اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا یا وہ اند ھا دھند فیصلے کرتا ہے؟یا پھر یہ ہے کہ اسے اپنی مخلوق پر رحم نہیں آتا وغیرہ۔

            اصل میں ایسے اشکالات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم اس کائنات کی سکیم کو سمجھنے کے بجائے اپنے ذہن اور معیار کے مطابق قیاس آرائیاں کر نے لگتے ہیں۔ اس کائنا ت کے خالق نے یہ کائنات عدل اور مساوات کے اصول پر نہیں بنائی بلکہ آزمائش کے اصول پر بنائی ہے ۔ عدل کا تقاضا تو واقعتا یہ ہی ہے کہ معصوم بچے اور صالح لوگ آفات اور مصائب سے بچ جائیں۔ لیکن جب یہ اصول کائنات میں کار فرماہی نہیں تو پھر ہم اس کی توقع کیوں کر تے ہیں؟ خالق نے ہر فرد اور ہر قوم کے لیے آزمائشیں طے کر رکھی ہیں۔ اور وہ اپنی حکمت کے مطابق ان پر یہ امتحان اور آزمائشیں بھیجتا رہتاہے۔ہر ہر فرد کی نوعیتِ امتحان مختلف ہے ۔ گویا کہ کمر ہ امتحا ن میں پیپر تو ہو رہا ہے لیکن ہر امید وار کا پیپر الگ الگ ہے اور اس طر ح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر امید وار کی اصل لیاقت اور استعداد جانچی جا سکے۔

            دوسرے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ اس کائنات کا مالک ہے ہم اس کی مِلک ہیں ۔ مالک کو اپنی ملک پر پورا پورا اختیار ہوتاہے اور مِلک کو کبھی اعتراض کا حق نہیں ہوتا۔ مالک اپنی ملک کے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ملک سے جو چاہے کام لے ’ جتنا چاہے کام لے اور جب چاہے کام لے۔ اس کو جن حالات میں چاہے رکھے ’ جتنا چاہے رکھے اور جب چاہے رکھے۔ اللہ کے مالک ہونے کا تصور یقینا ہمارے بہت سے اشکالات کو رفع کرسکتا ہے۔

            تیسر ی بات یہ ہے کہ اس طر ح کی آفات موت کی ایک اجتماعی شکل ہوتی ہیں۔ اللہ موت کو ایک ہی وقت میں اورا یک ہی جگہ جمع کر کے نمایاں کر دیتا ہے تا کہ دوسروں کو تنبہ ہو۔ موت ہمارے ارد گرد دن رات ہوتی رہتی ہے لیکن وہ چونکہ ایک معمول کی چیز بن گئی ہے اس لیے بعض اوقات اپنے ماحول کی اموات سے ہمیں تنبیہ نہیں ہوتی تو اللہ اس طرح ایک نیاانتظام کردیتے ہیں۔ہمار ے ماحول میں دن رات معصوم بچے بھی مر رہے ہیں ’ بے گنا ہ عورتیں اور صالح جوان بھی مر رہے ہیں کوئی بیماری سے ’ کوئی حادثے سے ’ کوئی ویسے ہی لیکن ہم ان کے بارے میں یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ اللہ ظالم ہے کہ اس نے معصوم بچے کو کیوں ماردیا؟ چونکہ گھروں ، گلی محلوں ، شہروں اورملکوں میں انفرادی طور پر آنے والی موت اور اس کے طریقوں کو ہم جانتے اوران کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں اور اس طرح کے آفات کے لیے تیار نہیں ہوتے اس لیے یہ عجیب محسوس ہوتا ہے۔ ورنہ یہ بھی اصل میں موت کا مظاہر ہ ہی ہے بس ذرا اجتماعی شکل میں ہے۔جس طرح ہم اپنے ماحول میں یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اس کی موت اسی طرح مقد ر تھی تو یہاں بھی یہی اصول ہے کہ ان لوگوں کی موت بھی اسی طرح مقدرتھی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس دنیا میں روزانہ پندرہ لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن چونکہ وہ الگ الگ جا رہے ہوتے ہیں اس لیے ہم محسوس نہیں کرتے ۔ اگر انہی پند رہ لاکھ لوگوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو کتنی ہیبت ناک صورت حال ہو جائے گی۔ایسے ہی اسے سمجھ لیں کہ زلزلے کے شکار لوگوں پر موت تو آنی ہی تھی بس اسے ایک جگہ جمع کر دیاگیاہے۔ جس طر ح عام ماحول میں نیک، بد، عورت، مرد، بوڑھے ،جوان اوربچے ہر کسی پر کسی تخصیص یا استحقاق یا استثنا یا معصومیت وغیرہ دیکھے بغیرموت آر ہی ہے اسی طرح آفات میں آ جاتی ہے۔ جس طرح عمومی موت میں کوئی یہ نہیں کہتاکہ یہ موت معصوم بچوں پرکیوں آ گئی ہے اس طرح اس اجتماعی موت میں بھی یہ سوا ل غیر متعلق ہے ۔البتہ رہی یہ بات کہ موت کی اس اجتماعی کیفیت سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ اس میں اللہ کی حکمت کے تین امکانات ہوسکتے ہیں۔

سزا

آزمائش

عبرت

            جو بچ گئے ان کی شکر کی آزمائش ہے اور جن کے اعزہ و اقربا اورمال واسباب چلے گئے ان کی ساتھ صبر کی آزمائش بھی ہے۔ باقی عبرت توسب کے لیے ہے اور سبق بھی کہ اللہ کس قد ر قدرت کا حامل ہے اور اس قدر قادر مطلق کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوناہے۔اس طر ح کی آفات میں جو نیک لوگ تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے رحمت اس اعتبا ر سے ہوتی ہے کہ یہ تکلیف ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اورآخر ت کے اعتبار سے انہیں فائدہ ہو جاتا ہے۔              

            سزا اور عذاب کا فیصلہ کرنا البتہ ممکن نہیں ہوتا۔ سزا بھی آتی ہے اور عذاب بھی لیکن عذاب ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی پر آتا ہے۔انبیا کی موجودگی میں تو بذریعہ وحی یہ معلوم کرنا ممکن ہوتا ہے کہ آیا یہ عذاب تھا یا نہیں لیکن وحی کی عدم موجودگی میں ہمارے لیے یہ فیصلہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ کسی کے لیے عذاب بھی ہو مگر ہم بہر حال اس کا تعین نہیں کر سکتے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ استغفار کی کثرت اورتوبہ اس طرح کی آفات کو ٹال سکتی ہے ۔

            مختصراً یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ زلزلے میں اللہ تعالی نے موت کو ایک جگہ جمع کر کے نمایا ں کر دیا ہے او ر اس میں بیک وقت آزمائش ’ سزا’ عبرت تینوں پہلو بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ایک یا دو بھی۔

            بہر حال انسانوں کو قرآن کی اس آیت کے تحت اللہ سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ کہ جس میں اللہ نے کہاہے کہ ڈرو اس آزمائش سے جو صرف برے لوگوں پر ہی نہ آئے گی۔

            واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب ( انفال ۔۲۵) اور بچتے رہو اس فتنہ سے جو مخصوص طور پر انہی لوگوں کو نہیں لاحق ہو گا جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہو گا اور جان رکھو کہ اللہ سخت پاداش والا ہے۔

             زلزلے کے بعد باقی انسانیت پر ایک اور آزمائش شروع ہو گئی ہے وہ یہ کہ اب وہ اپنے آفت زدہ بھائیوں کی کس نیت’ کس جذبے اور کس طرح سے مدد کرتے ہیں۔ ایک اخلاقی ذمہ دار ی ہے جو سب پر عائد ہوتی ہے ۔ الاقرب فالاقرب کے اصول پر جس کا جتنا رشتہ ہو اتنی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اہل پاکستان پر اس لحاظ سے سہ طرفہ ذمہ داری ہے کہ ایک تو ان کا اسلام کا رشتہ ہے ،دوسرا وطن کا اور تیسرا انسانیت کا۔ اللہ کا شکر ہے کہ قوم نے اپنی اس ذمہ داری کوخوب نبھایاہے البتہ بعض استثناکے ساتھ اکثردینی سیاسی جماعتوں اوران کے لیڈروں کاطرز عمل بہر حال اس حوالے سے مایوس کن رہاہے۔