نیت کا پھل

مصنف : محمد سلیم اختر

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : نومبر 2005

صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہونے کی روح پرور داستان

             فیض عالم اپنے گاؤں کی مسجد کا خادم تھا ۔ مسجد کی صفائی ، ستھرائی کے علاوہ جو اہم کا م اس کے ذمہ تھا وہ مسجد میں نمازیوں کے لیے وضو کے پانی کی فراہمی تھی۔ گاؤں میں بجلی تو تھی نہیں اس لیے وہ کنوئیں سے مشک میں پانی بھر کر لاتا اور مسجد کے اندر بنی ہوئی ٹینکی میں ڈالتا اس کی بیوی بھی اس کام میں اس کی مدد کرتی تھی ۔ فیض عالم ایک غریب شخص تھا ۔ گاؤں میں اس کی کوئی جائیدادنہ تھی ۔ صرف ایک کچا سا کوٹھا تھا ۔ جہاں وہ اپنی بیوی اور چاربچوں کے ساتھ رہتا تھا ۔ وہ پکا نمازی اور نہایت ہی پرہیزگار شخص تھا ۔ اس کی طبیعت میں عاجزی اور انکساری بھی تھی اور قناعت پسندی بھی ۔

             اس کا بیٹا جبار سب بہن بھائیوں سے بڑا تھا ۔ وہ اب سمجھ دار ہو گیا تھا ۔ لہذا باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے وہ گاؤں کے لوگوں کی بھیڑ بکریاں چراتا تھا ۔ جس کے بدلے میں اسے ماہانہ کچھ رقم بطو رمعاوضہ مل جاتی تھی مگر پھر بھی فیض عالم کے گھر کی گزر بسر مشکل ہی سے ہوتی تھی اس کے باوجود وہ تقدیر پر شاکر تھا ۔

            اس کی دوستی اور میل جول صرف خانو کمہار سے تھی ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے کیونکہ گاؤں میں سب سے زیادہ غریب اور عاجزیا وہ تھا اور یا خانو کمہار ۔ فارغ وقت میں وہ دونوں گپ شپ بھی لگاتے تھے ۔ خانو کا ایک بیٹا فرید، فیض عالم کے بیٹے جبار کا ہم عمر تھا ۔ وہ بھی جبار کی طرح بھیڑ اور بکریاں چراتا تھا ۔ ان دونوں کی دنیا صرف بھیڑ بکریوں اور جنگل تک ہی محدود تھی ۔

            فیض عالم کو نعتیں کہنے کا بہت شوق تھا ۔ اس نے کچھ پنجابی نعتیں یاد کر رکھیں تھیں جنہیں وہ اکثر پڑھا کرتا تھا ۔ ‘‘کملی والے مینوں وی مدینے بلا لے ’’ اس کی پسندیدہ نعت تھی ۔ وہ جب یہ نعت کسی محفل میں سناتا اس کے من میں مدینے جانے کی خواہش مچل اٹھتی مگر یہ خواہش اس کے سینے ہی میں دم توڑجاتی کیونکہ مدینہ شریف جانا اس کے بس کی بات نہ تھی ۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہا رکبھی نہ کیا تھا ۔ لیکن اندر ہی اندر وہ اس خواہش کی تکمیل میں لگا ہوا تھا جس کی کسی کو خبر ہی نہ تھی۔ اس نے بکریوں والے باڑے میں ایک گڑھا کھود کر ایک مٹی کا گھڑا اس میں دبا دیا تھا ۔ اس کو گاؤں والوں سے جب کبھی روپیہ ، دو روپے ملتے وہ اس گھڑے میں ڈال کر اس کا منہ بند کر دیتا ۔ وہ یہ رقم سفرِ مقدس کے لیے جمع کر رہا تھا ۔ مگر اس بھولے شخص کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اتنی رقم سے مقدس سفر نہ کر سکے گا……       

            گاؤں کا امیر ترین خاندان …… گاؤں کے نمبردار راجہ شہباز کا تھا ۔ راجہ شہباز …… گاؤں کا نمبردار ہونے کے ساتھ یونین کونسل کا چیئرمین بھی تھا ۔ علاقہ میں سب سے زیادہ جائیداد اسی کی تھی ۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود سخاوت اس سے کوسوں دور تھی ۔ راجہ سال میں مسجد کی شکل دوبار ہی دیکھتا تھایعنی عید پر۔ …… یونین کونسل کا چیئرمین ہونے کا وہ بھرپور فائدہ اٹھاتا تھا…… ترقیاتی فنڈ ، زکوۃ فنڈ اور رقومات ہضم کرنا اس کے لیے معمولی بات تھی ۔ یہ فنڈ اور رقومات ہضم کرتے کرتے جب اس کے ضمیر کو ‘‘نیکی ’’کاخیال دامنگیرہوتا تو وہ ، فوراً حج یا عمرہ کرنے روانہ ہو جاتا …… حج سے واپسی پر اس کا اس طرح استقبال کیا جاتا جیسے وہ کوئی محاذ فتح کر کے آرہا ہے ۔ ایسے موقعوں پرفیض عالم کی آنکھوں کے سامنے جالا سا بن جاتا ‘‘ میری باری کب آئے گی مولا !’’ وہ ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا …… اور پھر وہ مسجد کی طرف روانہ ہو جاتا ، مشک اٹھاتا اور پانی بھرنے لگتا ۔ کبھی کبھار راجہ شہباز تبرک تقسیم کرنے مسجد میں بھی آ جاتا ۔ فیض عالم…… راجہ شہباز کو مسجد میں دیکھ کر بہت خوش ہوتا اور ان کو مبارک باد بھی دیتا …… ایک بار فیض عالم نے راجہ صاحب سے پوچھا : ‘‘ راجہ صاحب! کتنا خرچ آتا ہے اللہ اور اسکے رسول کے گھر کی زیارت کرنے کا ’’ ‘‘پورا ایک لاکھ روپیہ’’ راجہ شہباز فخریہ انداز سے قہقہہ لگا کر بولا …… ‘‘ تمہیں کیا شوق چڑھا ہے پیسے پوچھنے کا …… کیا حج پر جانے کا ارادہ ہے ’’ اس کے لہجے میں غرور بھی تھا اور طنز کی کاٹ بھی ۔ میری اتنی طاقت اور نصیب کہاں راجہ صاحب ! فیض عالم نے شکستہ لہجے میں کہا تو راجہ کا سینہ کچھ اور پھول گیا …… فیض عالم نے دیگر نمازیوں سے نظریں چرائیں اور گھر لوٹ آیا ، اس رات اسے نیند نہ آئی تھی ۔ اس کے اندر رسنے والے آنسوؤں نے اس کی سوچ پر چادر تانے رکھی ، رہ رہ کر ایک ہی آواز اس کے من میں گونجتی تھی ۔ ‘‘میری باری کب آئے گی ؟…… میری باری کب آئے گی ؟’’ وہ یہی سوچتا رہا کہ راجہ صاحب تو ہر سال حج پر چلے جاتے ہیں اور میں گزشتہ چالیس برس سے مٹکے میں پیسے رکھتا چلا جاتا ہوں جو بڑی مشکل سے پینتیس ہزار ہوئے ہیں یہ ایک لاکھ کب پورے ہوں گے ؟ …… کیا چالیس برس او ر……؟ کیا میرے نصیب میں سفر مقدس نہیں ہے …… وہ اپنی اس خواہش کا اظہا رخانو سے کرتا تو وہ کہتا ۔ ‘‘یہ تو توفیق کی بات ہے فیض عالم !…… یہ تو بلاوا آنے کی بات ہے ’’ ۔فیض عالم خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگتا ۔ خانو اس کی کیفیت سمجھ جاتا اور اس سے کہتا فیض عالم مجھے یقین ہے کہ ایک روز تمہارا بلاوا ضرور آئے گا ۔ ‘‘ توفیق ……بلاوا ……’’ فیض عالم تھکے سے لہجے میں کہتا ۔ ‘‘ یہ بلاوا ہر بار راجہ صاحب ہی کو کیوں آتا ہے ؟’’ ‘‘نہیں فیض عالم !…… یہ توفیق یا بلاوا نہیں …… ’’ خانو بولا …… ایسے لوگ تو زبردستی خدا اور اس کے رسول کے گھر میں جا گھستے ہیں اور پھر وہاں سے جو کچھ ہاتھ لگے، اسے حاضری کے ثبوت کے طور پر اٹھا لاتے ہیں ۔ کھجوروں کے ٹوکرے ، آب زم زم کے کنستر۔یہ حاضری نہیں فیض عالم ! خانو کی آوا ز بھرا جاتی ۔ ‘‘ لیکن ایک لاکھ بہت زیادہ رقم ہے ’’ فیض عالم ٹوٹے لہجے میں بولا ۔ ‘‘ تم کوشش کر کے سیڑھیاں چڑھتے چلے جاؤ ۔ ان کو گنو مت ! خانو اس کی ہمت بندھاتا ۔

              گاؤں میں صرف ایک پرائمری سکول تھا جہاں لڑکے اور لڑکیا ں اکٹھے پڑھتے تھے ۔ سکول میں صرف دو ہی استانیاں تھیں ۔ اردگرد کے دیہاتوں سے بھی کچھ لڑکے اور لڑکیا ں اس سکول میں پڑھنے آتے تھے ۔ سکول گاؤں سے باہر ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ۔ گاؤں اور سکول کے درمیان ایک نالہ پڑتا تھا۔ اس نالے میں معمولی بارش ہو جانے پر بھی طغیانی آجاتی تھی ، جس وجہ سے سکول اور گاؤں کا رابطہ منقطع ہو جاتا تھا ۔ گاؤں کے بچے سکول جاتے ہوئے اس نالے میں اتر کر اس کو پار کر کے جاتے تھے ۔ بارشوں کے موسم میں جب نالہ پانی سے بھر جاتا تو بچوں اور ان کے والدین کو کافی پریشانی اٹھانی پڑتی …… اس نالے کو خونی نالہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ہر سال کسی نہ کسی بچے کی جان لے لیتا تھا ۔ گاؤں کے لوگوں کے اصرار پر راجہ شہباز نے حکومت سے اس نالے پر پل بنانے کی منظوری لے رکھی تھی ۔ مگر کئی برس گزر جانے کے باوجود اس نالے پر پل نہیں بنا تھا ۔البتہ سرکاری فائلوں میں تو کب کا بن چکا تھا۔ گاؤں کے لوگ جان گئے تھے کہ راجہ شہباز مل ملا کر پل کے لیے ملنے والا فنڈ ہڑپ کر گیا ہے ۔مگراس بارے میں زبان کھولنے کی جرات کسی میں نہ تھی ۔ جب بھی کوئی بچہ اس خونی نالے کی بھینٹ چڑھتا ، راجہ شہباز یقین دلاتا کہ اگلے سال کے فنڈ ملنے پر وہ پل کا کام شروع کراد ے گا ۔ لیکن اگلا سال کبھی نہ آتا……

            اس برس بھی ایسا ہی ہوا ، فیض عالم کے دوست خانو کمہار کا پوتا ا س خونی نالے کی بھینٹ چڑھ گیا فیض عالم کو جب یہ خبر ملی تو وہ فورا ًخانو کے گھر پہنچا اور اس کے گلے لگ کرخوب رویا۔ خانو کے پوتے کی لاش اگلے روز بہت دور سے ملی تھی ۔ اس کی نماز جنازہ پڑھتے وقت ہر آنکھ اشکبار تھی ، فیض عالم بھی ان میں شامل تھا ، سب سے زیادہ دکھ اسی کو ہوا تھا ۔دفن کے بعد اس نے اپنی دکھتی ہوئی آنکھوں کو میلی قمیض سے صاف کیا اور بوجھل قدموں سے گاؤں کی طرف چل پڑا ۔ اس کا رخ راجہ شہباز کی حویلی کی طرف تھا …… راجہ شہباز نے فیض عالم کو دیکھا تو بولا : ‘‘آؤ فیض عالم !…… خیریت سے آئے ہو ناں !’’ ‘‘راجہ صاحب! ایک عرض کرنی تھی جی !’’ وہ عاجزانہ انداز میں بولا۔ ‘‘کیا بات ہے ؟’’ راجہ شہباز کی پیشانی پر بل سے آئے ۔ ‘‘راجہ صاحب ! آج خانو کا پوتا خونی نالے کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ’’ وہ زخمی الفاظ میں بولا ۔ ‘‘پھر’’ راجہ نے سخت لہجے میں بولا ۔ ‘‘وہ جی ۔ اگر نالے پر پل بن جائے تو بچوں کی مشکل آسان ہو جائے گی ’’ وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولا ۔ ‘‘فیض عالم !’’ …… راجہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ ‘‘ تم مسجد کے خادم ہو ۔ مسجد کی فکر کرو یہ کا م تمہارے کرنے اور سوچنے کانہیں ۔ پل والا کام ہو جائے گا ’’ فیض عالم نے راجہ کا غصہ دیکھا تو وہ خفت اور بے چارگی کے ملے جلے احساسات لیے حویلی سے نکل آیا …… مغرب کی نماز کا وقت ہو رہا تھا ۔ فیض عالم نے اس روز نماز ناقابل بیان کیفیت میں پڑھی ۔ ‘‘پل کب بنے گا ؟ کب ……؟ ’’ اس نے خود سے سوال کیا …… نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا کہ اسے یوں لگا جیسے کوئی راز ہے جس سے وہ اچانک آشنا ہو گیا ہے ……

            عشا کی نماز کی ادائیگی کے بعد بھی وہ بے چین سا رہا ۔ نما ز ختم ہوئی تو اس نے مسجد کی لالٹین بجھائی ، بڑے دروازے کو کنڈی لگائی اور گھر آگیا …… وہ باڑے میں گیا اور مٹی کا گھڑا نکا ل کر اسے اپنے کمرے میں لے آیا ۔ اس نے گھڑے کو الٹ دیا ۔ گھڑے میں موجود تمام رقم اس نے ایک چادر پر پھیلا دی ۔ وہ ساکت نظروں سے لالٹین کی سہمی ہوئی روشنی میں اس رقم کو گھورنے لگا جواس کے چالیس برس کی کمائی تھی ۔ ایک ، دو ، پانچ ، دس او رسو روپے کے نوٹ جو اس نے انتہائی نفاست سے الگ الگ تہہ کر کے رکھے ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ اس کے سامنے سکوں کا بھی ایک ڈھیر تھا …… اس نے اپنی جمع شدہ پونجی گننی شروع کر دی ۔ وہ چالیس ہزار سے کچھ اوپر رقم بنی …… اس کا دماغ سن ہو گیا اور سارے احساسات اور جذبات سرد سے ہو گئے…… وہ اپنے آپ سے کچھ کہنے لگا ۔ ‘‘ کل میں یہ ساری رقم پل بنانے کے لیے دے دوں گا ’’ …… وہ یہ فیصلہ کر کے مطمئن ہو گیا ۔ رات کو نیند بھی اسے خوب آئی ۔ صبح جب وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجدکی طرف روانہ ہوا تو تمام رقم کی پوٹلی اس کے ہاتھ میں تھی …… نماز ختم ہوتے ہی اس نے نمازیوں سے درخواست کی کہ وہ ان سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔ تمام نمازی چونک گئے کہ آج پہلی بارفیض عالم نے کچھ کہنا چاہا ہے ۔ نہ جانے وہ کیا کہے گا ؟ …… کہیں مسجد کی خدمت سے تو دستبردار نہیں ہو رہا ……

            ‘‘میرے بھائیو اور دوستو !…… ’’ فیض عالم کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا ۔‘‘ اس گھٹرے میں جو رقم ہے …… یہ میرے چالیس برس کی کمائی ہے۔یہ کُل چالیس ہزار آٹھ سو بارہ روپے بنتی ہے ۔ میں نے یہ رقم حج کرنے کے لیے جمع کی تھی ۔ میں آج یہ رقم اما م صاحب کے حوالے کر رہا ہو ں …… آپ لوگ اس رقم سے خونی نالے پر پل بنوالیں …… تاکہ کوئی بچہ اس خونی نالے کی بھینٹ نہ چڑھے ۔ جب بھی کوئی بچہ نالے میں گر کر زندگی ہارتا ہے تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا بیٹا مر گیا ہے ۔میں نے پچاس برس آپ لوگوں کا نمک کھایا ہے…… فیض عالم کی آواز رندھ گئی ۔ ‘‘ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے رقم دی ہے اللہ قبول فرمائے ! ’’ یہ کہہ کر اس نے پوٹلی امام مسجد کے حوالے کی اور مسجد سے نکل کر گھر کی طرف چل پڑا……

            وہ گھر پہنچا تو اسے ایسے لگا جیسے اس نے صدیوں کا سفر طے کیا ہو اور مشقت سے اس کے پاؤں میں آبلے پڑگئے ہوں ۔ لیکن جسم تھکن سے چور ہونے کے باوجود اس کا ذہن مسلسل جمود کی حالت میں تھا …… تمام دن وہ اسی حالت میں رہا ۔ گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ فیض عالم نے حج کے لیے جمع پونجی پُل کے لیے عطیہ کر دی ہے ۔ راجہ شہباز نے فیض عالم کی اس سخاوت کا چرچا سنا تو وہ تڑپ اٹھا …… دن بھر گاؤں کے مرد اور عورتیں فیض عالم کی خداترسی پر اسے شاباش دینے اس کے گھر آتے رہے ، مگر راجہ کے گھر کوئی نہ آیا ۔ رات ہوئی تو اس نے اپنے کمرے میں آکر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ وہ بستر پر دراز ہو کر ماضی سے حال کی طرف پرواز کرنے لگا ۔ ایک ، دو ، تین ، تیس ، چالیس ، پچاس برس کی گنتی ۔ ریاضت اور مشقت اس کے اعضا میں سمانے لگی …… چالیس ہزا آٹھ سو بارہ روپے …… تب اسے احساس ہوا کہ اس نے کیا کر دیا ہے ……؟ اس کے پیٹ میں گولہ سا اٹھا ۔ سانس رکنے لگی ۔ اس کے منہ سے سسکاریاں نکلیں اور پھر وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگا ۔ اس کا چہرہ اور داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئے ‘‘ میری بار ی کب آئے گی ؟’’ مگر اب تو اس کی باری ہمیشہ کے لیے نہیں آنی تھی ۔ اس نے اپنے پر تو خود ہی کا ٹ ڈالے تھے …… روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی…… اس نے نیند کے عالم میں گنبد خَضری دیکھا تو بے بسی کے احساس نے اسے اپاہج کر ڈالا …… یہ اس نے کیا کر ڈالا تھا ۔ اس نے اپنا زادِ راہ اپنے ہاتھوں سے لٹا ڈالا تھا …… اسے یوں لگا کہ وہ ایک ایسے ملاح کی مانندہے جس نے پور ی عمر کی سخت محنت سے منزل تک رسائی کے لیے کشتی بنائی اور پھر منزل قریب آتے ہی کشتی کو سمندر میں بہا دیاہو ۔ اس کا سانس بند ہونے لگا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ نہ معلوم کتنی دیر اس کی آنکھیں آنسوؤں کے سیلاب میں تنکوں کی مانند بہتی رہیں …… حتی کہ پھر اس کی آنکھ لگ گئی ۔ لیکن وہ مکمل طور پر سو نہیں پایا تھا کہ اچانک ایک پرنور اور شفیق شکل والے اجنبی نے اسے جگا دیا ۔ اس اجنبی نے فیض عالم کا ہاتھ پکڑا …… تو اسے یوں لگا جیسے زمین اس کے نیچے سے سرک گئی ہو ۔ کیف و انبساط سے سرشار ، ہوا میں تیرتا ہوا وہ نہ جانے کہاں جا پہنچا ۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا جسم روئی کے گالے کی طرح محو پرواز ہو …… دیر بعد اس کے پاؤں زمین پر لگے …… تو اسے اپنے اردگرد آوازیں سنائی دیں…… ‘‘ لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیبک ان الحمد والنعمتہ لک والملک لا شریک لک’’ اجنبی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اس کے گرد لاکھوں کی تعداد میں لوگ سفید احرام باندھے ہوئے تھے …… فیض عالم یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا لباس بھی احرام میں بدل چکا تھا ۔ پھر وہ بھی مناجات کے ہجوم میں شامل ہو گیا ۔ ‘‘لبیک اللھم لبیک ……’’ اجنبی کا رحمت بھرا ہاتھ اسے اٹھائے پھر رہا تھا۔ حتی کہ گنبد خضری کی سنہری جالیوں کے سامنے آکر وہ تھم گیا وہ ہاتھ باندھے سنہری جالیوں کے سامنے کھڑا رہا ۔ اس نے سلام پڑھنے کی کوشش کی لیکن قوت گویائی جیسے سلب ہو گئی ہو ۔ اسے یوں لگا جیسے وہ ایک ذرہ ہو اور اسے ایک بہت بڑے بگولے نے اپنے حلقہ اثر میں لے رکھاہو۔ اس کے آس پاس موجود ہر شے بلند تھی ۔ ہر شے کی حد عرش کو چھو رہی تھی اور وہ بہت چھوٹا تھا …… اس کی گردن کافی دیر جھکی رہی اور پھر اچانک اس کی زبان کی ساری بندشیں کھل گئیں اور وہ لہک لہک کر پورے سوز کے ساتھ سلام پڑھنے لگا …… نہ جانے کتنا عرصہ بیت گیا چند لمحات یا چند صدیاں …… وہ زمان و مکان سے بیگانہ کھڑا رہا…… کہ اجنبی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کہ کہا ‘‘آؤ واپس چلیں ’’ …… نہ چاہتے ہوئے بھی وہ واپس مڑا تو اجنبی نے کھجوروں والا پیکٹ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ۔‘‘ یہ اس حاضری کی نشانی ہے ۔ انہیں ساتھ لے کر جاؤ ’’ ‘‘ ہاں ہاں ’’ فیض عالم نے خوشی سے سر ہلا دیا ۔ اجنبی نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ ایک دفعہ پھر زمین سرکی …… اور وہ اسی طرح محو پرواز ہو گیا ۔ نہ جانے کتنے لمحات بیت گئے …… پھر اس نے اپنے آپ کو چارپائی پر محسوس کیا ۔ اجنبی وہاں موجود نہ تھا ۔ فیض عالم کو تسکین کے شدید احساس نے آلیا ۔ اس کی پلکیں کیف سے بوجھل ہو گئیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند سو گیا ۔

              اگلی صبح جب فیض عالم کا بیٹا اور خانو …… دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو ایک انتہائی معطر خوشبو نے ان کا استقبال کیا ۔ فیض عالم چارپائی پر دراز تھا …… اس کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ تھی…… خانو اور اس کے بیٹے نے اس کالباس دیکھ کر بے یقینی میں اپنی آنکھیں ملیں کیونکہ فیض عالم سفید احرام میں ملبوس تھا ۔ اور اس کا داہنا ہاتھ بند مٹھی کی صورت میں اس کے سینے پر دھرا تھا ۔ خانو نے ڈرتے ڈرتے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا مگر وہ تو نہ جانے کب کی تھم چکی تھی …… اتنے میں خانو کی نظر فیض عالم کی بنڈ مٹھی پر نظر پڑی ۔ جس میں کچھ کھجوریں دبی ہوئی تھیں ۔ خانو نے …… فیض عالم کے بیٹے جبار کی طرف دیکھا …… اور کہا ۔ ‘‘ یہ تو مدینہ پاک کی کھجوریں ہیں ’’ !٭