ایک نسل زندہ دفن

مصنف : لطیف الرحمن عادل

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : نومبر 2005

اخذو ترتیب ، لطیف الرحمن عادل

زلزلے سے ہونے والی تباہی، اجتماعی قبروں اورزندہ دفن ہونے والے بے بس لوگوں کی موت کا آنکھوں دیکھا حال

جن کا کوئی نہ رہا...

            جب میں مظفر آباد پہنچا تو اس وقت تباہ کن زلزلے کو آئے ہوئے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ایک ملبے کے ڈھیر کے پاس جمع ہے۔ان میں سے کچھ تو کھدائی کر رہے تھے جبکہ باقی پاس پریشان کھڑے تھے۔ کیا کوئی دبا ہوا ہے’میں نے پوچھا، ہاں چار لوگ زندہ دفن ہیں۔ان میں سے ایک شخص مجھے ملبے میں دبے ہوئے شخص کو دکھانے کے لیے مجھے نیچے کھینچتا ہے۔تم اس کو سن سکتے ہو’ ان میں دو اب بھی بول رہے ہیں جبکہ دو نے بولنا بند کر دیا ہے شاید ان میں بولنے کی طاقت نہیں رہی یا شاید...ان میں کوئی شخص بھی موت کا نام نہیں لینا چاہتاتھا۔

            مظفر آباد میں اگر کوئی چیز زندہ ہے تو وہ امید ہے۔ مظفر آباد سے ہزاروں لوگ پہلے ہی ہجرت کر گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی وہاں سے جانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ جوان ،بوڑھے ،بچے ،سب گھر میں بچی کھچی چیزوں کی پوٹلیاں باندھے علاقے سے نکلنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہر کسی کے پاس سنانے کے لیے ایک کہانی ہے ۔ لیکن یہ کہانیاں موت سے شروع ہوتی ہیں اور موت ہی پر ختم ہوتی ہیں۔

            مظفر آباد کے نزدیک ایک بوڑھا جوڑا سڑک کے کنارے بیٹھا ہے۔ ان کو اپنے اردگردسے کوئی دلچسپی نہیں ہے’ شاید وہ تھک چکے ہیں ۔ ان کو دیکھ کر ایسا احساس ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنا سب کچھ گنوا چکے ہیں اور ان کے پاس اور کچھ بھی گنوانے کے لیے نہیں رہ گیا ہے۔

            مجھے دلاور خان بھی وہیں پھرتا نظر آتا ہے ۔ چوبیس گھنٹے پہلے دلاور خان کی کپڑے کی دکان گاہکوں سے بھری ہوئی تھی۔ جہاں وہ باہر کا کپڑا بیچتا تھا ۔ دلاور خان مانسہرہ کا رہنا والاہے اور کاروبار کی غرض سے مظفر آباد میں آباد تھا۔دلاور خان اپنے دو بچوں کو زلزلے سے تو نہ بچا سکا۔ لیکن اب وہ ان کو اپنے آبائی علاقے میں باعزت طور پر دفن کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی اس کے بچوں کو مانسہرہ لے جانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ وہ گاڑی والوں کی منتیں کرتا نظر آتا ہے لیکن کوئی اس کی سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

            مظفر آباد کا تمام نظام تباہ ہوچکا ہے ۔ ٹیلی فون’ بجلی ’ پانی اور کھانا دستیاب نہیں ہے ’ ادویات نہیں مل رہی ہیں۔ شہر کا مرکزی بازار مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور شاید ہی کسی عمارت کا کوئی حصہ بچا ہو۔

             پریشان حال لوگ ملبے کے ڈھیروں میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ ملبے کے ڈھیر دو دن پہلے تک ان کے گھر تھے۔

            رضاکاروں کے پاس سامان کی کمی ہے لیکن جذبے کی نہیں ۔ وہ بھوکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس وقت مصیبت میں گھرے ان لوگوں کی مدد میں مصروف ہیں ۔ کچھ مرنے والوں کو دفنانے کے لیے قبریں کھودنے میں مصروف ہیں ۔ تیس گھنٹے گزرنے کے باوجود لاشیں ابھی بھی چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ۔ ہر شخص حکومت کے خراب رویے کی شکایت کر رہا ہے۔ تباہی ہر جگہ بکھری ہوئی ہے۔

میرے بچے آوازیں دیتے رہ گئے

             میرا نام خلیل الرحمان ہے۔ میرا گھر مدینہ مارکیٹ میں تھا ۔ نیچے دکان تھی اور اوپر گھر تھا۔ گھر میں ابو سوئے ہوئے تھے۔ میری بیوی ، میرا بچہ اور میری دو بھانجیاں اور میرا چھوٹا بھائی ....چھ افراد دب کر مر گئے۔جس میں سے ہم نے پہلے ابو کو نکالا۔ میرے بچے وہاں سے آوازیں دے رہے تھے کہ مجھے بچاؤ ،مجھے بچاؤ۔ لیکن ملبہ اتنا زیادہ تھا کہ ہم لوگ ان کی آوازیں سن رہے تھے مگر ان کو بچا نہیں سکے ۔ میری بیوی مر گئی’ میر ابچہ بھی مر گیا اور میری دو بھانجیاں ’ چھوٹا بھائی بھی مر گیا۔ ابھی بھائی اور بھانجی کی لاشیں نکالی ہیں اور ان کی دفنا یا ہے ۔ باقی اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں ۔’

پورے سکول غرق ہوگئے

            میرا نام محمدر فیع ہے۔ میں ضلع مظفر آباد میں کانسر مہاجر کیمپ کا رہائشی ہوں ۔تین سو بچے ایک سکول کی بلڈنگ میں کل سے پھنسے ہوئے ہیں ابھی تک انہیں نکالنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوا۔اس کے علاوہ دو سکول پوری طرح دریا میں چلے گئے ۔ زخمی شدید حالت میں ہیں اور ان تک کوئی امداد نہیں پہنچ رہی۔ سڑکیں دونوں طرف سے بالکل بند ہو چکی ہیں ۔

سارے بچے ایک قبر میں

 میرا نام شیخ سجاد ہے۔ میں یہاں مدینہ مارکیٹ (مظفر آباد) میں کپڑے کا کام کرتا ہوں ۔ صبح کا وقت تھا اور میں گھر پر ہی تھا۔ میرے تینوں بچے اور بیوی فوت ہو گئے۔ ابھی میں ان سب کو ایک ہی قبر میں ڈال کر آیا ہوں ۔ میں خود بھی زخمی ہوں ۔ نہ کھانا ہے اور نہ کوئی انتظام۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

بالا کوٹ : ایک بڑی سی قبر

            1831میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی کی نسبت سے مشہور یہ شہر ہیرو شیما کا منظر پیش کر رہا ہے ۔

            میں پہلی مرتبہ 1987 میں ا پنے رشتے کے ایک بھائی کے ساتھ بالا کوٹ گیا تھا اور مقصد اپنی بستی کے ایک شخص کی قبر تلاش کرنا تھا جو سید احمد شہید کے رفقا میں شامل تھے اور غالباً 1831میں سکھ جنرل شیر سنگھ سے لڑائی میں سید احمد اور ان کے ساتھیوں سمیت شہید ہوئے تھے۔

            وہ قبر مجھے نہ مل سکی۔پھر میں گزشتہ سال ناران جاتے ہوئے بالا کوٹ میں چائے پینے کے لیے رکا تو مجھے یہ شہر دریائے کنہار کے کنارے پر آباد ہونے کے باوجود کچھ بڑا گندا سا لگا اور میں چائے پیے بغیر ناران کی طرف روانہ ہوگیا۔

            تیسری بار میں بالا کوٹ گزشتہ اتوار کو گیا اور یہ معلوم کرنے کے لیے گیا کہ ہفتے کے دن آنے والے زلزلے کا اس شہر پر کیا اور کتنا اثر ہوا ہے

بالا کوٹ جانے والی سڑک پہاڑ کے پتھر اور مٹی کے تودے گرنے سے بند ہوگئی تھی اس لیے میں نے پل کوپیدل پار کیا اور دوسرے کنارے پر پہنچ گیا ۔

            دریا کے دوسرے کنارے کی سڑک پر ہم نے پھر بالا کوٹ کی جانب چلنا شروع کیا جو وہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔

            ابھی چلتے ہوئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک زمین بوس عمارت نظر آئی کسی کالج کی تھی اور یوں لگتا تھا کہ اپنی دیواروں اور ستونوں پر بیٹھ گئی ہے ۔ کسی نے بتایا کہ یہاں جتنے لڑکے تھے سب مر گئے’کسی نے کہا کہ وہ جو عمارت میں تھے مر گئے اور جو باہر میدان میں تھے وہ بچ گئے۔کوئی ایسا اہلکار یا ذمہ دار نہیں ملا جو یہ بتاتا کہ کتنے طالب علم تھے اور کتنے مر گئے۔

            وہاں سے پھر بالا کوٹ کی جانب روانہ ہوا۔ جب میں خواص کاٹھا نامی نالہ پار کر کے آگے بڑھا تو دریا کی دوسری جانب اچانک بالا کوٹ کا شہر نظر آیاجس کی عمارتیں اپنی بنیادوں پر کھڑی نہیں بلکہ بیٹھی ہوئی اور لیٹی ہوئی نظر آئیں۔بالکل جیسے ہیروشیما ایٹم بم گرائے جانے کے بعد تصویروں میں نظرآتا ہے ۔ میں نے اپنے ساتھ چلنے والوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ ایک صاحب نے کہا ‘جی ہاں کچھ نہیں بچا’اور رونے لگے اور پھر جیسے سب رونے لگے ۔ میں نے اپنی نظریں جھکا لیں ۔ مجھ میں اب کسی سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔

            ایک صاحب نے خود ہی بتایا کہ دو سکولوں کی عمارتیں بیٹھ گئیں، ایک میں چار سو بچے تھے اور ایک میں دو سو’ میں نے اس کی تصدیق کے لیے پولیس اسٹیشن جانا چاہا ۔ معلوم ہوا دو پولیس اسٹیشن تھے دونوں کی عمارتیں گر گئیں، ڈی ایس پی صاحب زخمی ہو گئے ہیں کچھ اہلکار تھانوں کی عمارتوں تلے دب کرمر گئے اور کچھ فرار ہو گئے۔ میں نے نو منتخب تحصیل ناظم سید جنید قاسم سے ملنا چاہاتو معلوم ہوا وہ بھی مرگئے۔

            میں دریائے کنہار کے دوسرے کنارے پر بالا کوٹ کے سامنے کھڑا تھا ، مجھ میں مزید لاشوں ، مزید زخمیوں اور بلکتے ہوئے بچوں اور بین کرتی ما ؤں کو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی ۔

            میں بالا کوٹ پہلی مرتبہ ایک قبر کی تلاش میں آیاتھاجو کوشش کے باوجود نہیں ملی تھی اور اب اچانک صرف ایک جھٹکے میں پورا شہر ایک قبر بن چکا تھا ۔ میں قدرت کی فیاضی اور سخاوت کا قائل ہو گیا۔ (علی احمد خان)

میں نے اپنے اندر کا صحافی ایک طرف رکھ دیا

            مجھے یہ ماننے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ جب بی بی سی لندن سے ہم روز دنیا میں جاری تشدد اور ہلاکتوں کی خبریں آپ تک پہنچاتے ہیں تو ایک عرصے بعد ہمارے اپنے اندر کے جذبات اور احساسات جیسے سُن سے ہو کررہ جاتے ہیں۔ یوں بھی ’ خبریں بناتے وقت ، انہیں پیش کرتے وقت ہم اپنے جذبات کو الگ رکھنے کے اصول پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بطور صحافی آپ کسی انسانی سانحے کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں تو خود بھی بے بسی، رنج و غم کے جذبات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔

            جب میں اپنے ساتھی نامہ نگار مبشر زیدی کے ساتھ بالا کوٹ کے حالات دیکھنے اسلام آباد سے روانہ ہوا تو ہمیں وہاں آئی تباہی کا کچھ اندازہ تو تھا لیکن وہاں کے اصل انسانی سانحے کا علم مجھے بالا کوٹ پہنچ کر ہی ہوا۔

            اس علاقے میں داخل ہوتے ہی یوں لگا جیسے یہ جنگ سے تباہ شدہ کوئی گاؤں ہو جسے زمین کے ساتھ برابر کر دیا گیا ہو۔ بچ جانے والے لوگ زخمیوں کو طبی امداد اور فوت ہوجانے والوں کو دفنانے کے لیے ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں پر لٹائے لے جارہے تھے۔والدین کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کئی سو بچے اب بھی وہاں کے شاہین اسکول کالج کی گر جانے والی عمارتوں کے ملبے تلے پھنسے ہوئے تھے اور کچھ تو اپنے والدین کو کراہتی آوازوں میں مدد کے لیے بھی پکارتے سنائی دیے۔ بے گھر ہوجانے والی مائیں کھلے آسمان تلے بیٹھی اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں اور ایک دوسرے کو دلاسے دے رہی تھیں۔

ٍ         لیکن وہاں مجھے جس منظر نے ہلا کر رکھ دیا ،وہ تھا جب میں نے ایک باپ کو اپنے آٹھ نو برس کے مردہ بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ملبے سے نکالتے دیکھا ۔ بچے کا جسم مٹی اور سیمنٹ کے وزنی تودوں میں دب جانے کی وجہ سے نیلا پڑ چکا تھا۔ بلکتے باپ نے اس اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کو کفن میں لپیٹ لیا۔اس لمحے نہ جانے کیوں مجھے شدت سے اپنا بیٹایاد آیا، میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ شاید میں نے خود کو اس لمحے اس باپ کی اذیت کا احساس ہونے کی اجازت دی یا پھر یونہی اس کی بے چارگی اور اس کے صدمے پر انسانی ہمدردی کا جذبہ ابھر آیا۔

            مجھے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اندر کا صحافی جھنجھوڑنے لگا کہ ‘‘کیا کر رہے ہو؟جلدی کرو کندھے پر لٹکائے بیگ سے ڈیجیٹل کیمرا نکالو اور اس منظر کی تصویر اتارو۔’’ لیکن میں اپنے سامنے کھڑے سسکیاں بھرتے اس بے بس انسان اور اس کے بیٹے کی حالت کو کیسے نظر انداز کرتا؟ انسانی رشتے کے ناتے میں کیسے اس سے ہمدردی جتائے بغیر اور اسے حوصلہ دیے بغیر اپنا کام کیے جاتا؟ کیا غیر جانبدارانہ صحافت کے لیے ضروری ہے کہ آپ بے حس ہوجائیں؟

            اس لمحے میں نے اپنے اندر کے صحافی کو ایک طرف رکھ دیا۔ میں اس باپ کے صدمے کو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لیے تصویری طور پر محفوظ کرنے کی جرات نہ کر پایا اور میں نے کیمرا واپس اپنے بیگ میں رکھ دیا۔ (شاہ زیب جیلانی)

            بالا کوٹ سے بی بی سی کے نمائندے اینڈریو نارتھ کا کہنا ہے‘ میں ایک لڑکوں کے سکول کی باقیات دیکھ رہا ہوں۔ اس عمارت کی سبزرنگ کی لوہے کی چھت ملبے کے اوپر پڑی ہوئی ہے۔ مقامی افراد خالی ہاتھوں سے ملبہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملبے سے لاشیں نکال رہے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی دو لاشوں کو نکلتے دیکھا جبکہ یہاں قریب ہی بارہ مزید لاشیں نکال کر رکھی گئی ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس عمارت میں زلزلے وقت کئی سو بچے موجود تھے۔ ان کا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ہلاک ہو چکے ہیں۔ فضا میں لاشوں کی بو رچی ہوئی ہے۔ یہ منظر اس قصبے میں عام ہے جہاں کم از کم اسی فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ علاقے کا بازار مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔

پوری سیونتھ کلاس دفن ہے  

            فخر زمان میرا نام ہے آفیسر کالونی میں رہتا ہوں۔ یہاں کچھ بھی نہیں بچا۔ سپرنگ فیلڈ سکول کے حوالے سے بتاتا ہوں کہ کل یہاں سے جب ہم نے لاشیں نکالی تو اتنی بدبو تھی کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ لڑکے اندر جاتے تھے اور باہر آکر الٹیاں کرتے تھے۔ سپرنگ فیلڈ کی سیونتھ کلاس پوری اس بلڈنگ کے نیچے ہے۔ یہاں کوئی نکالنے نہیں آیا۔

            بوائز کالج میں گیارہ سو لڑکے امتحان دے رہے تھے تیس کی لاشیں نکالی گئی ہیں باقی سب وہیں ہیں۔ گرلز کالج میں پرسوں شام لائبریری میں گیارہ لڑکیاں تھیں۔ جب ہم وہاں گئے تو انہوں نے پانی مانگا اور کہا کہ ہم سب زندہ ہیں۔ہمیں یہاں سے نکالو۔ کیسے نکالیں؟ ہم کیسے نکالتے؟ سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔ آج جب ہم وہاں گئے تو وہاں سے بھی بدبو آرہی تھی۔

ایک نسل ختم ہو گئی

             آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان کا کہنا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ایک مکمل نسل ختم ہو گئی ہے۔ مرنے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے جن میں سے زیادہ تر سکولوں کی عمارتیں منہدم ہونے سے ہلاک ہوئے۔ امدادی کارکن مظفر آباد میں بچوں کی لاشیں نکال رہے تھے مگر انہیں لینے والا کوئی نہیں کیونکہ ان کے والدین بھی مر چکے ہیں تھے۔

            راولا کوٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جبکہ مظفر آباد میں ستر فیصد عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں ۔ مظفر آباد میں ایک بھی گھر ایسا نہیں جسے نقصان نہ پہنچا ہو اور نہ ہی کوئی خاندان ایسا ہے جسے تکلیف کا سامنا نہ ہو۔(مبشر زیدی)

دفن کرتے کرتے تھک چکے ہیں

            باغ میں لوگ ہلاک شدگان کو دفناتے دفناتے تھک گئے ہیں۔ اب ہلاک ہونے والوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جارہا ہے۔

            باغ شہر کے گرلز ہائی سکول کے سامنے رہائش پذیر اسماعیل میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنی چار بچیوں سمیت آٹھ طالبات کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا ہے۔ان کے مطابق لوگ قبریں نہیں کھود سکتے اس لیے اجتماعی قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ایک باریش نوجوان نے بتایا کہ انہوں نے دو روز میں پچیس جنازے پڑھائے ہیں اور کسی نماز جنازہ میں دو تو کسی میں تین لوگوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ ان کے مطابق ہر گھر سے جنازہ اٹھا ہے اس لیے ہر آدمی اپنی میت دفنانے کی فکر میں ہے اور اپنے منہدم مکافات کے ملبے تلے دبے ہوئی لاشیں نکالنے میں مصروف ہے۔ہاڑی گھیل نامی چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے والے شخص نے بتایا کہ لوگ دو تین فٹ تک بمشکل قبر کھودتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ لاشیں دفن کرنے کی محض ایک رسم پوری کی جاتی ہے۔

            ایک صاحب نے پہاڑی چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے پیچھے کنٹرول لائن ہے اور اس پہاڑ کے ارد گرد جتنے بھی گاؤں ہیں وہاں کئی جگہوں پر ان کے عزیز و اقارب اور جاننے والوں نے بغیر غسل ،کفن اور نماز جنازہ پڑھائے لاشیں دفن کر دی ہیں ۔

            راجہ حبیب ایڈوکیٹ جن کے کپڑوں پر خون کے دھبے بھی تھے انہوں نے بتایا کہ وہ منگل کی شام تک اپنے گاؤں میں نوے لاشیں دفنا چکے ہیں اور مکانات زمیں بوس ہونے کی وجہ سے پورا گاؤں کھیتوں میں کھلے آسمانوں میں بیٹھا ہے۔ (اعجاز مہر )

ہر طرف کتابیں ، دوپٹے اور جوتیاں

            کوہالہ پل سے باغ شہر تک سڑک کے دونوں کناروں پر بیشتر مکانات اور دکانیں منہدم نظر آئیں اور زلزلے کی آفت سے بچے ہوئے مرد، خواتین اور بچے ملبے تلے اپنے پیاروں کی لاشیں ڈھونڈتے نظرآئے۔

            گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ قریب ہی سسکیاں لیتی تین بچیاں اپنی ماؤں کے ہمراہ کھڑی تھیں اور انہوں نے بتایا کہ ڈیڑھ سو کے قریب بچیاں تین کلاسوں میں تھیں جس میں سے صرف پانچ بچیاں بچیں ہیں اور باقی ملبے تلے دبی ہیں۔پوسٹ گریجویٹ کالج سے ہوتے ہوئے بوائز پرائمری سکول پہنچے تو وہاں بھی حالت مختلف نہیں تھی۔ ہر طرف کتابیں،جوتے اور بستے بکھرے نظر آئے۔گرلز سکول کے نیچے ایک مکان کے باسی اسماعیل میر نے بتایا کہ اس سکول میں انتالیس استانیاں پڑھاتی تھیں جن میں سے چار زندہ بچی ہیں اور باقی استانیاں بیسیوں طالبات سمیت ملبے تلے دبی ہیں۔گرلز ہائی سکول کے ساتھ نرسری اور کے جی کلاسز میں پڑھنے والے بچوں کا سپرنگ فیلڈ نامی سکول کی دو منزلہ عمارت بھی زمین بوس تھی اور کچھ اونچائی پر شمیم بیگم کے ہمراہ تین خواتین اور دو بچیاں غم سے نڈھال ہو کر رو رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہمارے بچوں کو زندہ نہیں بچا سکے تو خدا کے واسطے لاشیں ہی نکال دیں تا کہ ہم انہیں دفنا سکیں۔سپرنگ فیلڈ کی زمین بوس عمارت کی آر سی سی، چھت میں ڈھائی تین فٹ چوڑا سوراخ تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک نوجوان فخر زمان نے کہا کہ انہوں نے چار بچوں کی لاشیں نکالی ہیں لیکن اب بدبو اور مکھیاں اندر اتنی ہیں کہ جانے والا بے ہوش ہوجاتا ہے۔

خون جم چکا تھا ، سب زندہ دفن

            گڑھی حبیب اللہ ۔ہم پیر کے روز ایبٹ آباد سے بالا کوٹ جانے کے لیے نکلے تھے لیکن جب ہم بالا کوٹ سے تقریباً دس پندرہ کلومیٹر دور تھے تو آگے راستہ بند تھا۔ دونوں طرف گاڑیاں بہت زیادہ تھیں۔ امدادی کاروائیوں والے لوگ اس طرف روانہ تھے۔

            وہاں سے گڑھی حبیب اللہ تھوڑا سا ہٹ کر ہے۔ ہمیں پتا چلا کہ وہاں حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ یہ تقریباً دس پندرہ ہزار کا قصبہ ہے تو ہم فوراً اس طرف روانہ ہو گئے۔ ہمارے آگے دو ایک اور گاڑیاں تھیں جو وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ ہمارے ساتھ کچھ ڈاکٹرز اور طبی عملہ بھی تھا۔

ہم تقریباً ڈیڑھ دو بجے کے قریب وہاں پہنچے ۔ قصبہ تقریباً تباہ ہو چکا تھا۔ ہم جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہر طرف تباہی ہے۔ گھر بھی ٹوٹے ہوئے ہیں، دکانیں زمین سے مل گئی ہیں اور ہسپتال بھی تباہ ہوچکاہے۔ وہاں ہمیں پتا چلا کہ یہاں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول گڑھی حبیب اللہ کی تقریباً سواتین سو لڑکیاں ملبے کے اندر دفن ہیں تو ہم سیدھے اسی طرف پہنچے۔یہ سکول تین منزلہ تھا۔ اوپر بڑی کلاسیں تھیں نویں اور دسویں کی اور نیچے چھوٹی کلاسیں۔ دسویں کی لڑکیاں کلاس روم سے نکل کر بھاگیں تو جس طرف سے بھاگی ہیں وہ چھت گر پڑی اور یہ سب لڑکیاں ملبے میں زندہ دفن ہو گئیں۔پہلے دن تو کسی کو نہیں نکالا جاسکا لیکن دوسرے دن تقریبا پچاس لاشیں نکالی گئیں۔ پھر سترہ لاشیں کل نکالی گئی ہیں۔ دو بچیوں کی لاشیں ہمارے سامنے نکالی گئیں اور ایک مرد کی جو شاید کوئی راہگیر تھا اور سکول کے پاس سے گزر رہا تھا۔

            یہاں ایک تو اس گرلز سکول میں یہ ہوا ہے پھر دوسرا ایک بچوں کا سکول تھا جہاں ہم نہیں پہنچ سکے تھے کیونکہ وہ دور تھا۔ وہاں بھی سو کے قریب بچے اسی طرح ملبے میں دفن ہوئے ہیں۔

            جب ہم وہاں سے نکلے تو ہر طرف بدبو تھی۔ لاشوں کا خون جم چکا تھا اور مصیبت یہ تھی کہ دفنانے کے لیے لوگوں کی کمی تھی۔ جب ہم سکول میں پہنچے تو بہت کم لوگ تھے جو لاشیں نکال رہے تھے کیونکہ پورا گاؤں ہی متاثر ہے۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ سکول سے نکلنے والی لاشوں کی شناخت کرنے والا کوئی نہیں ہے کہ اول تو لاشیں مسخ ہیں اور ساری لڑکیاں یونیفارم میں تھیں، پھر ان لڑکیوں کے والدین یا تو شدید زخمی ہیں اور یا خود اپنے گھروں میں دفن ہو گئے ہیں۔لوگ اپنے طور پر وہاں سے لاشیں نکال بھی رہے تھے اور انہیں دفنا نے کے لیے پریشان بھی تھے کہ کفن تک کا کوئی بندوبست نہ تھا، انہیں دفن کرنے میں بھی مشکلات تھیں، ایک جنازے کے لیے چار آدمی ڈھونڈنے مشکل تھے اور ابھی تک وہاں کوئی نہیں پہنچا تھا۔