‘متوسط طلبہ’ کی اہمیت اور ان کا اصل مسئلہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اکتوبر 2005

            پچھلے دنوں ہمیں گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ جانے کا اتفاق ہوا۔یونیورسٹی اور اس کے مختلف شعبے دیکھنے ، اسی طرح مختلف اساتذہ اور سٹاف سے بات چیت کرنے کے بعد اگرچہ یہ محسوس ہوا کہ پرائیویٹ شعبے میں ایک معیاری اورسنجید ہ کام ہورہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاثر یہی قائم ہوا کہ ہمارے ہاں تعلیم کوجس طرح دولت کی دیوی کی بھینٹ چڑھایا جا رہاہے یہ ادارہ بھی اس روایت میں ایک اورخوبصورت اضافہ ہے کیونکہ ہمیں اخراجات اورفیسوں کی لمبی چوڑی فہرست تھما دی گئی تھی، جس کے بوجھ تلے دبے دبے ،ہم خاموشی سے واپس چلے آئے تھے لیکن کل کے اخبارات میں نیشنل ٹیلنٹ سکالرشپ کے سلسلے میں اس ادارے کالمبا چوڑااشتہاردیکھ کر خو شگوارحیرت ہوئی اورہمیں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہا کہ یہ ادارہ واقعتا فروغ علم میں سنجیدہ ہے ۔اللہ کرے کہ یہ اشتہار صرف اشتہار یا کاروباری دکھاوانہ ہوبلکہ ایک مخلصانہ کاوش اور وطن عزیزکی فلاح وبہبود کا سندیسا ہو۔ اس سکیم کے لیے ہم اس ادا رے کومبارک باد پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے ارباب اختیارکی توجہ ایک اور اہم مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں،ہمیں امید ہے کہ یہ حضرات اپنی صلاحیتیوں اور علم کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کابھی کوئی حل نکالیں گے ۔

            ہمار ا یہ مسئلہ ذہین اور نالائق طالب علموں سے نہیں بلکہ متوسط طلبہ سے متعلق ہے جو نہ صرف اپنے تعلیمی ریکارڈ اورذہانت کے اعتبارسے اوسط درجے کے ہوتے ہیں بلکہ معاشی حیثیت سے بھی اسی طبقے کا حصہ ہوتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جس طرح ہمارے ملک میں معاشی اعتبار سے متوسط طبقہ بری طر ح پس رہاہے اسی طرح اوسط ذہانت کے حامل طلبہ کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہین طلبہ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ ان کی ذہانت اورمحنت اس امرکی متقاضی ہوتی ہے کہ وہ ایک نہیں توکسی دوسرے ذریعے سے آگے بڑ ھ جائیں ،اسی طرح نالائق اور نکمے طلبہ کو بھی پیچھے ہٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ ان کے نکمے پن کا نتیجہ اس کے علاوہ کوئی اوربرآمدہو نہیں سکتا۔اس طرح ان دوقسموں کے طالب علموں کی منزلیں تو تقریبامتعین ہوجاتی ہیں،لے دے کے یہی متوسط طبقہء طلبہ رہ جاتا ہے جس کو آگے بڑھنے کے لیے اصلاً کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ سہارا بروقت میسر آ جائے توتجربہ شاہد ہے کہ یہ طالب علم بھی اگر ذہین طلبہ سے آگے نہیں توبعض صورتوں میں کم ازکم ان کے برابر ضرورپہنچ جاتے ہیں اورملک و قوم کے لیے ویسے ہی کارآمد ثابت ہوتے ہیں جیسے ذہین، اوراگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے توپھر انہیں عام طور پیچھے ہی جانا ہوتاہے بالکل اس ٹرک کی طرح کہ چڑھائی چڑھتے ہوئے جس کا انجن فیل ہو جائے۔عام طورپر طلبہ کے اس طبقے کے لیے بلند ی کاسفر انٹر میڈیٹ کے بعد شروع ہوتا ہے اوراس موقع پر ہی ان کے والدین کا معاشی‘ انجن’ فیل ہو جاتا ہے۔چنانچہ بامرمجبوری وہ پیچھے لڑھکتے چلے جاتے ہیں۔ان کے والدین کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ سفید پوشی کا بھرم زکوۃ و خیرات لینے میں مانع ہو تاہے اوربچوں کامطلوبہ ذہانت سے کم رہ جانا بلکہ مطلوبہ نمبروں سے کم رہ جانا(اورلازم نہیں کہ اعلی نمبر اعلی ذہانت کی علامت بھی ہوں) سکالرشپ کے آڑے آ جاتا ہے۔ ایسے میں ان کے پاس سوائے اسکے اورکوئی متبادل موجود نہیں رہتا کہ یا تو بچوں کی تعلیم کی خواہش کوحسرتوں کے خانے میں ڈال کر دنیا سے رخصت ہو جائیں اوریا ناجائز ذرائع اختیا ر کریں اور یا پھر ساری عمر قرض کے بوجھ تلے دبے رہیں۔ان بچوں کا بھی یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ اصلاً پڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں( ایک درجہ کم ہی سہی )اورپڑھنا بھی چاہتے ہیں لیکن معاشی رکاوٹیں راستہ روکے کھڑ ی ہیں تووہ رد عمل کا شکار ہوکر یا تو باقی زندگی کاہل اور بے کا ربن کر گزار دیتے ہیں اوریا پھر معاشرے سے بدلہ لیتے ہیں اورہر جائز وناجائز راستہ اختیارکر تے چلے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات مجرمانہ سرگرمیا ں ان کامقدر بن جاتی ہیں۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مجموعی طور پر معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان بچوں کوسنبھالے اور کارآمد شہری بننے میں ان کی مدد کرے۔

            اوپر کے درجے والے بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور انتہائی نچلے درجے والے بھی ۔لیکن یہ طبقہ انتہائی وافرمقدارمیں ہوتاہے اس لیے قومی ترقی کے لیے ہر شعبے میں، لیکن تعلیم میں تو خاص طور پر ان کوٹارگٹ کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ طبقہ ضائع ہو جاتا ہے اور فی الواقع وطن عزیز میں ضائع ہو بھی رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شعبے میں یہ طبقہ ہی اصلاً وہ طبقہ ہوتا ہے کہ اس کاوزن جس طرف ہو جائے وہی پلڑاجھک جاتا ہے۔معاشرے کو مل جل کر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کاوزن ذہین طبقے کی سمت ہو جائے اس سے ذہین طبقے کی مجموعی قوت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا جو اصل میں قوم کی قوت میں اضافہ ہے۔

             امرا کے لیے توپہلے ہی بیسیوں ادارے موجودہیں اورنچلاطبقہ ویسے ہی تعلیم کواپنامسئلہ نہیں بناتا ۔ متوسط طبقہ ہی وہ طبقہ ہے کہ تعلیم واقعتا جس کامسئلہ ہے ۔اور‘ مصیبت ’یہ ہے کہ یہ طبقہ اپنی عزت نفس بھی محفوظ رکھنا چاہتاہے اور سفید پوشی کابھرم بھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کواعلی تعلیم سے بھی آراستہ کرنا چاہتاہے۔ اب یہ ساری باتیں کیسے پوری ہوں؟ ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی ادارہ توہوجوان کااحساس کر لے ،کوئی توہو جوان کویہ تسلی دے کہ اب تمہاری زیست اپنی عبا کے داغ چھپائے ، آنکھوں میں خواب سجائے،اور بچوں کوجھوٹی تسلیاں دیتے نہیں گزرے گی بلکہ ہم نے تمہارے لیے بھی بندوبست کر لیا ہے اور اب تمہاری زیست مفلس کی ردا نہیں ہو گی کہ سر چھپاؤ تو بدن کھلے اور بدن چھپاؤتو سر۔

            گفٹ یونیورسٹی والوں کے حوصلے دیکھ کر ہمیں یہ امید ہوچلی ہے کہ ان کے ارباب اختیار کی روشن صلاحیتیں اس طبقے کے کام بھی آئیں گی اوروہ ان کے لیے بھی کوئی باعزت راستہ نکال لیں گے اگر ایسا ہو گیا تو یقین جانیئے کہ یہ نہ صرف اس طبقے کے لیے معاشی ترقی کی بہت بڑی نوید ہوگی بلکہ وطن عزیزمیں حقیقی علمی انقلاب برپاکرنے کی طرف بھی وہ پہلاقدم ہو گا کہ جس کے بعد سب قدم اسی سمت اٹھنے پر مجبورہوں گے۔