تراویح کی نماز

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : اکتوبر 2005

پہلا نقطہ نظر، تراویح کی نماز کوئی الگ نماز نہیں ہے۔ یہ درحقیقت تہجد ہی کی نماز ہے۔

            تراویح کی نماز کوئی الگ نماز نہیں ہے۔ یہ درحقیقت تہجد ہی کی نماز ہے جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لوگوں نے رمضان کے مہینے میں بالالتزام جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی ۔ اس باب میں اصل کی حیثیت جس روایت کو حاصل ہے ، وہ یہ ہے :

            عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ اخبرہ انہ سأل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا: کیف کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی رمضان؟ فقالت : ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدیٰ عشرۃ رکعۃ: یصلی اربعاً ، فلا تسئل عن حسنھن و طولہن، ثم یصلی اربعاً ، فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ، ثم یصلی ثلاثاً. (بخاری ، رقم۱۱۴۷)

             ‘‘ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے بتایا کہ انھوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا ہوتی تھی؟ام المومنین نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ رمضان میں کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھتے تھے اور نہ رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں ۔ آپ چار رکعت اس طرح پڑھتے کہ بس کچھ نہ پوچھو کہ ان کا حسن کیا تھا اور وہ کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ پھر چار رکعت پڑھتے ۔ ان کے بارے میں بھی کچھ نہ پوچھو کہ ان کا حسن کیا تھا اور وہ کتنی لمبی ہوتی تھیں ۔ پھر آخر میں تین رکعت پڑھتے تھے۔’’

            اس میں شبہ نہیں کہ بعض روایات میں تیرہ رکعتوں کا ذکر بھی ہوا ہے، لیکن اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نماز چونکہ فرض تھی، اس لیے آپ کبھی کبھی اس سے پہلے یااس کے بعد اسی طرح دو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے، جس طرح ہم مثلاً فجر سے پہلے یا مغرب کے بعد یہ نفل پڑھتے ہیں، لیکن بعض لوگوں نے غلطی سے انھیں اصل کے ساتھ شامل سمجھ لیا۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے اس نماز کے جو طریقے ثابت ہیں ، وہ یہ ہیں:

            ۱۔ دو دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ، پھر ایک رکعت سے یہ نماز وتر کر دی جائے۔

            ۲۔ چار چار رکعتیں عام طریقے پر پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے، پھر تین رکعتیں بغیر تشہد میں بیٹھے مسلسل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور اس طرح یہ نماز وتر کر دی جائے۔

            ۳۔ دو یا چار یا چھ یا آٹھ رکعتیں تشہد میں بیٹھے بغیر مسلسل پڑھ کر تشہد کے لیے بیٹھا جائے، پھر سلام پھیرے بغیر اٹھ کر ایک رکعت پڑھی جائے اور سلام پھیرا جائے۔

            روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سراً و جہراً ، دونوں طریقوں سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے ۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان دونوں کے بین بین کا لہجہ اختیار کیا جائے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے: وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً. (۱۷: ۱۱۰)

             ‘‘اور اپنی اس رات کی نماز میں نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے ، ان دونوں کے بین بین کا لہجہ اختیار کرو۔’’

            چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اپنے صحابہ کو بھی اسی کا پابند کیا ۔ ترمذی میں ہے :

            عن ابی قتادۃ : ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لابی بکر: مررت بک وانت تقرأ وانت تخفض من صوتک فقال: انی اسمعت من ناجیت، قال : ارفع قلیلاً ، وقال لعمر : مررت بک وانت تقرأ وانت ترفع صوتک ، قال: انی اوقظ الوسنان واطرد الشیطان، قال : اخفض قلیلاً. (رقم ۴۴۷)

             ‘‘ابو قتادہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: میں تمھارے پاس سے گزرا تو تم (رات کی نماز میں) بہت پست آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے ۔ انھوں نے جواب دیا: میں اسے سناتا ہوں جو میری سرگوشی سنتا ہے ۔ آپ نے فرمایا: اسے کچھ بلند کر لو۔ پھر آپ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا: میں تمھارے پاس سے گزرا تو تم بہت بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے انھوں نے جواب دیا : میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: اسے کچھ پست کر لو۔’’

            اس نماز کا اصل وقت تو جیسا کہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ مزمل سے واضح ہے ، سو کر اٹھنے کے بعد ہی کا ہے اور اسی وجہ سے اسے نماز تہجد کہا جاتا ہے ۔ لیکن کوئی شخص اگر یہ سعادت حاصل کرنے میں کسی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے تو وہ یہ نماز سونے سے پہلے بھی پڑھ سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

            ایکم خاف ان لایقوم من اٰخر اللیل فلیؤتر ثم لیرقد و من وثق بقیام من اللیل فلیؤتر من اٰخرہ فان قرأۃ اٰخر اللیل محضورۃ و ذلک افضل. (مسلم، رقم ۱۶۳)

             ‘‘تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہ اٹھ سکے گا ،اسے چاہیے کہ وہ سونے سے پہلے اپنی نماز وتر کر لے ، لیکن جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ یقینا اٹھے گا ، اسے یہ نماز رات کے آخری حصے ہی میں پڑھنی چاہیے ، اس لیے کہ آخر شب کی قرأت بڑی حضوری کی چیز ہے اور وہی افضل ہے۔’’

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز ہمیشہ تنہا پڑھتے تھے ۔ تاہم رمضان کے کسی مہینے میں جب آپ تہجد کے لیے اٹھے اور آپ نے اپنے حجرے سے نکل کر باہر مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کی اقتدا کے شوق میں عام مسلمان بھی نماز کے لیے جمع ہونے لگے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو چند دنوں کے بعد یہ سلسلہ اس اندیشے سے منقطع کر دیا کہ آپ کی طرح مبادا یہ عام مسلمانوں پر بھی فرض قرار دے دی جائے ۔ بخاری میں ہے:

            ان عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا اخبرتہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج لیلۃ من جوف اللیل فصلی فی المسجد، و صلی رجال بصلاتہ فاصبح الناس فتحدثوا؛ فاجتمع اکثر منھم فصلی فصلوا معہ، فاصبح الناس فتحدثوا فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ ، فخرج رسول اللّٰہ فصلی بصلاتہ. فلما کانت اللیلۃ الرابعۃ عجز المسجد عن اھلہ حتی خرج لصلاۃ الصبح ، فلما قضی الفجر اقبل علی الناس فتشہد، ثم قال : اما بعد ، فانہ لم یخف علی مکانکم ولکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنھا. (بخاری، رقم ۲۵۱۲)

             ‘‘ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ بن زبیرکو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت نکلے اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھی وہاں کچھ لوگ آپ کے ساتھ اس میں شریک ہو گئے ۔ انھوں نے صبح اس کا ذکر کیا تو دوسرے دن زیادہ لوگ جمع ہو گئے ۔ اس رات بھی آپ نے مسجد میں نماز پڑھی تو لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی ۔ صبح پھر اس کا ذکر ہوا تو تیسری رات نمازیوں کی ایک بڑی تعداد مسجد میں آ گئی ۔ آپ اس رات پھر نکلے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔ پھر چوتھی رات ہوئی تو مسجد لوگوں سے اس طرح بھر گئی کہ اس میں کسی آنے والے کے لیے جگہ باقی نہ رہی لیکن اس رات آپ صبح سے پہلے نہیں نکلے ، بلکہ فجر ہی کے وقت باہر آئے ۔ پھر فجر کی نماز کے بعد آپ نے کلمات شہادت پڑھے اور فرمایا : میں تم لوگوں کے آنے سے بے خبر نہ تھا ، لیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ کہیں تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اسے ادا نہ کر سکو۔’’

            چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت تک لوگ گھروں اور مسجدوں میں اسے بالعموم اپنے طور پر ہی پڑھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر ایک دن مسجد کی طرف آئے تو انھوں نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹکڑیوں میں اس طرح یہ نماز پڑھ رہے ہیں کہ کوئی شخص تنہا تلاوت کر رہا ہے اور کچھ امام کی اقتدا میں ہیں۔ اس نماز میں چونکہ سری تلاوت کی اجازت نہیں ہے ، اس وجہ سے مسجد میں عجیب بے نظمی کی کیفیت تھی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے آداب تلاوت کے لحاظ سے اسے پسند نہیں فرمایا ۔ چنانچہ آپ نے ابی بن کعب کو اس نماز کے لیے لوگوں کا امام مقرر کر دیا۔

            ایک دوسری رات آپ پھر تشریف لائے اور فرمایا : ‘نعم البدعۃ ہذہ’ (یہ نئی چیز ہے ، لیکن اچھی ہے)۔ آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اس نماز کی جماعت اور اسے عشا کے ساتھ پڑھنے کی اجازت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور ہم نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اس کے لیے ایک امام مقرر کر دیا ہے ، اس وجہ سے اسے وہ بدعت قرار نہیں دیاجا سکتا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضلالت قرار دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ‘والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون(جسے چھوڑ کر یہ سوئے رہتے ہیں، وہ اس سے افضل ہے جسے یہ پڑھ رہے ہیں)بخاری رقم ۲۰۱۵۔روایت سے واضح ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کے ساتھ اس نماز میں شریک نہیں ہوئے ، بلکہ انھوں نے رات کے آخری حصے میں اٹھ کر تنہا یہ نماز پڑھنے کو اس سے بہتر قرار دیا

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ، کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی ، لیکن صحابہ کے عمل سے اس کی اس سے زیادہ رکعتیں بھی ثابت ہیں ۔ ان کا یہ عمل دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت یقینا ان کے علم میں تھی ، اس لیے کہ ہم ان کے بارے میں یہ تصور نہیں کر سکتے کہ وہ کوئی بدعت اختیار کر سکتے تھے ۔ اس کی وجہ بھی بادنیٰ تامل سمجھ میں آ جاتی ہے ۔ عام مسلمان جنھیں قرآن مجید زیادہ یاد نہیں تھا ، رمضان کے مہینے میں زیادہ دیر تک قیام اللیل کی سعادت حاصل کرنے کے لیے غالباً اس اجازت کے طالب ہوئے کہ وہ رکعتوں کی تعداد بڑھالیں اور آپ نے یہ اجازت دے دی ۔ بعد میں جب ایک امام کا تقرر ہوا تو لوگ بالعموم تئیس رکعتیں پڑھنے لگے۔

            ہمارے نزدیک ، عام مسلمان اگر چاہیں تو اسی ضرورت کے تحت جو اوپر بیان ہوئی ہے، اس سے زیادہ ، مثلاً مالکیہ کی روایت کے مطابق انتالیس رکعتیں بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ تاہم اسے لازماً عشا کے ساتھ پڑھنے اور اس کی جماعت اور رکعتوں پر اصرار جیسی چیزوں کے لیے دین میں کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ اکابر علما و صلحا کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل کی پیروی میں اس نماز کی زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں پڑھیں اور اس کے لیے تہجد ہی کے وقت کو ترجیح دیں۔ ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اس نماز کے پڑھنے والوں پر یہ حقیقت بھی واضح کرتے رہیں کہ یہ کوئی الگ نماز نہیں ، بلکہ وہی تہجد کی نماز ہے جس کی اصل برکتیں سو کر اٹھنے کے بعد اور تنہا اپنے گھر میں اسے پڑھنے ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔

٭٭٭