ہم ، ہمارے اسلاف اور اقبال

مصنف : ابو عبداللہ محمد عبدالجبار

سلسلہ : اقبالیات

شمارہ : ستمبر 2005

 ابو عبداللہ محمد عبدالجبار ، دارالسلام لاہور

            اسلاف جمع ہے سلف کی یعنی گزشتہ آباؤ اجداد ، پیشرواو رمتقدمین ۔ نیز یہ لفظ صالح اکابرین کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور کبھی کبھی اس سے مراد صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین او رآئمہ دین محدثین کرام اور فقہا بھی مراد لیے جاتے ہیں ۔ بہرحال یہ لفظ اپنے اندر تنوع اور وسعت رکھتا ہے اور مختلف مواقع پر اسے بولا جا سکتا ہے ۔

             جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ‘‘ ہم اور ہمارے اسلاف ’’ تو ‘ہمارا’ ان اکابرین سے تقابل اور موازنہ مقصود ہوتا ہے۔ جو اس دنیا میں اپنی صالحیت و صلاحیت، شرافت و نجابت اور نیکی و نیک نامی کے جھنڈے گاڑ چکے ہوتے ہیں ۔ لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

 ؂ چہ نسبت خاک را با عالم پاک

            کہاں ہمارے وہ آباؤ اجداد جنہوں نے دنیا سے کفرو شرک اور بدعات و خرافات کے اندھیرے مٹا کر اسے اپنی ضیا پاشیوں سے منور کیا اور کہاں آج اندھیروں کے مسافر!کہاں وہ اللہ والے برگزیدہ اورکہاں ہم اللہ سے دوری اختیار کرنے والے پربریدہ ! کہاں وہ خوددار و آبرو مند سپوت اور کہاں ہم جیسے خودی کو بیچنے اور ، غیرت وحمیت کے سوداگر! بقول اقبال

 اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

 مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ

 تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

 کہ تو گفتار ، وہ کردار ، توثابت ، وہ سیارہ

            جو انمول عظمتیں اور رفعتیں ان عظمت کے میناروں اور کردار کے غازیوں نے بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھیں وہ ساری کی ساری ہم نے چشم زدن میں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالیں۔ اس پر شاعر مشرق پکار اٹھے:

 گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی

 ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

            کیا بتاؤں کہ ہمارے اسلاف کیاتھے اور ہم کیا ہیں ذرا دیکھیے تو! انہوں نے توابوبکر سے صدیق ، عمر سے فاروق، عثمان سے ذوالنورین اور علی سے کرم اللہ وجہہ کا باوقار مقام حاصل کیا ۔ان اصحاب پیغمبر کی تو بات ہی خیر اورہے ، ہمارا تو ماوراء لنہر مبں آنکھ کھولنے والے محمد بن اسماعیل سے بھی کوئی موازنہ نہیں ہے کہ جس کوامیر المومنین فی الحدیث کالازوال اعزازملا۔ ہمارے اسی ادبار کا رونا اقبال کچھ یوں روتے ہیں۔

 وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

            سوزوسازِ رومی اور پیچ وتاب رازی رکھنے والے یہ لوگ نہ صرف یہ کہ باکردار اور عملی مسلمان تھے بلکہ مومنانہ فراست کے حامل انسان بھی تھے ۔ ان کے سینے اپنی قوم کے درد سے بھرے ہوئے جبکہ ان کے دماغ اس درد کا درماں بننے کی تدبیریں سوچنے میں محو رہتے تھے یعنی انہیں ہر حال میں اپنی قوم کی سربلندی و سرفرازی مطلوب تھی لیکن ہم مٹی کے مادھو ان سب خوبیوں سے نہ صرف یکسر خالی ہیں بلکہ ان سے ہمار ا دور کابھی واسطہ نظر نہیں آتا اقبال نے اس کو یوں بیان کیا۔ ؂

 قلب میں سوز نہیں ، روح میں احسا س نہیں

 کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

            یہ لوگ اپنوں اور بیگانوں کے لیے سراپا خیر اورباعث برکت تھے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی یاد میں اپنے نہیں بیگانے بھی رویاکرتے تھے ۔ محمد بن قاسم ، فاتح مصر حضرت عمر و بن العاص ؓ ، امین امت حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ اس بات کی روشن مثالیں ہیں ۔ فاروق اعظم کی تو بات ہی اور ہے کہ جنہیں دو رسے دیکھ کر بیت المقدس کے عیسائی پادری یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ‘‘ہاں! یہی ہے وہ قدوسی جس کا تذکرہ ہماری کتب میں موجود ہے ’’ اس پس منظر میں ہم سے تقابل کر کے اقبال کی قلم یوں گویا ہوتی ہے۔

شور ہے ہو گئے دنیاسے مسلماں نابود

 ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں یہود

یہ مسلماں ہیں ،جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

            ہمارے اسلاف کا سلسلہ ایک سنہری لڑی میں پروئے موتیوں کی طرح ہے جن میں ہر دوسرا موتی پہلے سے بڑھ کر قیمتی اورفزوں تر نظر آتا ہے ۔ یہ موتی اور ہیرے لسان رسالت کے مطابق ‘‘خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم’’ کے زریں دور کے ہوں یا اس کے بعد کے جس پر بھی نظر پڑے وہ یکتا اور فرید زمانہ لگتا ہے ۔ کس کس کانام لیا جائے ۔ صدیق و فاروق کا یا عثمان و علی کا ،طلحہ و زبیرکا یا ابوذر وبلال کا، معاویہ کا یا سلمان فارسی کا،خالد بن ولید کایا عمر وبن العاص کا ، عبیدہ بن جراح کا یا سعد بن ابی وقاص کا، عبداللہ بن عمر کا یا عبداللہ بن مسعود کا،عبداللہ بن زبیر کایا سعید بن زید کا ، معاذ بن جبل کا یا عفراء کے بیٹوں کا، سیدالشہدا حمزہ کایا ابودجانہ کا، صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ ؓ کا یا خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء کا ، رسول اللہ ﷺ کی رفیقہ حیات خدیجۃ الکبری ؓ کایا ام المومنین صفیہ کا ۔غرض کس کس کا نام لوں ، بے ساختہ یہی بات زبان سے نکلتی ہے کہ

 ایں ہمہ خانہ آفتاب است

            اب اس سے ذرا نیچے آجائیں ۔ اندلس کے ساحل پہ سفینے جلانے والے طارق بن زیاد کا تذکرہ کروں یا ابناء صلیب کو لوہے کے چنے چبوانے والے صلاح الدین ایوبی کی مدح سرائی کروں!!!!

             اور اگرچلتے چلتے اس جگہ آجائیں جہاں پر آج ہم فروکش ہیں تو یہاں منظر ہی اور ہے ۔اور اسی منظر کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں:۔

 امراء نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے

 زنداں ہے ملت بیضاء غربا کے دم سے