کیا وان مر گیا؟

مصنف : وحید احمد

سلسلہ : جسے اللہ رکھے

شمارہ : ستمبر 2005

            انتیس سالہ وان اپنے ٹرک میں بیٹھا جا رہا تھا۔ اس نے کھڑکی کے شیشے نیچے کیے۔ اکتوبر کی تیز ہوا اس کے بال اڑانے لگی۔ اس نے سنہری دھوپ میں دھلے چمکتے درختوں کی طرف دیکھا اور کہا۔

            ‘‘کٹائی کا شان دار دن’’۔

            گھر پر اس نے ایک چپاتی کھائی اور اپنا زنجیر والا آرا ٹرک میں رکھا۔سہ پہر پانچ بجے وہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا۔ یہاں اسے لکڑیاں کاٹنی تھیں اور یہ جگہ ایک بہت گھنے درختوں کا جھنڈ تھی۔

            جب وان اکیلے لکڑیاں کاٹتا تو اس کی بیوی پام بہت پریشان ہوتی۔ لیکن وان کبھی پریشان نہ ہوتا۔ پہلے وہ موٹے درخت کاٹ نہ پاتا تھا۔ لیکن اب اس نے بڑے درخت کاٹنے کے لیے آرے کا وہ حفاظتی کور اتار دیا تھا جو چین کو اچھلنے سے بچانے کے لیے آرے کے سامنے لگا ہوا تھا۔ یوں وہ موٹے درخت کاٹنے کے قابل ہو گیا تھا۔

            وان کا آرا، رکے بغیر ایک گھنٹے تک چلتا رہا۔ اس نے ٹرک بھر لکڑیاں کاٹ لی تھیں۔ تب اسے وہ بڑا درخت نظر آیا جو اس نے کل شام گرایا تھا۔ اس نے سوچا روانہ ہونے سے پہلے اس کے بھی ٹکڑے کر دوں۔ وان جھکا اور پھر اس نے لکڑی پر آرا چلا دیا۔ جب وزنی آرا کاٹنے لگا تو لکڑی کے ٹکڑے ادھر ادھر اڑنے لگے۔ تب اچانک اس کا آرا درخت کے تنے میں برسوں سے پھنسے ہوئے لوہے کے تار کے ایک لچھے سے ٹکرایا۔ چنگاڑیوں کی بوچھاڑ آرے سے نکلی اور آرے کا بلیڈ جھٹکا کھا کر تیزی سے پیچھے کو لپکا۔

            ‘‘کیا میں خوش قسمت ہوں’’ اس نے سوچا ‘‘کیا آرے نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔’’

            پھر اس کا ہاتھ اپنی قمیص پر لگا۔ اسے یہ گیلی اور گرم محسوس ہوئی۔ اس نے بے یقینی سے نیچے دیکھا۔ اس کی قمیص خون میں بھیگی ہوئی تھی۔ تاہم اسے کوئی درد محسوس نہ ہوا۔ وان تیزی سے ٹرک کی طرف بڑھا تاکہ آئینے میں اپنا معائنہ کر سکے۔ ابھی تک اسے علم نہیں تھا کہ اسے کہاں زخم لگا ہے۔ راستے میں اس نے اپنا ہاتھ اپنے گلے پر رکھا تو اسے گرم خون کی ایک رو بہتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کی انگلیوں کی پوروں نے زخم محسوس کیا اور اسے آہستگی سے دبایا۔ اس کی انگلیاں چھ انچ لمبے گھاؤ میں دھنستی چلی گئیں۔

            اگرچہ وان کو علم نہ تھا کہ آرے نے اس کے گلے کی بیرونی دونوں خون کی نالیاں کاٹ ڈالی ہیں تاہم اس نے اپنی قمیص اتار دی۔ اسے بل دیا اور نرمی سے گلے پر باندھ دیا۔ لیکن اس پٹی سے خون کے بہاؤ میں کوئی کمی نہ آئی۔ تب اسے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ مر رہا ہو۔ وہ ہرنوں کا شکاری بھی تھا۔ اس لیے جانتا تھا کہ جب زیادہ مقدار میں خون بہ جائے تو کیا ہوتا ہے۔ وہ ایک درخت سے لگ کر بیٹھ گیا۔ اپنی آنکھیں بند کر لیں، اور موت کا انتظار کرنے لگا۔ پھر اسے اپنے بیٹے اور اپنی بیوی پام کی یاد آئی تو اس نے زندہ رہنے کی کوشش شروع کر دی۔

            وان بمشکل تیس قدم چل کر اپنے ٹرک میں سوار ہوا۔ اس نے وادی کی طرف پہاڑی کو دیکھا۔ یہ نہ صرف عمودی چڑھائی تھی بلکہ بائیں طرف کو تنگ موڑ بھی تھا۔ اس نے ایکسی لیٹر ٹرک کے فرش کے ساتھ پورے زور سے لگا دیا۔ ٹرک غرا کر آگے بڑھا۔ اس کے پچھلے ٹائروں نے گرد کا ایک طوفان اٹھا دیا تھا۔ کسی نہ کسی طرح ٹرک موڑ مڑا اور روانہ ہوا۔ اس نے اپنے سامنے پھیلی ہوئی چراگاہ دیکھی۔ خون آلود ہاتھوں سے اس نے اسٹیرنگ ویل تھاما اور ٹرک آگے بڑھایا۔

            جب ٹرک ناہموار چراگاہ پر اچھلتا ہوا بڑھ رہا تھا تو اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ زندہ ہے۔

            ‘‘میں اب مرنے ہی والا ہوں۔’’ اس نے سوچا۔

            وان نے چوتھائی میل سفر اور طے کیا اور ٹرک آہستہ آہستہ چلتے ہوئے لوہے کے بڑے بھاری گیٹ کے سامنے رکا۔ گیٹ اندر کو کھلتا تھا۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ اسے کھول نہ پائے گا، اس نے اوپر سے اندر کودنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جب گیٹ کی طرف بڑھا تو عین اسی وقت اسے دور کار کے انجن کی آواز آئی۔

            اس کی بائیں طرف سیاہ سڑک تھی۔ وہ ادھر گیا اور تیزی سے ایک ہاتھ سے کار سوار کو رکنے کا اشارہ کیا۔ کار سوار ایک عورت تھی۔ اس نے کار کی رفتار کم کی، خون میں ڈوبے ہوئے اس آدمی کی طرف دیکھا۔ اس کا منہ کھلا اور وہ کار تیزی سے بھگا لے گئی۔

            ‘‘نہیں خاتون نہیں۔’’ وان ہانپتا ہوا چلایا۔ ‘‘واپس آجاؤ میں مر رہا ہوں۔’’

            پھر وان نے دو سو گز دور کشتیوں کی فروخت والی دکان کی طرف قدم بڑھائے۔ جب وہ لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا تو اس نے اپنے قدموں کے نشان دیکھے، یہ خون سے بن رہے تھے۔

            وہ نہ صرف خون میں نہایا ہوا تھا بلکہ زندہ بھی تھا اور اپنے قدموں پر چل بھی رہا تھا مگر وہ یہ سب کچھ انتہائی ہمت اور بے خوفی کے ساتھ کر رہا تھا۔ گھبراہٹ کا اس کے ہاں دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔

            سارے راستے اس نے دکان کے نیلے ایلومینیم کے بنے دروازے پر نظریں جمائے رکھیں۔ اسے علم تھا کہ اس دکان کے مالک چھ بجے شام دکان بند کر جاتے ہیں جب کہ اس کی گھڑی اس وقت چھ بج کر دس منٹ کا وقت دکھا رہی تھی۔

            اپنی طاقت کو جمع کرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے وہ عمارت کی طرف بڑھا۔ اسے یہ خوف بھی تھا کہ وہ اس کی آواز کو سن ہی نہیں پائیں گے۔ اس نے سامنے والی کھڑکی کھٹکھٹانی شروع کر دی۔ دکان دار نے شور سنا اور وہ دروازہ کھولنے کو دوڑا۔

            اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا۔

            ‘‘گھبراؤ مت’’ وان نے کہا ‘‘ایمبولینس منگواؤ۔’’

            ایک بنچ پر وان کو لٹانے کے بعد اس نے قریبی ہسپتال ایمبولینس کے لیے فون کیا اور پھر اس کی بیوی پام کو بلایا۔

            ‘‘وان حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔’’ دکان دار نے اسے بتایا۔ ‘‘اس نے اپنے آرے سے خود کو زخمی کر لیا ہے۔’’

            پام جب تیزی سے دکان کی طرف بڑھی تو اس نے سوچا کہ وان کی ٹانگ آرے سے کٹ گئی ہے۔ دکان میں وان بے حس و حرکت پڑا تھا۔ خون اس کے گلے سے بہت تیزی سے بہ رہا تھا۔ وہ اب بھی موت و حیات کی کش مکش میں تھا مگر اسے قطعی درد نہ ہو رہا تھا۔ وہ اب اپنی بیوی پام اور اپنے اکلوتے بیٹے مائیکل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

            ‘‘میں جانتا تھا کہ میں انھیں بہت چاہتا ہوں۔ تاہم اس وقت مجھے اپنی چاہت کا درست اندازہ نہ تھا۔’’

            اب اس نے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سہ پہر ۱۴:۶ پر ایک بیس سالہ میڈیکل ٹیکنیشن نے اپنے ایمرجنسی وائرلیس سیٹ پر حادثے کا سنا۔ وہ فوراً اپنی کار میں بیٹھا اور پانچ منٹ ہی میں جائے حادثہ پر لپکا۔اس نے وان کی دائیں اور بائیں جانب وینز پر دباؤ ڈالا۔ اس کے بعد وان کے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور جسم بے جان ہو گیا۔

            ‘‘کیا یہ مر گیا ہے’’ کسی نے پوچھا۔

            وان نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سوچا۔ ‘‘ابھی نہیں۔’’

            ۲۳:۶ پر ایمبولنس آ پہنچی۔ ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن نے اس کو ہوا سے پھول جانے والے ٹراؤزر پہنائے، جنھوں نے اس کے جسم کے نچلے حصے میں خون کی آمدورفت کو محدود کر دیا اور زندگی بخش خون ضروری اعضاء میں دھکیلنا شروع کر دیا۔ جلدی سے اس کو ایمبولنس میں سوار کیا گیا۔ ایمبولنس شور مچاتی ہوئی تیزی سے ہائی وے پر رواں ہو گئی۔

            تب وان کو ایک تشویش ناک بات سنائی دی۔ کسی میڈیکل ٹیکنیشن نے کہا: ‘‘اس کی نبض ڈوب رہی ہے۔’’

            تب اس نے سوچا: ‘‘اگر میں واقعی مر چکا ہوں تو سانس کیسے لے رہا ہوں۔’’

            اس کی بیوی پام اگلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ وہ کہتی ہے کہ میں ہسپتال تک مسلسل دعائیں مانگتی گئی۔ ایمبولنس کے پچھلے حصے میں میڈیکل ٹیکنیشن اسے جگائے رکھنے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے۔ ‘‘جاگتے رہو پیارے’’ ان میں سے ایک نے اس کے کندھے ہلاتے ہوئے کہا تھا۔ ‘‘جدوجہد جاری رکھو۔’’

            ۴۳:۶ پر جب ایمبولنس ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے وان کے خون کے مسلسل بہتے چلے جانے سے فیصلہ کیا کہ آپریشن اشد ضروری ہے۔

            آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر نے مریض کا جائزہ لیا۔ اس کی دائیں اور بائیں جانب گردن کی وینزکٹ چکی تھیں۔ گردن کے عضلات کو سخت نقصان پہنچا تھا اور گلے کے سامنے حصے میں موجود کری ہڈی بھی زخمی ہو چکی تھی۔ سب سے بڑھ کر اس کے کل خون کا آدھا حصہ بہ چکا تھا۔

            ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ بائیں جاگولر کو بند کر دیا جائے۔ کیوں کہ اسے درست کرنا ناممکن تھا۔ دائیں جاگولر قابل مرمت تھی لہٰذا اسے اور دوسرے عضلات کو بیرونی جلد سمیت سی دیا گیا۔

            جمعرات ۱۱ بجے رات تک آپریشن مکمل ہو چکا تھا۔ اسے کئی بوتلیں خون دیا گیا۔ اگلے منگل تک وہ گھر لوٹ آیا۔ دو ماہ بعد وہ کام پر چلا گیا اور اسی سال کے دوران میں وہ لکڑیاں کاٹنے جنگل چلا گیا۔ اور اب پانچ سال سے بھی زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ اس سخت وقت کو یاد کرتا ہے تو بہت حیران ہوتا ہے۔ اس خوف ناک حادثے نے اس کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ اب جب اس سے گفتگو ہوئی تو اس نے کہا:

            ‘‘میں ہر روز اپنی بیوی اور بچے سے کہتا ہوں کہ میں انھیں بہت چاہتا ہوں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس دن اس نے مجھے تمھارے لیے نئی زندگی عطا فرمائی۔’’

(بشکریہ :ریڈرز ڈائجسٹ، اگست ۱۹۸۸ء)

٭٭٭