ماں کی فریاد

مصنف : ارشاد عرشی ملک (اسلام آباد)

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : دسمبر 2020

میرے بچو، گر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو
صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پہ چکھنا
‘‘اُف’’ نہ کہنا، غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا
ہاتھ مرے گر کمزوری سے کانپ اُٹھیں
اور کھانا، مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا، لہجے کو بیزار نہ کرنا
بھول نہ جانا اِن ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے،
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی
کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر، اور مجھے بیمار نہ کرنا
بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اِک اِک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی
میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم، تیز اپنی رفتار نہ کرنا
بھول نہ جانا، میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا
جب میں باتیں کرتے کرتے رُک جاؤں، خود کو دہراؤں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں، یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں، مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بیکار اُلجھنا، مجھے سمجھنا
اُکتا کر، گھبرا کر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنایا کرتی تھی
جو کچھ دہرانے کو کہتے، میں دہرایا کرتی تھی
اگر نہانے میں مجھ سے سستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا، یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بو آتی ہے
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر
چڑیا گھر لے جانے کا میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی
گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں
 وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا، اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا 
شاید میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا
میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا، چلنا پھرنا، ملنا جلنا، لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اِس دنیا کی، آگے بڑھنا
میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اُٹھو 
تو مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا، جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں
بھول نہ جانا میں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں
گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا
جس شے کو جی چاہے میرا اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اِس بارے میں اک دوجے سے بحث نہ کرنا
آپس میں بیکار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا
گر میں اک دن کہہ دوں عرشیؔ
 اب جینے کی چاہ نہیں ہے یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں
 کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آجاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے
شاید کل تم جان سکو گے، اِس ماں کو پہچان سکو گے
گرچہ جیون کی اِس دوڑ میں، میں نے سب کچھ ہار دیا لیکن
 میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے
جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب چپکے سے سرکا دینا
اور، دعا کی خاطر ہاتھ اُٹھا دینا
میرے پیارے رب سے کہنا، رحم ہماری ماں پر کردے
جیسے اس نے بچپن میں ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
بھول نہ جانا میرے بچو
جب تک مجھ میں جان تھی باقی
خون رگوں میں دوڑ رہا تھا
دل سینے میں دھڑک رہا تھا
خیر تمہاری مانگی میں نے
میرا ہر اک سانس دعا تھا