کیا حقوق نسواں اسے کہتے ہیں

مصنف : زارا مظہر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : دسمبر 2020

ولیمے پہ آپکے گھر والوں نے مجھے اچھے پارلر سے تیار نہیں کروایا تھا مجھے ایک بار پھر تیار ہونا ہے۔ رانیہ نے پہلی بار تیکھی چتون سے کٹارے نین ہمایوں پر گاڑھے۔۔۔ 
 شادی گزرے دو ماہ ہوچکے ہیں ساس امی بہو رانی کا ہاتھ کھیر میں ڈلوا چکی تھیں۔ رانیہ کے قدم سسرال میں کچھ کچھ جمنے لگے تو اس کا پہلا شکوہ زبان پر آگیا۔۔ ہمایوں اچھا کھاتا کماتا کاروباری لڑکا تھا لیکن شادی پر اتنے اخراجات ہوچکے تھے کہ رانیہ کی فرمائش پوری ہوتے ہوتے چھ ماہ گذر گئے۔۔ تیار ہوکے دوبارہ فوٹو سیشن کروایا تو ستر اسی ہزار ایک دن کے لئے خرچ ہوگئے۔۔ خاندان بھر میں باتیں بھی بنیں اور ساس امی کے دل میں بہو کی جانب سے پہلی گرہ بھی پڑ گئی۔ کاش ہم تقدیر پر شاکر ہو جایا کریں۔ بیگم سلمیٰ نے اندازہ کر لیا کہ بہو رانی کتنی عقل والی ہیں۔ انہوں نے بیوگی کے ساتھ تین بیٹیوں اور ہمایوں کی پرورش کی تھی بڑی دانشمندی سے تینوں بیٹیوں کی شادیاں کی تھیں۔ اب دو ماہ کے عرصہ میں بہو بیگم کا اسراف دیکھ کر جان لیا کہ بہو صاحبہ اس قابل نہیں کہ وہ خود عملی طور پر ریٹائر ہو کے بیٹھ جائیں ورنہ ان کا ارادہ تھا کہ گھر کی کنجیاں بہو کو سونپ کر اللہ اللہ کریں گی۔۔ یہ ایک معمولی مثال ہے۔ 
 سوشل میڈیا پر ایک نیا ٹرینڈ چلا ہے خواتین کے حقوق کی ایک نئی جنگ کی تیاریاں شروع ہیں۔ اب جبکہ خواتین کو بیشتر حقوق مل چکے ہیں۔ اپنی مرضی سے پڑھنا لکھنا اور برابری کی سطح پر جاب کرنا سب برابر ہوگیا تو یاد آیا کہ ہمارے رومانوی جذبات تو تشنہ ہی رہ گئے۔ مرد صنفِ کرخت ہے اظہار سے زیادہ عمل پہ یقین رکھتا ہے۔ جبکہ خواتین کو عمل سے پہلے اظہار و اقرار چاہیے ہوتا ہے ۔ ہم کسی کو بھی قصور وار نہیں کہہ رہے یہ دونوں اصناف کی فطرت ہے۔ سو اپنی اپنی فطرت بدلنا ممکن نہیں۔ فطرت بدلنے کی کوشش میں ہم شخصیات کو بگاڑ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہتی ہیں مردانہ مضامین پڑھنا چاہتی ہیں تو دماغ میں وہی مردانہ خشکی چڑھے گی۔۔ لیکن فطرت کو دبایا نہیں جا سکتا سو نسوانی خواہشات رفتہ رفتہ مطالبات کی جانب بڑھنے لگتی ہیں۔ ہم ٹی وی چینلز پر نادان خواتین کی لکھی کہانیوں کو روتے رہتے ہیں جو معاشرے کی اکائیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے سریع الاثر زہر کی طرح رگوں میں سرایت ہوتی جا رہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا اس سے بڑھ کر تباہی پھیلانے جا رہا ہے یہ بھی کم خطرناک نہیں ہے شتر بے مہار کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے بلکہ یہ تو سچ میں ایک اور ایٹم بم ہے جو ازدواجیات پر گرنے والا ہے۔ جس کے دماغ میں جو آیا بلا سوچے سمجھے لکھ ڈالا اور ہواؤں کے حوالے کر دیا جہاں چاہے اڑا لے جائے۔ ناآسودہ خواتین نبّاض ہونے کے زعم میں یا کسی بھولے پن کی انتہا میں یا نادانستگی میں پتہ نہیں کون سے حقوق کے مطالبات جگانا چاہ رہی ہیں۔ کون سے احساسِ زیاں ہیں کہ ایک ہجوم دیوانہ وار لبیک کہتے ہوئے برباد ہونے جا رہا ہے ۔۔۔۔ شادیاں ہوجاتی تھیں دل ملیں نہ ملیں شریف النفس جوڑے تقدیر سمجھ کر نباہ دیتے تھے۔ طلاق کی شرح ایک پرسنٹ بھی بمشکل ہوتی تھی اور طلاق کو بہت برا فعل سمجھا جاتا تھا۔ کہیں کہیں کوئی کپّتا مرد حدود سے تجاوز کرتے ہوئے تین حرف بول کے عورت کو بے مول کر دیتا تھا۔ عورت کی طرف سے ایسا مطالبہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ عورت نے برابری کے زعم میں اس شرح کو سو فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ اب عموماً خواتین کی جانب سے خلع کے مقدمات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کی دو خواتین یاد آتی ہیں ایک انتہائی گندی رہتی تھیں اور شوہر کے بے پناہ مطالبے کے بعد بھی نہ منہ دھوتیں نہ کنگھی کرتیں جبکہ سسرال کا بوجھ بھی نہیں تھا بس صبح اٹھ کر بچوں کے کاموں میں لگ جاتیں۔اور پورا دن خود سے لاپرواہ سر جھاڑ منہ پہاڑ گھر داری میں گزار دیتیں۔ شوہر ہی تھک کر خاموش ہوگئے۔۔۔ دوسری خاتون بے حد سست تھیں جس کام میں ہاتھ ڈالتیں صبح سے شام کر دیتیں
 نمٹ کر نہ دیتا شوہر کو چست و چالاک ساتھی کی ضرورت تھی لیکن بیچارے دل مار کے بیٹھ گئے اور تمام زندگی گزر گئی۔ رہی خواتین تو ان پر مظالم کی داستانوں کی کہانیاں عام ہیں۔ مرد کی درشتگی و کرختگی زبانِ زدِ عام ہے۔ مرد بھی چپ چاپ یہ الزام لگوا کر بھرم سے جی رہے ہیں۔ ظرف ہے کہ واویلا نہیں کرتے۔ 
 افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نوخیز اذہان کی آبیاری سوشل میڈیا کی بعض منتشر الذہن خواتین کے ہاتھوں میں بھی ہے۔ جو تربیت کے نام پر انہیں مزید پریشان کر رہی ہیں ۔ نئی نسل سے تو کچھ بھی بعید ہے لیکن ہماری باشعور خواتین بھی ایک نئی ڈگر پہ چل پڑی ہیں۔ احساسِ زیاں کچھ زیادہ ہی تنگ کرنے لگا ہے۔ تمام آسائشات و سہولیات کے ہوتے ہوئے بھی اپنی ناقدری کا احساس جاگزیں رہنے لگا ہے۔ پتہ نہیں کب کب کے سینت, سُلا کر رکھے جذبات جاگے,جگائے جا رہے ہیں۔۔ رویا اور رلایا جا رہا ہے ۔۔ 
ٹی وی پر ایک دفعہ ایکٹریسز کی شادیاں دکھانے کا ٹرینڈ چلا۔ بیس بیس سال ڈراموں میں ایکٹنگ کرنے کے بعد اور گرتی مارکیٹ ویلیو کو دیکھ کر گھر داری بسانے کا خیال آگیا تو گھر بسا لیا گیا۔ اب ایک شادی آف سکرین ہوگئی پھر مارننگ شوز میں وہی شادی چار بار دوبارہ رچائی گئی۔ مطلب آپ کس کو یقین دلا رہی ہیں کہ شادی ہو گئی ہے ۔ یہ شادیاں اور ان کا تام جھام اتنے تواتر سے دکھایا گیا کہ ایسی رنگین اور دھوم دھام والی شادیاں دیکھ کر عام گھریلو خواتین کے دلوں میں بھی انوکھے ارمان چٹکیاں لینے لگے کہ ہماری شادی تو سادگی سے ہو گئی تھی فلاں فلاں ارماں دل میں رہ گئے کسی طرح سے اپنی شادی کو ری پیٹ کروا لیا جا ئے آپ فلاں جگہ سے مجھے اچھا سا تیار کروا دیں۔ ایسی خواتین کو ذرا عقل نہیں کہ فلموں اور ڈراموں اور پیشہ ور عورت میں فرق ہوتا یے۔ وہ روز ایک نیا سوانگ بھرتی ہیں اور ان کے نخروں کے اخراجات کوئی اور اٹھاتا ہے۔۔ جس کی قیمت وہ اپنی عزت سے ادا کرتی ہیں۔ مشرقی عورتوں کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ سوانگی عورتوں کی نقالی کریں۔ ہم کب سے ڈراموں کو بگاڑ کا سبب سمجھ رہے ہیں لیکن اب اندازہ ہونے لگا ہے کہ سوشل میڈیا اس سے بھی بڑھ کر تباہی لانے والا ہے۔ خواتین کے حقوق کی جنگ کی تیاری و تباہی کسی اور ہی ڈھب سے اندر ہی اندر اپنی جڑیں پھیلا رہی ہے۔ ذہن سازی کی جارہی ہے کہ انکی خواہشات بہت اہم ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ باقی تمام جائیں بھاڑ میں۔ 
 کچھ عرصہ سے یہ چیزیں بہت عام ہو رہی ہیں میں بہت اہم ہوں۔ میں اپنے لیئے قیمتی ہوں۔ میرے جیسا اور کوئی کیوں پہنے۔۔ طوعاً کرہاً سہی یہاں تک پھر بھی برداشت کر لیا جاتا ہے گھر تب خراب ہونے شروع ہوتے ہیں جب ہم اپنے یہی مطالبات گھر کے دوسرے افراد سے منوانا شروع کرتے ہیں۔ میرے مشاہدے میں ہر خاتون شہزادیوں جیسی زندگی گزار رہی ہے تمام مادی خواہشات ایک کولہو کا بیل چپ چاپ پوری کر رہا ہے اس کے باوجود خواہشات کا ایک اژدھام ہے جو کسی بھی عمر میں ہماری خواتین کو چین نہیں لینے دیتا۔۔ اب جبکہ تمام مادی خواہشات ایک گدھا ہنسی خوشی پوری کررہا ہے تو ہمیں یاد آنے لگا کہ بیس سال پہلے ہمارے جذبات تشنہ رہ گئے تھے انہیں واپس جا کر کیسے سیراب کیا جائے۔ آخر ایک مرد آپ کی کتنی خواہشات پوری کر سکتا ہے۔۔ اسے اور کچھ نہیں بس ایک جیتا جاگتا انسان ہی سمجھ لیا جائے تو کافی ہے ہمیں حقوق یاد رہتے ہیں فرائض کی دم کا بھی پتہ نہیں اسی لئیے گھر بستے نہیں بگڑتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کی آپ صرف فرائض نبھانے لگیں حقوق خود بخود ملنے لگتے ہیں۔ کیا کہیں اس پہ کہ جب پندرہ بیس سال سے بیاہی ہنستی بستی عورت کو شکوہ کناں اور ناآسودہ پائیں۔ کہ یہ خواہش بھی تشنہ رہ گئی اور یہ بھی رہ گئی۔ اب مزار بنا کے باجماعت نوحے پڑھا کریں۔ دنیا میں سب کو سب کچھ نہیں مل جاتا۔ کہیں تقدیر بھی لکھی جاتی ہے۔ اگر سب کچھ یہیں مل جائے تو آخرت اور جنت بے معنی ہوگئے ناں۔۔ اور پھر اس خوف کے آزار سے چھوٹ پاتے ہی دنیا مزید بگاڑ پر چل پڑے گی۔ خواتین کی جانب سے بار بار اس موضوع کو اٹھایا جانا خطرے کی گھنٹی ہے۔ ازدواجی نا آسودگیاں سر عام باہر لے آنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ اگرچہ گھر کو بسانے کی ذمہ داری دو طرفہ ہی ہوتی ہے لیکن خواتین پر زیادہ اس لئے ہوتی ہے کہ وہ گھر پہ زیادہ وقت رہتی ہیں۔ اور مرد پہ کما کر لانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ زیادہ وقت گھر پہ نہیں ہوتا اس لئیے معاملات سے بے خبر رہتا ہے۔۔ اب اگر ذمہ داران ہی اٹھ کر ڈھول پیٹنے لگیں تو خاندان تباہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔۔ جبکہ بچوں کو ازدواجیات کی تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ ناپختہ ذہنوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ عائلی زندگی گزارنے کے باب لکھنے کی ضرورت ہے صبر, برداشت اور حوصلے کے سبق
 پڑھانے کی ضرورت ہے معاشرہ بے لگام ہو چکا ہے ہم مزید طرح دے رہے ہیں۔
 اس سب کے باوجود نہ تمام عورتیں بلا تربیت کے ہیں نہ تمام تمام مرد۔ کہیں مرد برداشت کرتا ہے کہیں عورت اور یہ شائید تقدیر ہے جو سب کے ماتھے پر مشیتِ ایزدی نے کنداں کر دی ہے۔