یا آپ جیتیں گے، یا کنکر

مصنف : عارف انیس

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2020

کیا آپ نے آج اپنا جوتا چیک کیا؟ یاد رکھیں آپ کا مقابلہ پہاڑ کی بلندی سے نہیں، ایک چھوٹے سے کنکر سے ہے، بندے کو سفر کی بلندی نہیں مارتی، اس کے جوتوں کے اندر گھسا ہوا کنکر مارتا ہے۔یہ کنکریاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔یہ ہمیں پھسلا دیتی ہیں، سوچوں کو مسل دیتی ہیں، خوابوں کو چرا لیتی ہیں۔یہ چھوٹے چھوٹے سے کام ہوتے ہیں جو ہمیں کھا جاتے ہیں۔کبھی کنکر میں جوتے کے ساتھ سفر کیا ہے؟ بھلے سے آپ نے لاکھوں روپے مالیت کے نئے اطالوی جوتے پہنے ہوئے ہوں، اگر ان کے اندر کوئی چھوٹا سا کنکر بھی موجود ہے، تو راستہ کھوٹا اور لمبا ہو جائے گا۔سفر توانائی چوس لے گا اور منزل پر پہنچنے کی بجائے کنکر سے نجات پانے کی فکر کھا جائے گی۔ورنہ پاؤں کا چھالا تنگ کرتا رہے گا۔یہ محمد علی کا قول ہے اور باکسنگ کے رنگ میں اس کی معنویت اور واضح ہوجاتی ہے۔
آج کا دن شروع کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں کچھ ایسے کام ہیں جو آپ نے ضرور کرنے ہیں۔فرق اس سے پڑتا ہے کہ دن کے اختتام پر کیا کچھ ہو چکا ہے۔ زندگی ہم سے نیت کے ساتھ عمل کا بھی خراج مانگتی ہے۔لیکن مسئلہ دن کا نہیں، ہفتے، مہینے، سال اور زندگی بھر کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے جس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تھا، کیا ہم اسی پر موجود ہیں یا چھوٹی کنکریوں کی وجہ سے ہم ابھی ڈھلوانوں پر موجود ہیں اور پھسلتے جارہے ہیں۔
یہ ہمارا راستہ کھوٹا کرنے والے کنکر سچ مچ کے بھی ہوسکتے ہیں اور نفسیاتی اور جذباتی بھی ہوسکتے ہیں۔ سٹریس،انگزائٹی وغیرہ نفسیاتی کنکر ہیں جب کہ غصہ، ڈر، حسد، نفرت، شرمندگی، اداسی وغیرہ ان جذباتی کنکروں میں شامل ہیں جو ہماری رفتار توڑ دیتے ہیں۔کبھی ہمارے بیمار رشتے اور ناطے یہ کنکر بن جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اداسی کسی بھی دوسرے انسانی جذبے کے مقابلے میں انسانی شخصیت کے اندر 240 گنا زیادہ دورانیے تک اپنا اثر برقرار رکھتی ہے۔کسی بھی رشتے دار کی موت یا بری خبر کے بعد لوگوں کو اس کے اثر سے نکلنے کے لیے کم از کم 120 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ شرمندگی کے اثر سے باہر نکلنے میں صرف 30 منٹ کا عرصہ ہی درکار ہوتا ہے۔ نفرت کا جذبہ 60 گھنٹے تک انسان کو اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے جبکہ خوشی کا احساس 35 گھنٹے تک برقرار رہتا ہے۔ بیزاری وہ جذبہ ہے جو 2گھنٹوں میں انسانوں کے ذہن سے نکل جاتا ہے جبکہ امید، ڈر وغیرہ 24 گھنٹے، حسد 15گھنٹے اور جوش و خروش 6 گھنٹے تک آپ کا احاطہ کیے رکھتا ہے۔ شکر گزاری کے احساس کو تحلیل ہونے میں 5 گھنٹے درکار ہوتے ہیں تو سکون کا احساس تین سے چار گھنٹوں میں چھن جاتا ہے۔
منزل کی طرف جانے کے رستے میں کنکر تو ہوتے ہیں اور وہ چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے جوتوں میں گھس جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ یا تو انہی کنکریوں سمیت سفر جاری رکھا جائے اور آبلہ پائی کی جائے، یا چند ثانیے رکا جائے، جوتے اتارے جائیں اور انہیں جھاڑ لیا جائے، لمبے سانس لے کر مراقبہ کرلیا جائے یا دعا مانگ لی جائے اور سفر پھر سے شروع کرلیا جائے۔یاد رکھیں یہ آخری کنکر نہیں ہوگا، اگلے کنکر کی تیاری بھی رکھیں، پھر اس سے نبٹیں اور سفر جاری رکھیں۔بس یہ ذہن میں رکھیں کہ یا آپ جیتیں گے یا کنکر جیتے گا۔اگر آپ نے کنکر ڈھونڈ لیا تو جوتے جھاڑ کر چلنا آسان ہوجائے گا۔
آج چلتے چلتے رکیں، لمبا سا سانس لیں، اپنے جوتوں کے اندر موجود کنکر کو محسوس کریں۔آپ کیا بوجھ اپنے ساتھ لیے جا رہے ہیں؟کون سے کنکر آپ کا راستہ کھوٹا کر رہے ہیں؟ آپ رک کر اپنے جوتے کب جھاڑیں گے؟ 


ہم میں سے اکثر دو طرح کی زندگیاں جیتے ہیں۔ ایک تو وہ جو ہم جی رہے ہوتے ہیں، اور ایک وہ جو ہم جینے کے حقدار ہوتے ہیں ، مگر جی نہیں پاتے۔شاید آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آپ واقعی کیا بننا اورکیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ زندگی اور وہ مستقبل جو آپ اپنے آپ کو اور محبت کرنے والوں کو اور اس دنیا کو دینا چاہتے ہیں، وہ خیر کے کام جو کرنے کے ہیں، مگر ان کی نوبت ہی نہیں آپاتی۔ زندگی، چھوٹے چھوٹے کاموں میں خرچ ہوجاتی ہے۔
ہر روز آپ کچھ کام ادھورے چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنے اندر بے شمار خامیاں نظر آتی ہیں۔ اپنے کام پر خود ہی بڑا سا کانٹا لگا کر اچھا لگتا ہے۔ اپنے آپ کو چھوٹا کر کے، منی سائز کرکے، لگتا ہے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ہر روز پوری توانائی کے ساتھ نہ جینے کے لئے بے شمار بہانے بھی جمع ہوجاتے ہیں۔ یوں آپ جینے کو کل تک ملتوی کیے جاتے ہیں۔
اصل میں’’بھونپو‘‘آپ کو روکتا ہے۔ یہ بھونپو ہمارے سر کے پیچھے سے آنے والی بہت نحیف مگر بہت جادوگر آواز ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ رفتار آہستہ کرو، قد چھوٹا کرو، محتاط رہو، گزارہ کرلو۔ لوگ دیکھ رہے ہیں۔
بھونپو بتاتا ہے کہ تم سے نہیں ہوگا۔ لوگ ادھر دیکھ بھی رہے ہیں اور ہنس بھی رہے ہیں۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہے۔بھونپو ہر مسئلے کا ایک ہی حل بتاتا ہے۔ کھاؤ اور لیٹ جاؤ۔ ہم کھاتے ہیں اور لیٹ جاتے ہیں اور پھلتے، پھولتے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم کھا کر اور لیٹ کر آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ بھونپو کا ایک ہی کام ہے کہ آپ کو دنیا جہان کے مسائل سے محفوط رکھے، لیکن جہاز لنگر انداز ہونے کے لیے تھوڑا بنتے ہیں۔ آپ اس لیے دنیا میں تھوڑی آئے ہیں کہ جس پیکنگ میں ادھر داخل ہوئے ہیں، اسی میں آگے پارسل ہوجائیں؟ کوئی ٹوٹ پھوٹ، کوئی بناؤ سنگھار، کوئی تماشہ وماشہ تو لگنا چاہیے۔
خیر یہ تقریریں تو آپ نے بہت سن رکھی ہیں۔ حل کیا ہے؟ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں، اور گرنے کے لیے تیار رہیں۔ ایک چیز پکڑیں اور اس پر قابو پا لیں، مہارت حاصل کرلیں۔ قدم آج اٹھائیں، کل کس نے دیکھا ہے۔ اپنی زندگی کے
 سب سے بڑے آئیڈیے، پراجیکٹ، پلان اور خواب کو بیس، پچاس یا سو قدموں میں قیمہ بنا لیں۔ وہ آپ کو بتایا تھا نہ کہ ہاتھی کیسے کھاتے ہیں؟ بس ایک نوالہ روزانہ ۔ مگر کھانا روز ہے۔ صبح، دوپہر، شام!!!
اپنے خوابوں کو دماغ پر نہیں، دیواروں ہر لکھیں، کاغذ پر اتاریں، پھر ہر روز اس فہرست میں سے ایک چیز کم کر ڈالیں۔ چھوٹے چھوٹے قدم، چھوٹی چھوٹی جیتیں، بس سب سے بڑے مقصد تک پہنچنے کے لئے ننھا سا قدم روز اٹھا لیں۔ حضرت یوسف کو خریدنا ہے تو سوت بننا شروع کر دیں۔ کتاب لکھنی ہے تو 100 لفظ روزانہ لکھنا شروع کر دیں، میں نے ایسے ہی پہلی کتاب لکھی تھی۔ میراتھان بھاگنی ہے تو ہر روز پانچ منٹ کی سپرنٹ لگا ماریں۔ سی ایس ایس کرنا ہے، ایک اخبار روزانہ ختم کریں یا دس کالم روز پڑھ لیں۔مگر گاؤزبانی نسخہ ایک ہی ہے -96 -96 روزانہ!!! ودآؤٹ اے بریک۔