ابلیس اور حکمران

مصنف : پروفیسر محمد مشتاق

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2020

امام ابو الفرج عبد الرحمان ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی 795 ھ) نے اپنی کتاب ‘‘تلبیس ابلیس’’ اس مقصد کے لئے لکھی تھی کہ لوگوں پر واضح کیا جائے کہ ابلیس ان پر کس کس طرح حملہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے مثال کے طور پر واضح کیا ہے کہ محدثین پر وہ کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟ فقہاء کو وہ کیسے نشانہ بناتا ہے؟ صوفیاء کو کیسے اپنے دام میں پھنساتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب کے ساتویں باب میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ ابلیس حکمرانوں کو کس طرح اپنے متبعین میں شامل کرتا ہے؟ اس باب کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار خیال جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے آٹھ سال سے زائد دور حکومت کی طرف جارہا تھا۔ ابن الجوزی نے ابلیس کی بارہ چالوں کا ذکر کیا ہے۔ ذرا دیکھئے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ان میں سے کسی چال کا شکار تو نہیں ہوئے؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا نئے حکمران ابلیس کی ان چالوں سے خود کو بچانے کی کوشش کریں گے؟ 
1۔ ابلیس حکمرانوں کے دلوں میں یہ خیال ڈال دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں جبھی تو اس نے انہیں حکومت دی ہے، حالانکہ اگر یہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے تو چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں تاکہ درحقیقت اس کے پسندیدہ افراد میں شامل ہوجائیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بارہا ظالموں کی رسی دراز کردیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر مطالم ڈھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کا پیمانہ بھر جاتا ہے۔ 
2۔ ابلیس ان کے دلوں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ حکمران کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں پر اس کی دہشت قائم ہو۔ چنانچہ ایک طرف وہ مظالم ڈھانا شروع کردیتے ہیں اور دوسری طرف علماء اور سنجیدہ و فہمیدہ لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر یہی بات ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ 
3۔ ابلیس حکمرانوں کو ان کے مزعومہ دشمنوں سے ڈراکر اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے دور رہیں اور اپنے ارد گرد سخت حفاظتی پہرا بٹھائیں۔ اس طرح وہ اس حدیث کا مصداق بن جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جو حکمران لوگوں کی حاجات پوری نہ کرے اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری نہیں کرتا اوران سے کنارہ کشی کرلیتا ہے۔ 
4۔ ابلیس کے دام میں پھنس کر حکمران ایسے ماتحتوں کو لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جن میں نہ علم ہوتا ہے اور نہ تقوی۔ چنانچہ وہ لوگوں کا حق کھاتے اور ان پر ظلم کرتے ہیں، بے گناہوں کو سزائیں دیتے ہیں اور مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر لوگوں کی بدعائیں صرف ان ماتحت افسران ہی کو نہیں لگتیں بلکہ ان کو تعینات کرنے والے حکمران بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ 
5۔ ابلیس کے اثر سے حکمران اپنی رائے کو حتمی اور مبنی برصواب سمجھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ بے گناہوں کو سزائیں دینے اور مجرموں کو آزاد چھوڑنے کو ہی ‘‘سیاست’’ اور ‘‘تقاضائے مصلحت’’ قرار دینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ شریعت کی خلاف ورزی میں کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی اور ظلم ڈھا نا کبھی بھی مصلحت کا تقاضا نہیں ہوسکتا۔ 
6۔ حکمران ابلیس کے مغالطے میں آکر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ریاست کے تمام خزانے ان کے اختیار میں ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر اپنے مال کو بھی بے جا اڑانا شروع کردے تو شریعت کے تحت اسے اپنے مال میں تصرف سے بھی روکا جاسکتا ہے۔ پھر اس ملازم کو کیسے کھلی چھٹی دی جاسکتی ہے جسے ایک مخصوص اجرت پر اس کام کے لئے ملازم رکھا گیا ہو کہ وہ لوگوں کے مال کی حفاظت کرے؟ 
7۔ ابلیس حکمرانوں کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ چونکہ وہ ملک اور قوم کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں اس لئے وہ اگر چھوٹے موٹے گناہ کریں گے تو ان سے کچھ باز پرس نہیں ہوگی، حالانکہ اگر انہوں نے باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ ملک اور قوم کی حفاظت کریں۔ اس فرض کی ادائیگی میں وہ کوتاہی کریں گے تو انہیں سزا ملے گی۔ چنانچہ اس فرض کی ادائیگی کو ایک استحقاق سمجھ کر مزید گناہوں کا ارتکاب کیسے کرسکتے ہیں؟ 
8۔ ابلیس حکمرانوں کو ہر جانب سے مطمئن کردیتا ہے اور وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک جارہا ہے حالانکہ اگر حقیقت تک ان کی نظر پہنچتی تو وہ جان لیتے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہر طرف ان کی غلط روش کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ 
9۔ ابلیس کے اثر سے حکمران یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بدعنوان لوگوں کے قبضے میں جو کچھ بھی ہے وہ ان سے چھین لینا نہایت مستحسن کام ہے، حالانکہ اگر کوئی شخص بدعنوان ہو تب بھی اس کی ملکیت میں موجود مال کے متعلق جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ بدعنوانی سے حاصل کیا گیا ہے وہ اس سے نہیں چھینا جاسکتا۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو ان کے ایک ماتحت نے لکھا کہ کچھ بدعنوان لوگ ایسے ہیں جنہوں نے لوگوں سے ناجائز مال بٹور لیا ہے لیکن اس کی وصولی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کو سخت سزا نہ دی جائے۔ عمر بن عبد العزیز نے جواب میں لکھا کہ وہ بدعنوانی سے حاصل کیے گئے مال سمیت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں ان پر ڈھائے گئے ظلم سمیت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ 
10۔ ابلیس حکمرانوں کو یہ بات سجھا دیتا ہے کہ وہ ظلم کے ذریعے چھینے گئے مال میں سے صدقہ کریں تو ان کا ظلم معاف ہوجائے گا حالانکہ ظلم کا گناہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ اگر صدقہ لوٹے گئے مال سے ہی دیا جارہا ہو تو وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہی نہیں ہے۔ اور اگر ظالم نے صدقہ اپنے جائز مال سے دیا ہے تب بھی ظلم کا گناہ معاف نہیں ہوسکتا کیونکہ ظلم اس نے کسی اور پر ڈھایا ہوتا ہے اورصدقہ یہ کسی اور کو دیتا ہے۔ 
11۔ابلیس حکمرانوں کو اس روش پر ڈال دیتا ہے کہ ایک جانب وہ ظلم اور گناہوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بعض نیکوکاروں اور مشائخ کے پاس جا کر ان سے اپنے حق میں دعا کرواتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح ان کے گناہ کا اثر کم ہوجاتا ہے حالانکہ اس اچھے کام سے اس برے کام کے وبال کو نہیں ٹالاجاسکتا۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا کہ ظالم مجھ سے اپنے لئے دعا کرنے کو کہتا ہے حالانکہ ہزار افراد اسے بد دعا دے رہے ہوتے ہیں، تو کیا ایک کی دعا قبول ہوگی اور ہزار کی بد دعا رد کی جائے گی؟ 
12۔ بعض حکومتی اہلکار حکمرانوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے کہنے پر لوگوں کا حق چھینتے اور ان پر مظالم ڈھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کا وبال ان کے حکمرانوں پر ہی آئے گا۔ حالانکہ ظلم کے لئے آلہ بننے
 والا اور ظلم پر مدد دینے والا ظالم کے جرم میں برابر کا شریک ہے۔ گناہ میں مدد دینے والے بھی گنہگار ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سودی لین دین لکھنے والے پر اور اس لین دین پر گواہ ہونے والوں پر، اور فرمایا کہ وہ برابر کے گنہگار ہیں۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ کسی کے خائن ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ خائنوں کے لئے امین بن جائے۔