ایک پیشین گوئی

مصنف : سید عطاء اللہ شاہ بخاری

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : اگست 2005

خطاب ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری

انتخاب ۔ عبدالروف ، مانسہرہ

کاش ہم اپنے عمل سے اس پیشین گوئی کو غلط ثابت کر سکتے مگر۔۔۔۔۔!

            ۲۱ اگست ۲۰۰۵ء کو سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۴۴ سال کا عرصہ بیت جائے گا مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ ۲۶ اپریل ۱۹۴۶ء کو اردو پارک دہلی میں پانچ لاکھ کے اجتماع میں آپ نے جو تقریر فرمائی تھی گویا کہ آج کے پاکستان کو آنکھوں سے دیکھ کے فرمائی ہو۔

            چودھری محمد اکرام (اچھرہ، لاہور) کی روایت سے آپ بھی، اس تقریر کے اقتباس پڑھیے اور اس مرد قلندر کی دوربینی کی داد دیجیے۔ شاہ جی سے ہزار سیاسی اختلاف کے باوجود، یہ کہنا پڑتا ہے کہ انھی وجوہات کی بنا پر شاہ جی پاکستان کی حمایت نہ کرنے میں مخلص اور سچے تھے۔ کاش کہ ہم نے ان کی اس پیشین گوئی کو غلط ثابت کیا ہوتا۔

            ‘‘تقریباً ساڑھے تین بجے رات حضرت امیر شریعت مائیک پر تشریف لائے۔ آپ نے انسانی سروں کے اس بحر بیکراں پر ایک بھر پور نظر ڈالی۔ ایک مرتبہ دائیں دیکھا اور پھر بائیں دیکھا، جیسے لوگوں کی پیشانیوں سے موضوع تلاش کر رہے ہوں۔ پھر خطبہ مسنونہ سے پہلے آپ نے تقریر کا آغاز یوں فرمایا۔ ‘‘آپ حضرات درود شریف پڑھیں۔’’ پھر دوبارہ فرمایا ‘‘درود شریف پڑھیں’’ تیسری مرتبہ بھی یہی فرمایا۔ لوگ حیران تھے کہ آج شاہ جی اتنے عظیم الشان، عدیم المثال سیاسی اجتماع میں تقریر کا آغاز کس انداز سے کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے سیاسی تقریروں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ عوام کی نگاہوں میں ابھرنے والے اس سوال کے جواب میں حضرت امیر شریعت نے خود ہی فرمایا۔ آج میں نے یہ اس لیے کیا ہے کہ اتنے بڑے عظیم اجتماع کے باوجود لوگ صبح کے اخبار میں لکھ دیں گے کہ مجمع تو واقعی پانچ لاکھ کا تھا مگر اس میں مسلمان ایک بھی نہ تھا۔ اس لیے میں نے درود شریف پڑھوا لیا ہے کہ دوستوں کو معلوم ہو جائے کہ اس اجتماع میں مسلمان ہیں یا یہ اجتماع ہی مسلمانوں کا ہے۔ اس پر تمام مجمع کشت زعفران بن گیا۔ بعد ازاں آپ نے مخصوص انداز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا حضرت امیر شریعت کے گلے کی حلاوت اور سوز سے ایسا محسوس ہوتا جیسے آیات خداوندی کا نزول ہو رہا ہے۔ الفاظ جیسے جیسے پڑھتے، قرآن کریم اپنے معانی و مطالب خود واضح کرتا چلا جاتا۔ لاکھوں آدمیوں کا یہ اجتماع پتھروں کا ڈھیر معلوم ہوتا تھا۔ چاروں طرف ہو کا عالم اور ایک سناٹا کہ سوئی گرے تو آواز آئے اور عوام تھے کہ مبہوت بیٹھے تلاوتِ کلامِ الٰہی سن رہے تھے۔ ڈیڑھ رکوع پڑھنے کے بعد حضرت امیر شریعت نے تلاوت ختم کی تو پنڈت جواہر لال نہرو اٹھے اور مائیک پر حضرت امیر شریعت کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے اور معذرت خواہانہ انداز میں گویا ہوئے: ‘‘بھائیو! میں تو صرف بخاری صاحب کا قرآن کریم سننے کے لیے حاضر ہوا تھا۔ اب میں معذرت کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔ برطانوی مشن کی آمد کے باعث مصروفیت بہت زیادہ ہے۔’’ اس کے بعد جواہر لال نہرو اور لارڈ پنتھ اسٹیج سے اتر کر چلے گئے۔ حضرت امیر شریعت نے خطبہ مسنونہ کے بعد تقریر کا آغاز یوں فرمایا:

            ‘‘حضرات ! آج میں نے کوئی تقریر نہیں کرنی بلکہ چند حقائق ہیں جنھیں بلا تمہید کہنا چاہتا ہوں۔ اس آئینی اور غیر آئینی دنیا میں خواہ اس علاقے کا تعلق ایشیا سے ہو یا یورپ سے اس وقت جو بحث چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت سے جدا کر کے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟

پاکستان کیا ہو گا

            مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح کو سورج مشرق ہی سے طلوع ہو گا۔ لیکن یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہو گا جو دس کروڑ مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے بڑے خلوص سے آپ کوشاں ہیں۔ ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بات جھگڑے کی نہیں۔ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ سمجھا دو مان لو ں گا۔ لیکن تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بلا کا تضاد ہے۔ اگر مجھے کوئی اس بات کا یقین دلا دے کہ ہندوستان کے کسی قصبے کی کسی گلی میں، کسی شہر کے کسی کوچہ میں، حکومت الٰہیہ کا قیام اور شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہونے والا ہے تو رب کعبہ کی قسم آج ہی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو لوگ اپنے جسم پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے وہ دس کروڑ افراد کے وطن میں کس طرح اسلامی قوانین نافذ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک فریب ہے۔ میں فریب کھانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں۔’’ پھر آپ نے کلہاڑی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر تقسیم کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کا نقشہ سمجھانا شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ‘‘ادھر مشرقی پاکستان ہو گا اور ادھر مغربی پاکستان ہو گا۔ درمیان میں ہندو کی چالیس کروڑ آبادی ہو گی اور وہ حکومت لالوں کی حکومت ہو گی۔

شاہ جی کی پیشین گوئی

            یاد رکھو کہ اگر آج تم (یعنی ہندو اور مسلمان) باہم بیٹھ کر کوئی معاملہ طے کر لیتے تو وہ تمھارے حق میں بہتر ہوتا۔ تم الگ الگ رہ کر باہم شیر و شکر رہ سکتے تھے۔ مگر تم نے اپنے تنازعہ کا انصاف فرنگی سے مانگا ہے اور وہ تم دونوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والا فساد ضرور برپا کر کے جائے گا جس سے تم دونوں قیامت تک چین سے نہیں بیٹھ سکو گے اور آئندہ بھی تمھارا آپس کا کوئی ایسا تنازعہ باہمی گفتگو سے کبھی بھی طے نہیں ہو سکے گا۔ آج انگریز سامراج کے فیصلے سے تم تلواروں اور لاٹھیوں سے لڑو گے تو آنے والے کل کو توپ اور بندوق سے لڑو گے۔ تمھاری اس نادانی اور من مانی سے اس برصغیر میں جو تباہی ہو گی، عورت کی جو بے حرمتی ہو گی، اخلاق اور شرافت کی تمام قدریں جس طرح پامال ہوں گی تم اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں وحشت و درندگی کا دور دورہ ہو گا، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہو گا۔ انسانیت اور شرافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا اور کسی کی عزت محفوظ نہیں ہو گی۔ نہ مال، نہ جان، نہ ایمان اور اس سب کا ذمہ دار کون ہو گا؟ تم دونوں! (بہت خوب) لیکن اس وقت تم یہ نہیں دیکھ سکتے۔ تمھاری آنکھوں پر تمھاری اپنی خود غرضی اورہوس پرستیوں نے پردے ڈال رکھے ہیں اورتم ایک ایسے شخص کی مانند ہو کہ جو عقل تو رکھتا ہے مگرصحیح سوچنے سے عاری ہے۔ کان ہیں مگر سن نہیں سکتا۔ آنکھیں ہیں مگر بصیرت چھن چکی ہے۔ اس کے سینے میں دل تو دھڑک رہا ہے مگر احساسات سے خالی۔ محض گوشت پوست کا ایک لوتھڑا۔’’ ابھی تقریر جاری تھی کہ صبح کی اذان کی آواز کانوں میں پڑی اور حضرت امیر شریعت نے دہلی والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ‘‘دہلی والو! سن رکھو! میری یہ باتیں یاد رکھنا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اب زندگی میں جیتے جی پھر کبھی ملاقات نہیں ہو سکے گی۔

اب تو جاتے ہیں مے کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

            حضرات! یہ تھے وہ چند حقائق جن کو میں بغیر کسی تمہید کے کہنا چاہتا تھا۔ سو، آج میں نے کہہ دیے اور اب !

مانو نہ مانو جانِ جہان اختیار ہے

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

٭٭٭

۱۹۴۲ء میں شاہ جی کے ایک مرید کی پیشین گوئی

پاکستان میں کیاکیا ہوگا؟

چاروں طرف مے خانے ہوں گے

ہاتھوں میں پیمانے ہوں گے

رندوں کی شمشیر کے نیچے

مذہب کے دیوانے ہوں گے

حاکم جور پہ مائل ہو گا

انسان انسان ہی کے روپ میں

انسانوں کا قاتل ہو گا

پاکستان میں کیا کیا ہو گا

زرداروں کی عزت ہو گی

ہر مفلس کی درگت ہو گی

سرتاپا دھوکا ہی ہوگا

پاکستان میں کیا کیا ہو گا

اسلام کے نام پر عیاشی ہو گی

اسلام کے نام پر بدمعاشی ہو گی

اسلام ہی یہاں رسوا ہو گا

پاکستان میں کیا کیا ہو گا؟

(از انور صابری ۱۹۴۲ء)

٭٭٭