روشنی کے رشتے

مصنف : علی احمد باکثیر الیمنی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اگست 2005

علی احمد باکثیر الیمنی ؍ ترجمہ: قلب بشیر خاور بٹ

پہلا منظر

(ام حکیم کا گھر۔ ان کی چچا زاد بہن فاختہ، ان سے محو گفتگو ہیں)

ام حکیم :  خبردار میری بہن! اس کا خیال بھی دل میں نہ لانا، جب تک وہ لا الہ الا اللہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ کا اقرار نہ کر لیں۔

فاختہ:     شاید میرا اس کے پیچھے جانا ہی اس کے دل میں اسلام کی محبت بھر دے۔

ام حکیم:  نہیں بہن، ہرگز نہیں۔ اگر تم نے اس کا پیچھا کیا، تو وہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دینے کی پوری کوشش کرے گا۔

فاختہ:     معاذاللہ! چاہے آسمان زمین پر آگرے۔ میں اپنے دین سے ہرگز نہ پھروں گی۔

ام حکیم:  پھر میری رائے ہے کہ اپنے موقف پر ڈٹی رہو، حتیٰ کہ وہ سچائی کی طرف پلٹ آئے اور اللہ کے پیارے دین میں داخل ہو جائے جس میں لوگ جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔

فاختہ:     چاہے مجھ پر قیامت کیوں نہ ٹوٹ پڑے آپ مجھے ثابت قدم پائیں گی۔ میں اپنے دین سے ہرگز نہ پھروں گی۔

ام حکیم:  پھر بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ اپنے موقف پر قائم رہو، جب تک وہ حق کی طرف پلٹ نہ آئے اور اللہ کے دین میں داخل ہو جائے۔

فاختہ:     ڈرتی ہوں کہ کہیں آپ کے شوہر عکرمہ کی طرح ملک چھوڑ کر ہی نہ چلے جائیں اور پھر ان کے حق کی طرف پلٹ آنے کی کوئی امید ہی باقی نہ رہے۔

ام حکیم:  صفوان ایسا کیونکر کرے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ کی طرح اس کو قتل کر دینے کا حکم تو نہیں فرمایا۔ (صفوان بن امیہ بغیر اجازت اندر داخل ہوتا ہے)

ام حکیم:  (کسی قدر ناگواری سے) کیسے آئے ہو صفوان؟

صفوان:  عجیب! ام حکیم، آپ اپنی چچا زاد کے شوہر کا یوں استقبال کرتی ہیں؟

ام حکیم:  وہ تو تمھیں اپنا شوہر ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اب تمھارے اور اس کے درمیان اسلام کی فصیل حائل ہو چکی ہے۔

صفوان:  آپ مجھے مہمان ہی سمجھیں، کیا آپ مہمانوں کا یوں استقبال کرتی ہیں؟

ام حکیم:  تم مہمان ہوتے تو یقینا ہم تمھارا استقبال کرتے۔ تم تو شیطان ہو۔ اللہ نے اسے اپنے خاص فضل و کرم سے مشرف بہ اسلام فرمایا ہے اور تم ہو کہ اس بے چاری کو کافر بنانے کے درپے ہو۔

صفوان:  کیا تمھیں اچھا لگتا ہے فاختہ کہ تمھاری بہن مجھے شیطان کہے؟

ام حکیم:  اور تمھاری حیثیت ہی کیا ہے صفوان؟

صفوان:  میری حیثیت تو کسی قریشی سے پوچھیے جو مجھے سخی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ام حکیم:  اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت کے فخر و غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اگر تم شرف حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر اسلام قبول کرنے کے علاوہ تمھارے پاس کوئی راستہ نہیں۔

صفوان:  فاختہ کیا تم مجھ سے بات بھی نہ کرو گی؟ اور کیا تم اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ تمھاری یہ بہن صاحبہ اپنی زبان بند رکھیں؟

ام حکیم:  یہ تم سے کبھی بھی بات نہ کرے گی۔

صفوان:  فاختہ……!

ام حکیم:  اس نے اللہ عزوجل کے نام پر قسم کھائی ہے کہ جب تک تم اللہ اور رسولؐ پر ایمان نہیں لاتے تم سے بات نہیں کرے گی۔

صفوان:  کیا یہ سچ ہے فاختہ؟

            (سر کی جنبش سے ام حکیم کی تصدیق کرتی ہے)

ام حکیم:  میں نے کہا نہیں تھا!

صفوان:  (غصے سے) پہلے آپ اپنے شوہر کے بارے میں سوچیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ یہ پند و نصیحت آپ عکرمہ کے لیے اٹھا رکھیں۔

ام حکیم:  وہ ہیں کہاں؟

صفوان:  (مذاق اڑاتے ہوئے) شاید تم سے ڈر کر دور بھاگ گیا ہے۔

ام حکیم:  (کرب کے ساتھ) صفوان! تمھیں زیب نہیں دیتا کہ اپنے دوست کے متعلق یوں کہو۔ کیا تم جانتے نہیں کہ وہ کیوں بھاگ گئے ہیں؟

صفوان:  مجھے معلوم ہے کہ جن لوگوں کا قتل محمدؐ نے جائز قرار دیا ہے ان میں اس کا بھی نام ہے۔

ام حکیم:  اگر عکرمہ کے متعلق اچھی بات نہیں کہہ سکتے تو تمھیں خاموش رہنا چاہیے۔

صفوان:  میرا تو خیال ہے آپ کو اس کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ محبت کا تقاضا یہی ہے۔

ام حکیم:  کاش جانتی ہوتی کہ وہ کہاں گئے ہیں!

صفوان:  وہ یمن کی طرف گیا ہے۔

ام حکیم:  بخدا ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عکرمہ کے پاس جانے کی اجازت طلب کروں گی اور انھیں واپس لاؤں گی۔

صفوان:  کیا کہہ رہی ہو، اگر محمدؐ کو پتا چل گیا تو وہ فوجی دستہ بھیج کر اسے گرفتار کر لیں گے اور پھر قتل کرا دیں گے۔

ام حکیم:  صفوان! محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم و کرم کی امید ہے وہ بہت عظیم ہیں۔

صفوان:  کاش میں نے آپ کو نہ بتایا ہوتا۔ بخدا میں نے اپنے دوست پر خود ہی ظلم کیا ہے۔ اگر آپ کو اپنے شوہر سے سچی محبت ہے تو اس کے لیے قتل اور عذاب کا طوفان نہ کھڑا کیجیے۔

ام حکیم:  گھبراؤ نہیں! میں نے بے وجہ ان کے پاس جانے کا ارادہ نہیں کیا۔ میں نے آقاؐ سے ان کے لیے امان طلب کی تھی اور انھوں نے عکرمہ کو معاف فرما دیا۔

صفوان:  معاف کر دیا؟…… محمدؐ نے عکرمہ بن ابی جہل کو امان دے دی؟

ام حکیم:  ہاں! میں یقین سے کہتی ہوں کہ اگر آج خود ابوجہل موجود ہوتا اور امان طلب کرتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھی معاف فرما دیتے۔ (فاختہ سے) اچھا میں جا رہی ہوں فاختہ ……

            (باہر جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے)

فاختہ:     مجھے بھی اللہ کے رسول کے حضور لے چلیے!

صفوان:  ٹھہرو فاختہ!

فاختہ:     (کچھ کہنے کا ارادہ کرتی ہی ہے کہ اسے اپنی قسم یاد آجاتی ہے۔ پھر ایک دم ام حکیم کی طرف رخ کرتی ہے) آئیے ام حکیم!

            (دونوں باہر نکل جاتی ہیں)

صفوان:  (بڑبڑاتا ہے) اف، میرے اور فاختہ کے درمیان کتنی بڑی دیوار حائل ہو گئی ہے!

دوسرا منظر

(یمن کے راستے میں ایک جگہ قافلہ فروکش ہے۔ ام حکیم اہل قافلہ کے چہروں کی طرف بغور دیکھتی ہیں۔ اچانک عکرمہ کے چہرے پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ بھی انھیں پہچان لیتے ہیں۔ دونوں چہرے خوشی سے چمک اٹھتے ہیں)

عکرمہ:    ام حکیم!

            (اس کی طرف بھاگتے ہوئے) ام حکیم! تم اس دور دراز علاقے میں کیسے آ گئیں؟

ام حکیم:  عکرمہ! آپ کی محبت کھینچ لائی ہے …… کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے بغیر زندہ رہ سکوں گی……؟

عکرمہ:    میرے لیے آپ کو یہ تکلیف نہیں اٹھانی چاہیے تھی۔ میں تو آندھیوں میں رکھا چراغ ہوں۔ جس کے پاس کہیں دور بھاگ جانے کے سوا اور کوئی چارۂ کار ہی نہیں۔

ام حکیم:  کیا یمن کی طرف؟

عکرمہ:    کیسے پتا چلا آپ کو؟ کس نے بتایا ہے؟

ام حکیم:  بس بتلا دیا کسی مہربان نے۔

عکرمہ:    شاید صفوان بن امیہ نے؟

ام حکیم:  ہاں۔

عکرمہ:    عجیب ہے وہ بھی!

ام حکیم:  عجیب تو آپ ہیں۔ کیا آپ کو یہ اچھا لگا کہ اپنی محبت کرنے والی بیوی کو چھوڑ کر ایک ایسے سفر پر چلے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

عکرمہ:    محمدؐ نے مکہ پر قبضہ کرکے جب میرے قتل کا اعلان کر دیا تو میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ اور پھر میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ آپ بے گناہ میرے ساتھ مصائب برداشت کریں۔

ام حکیم:  میں کیسے بے گناہ ہوں۔ کیا بھول گئے؟ جنگ احد میں آپ کے ساتھ نہ تھی؟

عکرمہ:    وہ دن تو ہماری عظمت اور قوت کا دن تھا!

ام حکیم:  ہو گا۔ اب تو اپنے بارے میں سوچئے۔ مشکل پڑی تو مجھے چھوڑ آئے۔ یہاں تک کہ چلتے وقت ملنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔

عکرمہ:    قسم اس شہر کی جس پر محمدؐ قابض ہے۔ آپ کی جدائی ناقابل برداشت ہے، مگر میں بے بس ہوں۔ اگر وہاں رہتا تو یقینا قتل کر دیا جاتا۔ میں نے بہتر سمجھا کہ کہیں دور چلا جاؤں۔ سوچا ہے قسمت نے یاوری کی تو واپس آپ کے پاس چلا آؤں گا۔

ام حکیم:  عکرمہ! آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم و کرم سے اس قدر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنے کتنے ہی دشمنوں کو معاف فرما دیا ہے۔

عکرمہ:    نہیں ام حکیم! میرے جیسی دشمنی شاید کسی کی بھی نہ تھی۔ میں اور میرے والد محترم محمدؐ کو تکلیفیں پہنچانے اور اذیتیں دینے میں سب سے آگے تھے۔ یہاں تک کہ انھوں نے میرے والد کو ابوجہل کہنا شروع کر دیا۔

ام حکیم:  کیا آپ ابھی تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عام قریشی سردار سمجھ رہے ہیں جو فاتح ہو تو جس کو چاہتا ہے۔ سزا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے؟

عکرمہ:    وہ جیسا بھی ہو، لیکن وہ مجھے معاف نہیں کر سکتا۔

ام حکیم:  نہیں عکرمہ! وہ تو اللہ کے نبی ہیں۔ ان پر وحی نازل ہوتی ہے۔ وہ تو سرچشمہ ہدایت ہیں، لوگوں کے لیے باعث رحمت ہیں۔

عکرمہ:    ام حکیم! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم صابی ہو گئی ہو؟

ام حکیم:  صابی نہیں، مسلمان کہو عکرمہ! میں اللہ کے رسولؐ پر ایمان لے آئی ہوں۔

            لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

عکرمہ:    پھر آپ کو ایک ایسے شخص سے رشتہ نہیں جوڑنا چاہیے جو کسی طرح ایمان نہیں لا سکتا۔

ام حکیم:  یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے تھے اور کیا میں نے آپ کو ٹوٹ کر چاہا نہیں؟

عکرمہ:    اسی محبت نے تو مجبور کیا ہے کہ آپ کو اس نئے دین کے لیے آزاد چھوڑ دوں جسے آپ نے خود پسند کیا ہے۔

ام حکیم:  ایمان کے معاملے میں تو آپ کو مجھ پر سبقت لے جانی چاہیے تھی۔ ہونا تو یوں چاہیے تھا ۔آپ کو اللہ نے حکمت و دانش عطا فرمائی ہے، آپ مجھے دعوتِ اسلام دیتے۔ میں آپ کو اپنی محبت کا واسطہ دے کر پوچھتی ہوں۔ کیا آپ کا دل و دماغ دعوتِ محمدیؐ کی سچائی کی گواہی نہیں دیتا۔ کیا محمدؐ رشد و ہدایت اور بھلائی کی دعوت نہیں دیتے؟

عکرمہ:    آپ نے مجھے میری سب سے عزیز چیز کی قسم دی ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ سچے رسول ہیں۔ اور جیسا آپ نے کہا ہے بالکل ویسے ہی ہیں۔

ام حکیم:  پھر آپ کو کیا چیز منع کرتی ہے کہ آپ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں۔

عکرمہ:    ام حکیم! میرے قتل کے اعلان کے بعد بھی ……؟

ام حکیم:  بس یہی چیز مانع ہے؟

عکرمہ:    ہاں۔

ام حکیم:  الحمدللہ، تو پھر آپ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور تشریف لے چلیں۔

عکرمہ:    کیا مطلب آپ کا؟

ام حکیم:  میں نے آنے سے پہلے دنیا کی اس عظیم ترین ہستی سے آپ کے لیے امان مانگی تھی!

عکرمہ:    تو کیا وہ امان دینے پر راضی ہو گئے؟

ام حکیم:  وہ تو خوش ہوئے تھے اور ان کا چہرۂ اقدس دمک اٹھا تھا۔

عکرمہ:    اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو بخدا وہ نبی ہیں۔

ام حکیم:  تو پھر میرے ساتھ چلیے، تاکہ ان کے دربار میں حاضری دیں۔

تیسرا منظر

(مکہ شہر میں صفوان کا گھر …… صفوان بن امیہ اور فاختہ باتیں کر رہے ہیں)

صفوان:  فاختہ! دل تو تمھاری محبت سے پہلے ہی لبریز تھا مگر اب اس پر تمھارا مکمل قبضہ ہے۔ تمھاری محبت لازوال ہے۔

فاختہ:     یہ اضافہ مشرف بالاسلام ہونے سے ہوا ہے؟

صفوان:  ہاں۔

فاختہ:     تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے بڑھ کر چاہو صفوان!

صفوان:  ان کی محبت تو میرا ایمان ہے۔ سنو فاختہ! جب میں جنگ ِحنین میں گیا تھا تو اس کرۂ ارض پر محمدؐ سے زیادہ قابل نفرت کسی کو نہ سمجھتا تھا (نعوذ باللہ) مگر اب ان سے زیادہ محبوب ہستی اس جہاں میں کوئی نہیں۔

فاختہ:     (مزاح کے انداز میں) کیونکہ انھوں نے ہوازن کے مالِ غنیمت میں سے تمھیں بہت کچھ عطا فرمایا ہے؟

صفوان:  نہیں فاختہ نہیں، تم تو جانتی ہو کہ مال و متاع میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ مجھے تو ان کی بہادری اور ثابت قدمی نے بہت متاثر کیا ہے۔

فاختہ:     جب زور کا رن پڑا اور مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ میدانِ کارزار میں اکیلے کھڑے تھے اور زوردار، مگر انتہائی مطمئن آواز میں کہہ رہے تھے:

            ایھا الناس

            ایھا الناس

            انا النبی لا کذب

            انا بن عبدالمطلب

صفوان:  پھر مسلمان پورے جوش اور جذبے سے پلٹے اور مشرکوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ فاختہ! اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ وہ اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں۔

فاختہ:     اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے صفوان جس نے ہمیں ہدایت اور سچائی پر اکٹھا کیا۔

صفوان:  فاختہ! تم نہ ہوتیں تو نہ میں جنگ حنین میں جاتا اور نہ ہی میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوتی۔

            پیاری! سچ تم بہت عظیم ہو……

فاختہ:     عظیم تو ام حکیم ہیں صفوان! کیونکہ انھوں نے مجھے سخت رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا تھا اور یقین دلایا تھا کہ ایک دن تم ضرور حق کی طرف پلٹ آؤ گے۔

صفوان:  کتنی عظیم اور سچی خاتون ہیں وہ!

فاختہ:     لیکن اب نہ جانے وہ کہاں ہیں؟ دو ماہ سے ان کی کوئی خبر ہی نہیں ملی!

صفوان:  وہ اس وقت ہم سے بہت دور ہیں فاختہ!

فاختہ:     مجھے ڈر ہے کہ کہیں راستے میں بھٹک نہ گئی ہوں۔ کسی مصیبت میں نہ پھنس گئی ہوں!

صفوان:  ڈرنے کی کوئی بات نہیں فاختہ! جن لوگوں کے ساتھ انھیں یمن بھیجا ہے انھیں میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیں گے۔

فاختہ:     سنا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

صفوان:  ہاں، سنا ہے۔ دو یا تین دن کے بعد تشریف لے جائیں گے، بہرحال تم تیار رہو، ہم بھی انہی کے ساتھ جائیں گے۔

فاختہ:     کیا ہم ام حکیم اور ان کے شوہر کا انتظار یہاں مکہ میں نہ کریں؟

صفوان:  نہیں فاختہ! بہتر یہی ہے کہ مدینۃ النبیؐ میں ان کا استقبال کریں۔ امید ہے وہ دونوں بھی وہیں جائیں گے۔

چوتھا منظر

(مدینہ منورہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتحِ مکہ اور جنگ ِحنین سے واپس تشریف لا چکے ہیں۔ صفوان اور فاختہ باتیں کرتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہورہے ہیں)

صفوان:  مبارک ہو فاختہ! مبارک ہو! اللہ نے ہمیں امن کی بستی میں جائے پناہ دی۔

فاختہ:     کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سے آ رہے ہیں؟

صفوان:  ہاں……

فاختہ:     یہ تو بتائیے، ملاقات کیسی رہی؟ کیسے ملے اپنے آقاؐ اور عکرمہؓ سے؟

صفوان:  مختصر بتاؤں یا تفصیل سے؟

فاختہ:     اتنی تفصیل سے کہ یوں لگے جیسے سارا منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔

صفوان:  میں آقاؐ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ عکرمہؓ امِ حکیمؓ کے ساتھ آئے اور دور ہی کھڑے ہو کر کہا: ‘‘اے محمدؐ! انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ آپؐ نے میری جان بخشی فرما دی ہے۔ ’’آقاؐ نے فرمایا: ‘‘ام حکیم نے سچ کہا ہے، تم ہماری امان میں ہو۔’’ پھر عکرمہ نے آگے بڑھتے ہوئے کہا:‘‘آقاؐ اگر ایسی بات ہے تو پھر میں قلب سلیم سے مسلمان ہوتا ہوں۔’’

            اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وانک عبدہ و رسولہ۔

            یہ سننا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ آپؐ کا چہرۂ اقدس خوشی سے تمتما رہا تھا…… فرمایا: ‘‘خوش آمدید، خوش آمدید، جو تم مومن اور مہاجر ہو کر آئے۔’’

فاختہ:     کتنے قسمت والے ہیں عکرمہ کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پذیرائی فرمائی۔ ان دونوں پر اللہ کا خاص فضل ہوا……

صفوان:  یہی نہیں ہوا، بلکہ ان پر تو اللہ کا مزید کرم ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ عکرمہ شرم کے مارے سر جھکائے ہوئے ہیں تو ان کی مدارت کرتے ہوئے فرمانے لگے:

            ‘‘مانگو عکرمہ مانگو! آج تمھیں وہ سب کچھ ملے گا جو میری استطاعت میں ہے۔

فاختہ:     (پورے اشتیاق کے ساتھ) پھر کیا مانگا عکرمہ نے؟

صفوان:  عکرمہ نے کہا، اللہ کے رسولؐ، اب سے پہلے میں نے جو عداوت برتی ہے اس کی معافی چاہتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ‘‘اے اللہ، عکرمہ نے اپنے قول و فعل سے جو دشمنی کی ہے، اسے معاف فرما دے۔’’

فاختہ:     اس سے زیادہ عکرمہ کی اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی تھی!

صفوان:  یقینا یقینا لوگ باتیں کر رہے تھے کہ عکرمہ اور ام حکیم کا آنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی تعبیر ہے۔ میرے استفسار پر بتایا گیا:

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ وہ جنت الفردوس میں سیر فرما رہے ہیں۔ وہاں ایک بہت ہی خوب صورت محل دیکھا ۔ پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ تو کہا گیا یہ عکرمہ بن ابی جہل کا ہے۔

            یہ سن کر سب حیران رہ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘جنت میں سوائے مومن کے اور کوئی داخل نہیں ہو گا۔’’

            آج جب عکرمہ مسلمان ہو کر تشریف لائے تو آپؐ نے خواب کی تاویل کرتے ہوئے فرمایا وہ محل عکرمہ ہی کا ہے۔

فاختہ:     (جیسے کچھ یاد کر رہی ہو) کہاں ہیں وہ اب؟ عکرمہ اور ام حکیم کہاں ہیں۔ وہ تمھارے ساتھ کیوں نہیں آئے؟

صفوان:  انھیں تمھارے بھائی خالدؓ بن ولید کے پاس باتیں کرتا چھوڑ کر تمھیں خوشخبری سنانے بھاگ آیا ہوں۔

فاختہ:     کاش تم نے آج دوپہر کے کھانے پر انھیں دعوت دی ہوتی۔

صفوان:  سوچا تو یہی تھا ، لیکن مجھ سے پہلے خالدؓ دعوت دے چکے تھے۔ (دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے۔ صفوان اٹھ کر دروازہ کھولتے ہیں اور ام حکیم، عکرمہ، خالد بن ولیدؓ داخل ہوتے ہیں۔ فاختہ اور ام حکیم خوشی سے گلے ملتی ہیں اور صفوان اور عکرمہ بہت گرمجوش معانقہ کرتے ہیں)

خالدؓ:      تعجب ہے کسی کو میری پروا ہی نہیں۔ کسی نے خوش آمدید تک نہ کہا۔

صفوان:  معاف کرنا خالدؓ، دراصل عکرمہ کے مسلمان ہونے کی خوشی میں ہم سب کچھ بھول ہی گئے!

فاختہ:     (بھائی کی طرف دیکھ کر) خوش آمدید خالدؓ۔ بے شک آج آپ کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔

خالدؓ:      بخدا میں نے آج تک ایسا خوشی اور مسرت کا دن نہیں دیکھا۔

صفوان:  بخدا بنی مخزوم کی خواتین عظیم ترین ہیں …… اپنے شوہروں سے پہلے اسلام میں داخل ہوئیں اورپھر جہاد کرکے اپنے شوہروں کو بھی اسلام قبول کروایا۔

خالدؓ:      الحمدللہ (عکرمہ کی طرف مڑتے ہوئے) عکرمہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

عکرمہ:    کیا کہوں بھائی! جب میں نے دنیا کے سب سے عظیم، سب سے شریف اور سب سے زیادہ کریم شخص کی بیعت کی تو یوں لگا جیسے میں آج ہی پیدا ہوا ہوں۔ مجھے نئی زندگی ملی ہے۔ (سب خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے بارے میں باتیں کرنے لگتے ہیں)

٭٭٭

            بشکریہ مختار علی صاحب جنہوں نے کتاب ‘عالم بالا کے سائے میں’ فراہم کی جس میں سے یہ مضمون مترجم اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔