قرآن مجید کی محبت، چند سوالات

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2005

            پچھلے دنوں امریکی فوجیوں کی طرف سے قرآن مجید کی توہین کے متعدد واقعات پیش آئے اور اس پر پاکستان اور بعض دیگر مسلم ملکوں کے عوام کی طرف سے احتجاج کے بعض مظاہر بھی سامنے آئے ۔

            قرآن مجید کی توہین کایہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی یورپی ممالک اور خود امریکہ میں ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں مثلا ۱۹۹۴ میں فرانس کے ایک فیشن چینل میں ماڈل لڑکیوں نے ایسے لباس کی نمائش کی جس میں کمر کے مخصوص حصوں اور سینے پر قرآنی آیات کا ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ ۱۹۹۳ کی خبر ہے کہ ہالینڈ میں ایسا کپڑا فروخت ہوتا رہا جس پر سورہ فاتحہ پرنٹ تھی اسی طرح ۱۹۹۵ میں خبر آئی کہ ایک امریکی کمپنی نے ایسے کارڈ تیار کیے ہیں جن میں قرآنی آیات کے فریم میں برہنہ عورتوں کی تصاویر ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ توہین کے موجودہ واقعات زیاد ہ گھناؤنے اور خبیث انداز میں پیش آئے اور غالبا ًبڑے پیمانے پر رپورٹ بھی ہو گئے ورنہ شاید پہلے کی طرح اس بار بھی کسی کو کچھ پتا نہ چلتا۔

            ہمارے خیال میں ان واقعات پر مسلم معاشروں میں جو احتجاج ہوا وہ ایک مردہ احتجاج تھا۔ اس احتجاج کو بہت منظم ، موثر او رجاندار انداز میں ہونا چاہیے تھا لیکن فی الواقع ایسا ہوا نہیں۔اربوں مسلمانوں میں کتنے ایسے ہیں کہ جنہوں نے منظم اور پرامن طریقے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہو؟ ان کی تعداد شاید ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔خود پاکستان میں بھی یہی حال رہا۔ چند سیاسی جماعتوں نے اپنے مخصوص پس منظر میں عوام کو سڑکوں پر آنے کی اپیل کی لیکن جواب میں انہیں عوام کی طرف سے سرد مہری اور لا تعلقی کے سوا کیا ملا؟ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جناب ان جماعتوں کے تو اپنے مخصوص مفادات تھے لیکن ہمارے خیا ل میں یہ جواب کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی وجہ اور بھی موجود ہے اور وہی ہمار ے نزدیک اصل وجہ ہے اور جسے ہم تجاہل عارفانہ سے ہمیشہ ہی نظر انداز کر تے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ تمام مسلم معاشروں میں الا ماشاء اللہ مسلمانوں کا قرآن مجید سے زند ہ تعلق قائم نہیں رہا۔ قرآن مجید کو مسلمانوں کی انفرادی اوراجتماعی زندگی میں جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ اسے نہیں دیا گیا۔قرآن نے خود کہا کہ وہ فرقان ہے ، میزان ہے ، مھیمن ہے لیکن کتنے مسلمان ہیں یا مسلمان ملک ہیں جو قرآن کواس کا یہ مقام دینے کو تیا رہیں؟قرآن کہتا ہے کہ وہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا ہے ۔ کتنے نظام، کتنے ازم ، کتنے سسٹم ، کتنے نظریے ، کتنی آرا، کتنی باتوں اور خود کتنے دینی مباحث کا حق جاننے کے لیے ہم اسے قرآن پر پیش کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور کتنے باطل ہیں جنہیں ہم ازروئے قرآن باطل ماننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں؟ قرآن کہتا ہے کہ ہر چیز اس کے ترازو میں تولی جانی چاہیے ۔ کتنے مسلمان اس کے لیے تیار ہیں کہ ان کے رویے ، ان کا اخلاق ، ا ن کی خلوت و جلوت اس ترازو میں تولی جائے؟قرآن کہتا ہے کہ وہ مھیمن یعنی نگران ہے ، سابقہ صحف پر تو ہے ہی لیکن کتنے مسلمان، اپنے سارے علوم پر بھی اس کو نگران بنانے کے لیے تیار ہیں؟

            قرآن مجید اس دھرتی پر اللہ کا آخری کلام اور صحیفہ ہدایت ہے ۔ اب قیامت تک اسی کی روشنی میں چلنے والے منزل پا سکیں گے ۔ لیکن کتنے مسلمان اس روشنی میں چلنے کو تیا رہیں؟ بطو رمثال ہم چند سوال قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ان سوالوں کا جواب یہ بتائے گا کہ قرآن کی توہین کے حوالے سے ہمار ا احتجاج مردہ کیوں تھا اور یہ کہ قرآن سے محبت اور تعلق کے حوالے سے ہمار مقام کیا ہے؟

            ۱۔ قرآن نے توحید کو مسلمانوں کی زندگی کا مرکزومحور قرار دیاہے اور بتایا ہے کہ اللہ ہی خالق،مالک ، رازق، حاجت روا ، مشکل کشا اور الہ ہے ۔ ہر دکھ ، ہر رنج ، ہر مصیبت ، ہر مشکل ، ہر بیماری اسی طرح ہر راحت ، ہر خوشی اور ہر نعمت پر مسلمان کی نگاہ سب سے پہلے اسی ایک اللہ کی طرف اٹھنی چاہیے بعد میں اسباب کے درجے میں کسی اورطرف اور ان اسباب کا استعمال بھی انہیں موثر بالذات سمجھتے ہوئے نہ ہو۔ لیکن کتنے مسلمان ایسے ہیں کہ جن کی نگاہوں کا مرکز و محور اللہ ہوتا ہے اور کتنے ایسے ہیں کہ جن کی نگاہوں اور امیدوں کا رخ ایسے مواقع پر مال و دولت، قوت و اقتدار، دوست احباب ،پیر فقیر،اولاد رشتہ دار ، برادری قبیلہ، ڈاکٹر دوااور اپنے زور بازو کی طرف ہوتا ہے ؟

            ۲۔ قرآن نے رسول ﷺ کومسلمانوں کی زندگی میں ایک خاص مقام دیا ہے ۔اللہ نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت ، رسول کی محبت کو اپنی محبت ، اور رسول کی راہ چلنے پر جنت کی ضمانت دی ہے ۔کتنے ہیں جو اس ضمانت پر یقین رکھتے ہیں؟ اور کتنے ہیں جو اس بات کو سمجھتے ، جانتے اور مانتے ہیں کہ رسول سے محبت دعووں ، نعروں اور محض باتوں کی حد تک مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل تک مطلوب ہے ۔ کتنے اس مطلوب کو پورا کرنے کے لیے تیا رہیں؟قرآن کہتا ہے کہ رسول کے فیصلوں پر دل میں بھی تنگی محسوس نہ ہو۔ کتنے مسلمان خوش دلی سے رسول کی تعلیمات اور فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنے کو تیا رہیں؟

            ۳۔ قرآ ن کہتا ہے کہ مسلمان کا اصل گھر آخرت ہے ، اسی گھر کو بنانے کے لیے اس کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے اس لیے مسلمان کے اعما ل طیبہ کی جڑ آخرت ہی میں ہونی چاہیے اوراس کی زندگی اس دنیا میں آخرت ہی کے لیے بسر ہونی چاہیے۔کتنے مسلمان اس مقصد کے تحت زندگی بسر کرنے کو تیا رہیں اور کتنے ہیں جنہیں اس بات کا عملی یقین ہے کہ بالآ خر انہیں اللہ کے حضور پیش ہو کر جوابد ہ ہونا ہے ؟

            ۴۔ قرآن چاہتا ہے کہ مسلمان کے رویے قرآن سے تشکیل پائیں ، مسلمان کے اخلاق قرآن سے وجود پائیں ، مسلمان کا کردا رقرآن کا پرتو ہو، کتنے مسلمان اپنے رویوں ، کردار اور اخلاق کو قرآن کے تحت کرنے کو تیار ہیں؟

             ۵۔ قرآن انصاف کو مسلمان کی زندگی کی بنیادی قدر قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے انصاف کے معاملے میں باپ کی بھی پروا نہ کی جائے ۔ کیا مسلمان انفرادی اور عالمی سطح پر انصاف کے موید بننے کو تیار ہیں؟

            ۶۔ قرآن سود کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے ۔ مسلمان ہر لمحے اس جنگ میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ ہم اس جنگ میں اللہ کے خلاف کھڑے ہیں بلکہ جواز کے کئی خوبصورت رستے ،تاویل کی کئی جدید راہیں تلاش کررکھی ہیں۔ کیا یہ جواز ، یہ تاویلیں اللہ کے حضور کام دے سکیں گی؟ مسلمان اس بات پر شکوہ کنا ں ہے کہ ہم تو سود کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ نظام ہمارے قبضے میں نہیں ۔ ٹھیک ہے ،لیکن جو کچھ ان کے بس میں ہے کیا وہ اسے بھی کرنے کو تیار ہیں؟ انفرادی سطح پر جس سود سے وہ اجتناب کر سکتے ہیں کیا وہ اس سے اجتناب کرتے ہیں یا اس کا نام بدل کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں؟

            ۷۔ قرآن عورت کو ایک محترم ہستی قرار دیتا ہے اور تقوے و نیکی کے میدان میں اسے مرد کے برابر درجہ دیتاہے بلکہ کہتا ہے کہ وہ چاہے تو اس میدان میں مرد سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے ۔ کیا مسلمان اپنے معاشروں میں عورت کو محترم درجہ دینے کو تیار ہیں؟ کاروکاری ،قتل غیرت،بیویوں کی مار پیٹ اورعورت کا استحصال کس قرآن سے ماخوذ ہے ؟ اور کیا مذہبی طبقہ قرآن کے ان احکامات کو معاشرو ں میں لاگو کرانے کے لیے تحریک برپا کرنے کو تیا ر ہے ؟

            ۸۔ قرآن ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ۔ جبکہ مسلمان دن رات مخالف نظریہ رکھنے والوں کو گولی اور بم سے اڑانے کے لیے کوشاں ہیں او روہ بھی مذہب کے نام پر ۔ کیا یہ بھی قرآن سے محبت کا تقاضا ہے ؟

            ۹۔ قرآن فتنہ فساد کو قتل سے بھی اشد قرار دیتا ہے اور امن کو ہر حال میں پسند کرتا ہے ۔ کیا ہم بھی ایسا ہی چاہتے ہیں یا ہمار ا عمل اس کے برعکس ہے ؟

            ۱۰۔ قرآن اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے احسن طریقہ اختیار کرنے اور بحث و تمحیص میں شائستہ رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے ۔ جبکہ ہم اختلاف رائے رکھنے والے کو نہ صرف برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ اس کی تذلیل و رسوائی کے درپے بھی رہتے ہیں کیامحبت قرآن کا یہی تقاضا ہے ؟

            ۱۱۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہارا نظام مشورے پر مبنی ہونا چاہیے ۔ آج دنیا میں کس مسلمان ملک کا نظام اس اصول پر استوار ہے ؟ اگر کہیں جمہوریت کے نام پر مشورہ بذریعہ الیکشن ہوتا بھی ہے تو کیا اس میں ووٹر کو آزادانہ رائے کا حق حاصل ہوتا ہے یا برداری ، دولت ، دھونس ، دھاندلی سے ان کا مشورہ اپنے نام منتقل کیا جاتا ہے ؟

            ۱۲۔ قرآن خاندانی نظام ، نکاح و طلاق کے تفصیلی احکامات عنایت کرتا ہے ۔ کتنے مسلمان ہیں جو ان احکامات کو اپنے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں؟

            ۱۳۔ قرآن وراثت میں ہیر پھیر کرنے والوں کو جہنم کی نوید سناتاہے اور وراثت کی تفصیلی ہدایات کے ساتھ انہیں نافذ کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے ۔ کتنے فیصد مسلمان وراثت کے احکامات کو دیانتداری سے نافذ کرنے کو تیار ہیں؟ خصوصا وراثت میں لڑکیوں کو حصہ دینے کے لیے کتنے مسلمان خوشی سے راضی ہوتے ہیں او رکتنے ہیں جو حیلے بہانے تلا ش کرتے ہیں یا زبردستی کرتے ہیں یا پھر خوبصورت ناموں سے تاویل کرکے لڑکیوں کو خاموش کرا دیتے ہیں۔

            ۱۴۔ کتنے مسلمان معاشروں میں حدود الہی کا نفاذ جاری ہے اوراگر کہیں ہے بھی تو کیا وہ واقعتا قرآن کی روح کے مطابق ہے ؟ اور کتنے مسلمان ہیں جو ان حدود کو ظلم سمجھتے ہیں؟

            ۱۵۔ قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی اور غیبت ، بدگمانی ، پردہ دری جیسے دیگر کئی اخلاقی رذائل سے منع کیا ۔ کتنے مسلمان ہیں جو اس ممانعت پر عمل پیرا ہیں؟

            ۱۶۔ اللہ نے اپنے بندوں کی صفات تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیا ن کیں ۔ کتنے ایسے ہیں جو ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟کتنے ہیں جن کے پہلو راتوں کو بستروں سے الگ رہتے ہیں؟ کتنے ہیں جن کی راتیں اپنے مولا کے حضور سجدے اور قیام میں گزرتی ہیں؟ کتنے ہیں جوزمین پر عاجزی سے چلتے ہیں؟ کتنے ہیں جنہیں موقع ملے بھی تو زنا سے بچتے ہیں؟ اور کتنے ہیں جن کی نگاہوں میں حیا اور دلوں میں خوف خدا جاگزیں رہتا ہے ؟

            ۱۷۔ آج کتنے مسلمان گھرانے ہیں جن میں والدین کو وہ مقام دیا جا تا ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے؟

            ۱۸۔ قرآن نے نماز کی اس روایت کو جو تمام انبیا کا شیوہ تھی مسلم معاشروں میں از سر نو زند ہ کرنے کے لیے باربار تاکید کی ، کتنے فیصد مسلمان اس پر عمل پیرا ہیں؟اور جو پڑھتے ہیں ان میں سے کتنوں کی نماز ان کو بے حیائی ، فحاشی ، بد دیانتی ، دھوکے ،جھوٹ اورکم تولنے سے روکتی ہے؟

            ۱۹۔ روزہ بھی سب قوموں پر فرض رہا ہم میں سے کتنے اس فرض کو نبھاتے ہیں؟اور اس سے مطلوب تقوی تک رسائی تو شاید پوری امت میں سے چند ایک کی ہو۔

            ۲۰۔ زکوۃ بھی ہمیشہ سے آسمانی مذاہب میں موجود رہی قرآن نے رسول اللہ ﷺ کے امتیوں پر بھی اس کا نفاذ کیا لیکن کتنے مسلمان اس فرض کو دیانتداری سے نبھانے پر آماد ہ ہیں اور کتنے اس سے جان چھڑانے کے لیے حیلے بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کتنے ہیں جو اس سے بالکل ہی غافل ہیں؟

            ۲۱۔ قرآن نے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر حج فرض کیا ۔ کتنے صاحب استطاعت اس حکم پر عمل پیرا ہیں؟اور جو صاحب استطاعت ہر سال پکنک کی طرح حج اور عمروں پر چلے جاتے ہیں اور پھر اسے بلاوے کا نام دیتے ہیں ۔ کون جانے ان میں کتنے ہیں جن کاواقعی بلاوا آتاہے اور کتنے ہیں جو زبردستی گھر میں گھستے چلے جاتے ہیں۔ بھلا جو زبرد ستی گھر میں گھس آئے اسے بلاوے سے کیا نسبت؟ آپ کے گھر میں کوئی زور سے داخل ہو جائے تو آپ تو مزاحمت کریں گے لیکن اللہ نے اس دنیا میں آزمائش کے لیے ڈھیل دے رکھی ہے ۔ دنیا میں تو طفل تسلی چل جائے گی لیکن یہ قیامت میں ہی معلوم ہو گا کہ کتنے ایسے تھے کہ جن کابلاوا آتا تھا اور کتنے ایسے تھے جو منہ اٹھائے ویسے ہی گھر میں گھسنے والوں میں سے تھے۔اور یہ بھی قیامت میں ہی معلو م ہو گا کہ کتنے ایسے بھی تھے جوکبھی وہاں نہ جا سکے لیکن حاجیوں کے زمرے میں شامل ہوں گے۔

            ۲۲۔ قرآن نے بار بار انفاق کی ترغیب اور حکم دیا لیکن کتنے مسلمان اس پر آمادہ ہیں؟ کیا محلوں کے سائے میں آج بھی ہزاروں جھونپڑیا ں موجود نہیں ہیں؟ کیا روشن گھروں کی اوٹ میں غریب کی کٹیاآج بھی تاریک نہیں ہے؟ کیا آج بھی بچے ،بوڑھے بے دوا اور علاج نہیں مرتے ؟ کیا آج بھی سرد اور گرم ہوائیں بے گھروں کوموت کی آغوش میں نہیں پہنچاتیں؟

            ۲۳۔ قرآن نے مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیا ۔ کتنے مومن ہیں جن کی نیندیں مسلمانوں کی بے بسی اور بے گوروکفن لاشے دیکھ کر حرام ہو گئی ہیں؟ اور کتنے مسلمان ملک ہیں جو مظلوم مسلمانوں کی مدد کو بے چین نظر آتے ہیں؟     

            ۲۴۔ کتنے ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کو اپنے گھر میں قسمیں کھانے ، مردوں پر پڑھنے ، بچیوں کو جہیز میں دینے ، خوبصورت غلافوں میں بند کرکے الماریوں کی زینت بنانے اور محض برکت کے لیے رکھ چھوڑا ہے اور کتنے مسلمان ہیں جنہوں نے قرآن کو اپنے گھر میں اس لیے رکھا ہے کہ ہم اس سے ہدایت حاصل کریں گے۔ ہم اسے سمجھیں گے اور اس سے پوچھ پوچھ کر زندگی بسر کریں گے؟پہلے تو مسلمانوں کے گھرانوں سے کم از کم تلاوت کی آواز آ جایا کرتی تھی اب تو وہ بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔

            قارئین محترم ! آپ کہیں گے کہ وعظ بہت طویل ہو گیا ہے لیکن یقین مانیے کہ ابھی یہ صرف چند سوال ہیں اور وہ بھی بطور مثال ۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے ۔اپنے ذہن پر زور دیجیے تو اس طرح کے اور بہت سے سوالات آپ خود سے کر سکتے ہیں۔اور پھر ان جوابات کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پرقرآن کی محبت کے کتنے آثار ہیں ۔ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ محبت کا دعوی تو بڑی بات ہے ہم توشاید اس بات کے مستحق ہو گئے ہیں کہ ہمیں قیامت کے دن اس قوم میں شامل کر دیا جائے کہ جس کے خلاف رسول کہیں گے وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا۔اے میرے رب میر ی قوم نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو پس انداز کردہ چیز نہ بنایا ہوتا تو قرآن کی بے حرمتی پر ہم واقعتا تڑپ اٹھتے اور پورے عالم کے مسلمان قرآن کو سینوں سے لگائے جب گھروں سے نکلتے تو کفر پر ہزاروں ایٹم بموں سے بھاری ہوتے ۔لیکن آخر کیوں نکلتے ؟ دن رات توہمارے اپنے گھر وں میں قرآن کی توہین ہور ہی ہے۔وہاں ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے تو اب کیوں ہوتے ؟کیا کسی بڑے کے حکم کو پرکاہ سی حیثیت دینا اس بڑ ے کی توہین نہیں ہوتی؟ تو قرآن سے بڑا ہمارے گھر وں میں کون ہے؟ قرآن کے سائے میں بیٹھ کر ہم اس کا حکم پس پشت ڈال رہے ہوتے ہیں اور پھر خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ اس سے قرآن کی توہین نہیں ہوتی ۔اگر ہم قرآن کی حرمت و ناموس کے بارے میں حقیقتاً حساس ہوتے توہمارے گھروں کامنظر ہی اور ہوتا اور اگر ایسا ہوتا تو پھر اس امریکی توہین پر بھی یقینا کہیں زیاد ہ تڑپ اٹھتے ۔ لیکن وہ تڑ پ ہی تو مرد ہ ہو گئی۔

            دینی سیاسی جماعتوں نے حرمت قرآن کنونشن کیے اور اس میں اس طرح کے پیغامات تقسیم کیے گئے ۔ ‘‘امریکی دہشت گردوں نے گوانتا نا موبے میں قرآن مجید کو لیٹرینوں میں بہایا اور سنگینوں پہ اچھالا۔ یوں قرآ ن مجید کی توہین کر کے عالم اسلام کی غیرت کو للکارا گیا ہے ۔ اس موقع پر امریکیوں کو یہ بتا دو کہ تم نے غیرت مند قوم کو للکارا ہے جو قرآن کی حرمت پر کٹ مرنے کو تیا رہے ’’ ہا ں شاید قرآن کی حرمت پر مسلمانوں کوکٹ مرنا آسان ہو لیکن قرآن کے نام پر جینا بہر حال مسلمانوں کے لیے مشکل ہے۔ اگر یہ قرآن کے نام پر جیتے ہوتے تو امریکیوں کو یہ جرات ہی نہ ہوتی۔ اور اگر کہیں ہوتی بھی تو قرآن والوں کی ایک آواز، ایک احتجاج امریکیوں پر ایٹم بم سے بڑھ کر موثر ہوتا۔ لیکن قرآن سے خالی زندگیوں کے کٹ مرنے کی بھی انہیں کوئی پروا نہیں لیکن قرآن کی حامل زندگیوں کا تیز نظر سے دیکھنا بھی انہیں گھائل کر دیتا۔ یقین نہ آئے توتجربہ شرط ہے ۔ اللہ کرے کہ ہم تجربتاً ہی اس کے لیے تیار ہو جائیں۔ ورنہ یہ آوازیں ، یہ کنونشن ، یہ جلسے ، یہ جلوس ، یہ سب صدا بصحرا ثابت ہوں گے بلکہ ہو چکے ہیں ۔ کیا ہم اب بھی حقیقت کا ادراک نہ کریں گے؟اور کیا ہم اپنے جسموں، اپنے گھروں، اپنے ماحول اور اپنے معاشرے میں اپنے ہاتھوں ہونے والی قرآن کی توہین کو روکنے کے لیے آگے بڑھیں گے؟ یا صرف دور دور سے اور وہ بھی دور کے دشمن کو دیکھ کر غرانے پر اکتفا کریں گے اور اگر دشمن قریب آئے تو یوں آنکھیں بند کر لیں گے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر!

تعلیمی بورڈ لاہور کے ارباب اختیا رکی خدمت میں

            ہمارے سامنے اس وقت بورڈ آف انٹر میڈی ایٹ ایند سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کا تیار کردہ اسلامیات اختیار ی کا پرچہ ہے جو انٹر پارٹ II کے طالب علموں کو دوسرے گروپ میں دیا گیا۔ اسے دیکھ کر ہمیں روس کے وہ صدریاد آ رہے ہیں جنہیں تجرید ی آرٹ کی ایک نمائش میں مدعو کیا گیا اور کہا گیا کہ ان تصویروں پراپنا تبصرہ فرمائیں۔ صد ر نے کہا کہ مجھے تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے گدھے نے اپنی دم رنگوں میں بھگو کر کینوس پر پھیر دی ہو۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس پیپر کی ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہاں گدھے کی دم تھی اور یہاں گدھے کا دماغ۔

            سوال ملاحظہ فرمائیں ۔ ‘‘درج ذیل کی قرآنی سیاق سباق سے وضاحت کیجیے : قد نری تقلب وجھک فی السماء ، کونوا قردۃ خاسئین۔ ’’ یہ اصل میں دو آیات ہیں جن کے بعض حصوں کو ایک آیت کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔ دونوں حصوں کے مابین اگر آیت کا نشان بنا کر ان کو الگ کر دیا جاتا تو تب بھی شاید گوارا ہو جاتا لیکن ان کو ایک ہی آیت بنا کر پیش کیا گیا اور ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان ‘ج’ کا نشان ڈالا گیا ہے جو کہ رموز اوقاف میں سے ہے نہ کہ آیت کی علامت۔ قد نری والا حصہ سورہ بقرۃ کی آیت ۱۴۴ کا ٹکڑا ہے جبکہ کونوا والا حصہ سورہ بقرۃ کی آیت ۶۵ کا ٹکڑا ہے اور اسی طرح یہی حصہ سورہ اعراف کی ،آیت ۱۶۶ کا بھی ٹکڑا ہے۔قرآن کے ان دونوں مقامات پر یہ الفاظ بنی اسرائیل کے لیے بطور لعنت آئے ہیں جب انہوں نے سبت کے احکامات کی خلاف ورزی کی۔ جبکہ پہلا حصہ تحویل قبلہ کے سیاق میں ہے۔ان حصوں کا تر جمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپ کا منہ کرنا آسمان کی طرف۔ یہ آیت نبی ﷺ کی شان بھی بیا ن کر رہی ہے اور بنی اسرائیل کے بعد بنی اسماعیل کو امامت کاجو منصب سونپا جا رہا تھا اسے بھی بتا رہی ہے ۔ دوسرے حصے کا ترجمہ ہے ۔بن جاؤ بند ر پھٹکارے ہوئے یا ہو جاؤ ذلیل بندر۔ یہ بنی اسرائیل پر عذاب کا ذکر ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ان دونوں حصوں کا باہمی جوڑ کیا ہے ؟جو انہیں ایک آیت بنا کر پیش کیا گیا۔ کہاں حضور ﷺ کی شان اور کہاں بنی اسرائیل کے ذلیل بندر۔ الگ الگ سوال یا الگ الگ آیت کی شکل میں ان کا سیاق پوچھا جاتا تب تو بات قابل فہم تھی۔ اس صورت میں سوائے اس کے کہ پیپر سیٹر اپنے کسی خبث کا اظہارچاہتا ہے اور کیا اخذ کیا جا سکتا ہے؟

            اگرچہ ارباب بورڈ نے اس کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے لیکن ہمارے ہاں عام طور پر کمیٹیا ں مسائل کو ٹالنے کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔ اگر اس معاملے میں بھی ایسا ہوا تو ہم سمجھیں گے کہ بورڈ کے ارباب اختیار کی منشا بھی اس میں شامل تھی لیکن اگرفی الواقع کمیٹی کی کارروائی کو منظر عام پر لا یا گیا اور اس حرکت کے ذمہ دار کو اس کی سزا دی گئی تو تلافی مافات کی صورت ہو سکتی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہو گا ۔آخر یہ بورڈ کے ارباب ا ختیار کے بھی ایمان کا مسئلہ ہے اور ہونا بھی چاہیے۔