بلوچستان ، منظر ، پس منظر

مصنف : طارق عزیز

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جولائی 2005

            چمن میں ایک بگولا سا اٹھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک آندھی کی صورت اختیار کرتا گیا۔ اس کی گردو غبار اور گھن گرج بڑھتی گئی اور مجھ سمیت وطن عزیز کے بیشتر دردمند باسیوں کو اک تڑپ اور فکروتشویش میں مبتلا کر گئی۔ یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بات بلوچستان کی مسئلے کی ہے۔

             بلوچستان کا مسئلہ آخر ہے کیا؟اگرچہ قبائلی سرداروں کے بقول پنجابی عناصر کی پروردہ حکومت ہمارے علاقے او ر وسائل پر غاصبانہ قبضہ کر کے ہمارے عوام کو بھوکوں مارنے اور بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کررہی ہے اور ہمارے تمام تر وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود ہمارے غریب عوام کو حکومت کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے پس منظر میں عالمی سازشیں بھی یقینا موجود ہیں اور انہیں کی طرف توجہ دلانا یہاں مقصود ہے ۔

            اس سلسلہ میں ۳ مارچ ۲۰۰۵ء کے روزنامہ پاکستان کی ڈیلی میل سے اخذ شدہ رپورٹ بہت اہم ہے۔ اس رپورٹ میں روسی ایجنسی کے جی بی کی۲ خواتین ایجنٹوں ‘مشاء’ اور ‘ساشا’ کے سنسنی خیز انکشافات کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ ہمارے نزدیک واقعتا لمحہ فکریہ ہیں۔

            مذکورہ اخبار کے مطابق اس تخریب کارانہ سازش میں کے جی بی اور را کا گٹھ جوڑ ملوث ہے۔ ڈیلی میل کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے امریکہ پر خودساختہ حملوں کے بعد امریکی ایجنسیوں نے افغانستان پر حملہ اور غاصبانہ قبضہ کے لیے روسی خفیہ اداروں سے مدد طلب کی جس کے بدلے میں روسی حکام نے بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی شرط رکھی۔

            درج بالا خواتین ایجنٹوں نے انکشاف کیاکہ کریملن نے افغانستان پر حملہ اور قبضہ صرف بلوچستان کی ساحلی پٹی اور گرم پانیوں تک رسائی کے لیے کیا، اس دوران بلوچستان میں ایسی قوم پرست تنظیموں کی سرپرستی کی گئی جو کہ باغیانہ اور تخریب کارانہ کارروائیوں میں ملوث ہوں۔ ان میں سے بلوچ لبریشن آرمی سب سے زیادہ فعال تھی جسے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے منظم کیا گیا تھا۔ بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کی تنظیم سازی کی ذمہ داری ان ہی دو خواتین ایجنٹوں کے ذمہ تھی۔جنہوں نے بھاری رقوم اور اسلحہ کی فراہمی کے ساتھ بی ایل اے کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ ان دو خواتین نے بلوچستان کے کئی اہم شہروں میں وسیع قیام کیا۔ مشاء کے مطابق سوویت یونین ٹوٹنے کے ساتھ ہی بی ایل اے بھی منہدم ہوگئی اور اس کی سرگرمیاں بھی ختم ہو گئیں۔کیونکہ روسی حکومت بی ایل اے کو بھاری مالی امداد فراہم کرتی تھی جو کہ اب بند ہوگئی ۔

            نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کو اپنے مفادات کے حصول اور افغانستان کے بارے میں جغرافیائی خدوخال اور علاقائی صورتحال کی مکمل جانکاری کے لیے روسی تعاون کی اشد ضرورت پیش آئی۔ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کے بعد افغانستان اور بلوچستان میں ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کی قیمت پر بھرپور تعاون کا وعدہ کیا گیا۔

            بلوچستان کے چند قوم پرست عناصر، جو پہلے بھی غیر ملکی امداد حاصل کرتے رہے ہیں اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے وفاق پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں میں ملوث رہے ہیں، ان عناصر سے جنوری ۲۰۰۲ء میں دوبارہ رابطے بحال کیے گئے اور اسی ماہ سازش پر عمل پیرا ہونے کے لیے تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک دستہ افغانستان کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ اس دستے میں ۲، ہندستانی،۲امریکی اور ان کا ایک افغانی ڈرائیور شامل تھا۔ ایجنٹوں کے اس گروپ نے کوہلو میں نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری سے ملاقات کی اور پہلا تربیتی کیمپ قائم کر دیا۔ مشاء کے مطابق اسلحے کی پہلی کھیپ جو ان تخریبی کارروائیوں میں استعمال ہوئی افغانستان کے راستے بلوچستان پہنچائی گئی۔ خفیہ تربیتی کیمپوں کی تعدادمیں اضافے کے بعد سندھ اور پنجاب کے ملحقہ سرحدی علاقے کے پانچ کلومیٹرکے فاصلہ پر واقع بھارتی شہر کشن گڑھ میں ان تربیتی کیمپوں کو سپلائی کرنے کے لیے اسلحہ کا ایک سپلائی ڈپو قائم کیا گیا۔ اسی طرح کا ایک اور سپلائی ڈپو کشن گڑھ سے نوے کلومیٹر دور ایک اور چھوٹے سے شہر شاہ گڑھ میں بھی قائم کیا گیا۔ روسی ساخت کا یہ اسلحہ ان ڈپوؤں سے اونٹوں کے ذریعے پاکستان کی سرحد تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر پاکستانی سرحد سے یہ اسلحہ مذکورہ کیمپوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ تخریبی کاروائیوں میں شامل ہر تخریب کار کو ماہانہ ۲۰۰ ڈالر اور ان کے سیکشن لیڈر کو ۳۰۰ ڈالر ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ معمولی رقم سپر پاورز کے لیے متوقع مفادات کے حصول کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ خرچ کر سکتے ہیں بلکہ کر رہے ہیں۔

            مشاء کے مطابق بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں کو جاری وساری رکھنے اور ان کی مانیٹرنگ کے لیے کئی ایک ٹرائی اینگلز قائم ہیں۔ جس میں کشمور، بارکھان،بی بی نانی(سبی) وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایرانی بارڈر کے قریبی علاقے زاہدان میں بھارتی قونصل خانے نے شہر کے ہوٹل امین کے قریب ایک عمارت کرائے پر لے رکھی ہے جس کا نام ‘‘دانش گاہ’’ ہے جہاں پاکستان اور افغانستان سے جانے والوں کو ہر طرح کی سپورٹ مہیا کی جاتی ہے اور مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

            ایک عام شہری کے لیے یہ بات نا قابل فہم ہے کہ جب خود صدر،وزیر اعظم،وزیر داخلہ اور گورنر بلوچستان کے بیانات کہہ رہے ہیں کہ ہمسایہ ممالک بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور تخریب کاروں کو روپیہ اور اسلحہ فراہم کرنے میں سو فیصد بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو کیا بات ہے کہ دشمن سینکڑوں میل دور بیٹھا وطن عزیز کو تخریب کاری کا نشانہ بنائے جارہا ہے اور ہم سب کچھ جاننے کے باوجودبے بس کیوں ہے؟ کیا یہ لوگ سلیمانی ٹوپی پہن کر تخریب کاری کر رہے ہیں کہ جو نظر نہیں آتے؟

            ڈیرہ بگٹی کی رہائشی آبادی میں ہندو کثرت سے آباد ہیں اور یہاں ان کی باقاعد ہ عباد ت گاہیں قائم ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے مناسک ادا کرتے ہیں۔ ان ہی میں سے ۳۲، افراد جن میں سے بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی کے قلعہ کے اندر واقع ماتا جی کے مندر میں راکٹ دھماکے سے ہلاک ہوئے۔ نواب اکبر بگٹی اور قبائلی اس کا الزام ایف سی پر لگا رہے ہیں کہ انہوں نے راکٹ فائر کیا ہے ۔جبکہ ایف سی کے انسپکٹر جنرل شجاعت ضمیر ڈار کا کہنا ہے کہ ایف سی یا آرمی نے کبھی پر امن شہریوں پر فائرنگ یاحملہ نہیں کیا بلکہ دھماکہ مسلح افراد کے ڈمپ کیے ہوئے بارود میں آگ لگنے سے ہوا جس سے متذکرہ ہندو افراد ہلاک ہوئے۔اگر راکٹ کا حملہ ہوتا تو اس کا عمارت میں داخل ہونے کا نشان ضرور ہوتا ۔ اسی طرح ایف سی اور قبائلیوں کے درمیان تصادم کا بڑا واقعہ جسے اکبر بگٹی صاحب اپنے اوپر آرمی کی طرف سے قاتلانہ حملہ قرار دے رہے ہیں ایک معمہ بنا ہوا ہے۔نواب اکبر بگٹی کا کہنا ہے کہ ڈیرہ بگٹی کی آبادی کو اچانک فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ فائرنگ کا زیادہ زور میرے گھر اور بیٹھک پر تھا اسی کوشش میں ہندو محلہ بھی زد میں آیا۔میں اس حملہ میں خوش قسمتی سے محفوظ رہا۔ جب ہم نے اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی تو ایف سی کے تمام مورچوں سے مارٹر گولے اور بھاری اسلحہ استعمال ہوا اور تمام آبادی کو بلا امتیاز نشانہ بنایاگیانواب اکبر بگٹی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں پہل ہم نے نہیں کی۔بلکہ ایف سی کی جانب سے بلا اشتعال حملہ ہوا اس کے برعکس حکومتی ذرائع اور ایف سی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ایف سی کے جوانوں پر پہلے قبائل کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس سے کئی کانسٹیبل زخمی ہوئے جس کے جواب میں ہم نے صرف اسی طرف فائر کیا جدھر سے فائر آرہے تھے۔ہمیں دونوں فریقوں کی سچائی پر ذرہ برابر شک نہیں ہے۔ دونوں کا یہ دعویٰ کہ تصادم کی وجہ بننے والی فائرنگ کی ابتدا دوسری طرف سے ہوئی غلط نہیں ہوسکتا۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں توپھر کون؟ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں جس طرح بیرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے ثبوت پائے جاچکے ہیں اور دشمن کی طرف سے پیسہ اور اسلحہ مہیا کرنے کے بیانات خود صدر صاحب دے چکے ہیں تو اس کی روشنی میں صاف واضح ہے کہ تیسرا فریق یعنی دشمن نہیں چاہتا کہ حالات پرسکون ہوں اور حکومت اور قبائل میں امن معاہدہ ہو تو ممکن ہے کہ ان ہی عناصر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہو اور ایک طرف سے دوسرے فریق کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر تصادم شروع کروادیا ہو۔گورنر بلوچستان اویس غنی نے بھی یہ انکشاف کیا ہے کہ اس تصادم کی ابتدا میں زخمی ہونے والے ایف سی کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ جن ۲ افراد نے اس پر فائر کیا وہ ایف سی کی وردی میں ہی ملبوس تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ خود ایف سی کے اہلکار اپنے ہی آدمیوں پر فائر کر دیں۔ یہ ایک تشویش ناک بات ہے کہ چند ماہ قبل (بقول گورنر بلوچستان) حکومت کو رپورٹ ملی تھی کہ رحیم یار خان سے ایک ٹیلر ماسٹر کو ڈیرہ بگٹی لایا گیا تھا اور اس سے تقریباً دوسو کے قریب ایف سی کی یونیفارم بنوائی گئی تھیں۔میرے خیال میں منظر پر چھائی دھند چھٹی ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت اور ایف سی کے خلاف الزامات کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے اور مقامی قبائلیوں کو یہ باور کرانے کے لیے کہ ایف سی یاآرمی ہم پر بے رحم ظلم کر رہی ہے اور انہیں ایف سی سے متنفر کرانے کے لیے وہی چال چلی جارہی ہے۔ جو کہ ہندستان اس سے قبل مشرقی پاکستان میں پاکستان آرمی اور بنگالیوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کے لیے چل چکا ہے۔

            رہی بات امریکی مفادات کی تو بلوچستان میں گڑ بڑ پھیلانے اور افراتفری کی کیفیت پیدا کرنے کے پیچھے امریکہ کے دو طویل المیعاد منصوبے ہیں۔ پہلا یہ کہ وسط ایشیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ایک محفوظ راستے پر قبضہ اور دوسرا یہ کہ امریکہ چین کے گردگھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ جنوبی ایشیا کا استحکام امریکہ کے خلاف ہے اور بلوچستان کے تمام ترقی پذیر پراجیکٹس سے چین کی وابستگی ان منصوبوں کی کامیابی کی ضمانت ہے جو کہ پاکستان کی متوقع خوشحالی کی امید ہے لہٰذا امریکی چاہتے ہیں کہ چین بلوچستان کے پراجیکٹس سے دور رہے۔

            اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور آرمی کی انٹیلی جنس ایجنسیاں دشمن کی تخریبی کارروائیوں کو کس طرح کنٹرول کرتی ہیں۔ اس سے قبل اپریل کے سوئے حرم کے شمارے میں بھی حکومت اور دیگر ذمہ داران کو مختلف تجاویز دی جاچکی ہیں کہ اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے ۔ مختلف اخبارات و رسائل وجرائد بھی مختلف حل پیش کر چکے ہیں مگر اب باتوں کا وقت نہیں بلکہ عمل کاہے۔ بلوچ دیگر قوموں کی طرح ہمارے دینی اور قومی بھائی ہیں۔ ہم ہر دکھ درد میں ان کے برابر کے شریک ہیں۔ دیگر پاکستانیوں کی طرح اس صوبہ میں بھی علمی ،سائنسی، صنعتی و زرعی ترقی کے برابری کی بنیاد پر مواقع پیدا ہونے چاہئیں تاکہ یہاں کے باشندوں کا احساس محرومی ختم ہوسکے اور وہ بھی ملکی ترقی میں دوسرے صوبوں کی طرح برابر شامل ہوسکیں۔

            ہم نے دل کی بات ،خدشات،تحفظات ہر چیز کھول کر بیان کر دی ہے۔ بات صرف کاغذ سیاہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس امید پر کی ہے کہ ‘‘شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات’’ وگرنہ اغلب امکان یہ ہی ہے کہ یہ بھی نگار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جائے گی۔