مردوں کی تربیت

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2019

 

اصلاح و دعوت
مردوں کی تربیت
ابو یحیی

 

                                                                                                               مردوں کی تربیت
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس خاکسار نے دنیا کے متعدد ممالک کا سفر کیا ہے۔ ان اسفار میں پاکستانی مرد و خواتین کی ایک ایسی خصوصیت سامنے آئی جو دنیا میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ خصوصیت مرد و خواتین دونوں میں متضاد طور پر پائی جاتی ہے۔پاکستانی خواتین کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ دنیا کی تمام اقوام کے مقابلے میں ان کے لباس میں عریانی سب سے کم پائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ مسلم ممالک سے بھی ان کا کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔ سعودی عرب اور ایران کو اس تقابل سے اس لیے نکال دینا چاہیے کہ وہاں یہ قانونی پابندی ہے کہ خواتین مکمل لباس پہنیں۔ چنانچہ رضا کارانہ طور پر مکمل لباس پہننے کی خصلت جس طرح پاکستانی خواتین میں پائی جاتی ہے دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ ملائیشیا وغیرہ کی مسلم خواتین بھی عام طور پر مکمل لباس پہنتی ہیں، مگر وہاں غیر مسلم خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ان کا نیم عریاں لباس ماحول کا مجموعی تناظر بڑی حد تک بدل دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں مسلم کے علاوہ غیر مسلم خواتین کا لباس بھی مکمل ستر پوش ہوتا ہے۔
اس کے بالکل برعکس دنیا بھر کے مردوں کے برخلاف پاکستانی مرد اپنی ان ستر پوش بہنوں کو اوپر سے نیچے تک دیکھنا اپنی ایک لازمی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ وہ اس تصور ہی سے واقف نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو سختی سے منع کر رکھا ہے کہ خواتین کے خدوخال اور جسمانی نشیب و فراز کا جائزہ لیا جائے یا ان کو گھور کر دیکھا جائے۔ خاتون چاہے برقع پوش ہی کیوں نہ ہو، مرد اپنی عادت کے مطابق اسے دیکھتے ضرور ہیں۔
یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے، محض اتفاق نہیں ہے۔ مردوں کی اس عادت کے پیچھے ایک پوری تربیت موجود ہے۔ وہ تربیت یہ ہے کہ عورت انسان نہیں ہے بلکہ جنسی حظ فراہم کرنے والی ایک شے ہے۔ قابل احترام عورت صرف اپنی ماں، بہن، بیٹی ہی ہوتی ہے۔ یا وہ خواتین جو اپنے قریبی رشتے دار ہوں۔ اس کے علاوہ ہر عورت مزہ حاصل کرنے کی ایک چیز ہے اور کچھ نہیں۔
اس تربیت کا دوسرا جز اس بے ہودہ حرکت کی یہ توجیہ ہے کہ عورتیں اگر گھور کر دیکھے جانے اور چھیڑے جانے کے اس عمل سے محفوظ رہنا چاہتی ہیں توانھیں چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھیں۔ وہ اگر باہر نکلیں گی تو بہرحال انھیں اس صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا۔ چاہے وہ برقع پہنے ہوئے ہوں یا چادر، مردوں کا حق ہے کہ ان کا مکمل جائزہ لے کر ان کے جسمانی نشیب و فراز کا معائنہ کریں۔ اس تربیت کا تیسرا جز یہ ہے کہ جو عورت برقع یا چادر نہ پہنے اس نے گویا کہ سارے مردوں کو ایک لائسنس دے دیا ہے کہ وہ اسے گھور کر دیکھیں، اس پر جملے کسیں اور جہاں ممکن ہو جسمانی اتصال کی کوئی شکل پیدا کریں۔ اس تربیت کا چوتھا جزیہ ہے کہ کچھ خواتین نے اگر تنگ، باریک یا کسی قدر کھلے ہوئے کپڑے پہن رکھے ہوں تو پہلے ان کو جی بھر کے دیکھیں اور پھر ہر مجلس میں یہ وعظ کرتے پھریں کہ بے حیائی بہت پھیل گئی ہے۔
مرد و خواتین کی یہ صورتحال دراصل ہماری فکری قیادت کی اس ذہنیت کا بیان ہے جو قوم کی تربیت کر رہی ہے۔ قرآن مجید سے بے بہرہ ایسے لوگ صرف خواتین کو پردے کی تلقین کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ احکام دینا شروع کیے تو پہلے مردوں کو مخاطب کر کے ان کو سمجھایا ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو بھی تلقین کی اور مردوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ چیزوں کی تلقین کی۔ مگر ان کے ابتدائی مخاطب مرد ہی ہیں۔
ہمیں اگر اپنے مردوں کو اس قابل شرم صورتحال سے نکالنا ہے تو ضروری ہے کہ قرآن مجید کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت کرنا شروع کر دیں۔ یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔
***
الفاظ ختم نہیں ہوتے
پچھلے دو تین برس سے دسمبر دو ہزار بارہ میں دنیا کے ختم ہوجانے کا بڑا چرچا تھا۔ میرے علم میں یہ معاملہ آیا تو میں نے اس پر تفصیل سے ایک آرٹیکل لکھا۔ اس آرٹیکل میں اس پیش گوئی کا پس منظر بتانے کے بعد یہ بتایا گیا تھا کہ یہ اسی طرح کا ایک فراڈ ہے جیسا کہ سن دو ہزار کے آغاز پر تمام کمپیوٹروں کے فیل ہوجانے کے حوالے سے پھیلایا گیا تھا۔ میں عام طور پر چیزیں بہت تحقیق کے بعد لکھتا ہوں اور ہر طرح کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس پس منظر میں میں نے ایک ویب سائٹ پر خود کو رجسٹر کرا دیا تھا جو اس پیش گوئی کو برحق سمجھنے والوں نے بنائی تھی اور وہ اس حوالے سے مسلسل اپ ڈیٹ بھیجتے رہتے تھے۔
دسمبر دو ہزاربارہ آیا اور آکر چلا گیا۔ دنیا اور اس کا کاروبار حسب سابق چلتا رہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب یہ ویب سائٹ اور اس کی اپ ڈیٹ بند ہوگئی ہوں گی۔ مگر جنوری میں مجھے اسی ویب سائٹ سے ایک ای میل آیا۔ جس میں یہ بتایا گیا کہ گرچہ دسمبر چلا گیا مگر اصل تباہی سن2013 میں آئے گی۔ انہوں نے اپنی سچائی کے حق میں کئی باتیں بھی لکھی تھیں۔میں نے یہ ای میل پڑھی اور مجھے ہنسی نہیں آئی۔ اس لیے کہ میں جس معاشرے میں کھڑا ہوں وہاں ہر روز میرا واسطہ ایسی تحریروں اور ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کے پاس الفاظ ختم نہیں ہوتے ہر سچائی کو بے نقاب اور ہر حقیقت دلائل کے آئینے میں برہنہ دیکھنے کے بعد بھی لوگ مان کر نہیں دیتے۔ لوگ ہر واضح بات کے جواب میں ایک لایعنی بات اور ہر دلیل کے جواب میں غیر متعلق نکتہ آفرینی کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات و تعصبات کو آخری سچ سمجھتے اور پوری ڈھٹائی سے اپنی بات دہراتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کل قیامت کے دن بھی سچائی کو مان کر نہیں دیں گے۔ ان کے بے معنی الفاظ اُس روز بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اسی لیے ان کے منہ پر ذلت کی مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضا سچ بیان کریں گے۔ مگریہ سچ ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔
***