صادق و امین کاحقیقی ماڈل

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2020

صادق و امین کا حقیقی ماڈل
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں کسی شخص کی دینداری کے بیان کے لیے صوم و صلوٰۃ کا پابند ہونے کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فلاں مردو عورت اتنا نیک ہے کہ نماز اور روزے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ معاشرے میں کام کرنے والے دینی افراد کی فکر کا غلبہ ہونا شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں دینداری کی تعریف مزید ترقی کرتی گئی۔ اب دینداری کی سند حاصل کرنے کے لیے صرف صوم و صلوٰۃ کی پابندی کافی نہیں بلکہ معاشرے میں وہ شخص دیندار کہلانے لگا جو شرعی حلیہ اختیار کرے۔ اس میں ایک مشت سے بڑی داڑھی، اونچی شلوار، سر پر ٹوپی اور خواتین کے لیے برقعے و پردے کا اہتمام نیز تصویر اور موسیقی سے مکمل پرہیز شامل ہے۔
ہمارے معاشرے میں پچھلی کئی دہائیوں میں دینداری کی اس تعریف میں نہ صرف مذکورہ بالا چیزیں، جن کا اہتمام مشکل ہے، شامل ہوئی ہیں بلکہ ان کا اہتمام کرنے والے لوگ بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام الناس ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے ان طبقات میں بھی اس دینداری کو غیرمعمولی فروغ حاصل ہوا ہے جہاں کبھی بھی دینداری اور تقویٰ کی رسائی آسان نہیں تھی۔ہمارا اشارہ نوجوان لڑکے لڑکیوں اورصاحب ثروت افراد کی طرف ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں نوجوان لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اپنی مرضی اور شوق سے پردے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد سر پر ٹوپی اور عمامے کا تاج سجائے اور چہرے کو داڑھی کے نور سے مزین کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو ان چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کے دولتمند طبقات میں بھی اس دینداری کے اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑے بڑے تاجر اور ان کی بیگمات دینی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کی اعانت کرتے ہیں۔ معاشرے کے جو طبقات اور لوگ ان چیزوں کا اہتمام نہیں بھی کرتے ان کے نزدیک بھی یہ تو مسلم ہے کہ دینداری اگر کچھ ہوتی ہے تو یہی ہوتی ہے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف رشوت، بدعنوانی، ملاوٹ، جھوٹ، وعدہ خلافی، حسد، تکبر، بددیانتی، فرائض سے غفلت، منافقت، ہوس زر، دنیا پرستی اور ان جیسی دیگر برائیوں کا معاملہ ہے جو معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ عام لوگ نہ صرف بڑی تعداد میں ان برائیوں کا شکار ہیں بلکہ مذکورہ بالا دیندار لوگ بھی اکثر ان عیوب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ موسیقی کے بارے میں بڑے محتاط لوگ دولت کی جھنکار کے پیچھے ہر اخلاقی حد کو عبور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تصویر کے معاملے میں حساس لوگوں کی اخلاقی تصویر اتنی بھیانک ہے کہ دنیا کے ہر آئینے کو سیاہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ داڑھی ٹوپی برقعے اور اونچی شلواروں والے لوگ بھی غیبت، جھوٹ، وعدہ خلافی، تکبر، حسداور ریاکاری کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔
ہمارے اس تجزیے کا مقصد یہ نہیں کہ ان کے نیکی کے معیارات ہی ان کے اخلاقی عیوب کی وجہ ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینداری کا معیار کچھ ظاہری چیزیں قرار پا گئی ہیں۔ لوگ انہی کے بارے میں حساس رہتے ہیں اور جن اخلاقی چیزوں کی حیثیت دین میں مقاصد کی ہے وہ نگا ہوں سے بالکل اوجھل ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف جو ہستی دین کے معاملے میں ہمارے لیے رول ماڈل ہے اس کی نیکی کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ تھی کہ آپ ایمان و اخلاق کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز اور بہترین اخلاق کے حامل تھے ( القلم 4:68)۔ پچھلے صحیفوں میں آپ کی پیش گوئی آپ کی جن خصوصیات کے ساتھ کی گئی تھی ان میں آپ کی صفات اور سیرت کے حوالے سے سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ یہ شخص الصادق و الامین ہو گا (مکاشفہ11:19)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین مخالف بھی آپ کی اخلاقی حیثیت کے معترف تھے۔ لوگ آپ کے دشمن ہوگئے لیکن امانتیں آپ کے پاس رکھواتے۔ وہ آپ کے پیغام کو نہیں مانتے تھے مگر کہتے تھے کہ یہ صاحب جھوٹ نہیں بولتے۔ وہ آپ کو اللہ کا رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے مگر انہیں یقین تھا کہ آپ کی بارگاہ میں کوئی مقدمہ پیش ہوا تو آپ اس کا فیصلہ عین عدل ونصاف کے مطابق کریں گے۔
آپ کی سیرت اگر آپ کی ذات کا بیان ہے تو قرآن آپ کی تعلیمات کا بیان ہے۔ یہ قرآن جب کبھی اپنے مطلوب کردار کا بیان کرتا ہے تو اس میں صرف اور صرف ایک اعلیٰ ترین اخلاق کے انسان کی تصویر ہی سامنے آتی ہے۔ نہ کہ وہ تصویر جو آج دین کے نام پر پیش کی جاتی ہے۔
اس پس منظر میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہم لوگوں کو حساس بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ظاہری اعمال میں حساس بنانے سے پہلے اس قرآنی ماڈل کے معاملے کو حساس بنائیں جو حضور کی سیرت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ ماڈل الصادق و الامین کا ماڈل ہے۔ یہ ماڈل حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں یکساں طور پر ادا کرتا ہے۔ یہ ماڈل اگر نماز روزے کا پابند ہوگا تو بددیانتی اور ہوس زر سے بھی پاک ہوگا۔ یہ اگر عریانی اور فحاشی کو ناپسند کرے گا تو غیبت، رشوت، حسد، جھوٹ اور وعدہ خلافی سے بھی بھاگے گا۔ یہ ماڈل ہر حال میں پورا تولے گا۔ عدل کرے گا۔رب سے ڈرے گا اور بندوں پر رحم کرنے والا ہوگا۔
اگر سوسائٹی کو اچھا بنانا ہے، اگر معاشرے میں عدل و فلاح کو عام کرنا ہے، اگر جہنم کی آگ سے لوگوں کو بچانا ہے، اگر جنت کی وادی کو عباد الرحمن سے آباد کرنا ہے تو لوگوں کو الصادق و الامین بنائیے۔ لوگوں کو ان کے اخلاقی لباس کے بارے میں، ان کی اخلاقی تصویر کے بارے میں حساس بنائیے انہیں بتائیے کہ متکبر جنت میں نہیں جاسکتا۔ مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ جس میں عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ حسد نیکیوں کو اس طرح جلاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔ ہوس زر اور دنیا پرستی میں مبتلا درہم و دینار کے بندے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ غیبت زنا سے بدتر جرم ہے۔ بہتان انسان کی عمر بھر کی کمائی کو ختم کر دیتا ہے۔ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔اللہ کے بندوں پر انفاق کرنے والا، پڑ وسیوں سے اچھا معاملہ کرنے والا، غریبوں اور یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنے والا، والدین اور رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے والا ، مخلوق خدا پر ر حم کرنے والا الصادق و الامین ماڈل ہی آج سب سے بڑھ کر ہماری ضرورت ہے۔ یہی وہ ماڈل ہے جو ہم دینداروں کا مطلوب ہونا چاہیے۔
غافر ، غفور ، غفار
پروفیسر مشتاق
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی پر اپنی بے مثال کتاب میں امام غزالی نے اللہ کے تین ناموں، غافر، غفور اور غفار، کے متعلق کیا ہی خوب نکتہ لکھا ہے!
الغافر یدل علی أصل الْمَغْفِرَۃ فَقَط؛ والغفور یدل علی کَثْرَۃ الْمَغْفِرَۃ بِالْإِضَافَۃ إِلَی کَثْرَۃ الذُّنُوب، حَتَّی إِن من لَا یغْفر إِلَّا نوعا وَاحِدًا من الذُّنُوبِ قد لَا یُقَال لَہُ غَفُور؛ والغفار یُشِیر إِلَی کَثْرَۃ علی سَبِیل التّکْرَار، أَی یغْفر الذُّنُوب مرّۃ بعد أُخْرَی؛ حَتَّی إِن من یغْفر جَمِیع الذُّنُوب، وَلَکِن أول مرّۃ، وَلَا یغْفر الْعَائِد إِلَی الذَّنب مرّۃ بعد أُخْرَی، لم یسْتَحق اسْم الْغفار۔
غافر صرف اصلِ مغفرت پر دلالت کرتا ہے؛ جبکہ غفور گناہوں کی کثرت کی نسبت سے مغفرت کی کثرت پر دلالت کرتا ہے؛ چنانچہ جو صرف ایک قسم کا گناہ بخشتا ہے اسے غفور نہیں کہا جاتا۔ اور غفار تکرار کے پہلو سے مغفرت کی کثرت کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی وہ گناہوں کو بار بار بخشتا ہے؛ چنانچہ جو تمام گناہوں کو بخشے لیکن صرف پہلی دفعہ میں، اور دوبارہ گناہ کرنے والے کو نہیں بخشتا، وہ اسم غفار کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
خدا کا وجود اور منطقی استدلال
مولانا وحید الدین خان
کسی بات کو عقلی طور پر سمجہنے کے لئے انسان کے پاس سب سے بڑی چیز منطق (logic) ہے- منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طور پر قابل فہم بنایا جاتا ہے - منطق کی دو بڑی قسمیں ہیں - ایک ہے، انتخابی منطق اور دوسری ہے مجبورانہ منطق (compulsive logic)- منطق کے یہ دونوں طریقے یکساں طور پر قابل اعتماد ذریعے ہیں- دونوں میں سے جس ذریعے سے بھی بات ثابت ہو جائے، اس کو ثابت شدہ مانا جائے گا-
انتخابی منطق
انتخابی منطق وہ ہے جس میں آدمی کے لئے کئی میں سے ایک کے انتخاب کا موقع ہو- اس قسم کے معاملے میں ہمارے پاس ایسے ذریعے ہوتے ہیں جن کو منطبق کر کے ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ کئی میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چہوڑ دیں-مثلاً سورج کی روشنی کو لیجئے- آنکھ سے دیکھنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکھائی دیتی ہے، لیکن پرزم (prism) سے دیکھنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے- اس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب ہو گئے- آب ہمارے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیادہ ہو، ہم اس کو لیں- چنانچہ اس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیا گیا- کیونکہ وہ زیادہ قوی ذریعے سے ثابت ہو رہا تھا-
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اس سے مختلف ہے- مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب ہوتا ہے- آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اس ایک انتخاب کو تسلیم کرے- کیونکہ اس میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا- مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طور پر ماننا بھی ہے اور ماننے کے لئے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں-مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے- ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے- وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے- حالانکہ اس نے اپنے آپ کو اس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا- اس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ مانتا ہے- یہ ماننا مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے- ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے- اسی لئے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کر لیتا ہے کیونکہ اس کیس میں اس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں-خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے- خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں- ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں- کیونکہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی- چونکہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کر سکتے، اس لئے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کر سکتے-
والدین کارتبہ زیادہ یا استاد کا
عبدالتواب کراچی
ایک مرتبہ *شیخ عبدالاحد ازہری* جو مصر کے بہت اچھے فقیہ ہیں۔ *مفتی تقی عثمانی* کے مہمان ہوئے۔ ایک مجلس میں آپ نے حاضرین کے سامنے بہت ہی عمدہ انداز میں تلاوت کی۔ پھر گفتگو کا آغازہواتو انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا۔ ‘‘کہ ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں حاضر تھا۔ کچھ محبت رکھنے والے علماء نے مجھے مسند پر بٹھا دیا۔ اور کہا ہمیں کچھ نصیحت کریں۔ بعد نصیحت کے سوال جواب کا دور شروع ہوا۔ کسی نے پوچھا استاذ کا رتبہ بڑا یا والدین کا؟ میں نے کہا کہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ استاذ کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ کیوں کہ والدین بچے کو نیچے(دنیا میں) لانے کو محنت کرتے ہیں اور استاذ بچے کو نیچے(دنیا) سے اوپر لے جانے کے لئے محنت کرتا ہے۔اس جواب پر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا کہ مجھے آپ کا جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا آپ کچھ سمجھا دیں۔ اس نے کہا۔ کہ صحابہ کے دور سے یہ ترتیب چلی آ رہی ہے۔(غالباً حضرت معاذ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ فرمایا) کہ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ، پھر عمل صحابہ پھر اخیر میں قیاس ہے۔اور آپ نے پہلے ہی قیاس کو اٹھایا۔حالانکہ والدین کا رتبہ منصوص علیہ ہے۔ اور آپ نے جو دلیل پیش کی وہ قیاس ہے۔ جب نص کسی چیز کی فضیلت میں وارد ہو جائے تو وہ ہر حال میں افضل ہی رہتی ہے تاآنکہ کوئی دوسری نص اس کے خلاف وارد ہو جائے۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا کہ واقعی اتنی زبردست چوک مجھ سے کیسے ہوگئی جب کہ اصول میں یہ بات ہے کہ کسی چیز کی فضیلت،یا کسی چیز کے ثواب و عقاب کو ثابت کرنے کے لیے نص قطعی الثبوت چاہیے۔ یا ایسا مضبوط باسند المتصل قول نبی چاہیے جو اس فضیلت یا ثواب و عقاب کے معاملہ میں صریح ہو۔ میں نے کہا واقعی میں غلطی پر تھا کچھ اور فرمائیں۔ کہا کہ ایک باندی تھی۔ ابو لہب کی آزاد کردہ جن کا نام تھا ''ثویبہ'' جنہوں نے چند روز آپ علیہ السلام کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ ایک مرتبہ تشریف لائیں۔ تو آپ نے اپنی دستار مبارک ان کے راستہ میں بچھا دی۔ یہ درجہ
 دیا اس ذات کو جس نے چند روز دودھ پلایا۔ تو جنم دینے والی کا کیا حق ہوگا؟ اور دوسری طرف حضرت جبرئیل جو من وجہ آپ کے استاذ تھے۔ ان کی آمد پر اس قسم کی تکریم ثابت نہیں۔میں نے کہا آپ کے جواب سے اطمینان ہوا۔ کلام الہی اور عمل نبی کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ اٹھ کر چل دیے۔ میں نے کہا شاید کوئی فقیہ ہیں۔ اہل مجلس نے کہا کہ یہ ہندوستان کے ادارہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث *مفتی سعید احمد پالن پوری* ہیں۔
فون کال کاجواب
بشارت حمید
میں نے گیارہ سال سے زیادہ عرصہ ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کیا ہے وہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا وہیں یہ بات بھی سیکھی کہ ہر کال کرنے والے کی کال کا ریسپانس ضرور دینا ہے۔ کوئی بندہ جو آپکو کال کرتا ہے وہ کسی وجہ سے ہی دنیا بھر میں زیر استعمال کروڑوں فون نمبرز میں سے صرف آپکے ہی نمبر کا انتخاب کرتا ہے۔چاہے کالر کا نمبر آپکی فون بک میں سیو ہو یا کوئی انجان نمبر ہی کیوں نہ ہو۔ آنے والی کال کا جواب ضرور دیں۔ کیا عجب کہ جسے آپ انجان نمبر سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہوں وہ آپکے اپنے ہی پیارے کی کال ہو جو اپنا ذاتی فون کھو بیٹھا ہو یا اس کے ساتھ خدانخواستہ کوئی اور حادثہ پیش آ گیا ہو اور کوئی راہ گیر آپکو اطلاع دینا چاہ رہا ہو۔اگر کسی وجہ سے آپ فوری کال اٹینڈ نہ کر سکیں تو پہلی فرصت میں اس نمبر پر کال بیک ضرور کریں۔ خاص طور پر کاروباری حضرات اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اگر آپ آنے والی کالز اگنور کرتے رہیں گے تو یہ آپکی نیک نامی کے لیے برا ہو گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کالر آپکا وقت ضائع کرنے والا ہی ہو بہت سے لوگ کسی وجہ سے اور کسی کام سے ہی کال کرتے ہیں۔ 
یہاں تک کہ اگر کسی کا قرض بھی دینا ہے تو اس کی کال بھی ضرور اٹینڈ کرکے اسے مناسب اور تسلی بخش جواب دے دیا جائے تو وہ بھی مہلت دینے پر بخوشی راضی ہو جائے گا۔ جان بوجھ کر کوئی کال اٹینڈ نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آپکے دروازے کی بیل بجائے اور آپ اندر سے اسے دیکھ کر دروازہ ہی نہ کھولیں اور وہ بے بسی سے باہر کھڑا شرمندہ ہوتا رہے۔
 مقدر کارزق مل کے رہتا ہے
نعیم کشمیری 
مصر میں متعین سابق افغان سفیر شیخ صادق مجیدی کابل میں تھے کہ وزارتِ خارجہ کی طرف سے حکم ہوا کہ فوری طور پر ایک ضروری کام سے رُوس چلا جائے۔ وہ تیار ہوئے لیکن یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ غیر مسلم ملک ہے، وہاں اُن کا ذبیحہ تو مجھ سے کھایا نہیں جائے گا، گھر میں دو دیسی مرغیاں تھیں، بیگم نے ذبح کراکے زادِ سفر میں یہ کہتے ہوئے رکھ دیں کہ جب تک ان سے کام چلتا ہے چلاؤ آگے کا اللہ بندوبست کرے گا۔وہ کہتے ہیں میں تاشقند پہنچا ہی تھا کہ وہاں کے ایک مسلمان شیخ نے گھر دعوت کی، اُن کے گھر جانے کے لیے نکلا ہی تھا کہ راستے میں ایک غریب عورت بھوک سے نڈھال اپنے بچوں کے ساتھ سڑک کنارے کھڑی تھی، میں نے بے اختیار وہ دونوں مرغیاں اسے پکڑا دیں۔ ایک گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ کابل سے تار آئی کہ وہ کام جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا وہ ہوگیا ہے، آپ واپسی کی فلائٹ پکڑ لیں۔ شیخ صادق مجیدی کہتے ہیں اس سفر کا مجھے کوئی اور مقصد سمجھ نہیں آیا سوائے اس بات کے کہ میرے گھر دو مرغیاں تھیں جو چار ہزار کلومیٹر دور کسی غریب ماں اور بچوں کا رزق تھیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لیے افغانستان سے تاشقند بھیج دیا کہ چل اس غریب ماں اور اُس کے بھوکے بچوں کو یہ رزق پہنچا۔ یاد رکھیں آپ کے نصیب کا لقمہ زمین کے جس حصے میں ہوگا اللہ تعالیٰ آپ تک پہنچائے گا۔
دروازہ کھلا رکھنا
ابن عبداللہ
امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں: ایک بار راہ چلتے ہوئے میں نے دیکھا، ایک ڈاکو لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد مجھے وہی شخص مسجد میں نماز پڑھتا نظر آیا۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے سمجھایا کہ تمہاری یہ کیا نماز ہے۔ خدا کے ساتھ معاملہ یوں نہیں کیا جاتا کہ ایک طرف تم لوگوں کو لوٹو اور دوسری طرف تمہاری نماز خدا کو قبول اور پسند آتی رہے۔ ڈاکو بولا: امام صاحب! میرے اور
خدا کے مابین تقریباً سب دروازے بند ہیں۔ میں چاہتا ہوں کوئی ایک دروازہ میرے اور خدا کے مابین کھلا رہے۔ کچھ عرصہ بعد میں حج پر گیا۔ طواف کے دوران دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کعبہ کے غلاف سے چمٹ کر کھڑا کہتا جا رہا ہے: میری توبہ، مجھے معاف کردے۔ میں اس نافرمانی کی طرف کبھی پلٹنے والا نہیں، پلٹنے والا نہیں۔ میں نے دیکھنا چاہا اس بے خودی کے عالم میں آہیں بھر بھر کر رونے والا کون خوش قسمت ہے۔ کیا دیکھتا ہوں، یہ وہی شخص ہے جسے میں نے بغداد میں ڈاکے ڈالتے دیکھا تھا تب میں نے دل میں کہا: خوش قسمت تھا،
جس نے خدا کی طرف جانے والے سب دروازے بند نہیں کر ڈالے۔ خدا مہربان تھا جس نے وہ سبھی دروازے آخر کھول ڈالے تم کیسے بھی برے حال میں ہو، کتنے ہی گناہگار ہو خدا کے ساتھ اپنے سب دروازے بند مت کر لینا۔ جتنے دروازے کھلے رکھ سکتے ہو انہیں کھلا رکھنے کے لیے شیطان کے مقابلے پر مسلسل زور مارتے رہنااور کبھی ہار مت ماننا۔ کوئی ایک بھی دروازہ یہاں کھلا مل گیا تو کچھ بعید نہیں وہ سب دروازے ہی کھول دیے جائیں جن کے بارے میں تمہیں کبھی آس نہ تھی کہ خدا کی جانب سفر میں ان سب خوبصورت راہوں سے تمہارا کبھی گزر ہو گا۔قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ وَأَنِیبُوا إِلَیٰ رَبِّکُمْ وَأَسْلِمُوا لَہُ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَکُمُ الْعَذَابُ (الزمر:) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ رجوع کر لو اپنے پروردگار سے اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو۔-85 خیال رکھنا-85 خدا کی جانب کبھی پشت مت کرنا اور سب دروازے بند مت کرنا۔
٭٭٭