عاملوں کے ہتھکنڈے

مصنف : طارق عزیز

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2005

جھوٹے عامل لوگوں کی مجبوریوں سے کس طرح فائد ہ اٹھاتے ہیں، اس حوالے سے ایک آپ بیتی

            کالے جادو کا توڑ ،محبوب آپ کے قدموں میں، ہر خواہش پوری ہو،جنات، بھوت پریت آسیب،سفلیات کا علاج، اس قسم کے دعووں،اعلانات اوراشتہارات سے تمام اخبارات بالخصوص سنڈے میگزینوں کے تو پورے پورے صفحات بھرے ہوتے ہیں ہر‘عامل’، ‘باواجی’ اور روحانی سکالر، بیسیوں ناموں کے ساتھ جادووئی اور ماورائی طاقتوں کے کنٹرول کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔(اور اِن ، اَن دیکھی طاقتوں سے عوام کا ہر کام ہوتا نظر آتا ہے جبکہ عامل کا ہر کام ان طاقتوں سے نہیں بلکہ لوگوں کے پیسے سے ہوتا نظر آتا ہے ۔)

            ‘ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے’ کو دیکھتے ہوئے اب تو خواتین عاملات اور غیرمسلم بابے بھی اس میدان میں اتر آئے ہیں۔

             درج بالا ہوائی اور جادووئی طاقتوں پر قابو کرنے کے لیے ان لوگوں کو کہاں کہاں ،کیا کیا تپسیا کرنا پڑتی ہے یہ الگ سے ایک داستان ہے اور اس داستان میں بھی رنگ آمیزی زیاد ہ او ر سچ کم ہوتا ہے لیکن اگر سچ ہو بھی تو اس تپسیا کی تفصیل یہ جاننے کے لیے کافی ہوتی ہے کہ اس کا دینِ اسلام،شرعی اعمال اور عبادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہندو جوگیوں کے طور طریقوں اور کرتوتوں کے حامل یہ افراد اپنی دی گئی تصاویر سے جس حلیے میں نظر آتے ہیں،یہ کسی مومن یا باکردار مسلمان کا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کالے لمبے چوغے، گلے میں موٹے موٹے منکوں کی مالائیں، بدمعاشوں جیسی موٹی موٹی مونچھیں، ہلکے ہلکے داڑھی نما بال، نشے سے بھر پور آنکھیں اور مال مفت کو دل بے رحم سے اڑا کر مسٹنڈوں جیسے ہٹے کٹے جسموں والے یہ افراد کسی اور ہی دین سے تعلق رکھتے ہوئے لگتے ہیں۔

            ‘سوئے حرم’ کے شمارہ مارچ میں ان سے متعلق ایک دو مضامین نے راقم کو بھی قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ جنوری کے آخری ہفتے میں راقم کو اپنے پہلے بچے کی قبل از پیدائش موت کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ بچے کی مادرِ رحم میں عین وقت پر غیر متوقع موت کو جہاں دانش ور اور دیندار احباب نے میرے لیے آزمائش اور ابتلا قرار دیا۔ وہاں غیر جہاندیدہ افراد نے اسے ہوائی چیزوں اور جادووئی طاقتوں کا ‘‘کارن’’ گردانتے ہوئے مجھے کسی ‘عامل’، ‘بابا جی’ او ر‘شاہ جی’ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ یہاں میں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ گزشتہ رمضان المبارک سے پہلے اک رات نیند کی حالت میں، میں انجانے خوف سے ڈرتا رہا تھا۔حالانکہ ہوش اور شعور کی حالت میں مجھے سوائے خدا کے کبھی ایسا ویسا خوف لاحق نہیں ہوتا اور نہ ہی میں ایسے مشرکانہ اعمال کے کرنے یا کروانے پر یقین رکھتا ہوں۔ اس رات بھی میں اذان فجر سے قبل ایک پر اسرار خواب، جو کہ کسی واہمے یا لاشعور کی پیداوار تھا، سے ڈر کر بیدار ہوگیاتھا۔

            بچے کی موت کے بعد گھر والوں سے میں نے اس کا تذکرہ کیا۔ یہ احوال سن کر اپنے ایک قریبی دوست راشد خان کے مشورے سے میں نے ایسے ہی ایک بابا جی سے بطور آزمائش ملنے کا ارادہ کیا۔میرا یہ دوست بابا جی سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھا اس نے مجھے بابا جی کی چند ایک کرامتیں بھی سنائیں۔کرامتوں کی داستان سنانا اس لیے ضروری ہوتا ہے تا کہ یہ یقین قائم کیا جا سکے کہ بابا جی ‘پہنچے ’ ہوئے ہیں۔ کہاں پہنچے ہوئے یہ کسی کے بھی علم میں نہیں ہوتااور شاید بابا جی کے علم میں بھی نہیں۔

            وقت مقررہ پر میں اپنے اس دوست کے ہمراہ شیزان فیکٹری(بند روڈلاہور) کے قریب باباجی کی دکان پر چلا گیا۔ بابا جی اپنے بیٹے کی پتنگوں کی دکان پر تشریف فرما تھے۔رسمی سلام دعا کے بعد راشد نے بابا جی سے کہا کہ میرے دوست کا ایک مسئلہ ہے۔ اتنا سن کر باباجی نے ہمیں دکان کے اند ر آنے کے لیے کہا کہ یہ باتیں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے۔ باباجی نے بیٹھتے ہی کہا کہ پہلے میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں ،وہ ٹھیک ہے یا نہیں آپ مجھے بتانا۔انہوں نے میرا اور میری والدہ کا نام پوچھا اور اپنی تسبیح الٹے ہاتھ میں لے کر سیدھے ہاتھ کو تسبیح پر پھیرتے ہوئے بولے کہ یہ مجھے جو کچھ بتائے گی وہ میں آپ کو بتاتا ہوں یہ کچھ ماہ پہلے کی باتیں ہیں...فلاں وقت، فلاں رات ایسے ایسے ہوا تھا۔ گلی کا موڑ مڑتے ہوئے تمہیں کسی نے پکارا تھا یا تمہیں ایسے ایسے، فلاں فلاں تکلیف ہوئی تھی۔ ایسا ہوتا تھا، ویسا ہوتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ ان میں سے کچھ بھی درست نہ تھا اس لیے میں انکار کرتا رہاکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تھک کر باباجی بولے کہ اچھا چلو تم اپنی سناؤ کیا معاملہ ہے۔ میں تو باباجی کے منہ سے سننا چاہ رہا تھا کہ ابھی حال ہی میں تمہیں شدید صدمہ ہوا ہے یا تم سے ایسی ایسی غلطی ہوئی ہے یا امی بیمار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر باباجی نے کوئی بھی تیر نشانے پر نہیں لگایا۔ پھر جب میں نے اپنے بچے کی پیدائش سے قبل غیر متوقع موت کے بارے میں بتایا تو فوراً بولے کہ ہاں ہاں میرا اشارہ اسی طرف تو تھا۔ پھر میں جو کچھ حال بتاتا رہا وہ کہتے رہے کہ دیکھا میں ان ڈائریکٹ یہ ہی بات تو کہہ رہا تھا مگر تم مان نہیں رہے تھے۔ بہر کیف میں نے ہتھیار ڈال دیے اور پوچھا کہ اب کیا ہوگا۔ وہ بولے کہ تم پر اور تمہاری بیوی پر زبردست وار چل چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کرنے والے کا بتائیے کون ہے؟ میرے خاندان سے ہے یاسسرال میں سے؟ کیوں کہ میں اپنے خاندان اور گھر والوں کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہم لوگ نہ تو ایسا کام کرتے ہیں نہ ہی اسے اچھا جانتے ہیں۔بولے کہ یہ تو نادانوں والی بات ہے تم اپنے بھائی یا بہن یا رشتہ دار کی کیسے گارنٹی دے سکتے ہو۔ یہ کام کسی اپنے ہی کا ہے مگر میں تمہیں نہیں بتاؤں گا۔

            میں نے کہا کہ چلیں بتائیں کہ اب کیا کرنا ہوگا؟ بولے کہ ابھی اس سانحے کو زیادہ دن نہیں گزرے اس لیے نیا چاند چڑھنے سے پہلے پہلے ہمیں‘بَلی’ دینی ہوگی۔ ورنہ اگلے بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا کہ ‘بلی’ تو ہندوؤں میں ہوتی ہے اور اگر اگلے بچے کے ساتھ ایسا ہی ہونا اللہ کی طرف سے مقرر ہے تو ‘بلی’ سے اللہ کے حکم کو نہ تو ٹالا جاسکتا ہے اور نہ ہی میں ایسا شرک سوچ سکتا ہوں۔ خیر میں نے پوچھا کہ کیا کرنا ہوگا۔ انہوں نے اپنے شاگرد خاص کوکہا کہ سامان لکھ دو۔ ذرا ‘بلی’ کی فہرست ملاحظہ ہو:

ایک عدد صحت مند بکرا ( صدقے والا نہیں بلکہ بکرا عید کی قربانی جیسا تنومند)

پانچ کلو اچھے والے چاول

پانچ کلو چینی

پانچ کلو گھی

خشک میوہ

زعفران

 اگربتیوں کے پیکٹ

            گویا کہ مہینے بھر کا راشن موصوف مجھ سے طلب کر رہے تھے۔ ساتھ ہی تاکیداً کہا کہ کل پرسوں تک یہ لازماً لے آئیے تا کہ فوراً ہی عمل شروع کر کے ‘بلی’ دی جائے۔ میں نے بڑی سعادت سے کہا کہ بہت بہتر ہے۔ یہ کہہ کر ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور باباجی سے رخصت چاہی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے عمل کی تیاری کرنی ہے اس کے لیے پانچ سو روپیہ تو ابھی دیتے جائیے۔گویا موصوف نے حفظ ما تقدم کا پوراخیال رکھا کہ اگر شکار دوبارہ نہ آئے تو پانچ سو تو کھرا ہو جائے۔اس پانچ سو سے میں کیسے بچا یہ الگ داستان ہے ۔

             میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنا سامان جو میں اس ‘بزرگ’ کو دے کر اللہ کے سامنے گنہگار ہوں۔ اس سے بہتر ہے کہ اتنا سامان میں کسی غریب مستحق کو دے دوں تا کہ چند ہفتے اس کا چولھا روشن رہ سکے ۔پھر میں نے قریبی مسجد میں عصر کی نماز باجماعت ادا کی اور اللہ سے معافی مانگی کہ یا اللہ تو میرے دل کا حال جانتا ہے کہ میں اس معاملے میں گمراہی اور شرک کا مرتکب نہیں ہوا ہوں بلکہ میں صرف آزمائش کی خاطر باباجی کے پاس گیا تھا کہ دیکھیں ان کی ‘پہنچ’ کہاں تک ہے!اور اسی نماز میں مجھے سورہ فاتحہ کی آیت ‘‘اھدنا الصراط المستقیم’’ کی نئی تشریح واضح ہوئی کہ اللہ ہمیں ان لوگوں (صحابہ کرام اور تمام سلف صالحین) کے راستے پر ثابت قدم رکھ ۔ جتنی بھی تکالیف یا تیری آزمائش آئے تو ہم توکل اور صبر جمیل کے راستے پر چلتے ہوئے تمام شرکیات اور کفر سے بچے رہیں۔ اور جو لوگ ذرا سی آزمائش اور مصیبت کی گھڑی میں ڈگمگا جاتے ہیں اور ہر چیز پر قادر اپنے رب سے استعانت اور مدد کے طلبگار ہونے کے بجائے مخلوق کے در پر دربدر ٹھوکریں کھاتے ہیں یا اللہ ان میں سے نہ کر’

بٹھا لیا جسے در پر وہ سنگ در ٹھیرا

اٹھا دیا جسے در سے وہ در بد ر ٹھیرا

            آخر میں میری تمام قارئینِ سوئے حرم سے استدعا ہے کہ ہر مصیبت اور آزمائش میں نماز اور صبر کے ساتھ اللہ سے اجر،ثابت قدمی اورمددطلب ضرورکیجیے۔ اور مجھ جیسے کمزور انسان کے لیے صبر جمیل کی دعا کیجیے۔

جیہڑا کتا در در پھرے

اوہنوں در در دُر دُر ہو

جیہڑا کتا ایک ہی در کا ہورہے

اوہنوں کاہے کو دُر دُر ہو

٭٭٭