کرکٹ

مصنف : شوکت تھانوی

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : جون 2005

            احسان کے ہاں بچہ ہونے کی خبر سن کر میں دوڑا ہوا گیا مبارکباد دینے۔ عام طور پر میں اس قسم کے موقعوں پر تعزیت کرنے اور صبر کرنے کی تلقین کرنے جایا کرتا ہوں مگر احسان واقعی مبارکباد کا مستحق تھا۔اس لئے کہ شادی کو چھ سال گزر چکے تھے اور اب تک کوئی رسید ہی نہ ملی تھی۔خدا خدا کر کے اب وہ صاحب اولاد ہوا تھا تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اس کو مبارکباد دے کر آئندہ کے لئے محتاط رہنے کا مشورہ بھی دے دوں کہ یہ بچہ جو ہو گیا ہے ،خدا اس کی عمر میں برکت دے ،بس اسی پر قناعت کرنا۔ایسا نہ ہو اولاد کی دیمک لگوا بیٹھو۔

             ان حضرت کے گھر پہنچتے ہی میں وفورِ مسرت سے لپٹ ہی تو گیاان سے اور بڑے خلوص سے کہا ۔بخدا بڑی خوشی ہوئی اللہ مبارک کرے۔وہ حضرت بولے خدا آپ کو بھی مبارک کرے مگر ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس کامیابی میں فضل محمود کا بڑا ہاتھ ہے۔میں حیران ہی تو رہ گیا کہ یہ بکواس کیا ہے آخر اس احمق کو ڈانٹا ۔یہ کیا بک رہے ہو۔فضل محمود سے کیا مطلب ۔میں نورِچشم کی ولادت کا ذکر کر رہا ہوں اب ان حضرت کو بھی گویا یاد آیا کہ کراچی کے ٹیسٹ میچ کے علاوہ ایک اہم واقعہ یہ بھی ہوا ہے کہ وہ صاحبِ اولاد ہوئے ہیں لہذا ایک قہقہہ بلند کر کے بولے لاحول ولا قوۃ میں سمجھا ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی کامیابی کی مبارکباد دے رہے ہیں آپ۔میں نے کہا ظاہر ہے کہ اس کامیابی کی مبارک باد دیتا تو فضل محمود کو دیتا مگر میں تویہ مژدہ جانفزا سن کر دوڑا آیا ہوں کہ اللہ تعالی نے تم کو بھی دولتِ اولاد سے سرفراز فرما دیا مگر عرض یہ کرنا ہے کہ اب اس سلسلے میں زیادہ دولت مند ہونے کی کوشش نہ کرنا۔وہ حضرت پھر ہنسے ۔جی نہیں میں باوئنڈریاں بنانے کا قائل نہیں ہوں۔ میں نے الجھ کر کہا۔پھر وہی کرکٹ کی اصطلاح میں بات کی۔ناک میں دم کر دیا ہے اس کرکٹ نے۔جہاں جائیں یہی چرچے ہیں،جس سے ملئے وہ اسی طرح بور کرتا ہے۔گویا کرکٹ کے علاوہ اور کوئی بات ہی باقی نہیں رہی ہے۔احسان نے حیرت سے کہا۔مگر آپ کرکٹ سے اتنے بیزار کیوں ہیں ،یہ بیزاری پہلے تو نہ تھی۔میں نے اس بیزاری کی بپتا سناتے ہوئے کہا۔میں کرکٹ سے بیزار تھا نہیں مگر مجھ کو بیزار کیا گیا ہے۔اور اب تو میرا یہ حال ہے کہ واقعی وحشت ہونے لگی ہے اس ذکر سے۔ان کو جانتے ہو مولوی عبدالرحمان صاحب قبلہ کو کس قدر نورانی بزرگ ہیں اور کتنا ادب کرتا تھا میں اُن کا مگر بخدا نفرت ہو کر رہ گئی ہے اُن سے بھی۔اُن کی خدمت میں حاضر جو ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ریڈیو کے سامنے بیٹھے وجد میں مبتلا ہیں۔میں سمجھا کہ صاحبِ کیف بزرگ تو ہیں ہی غالبا ریڈیو پر قوالی ہو رہی ہے اور مولوی صاحب اس کیفیت میں مبتلا ہیں مگر قریب جا کر معلوم ہوا کہ ریڈیو پر کرکٹ کی کمنٹری ہو رہی ہے بھلا بتائیے ان کا کیا تعلق کرکٹ سے مگر میں کیا بتاؤں کہ کس خشوع و خضوع سے کمنٹری سن سن کر جھوم رہے ہیں اور کس طرح لہرا لہرا کر جزاک اللہ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔بھئی جواب نہیں اس بچے کا، خدا اس کی عمر میں برکت دے ۔پاکستان کی بات رکھ لی حنیف سلمہ نے۔اور یکایک کومنٹیٹر نے یہ مژدہ سنایا کہ حنیف کی سنچری ہو گئی ہے یہ سنتے ہی مولوی صاحب سجدہ شکر میں ایسے گرے کہ میں مایوس ہو کر وہاں سے رخصت بھی ہو گیا مگر اُن کا سر سجدے سے نہ اُٹھ سکا۔احسان نے یہ سب کچھ سننے کے باوجود کہا۔تو آخر اِ س میں اتنی مایوسی اور اتنی بیزاری کی کونسی بات ہے اپنے ملک کی عزت کا سوال تھا لہذا ہر طبقے میں کرکٹ کے اس میچ سے دلچسپی لی جا رہی تھی۔میں نے کہا۔وہ تو ٹھیک ہے۔میں دلچسپی لینے کو منع نہیں کرتامگر میرے نزدیک دلچسپی اور جنون میں بڑا فرق ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ کرکٹ کا جنون وبائی صورت اختیار کر گیا ہے۔صبح بچے کوڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا،اُس کو دو دن سے بخار آرہا ہے۔یہ ڈاکٹر اچھے خاصے آدمی ہیں،بڑی اچھی تشخیص ہے،دستِ شفا بھی ہے،لالچی بھی کچھ زیادہ نہیں ہیں،صرف اپنے نسخے اپنی ڈسپنسری میں بندھواتے ہیں مگر آج اُن کا عالم ہی کچھ اور تھا ۔نہ وہ توجہ تھی نہ مرض کی تہ تک پہنچ جانے والا انہماک۔بچے کی نبض اُن کے ہاتھ میں تھی اور حال سن رہے تھے ایک اور صاحب سے کرکٹ کا۔میں نے بچے کا حال سنانا شروع کیا کہ پرسوں اس نے ہم لوگوں سے چھپا کر دہی بڑے کھا لیے تھے کہ یکایک مطب میں شور اُٹھا آؤٹ اور ڈاکٹر صاحب نے بچے کی نبض اِس طرح چھوڑ دی گویا اِسی کی وجہ سے امتیاز آؤٹ ہوا ہے اور اس طرح سر جھکا کر بیٹھ گئے گویا خود اُن کا کوئی ذاتی حادثہ ہو گیا ہے۔کچھ دیرتک امتیاز کا سوگ منا کر میرے بچے کی طرف متوجہ ہوئے اور اِس کی نبض کی طرف جو ہاتھ بڑھایا تو میں نے پھر حال سنانا شروع کیا۔پرسوں اِس نے یہ بد پرہیزی کی ہے کہ ہم سب سے چھپا کر دہی بڑے کھا لئے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا۔بڑا جم کر کھیل رہا تھا اور نہایت اچھے اچھے ہاتھ دکھائے اِس نے۔اگر تھوڑی دیر اور آؤٹ نہ ہوتا تو کھیل کا نقشہ ہی بدل جاتا۔میں ڈاکٹر صاحب کا منہ دیکھ کر رہ گیا جو میرے بچے کی نبض ہاتھ میں لئے امتیاز کا طبی معائنہ فرما رہے تھے۔آخر وہ خود چونکے اور مجھ سے کہا۔تو آپ نے کب ایکسرے کرایا تھا اِس کا ؟میں ایکسرے ؟ کہہ کر دم بخود رہ گیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ایکسرے کہاں سے لے دوڑے۔ایکسرے کا بھلا یہاں کیا ذکر تھا۔آخر میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ ایکسرے کیا۔ڈاکٹر صاحب ایکسرے کی اِس میں کیا ضرورت تھی۔میں تو یہ عرض کر رہا تھا کہ اِس کو دو دن سے بخار ہے پرسوں ا،س نے دہی بڑے کھا لئے تھے ۔اب ڈاکٹر صاحب کو بھی یاد آیا کہ وہ اِس سے پہلے والے مریض کو دیر ہوئی دیکھ چکے ہیں اور یہ ایکسرے والی بات اِس سے نہیں اُس سے متعلق تھی چنانچہ کچھ خفیف ہو کر بولے۔اِن صاحبزادے کے متعلق نہیں کہہ رہا ہوں۔ایکسرے اُن صاحب کا ہوا تھا جو ابھی نسخہ لکھوا کر لے گئے ہیں،تو گویا اِس بچے کو کیا شکایت ہے ؟ میں نے بیان کرنے کو تو پوری کیفیت بیان کر دی اور ڈاکٹر صاحب نے نسخہ بھی لکھ دیا مگر وہ نسخہ بندھوائے بغیر ہی اُن کے مطب سے چلا آیا کہ اللہ جانے کیا اور کس مرض کا نسخہ لکھا ہوگا ڈاکٹر صاحب نے۔ چنانچہ وہ نسخہ مجھ کو دیتے ہی دوڑے اس کمرے کی طرف جہاں ریڈیو لگا ہوا تھا۔اور اب جو مجھے یہ واقعہ سنا کر میں نے احسان کی طرف دیکھا تو وہ بجائے میری بات سننے کے ریڈیو سے کان لگائے بیٹھے ہیں۔ دل جل کر ہی تو رہ گیا اور میں ‘‘خدا حافظ’’ کہہ کراب جو وہاں سے چلاہوں تو وہ حضرات اپنی اس بداخلاقی کے احساس پر چونک کر کھڑے ہوگئے میرے ساتھ۔ ‘‘ہاں توپھر آپ نے بتایا نہیں کہ اس ایکسرے میں کیا نکلا۔خدانخواستہ کوئی تشویش کی بات تو نہیں ہے؟’’میرا بے ساختہ جی چاہا کہ ان حضرت کا فوراً ایکسرے کرادوں مگر میں لڑنے تو گیا نہیں تھا اور نہ ان سے تعلقات خراب کرنا چاہتا تھا لہٰذا ان سے صرف اتنا ہی کہا کہ:‘‘ٹیسٹ میچ ختم ہو جائیں پھر ہوں گی آپ سے باتیں فی الحال خدا حافظ۔’’

            اور اسی کوفت میں ،اس تضیع اوقات پر اپنے کو برابھلا کہتا ہوا گھر جو پہنچا ہوں تو دروازے ہی پر ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے دیکھ کرمیں ٹھٹکا۔ اور دروازے پر جو نظر پڑی تو اس کا ایک شیشہ تو اس لیے غائب تھا کہ اس کے ٹکڑے فرش پر بکھرے ہوئے تھے مگر ایک اور شیشہ بھی چکنا چور ہوجانے کے باوجود ابھی نہیں گرا تھا۔ تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ ہماری گلی ہی میں جو ٹیسٹ میچ ہورہا ہے اور محلہ بھر کے لڑکے ٹینس کی گیند سے جو کرکٹ کئی دن سے کھیل رہے ہیں یہ شیشے اسی سے ٹوٹے ہیں۔ جی تو یہ چاہا کہ یہ ہی وکٹ اکھاڑ کر ان بدتمیز کھلاڑیوں سے کرکٹ کھیل کر رکھ دوں، اور ان میں سے ایک کا سر بھی سلامت نہ چھوڑوں مگر محلہ میں ایک سے ایک شورہ پشت موجود ہے۔ فوجداریاں شروع ہوجائیں گی اور عزت آبروخطرے میں پڑکررہ جائے گی لہٰذا خون کے گھونٹ پی کر گھر میں داخل ہوا اور اس کوفت کا ایک ہی علاج سمجھ میں آیا کہ منہ لپیٹ کر پڑا رہوں اور سونے کی کوشش کروں تا کہ نیند کی غفلت میں یہ غم اور غصہ ختم ہوجائے۔ چنانچہ تھوڑی دیر بستر پر کروٹیں بدلنے کے بعد آخر نیند آہی گئی مگر ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک فلک شگاف نعرہ بلند ہوا‘‘آؤٹ’’ اور میں گڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ معلوم ہوا کہ گلی میں جو ٹینس کی گیند والی کرکٹ ہورہی تھی اس میں کسی نے کسی کو آؤٹ کیا ہے۔ لہٰذا میں لاحول پڑھتا ہوا بستر سے اٹھ کر لکھنے کی میز پر آگیا کہ سونا تو خیر اپنی قسمت میں ہے ہی نہیں لاؤ کچھ لکھنے ہی کی کوشش کریں۔ منتشر خیالات کو ایک مرکز پر لانے کی کوشش میں کامیاب ہو کر قلم اٹھایا، کاغذ سرکایا اور ایک افسانہ لکھنے کے لیے ۷۸۶ لکھا ہی تھا کہ بسم اللہ غلط ہوگئی ۔ کھڑکی کی سلاخوں سے گزرتی ہوئی گیند دوات پر اس طرح لگی کہ ساری روشنائی تو خیر میرے کپڑوں نے جذب کر لی مگر دوات زمین پر ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ گر کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ آخر انسان کہاں تک ضبط کر سکتا ہے؟ میں اسی حلیہ میں دروازہ کھول کر باہر آگیا اور جو دوڑاہوں ان لڑکوں کی طرف تو وہ تیر ہوگئے البتہ ان میں سے ایک صاحبزادے کے والد محترم نے بعد السلام علیکم کے ایک فرمائشی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:‘‘کیا خوب! گویا آپ بھی ہولی کھیل لیتے ہیں مگر منہ تو دھولیا ہوتا۔’’ممکن تھا کہ میں ان حضرت ہی سے الجھ پڑتا مگر منہ دھونے کی بات سن کر گھر میں آکر سیدھا آئینہ کے سامنے جو گیا تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ رخ روشن پر ساری روشنی اسی روشنائی کی تھی اور عجیب و غریب چہرہ آئینہ میں نظر آرہا تھا۔ وہ تو کہیے کہ اپنا ہی چہرہ تھا ورنہ پہچاننے میں سخت دقت ہوتی۔ اس لیے کہ میں تجریدی آرٹ کو سمجھنے سے قاصر ہوں اور اس وقت اس رنگ آمیزی میں خود تجریدی آرٹ کا شاہکار نظر آرہا تھا۔