استاد کی عزت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جنوری 2019

استاد کی عزت                                                                      
پہلا منظر                                                                          
چند روز قبل کی بات ہے کہ ترکی ائیر لائن کا ایک جہا ز محو پرواز تھا۔ جہاز کا سپیکر آن ہوا اور مسافروں نے جہاز کے پائلٹ کی آواز سنی ۔کپتا ن نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔ ’’ خواتین و حضرات یہ آپ کے جہاز کا کپتان بول رہا ہے ۔ میں ایک اہم بات آپ سے شیئر کرنا چاہ رہا ہوں۔ مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ اس جہاز میں میرے استاد بھی سفر کر رہے ہیں۔ جنا ب صلاح الدین عنان صاحب ، جن کی بدولت آج میں پائلٹ ہوں اور جن کی شفقت او ر محبت مجھے آج بھی یاد ہے ۔ وہ میرے لیے ایک باپ کی طرح ہیں۔ میں اپنی طرف سے اور ان کے تمام شاگردوں کی طرف سے انہیں خراج تحسین پیش کرتاہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد جہا ز کے عملے کی طرف سے انہیں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیااور پھر کپتان خود آکر انہیں گلے ملا اور ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔

دوسرا منظر
چند سال قبل ،لاہو ر کے ایک مذہبی ادارے کو یہ خیا ل آیا کہ ان کے ہاں تحقیق و تحریر کا کام کرنے و الے علما کو انگریزی زبان سے بھی واقف ہونا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے ایک با ریش جوان کا انتخاب کیا گیا جو ان کی طرح عالم تو نہ تھا لیکن عربی زبان کی شد بد رکھتا تھا۔ اس جوان نے جب دیکھا کہ اس کی کلاس میں تمام لوگ مستند علما اور شیخ الحدیث اور مفسر قرآن ہیں تو وہ اپنی پہلی کلاس میں ان سے یوں گویا ہوا کہ حضرات علمائے کرام ، میں آپ حضرات سے علم و عمل کے لحاظ سے یقیناًبہت کم درجے پہ ہوں لیکن چونکہ مجھے آپ کے ادارے کی طر ف سے استاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اس لیے میری درخواست ہے کہ کم از کم اس کلا س کی حد تک آپ کا رویہ ایک شاگر د کا ہونا چاہییے ۔ جب تک آپ مجھے اس کلاس میں ایک استاد کا درجہ اور احترام نہیں دیں گے اس وقت تک آپ کے لیے سیکھنا ممکن نہ ہو گا۔سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور کلاس شروع ہوگئی۔ لیکن چند ہی دنوں بعد اس جوان نے ان لوگوں کی حرکات و سکنا ت سے یوں محسوس کیا کہ گویا یہ تمام لوگ اس کو کم تر درجے کا فرد سمجھ ر ہے ہوں لیکن بہر حال اس نے کام جاری رکھا۔ ایک ما ہ کے بعد اس نے کہا کہ فلاں دن آپ کا ٹیسٹ ہو گا۔ ٹیسٹ کے بعد جب ان کو پیپر دیے گئے تو ان میں سے سینئر ترین لوگ جو شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے، اس جوان سے الجھ پڑے اور کہنے لگے کہ آپ نے بددیانتی کی ہے اور فلاں فلاں کو خواہ مخواہ ہم سے زیادہ نمبر دیے ہیں۔نوجوان نے تحمل سے ان کی باتیں سنیں اور اس کے بعد انہیں بتایا کہ فلاں کو زیادہ نمبر دینے کی وجہ اس کی شخصیت نہ تھی بلکہ اس کے پیپر میں موجود یہ ،یہ خوبیاں تھیں۔اور اس کے بعداس نوجوان نے کہا کہ چونکہ آپ حضرات نے مجھ پر بد دیانتی کا الزام عائدکیا ہے ا س لیے میں اس منصب سے استعفی پیش کرتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بددیانت کو ٹیچر بننے کا حق حاصل نہیں۔ اس کے بعد وہ جوان گھر چلا آیا۔ ادارے کے سربر اہ نے اس سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمیں افسوس ہے ،جو ہواغلط ہوا۔ آپ دوبارہ جوائن کر لیں۔ جوان نے کہا کہ جن حضرات نے بددیانتی کا الزام عائدکیا ہے جب تک وہ معافی نہیں مانگیں گے ، میں واپس نہیں آؤں گا۔اور چونکہ انہوں نے یہ الزام بھری کلاس میں عائد کیا ہے اس لیے انہیں معافی بھی بھری کلاس میں مانگنی ہو گی۔ مگر اس کے لیے وہ علمائے دین راضی نہ ہوئے ۔ نتیجتاً ادارے کے سربراہ کاانہیں انگریزی سکھانے کا خواب ادھورے کا ادھورا رہ گیا۔
یہ دو مناظر صرف دو مناظر نہیں بلکہ ددتہذیبوں ، دونسلوں اور دو مائنڈ سیٹ کے نمائند ہ ہیں۔ ایک تہذیب ، ایک نسل اور ایک سوچ علم کے ذریعے افراد اور اقوام کی ترقی کی نمائند ہ ہیں جبکہ دوسرا مائنڈ سیٹ دھونس دھاندلی اور طاقت کے بل بوتے پر ترقی کامنظر پیش کرتا ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قوموں کی مستقل اوردیرپا ترقی کا راز ہمیشہ علم حاصل کرنے میں مضمر رہا ہے اور علم حاصل کرنے اور اس میں ترقی کرنے کاراز ہمیشہ استاد کی عزت اور خدمت میں مضمر رہا ہے ۔علمی ترقی اور استاد کی عزت لازم و ملزو م ہیں۔ استاد کی عزت اگر کوئی فرد کرے گا تو وہ ترقی کرے گا اور اگر قومیں کریں گی تو وہ ترقی کریں گی ۔ ہمارے ہاں ابھی تک قومی سطح پر استاد کی عزت اور احترام کا رواج رائج نہ ہوسکا اگرچہ انفرادی مثالیں بہر حال موجود ہیں۔ لیکن ان انفرادی مثالوں میں بھی اکثر ایک تکلیف دہ بات پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے ہاں بھی ان اساتذہ کی عزت اور یاد پائی جاتی ہے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے استاد ہیں جبکہ پرائمری کے وہ استاد جو علم کا بیج بوتے ہیں انہیں اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے اصل محسن تو وہ ہیں جنہوں نے مجھے الف ب سکھائی جنہوں نے ایک دو سکھایا اور جنہوں نے اے بی سی سکھائی اگر وہ یہ بنیاد نہ رکھتے تو دیواریں کیسے بنتیں اور چھت کہاں ڈالی جاتی۔جس طرح عمارت میں دیواریں اور چھت تو نظر آتی ہے لیکن بنیادیں اوجھل ہوجاتی ہیں اسی طرح علمی ترقی میں بھی کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ تو یا د رہ جاتے ہیں جبکہ بنیادیں بنانے والے بھول جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے ، فرد ہو یا قوم، اگر وہ دیرپا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہر درجے کے استاد کو عزت اور احترام دیں اس کے بدلے میں اللہ، زندگی کے ہر درجے ا ور ہر مرحلے میں ان کی راہیں آسان کر دے گا۔