علم کی اشاعت میں مسلمانوں کا حصہ

مصنف : حافط محمد رفیق

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جنوری 2005

آج اگر مسلمان اپنی عظمتِ رفتہ کو واپس لانا چاہتے ہیں تو انہیں اسی ہتھیار کو کام میں لاناہو گا جس کا نام علم ہے۔

            یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عقل و خرد کی آنکھ اس وقت تک دیکھ نہیں سکتی جب تک اس کے پاس علم کی روشنی نہ ہو۔علم کی شمع گل ہو جائے تو انسانی سوچ کو اوہام و خرافات اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اوراس سے ایسے اعمال صادر ہونے لگتے ہیں جس سے شیطان کی پیشانی بھی فرط ِ ندامت سے عرق آ لود ہو جاتی ہے۔انسان کو مخلوقات ِ عالم پر شرف اس لیے نہیں بخشا گیا کہ وہ شیر سے زیادہ طاقت ور،ہاتھی سے زیادہ گرانڈیل، ہرن سے زیادہ تیز رفتار ، شاہین سے زیادہ تیز نگاہ،یافرشتوں سے زیادہ عبات گزار ہے ، نہیں، بلکہ اسے تخت ِ خلافت پر متمکن کرنے والی چیز علم اور صرف علم ہے۔

            اس علم سے کیا مراد ہے؟کیا محض دینیات کا علم؟ نہیں ،ہمارے نزدیک علم سے مراد صرف چند مذہبی کتا بوں کا علم نہیں بلکہ ،غور و فکر ،تحقیق و تدقیق اورمشاہدات و تجربات کے ذریعے حقائق ِ مستور سے پردہ اُٹھانے کا نام علم ہے۔قرآن مجید میں ،کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو آیات ِ بینات یعنی روشن دلائل قرار دیا گیا ہے۔اللہ کی کتاب کا شاید ہی کو ئی صفحہ ایسا ہو جہاں اس قسم کی تنبیہات موجود نہ ہوں ،افلا تعقلون،افلا تتفکرون،یا افلا تتدبرون،وغیرہ ۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ زمین و آ سمان کی وسعتوں میں پھیلی خداوند ِ عالم کی تخلیقاتِ رنگا رنگ پر غورو فکرکا نام علم ہے۔سورج کی روشنی اور اس کی بو قلمونی ہو ،چاند کا حسن اور اس کا اتار چڑھاؤ ہو،فضائے آ سمانی کی وسعتیں اور اس کی نیرنگیاں ہوں یا پہا ڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کے نشیب ہوں، کائنات کا ہر رنگ اور ہر روپ،بندہ مومن کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔فائدہ اس کا یہ بتا یا گیا ہے کہ اس سے تمھیں عرفان ِ الٰہی نصیب ہوگا۔

            لمحہ موجود علم و فن کا زمانہ ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔لیکن بد قسمتی سے اقلیم ِ علم و فن پر اقوام ِ مغرب نے چراغ روشن کر رکھے ہیں اور دنیائے علم کی امامت کے منصب پر امریکا فائز ہو چکا ہے۔                    

            تاریخ کے اوراق الٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ سے ہماری حالت ایسی نہ تھی بلکہ ایک زمانہ تھاکہ علم وفن کی راجدھانی پرمسلمانوں ہی کا پھریرا لہراتا تھا اور موجودہ اقوام ِ مغرب جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھیں۔ اگر چہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ تو عہد ِ صحابہ سے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن اس کو عروج عباسی خلفا کے زمانے میں نصیب ہوا۔جیسے جیسے مسلمانوں کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا علوم وفنون میں ان کے کارنامے بھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے ۔

             حضرت امیر معاویہؓ کی خواہش پہ ایک عیسائی عالم ابن آثال نے طب کی ۹ کتابوں کاترجمہ کیا۔عبدالمالک کے منشی میر سالم نے ارسطو کے رسائل کا ترجمہ کیا۔ عباسی خلفاء نے اپنے زمانے میں اشرفیوں کی تھیلیاں بھر کر اپنے عمال کو روانہ کیا کہ جہاں کوئی اہل علم ملے اسکو بغداد لایا جائے۔عہد عباسی میں یونان کا سارا فلسفہ کسمپرسی کی حالتوں میں بند کمروں اور متروک الماریو ں میں پڑا تھاجسے مسلمانوں نے عربی میں منتقل کیا اور ساتھ ہی اسکی شرحیں بھی لکھیں اور جہاں کہیں ضروری ہوا اس پر تنقید بھی کی ۔اسلامی دنیا کے مغربی کونہ قرطبہ سے مشرقی کنارے تک، ہزاروں درسگاہیں قائم تھیں۔ جہاں ہر وقت طلبہ کی بھیڑ لگی رہتی تھی ۔ول دیوران لکھتا ہے کہ،جغرافیہ دانوں، مورخین ، محدثین،فقہاء اور اطباء کے ہجوم سے،بغداد کی سڑکوں پہ چلنا دشوارہوتا تھا۔ مرزا حیرت دہلوی ، حالات سعدی کے صفحہ نمبر ۷۶ پر لکھتے ہیں، کہ دارالعلوم نظامیہ پورا ایک شہر تھا۔ اس میں ایک اتنا وسیع ہال تھا جس میں دس ہزار طلبہ بیک وقت سما سکتے تھے۔ خلیفہ عبدالرحمٰن سوم نے ۹۱۲ء میں اندلس میں ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جسکی لائبریری میں ۶ لاکھ کتب تھیں ۔ ان کتابوں کی مکمل فہرست بھی چالیس جلدوں پر مشتمل تھی ۔تین ایسے فضلاء جن پر انگلستان کو ہمیشہ ناز رہاہے،یہ مسلمانوں کی طلیطلہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔

            (۱)۔ رابرٹ :جس نے ۱۰۴۰ء میں قرآن کریم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔

            (۲)۔ مائیکل سکاٹ: جو کہ سکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا اس نے سات سال طلیطلہ یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے گزارے ۔

            (۳)۔ ایڈل ہارڈ: یہ بارہویں صدی کا برطانوی عالم ہے اور یہ بھی اسی انگوٹھی کا نگینہ تھا۔

            فرانس کے ماؤنٹ پیڑامیں مسلمانوں کی ایک یونیورسٹی پڈوکے نام سے موجودتھی۔نیز اٹلی میں پیسا یونیو رسٹی موجود تھی جہاں بو علی سینا اور ابوالقاسم اندلسی کی کتابیں بطور نصاب پڑھائی جاتی تھیں۔شہرہ آفاق گلیلیو انہیں مسلم یونیورسٹیوں کا فیض یافتہ تھا۔ اور اس کا عہد ۱۶۴۲ء ہے۔علم کی اشاعت میں ان سلاطین کابڑا حصّہ ہے ، جنہوں نے اہل علم کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے۔روم میں لیو نامی ایک مشہور فلسفی تھا ۔ خلیفہ مامون الرشید نے قیصرروم کو لکھا کہ وہ اگر مسڑ لیو کو اسکے دربار میں بھیج دے تو اس کے بدلے وہ چالیس من سونا دے گا اور فدیہ میں بھی کمی کرے گا۔خلیفہ مامون الرشید نے تصنیف وتالیف کا ایک شعبہ قائم کیا ،اس میں جب کوئی عالم اپنی تصنیف مکمل کرتا تو اسے سونے میں تولا جاتا۔ مسلم حکمرانوں کی،علماء و فضلا پر انعام واکرام اور دادودہش کی داستان بڑی طویل ہے اور بسا اوقات اس پر اسراف کا گمان بھی ہونے لگتا تھا ۔جودو کرم کی اس بارش نے ان سدا بہار گلستانوں کو رنگ ونکہت سے نواز دیا اور آج تک ان کی مہک سے مشام ِجان معطر ہو رہے ہیں۔مسلمانوں نے بلادِاسلامیہ میں جا بجا کتب خابے قائم کر کے مثالیں قائم کیں اور ثابت کیا کہ انھیں علم سے کس قدر شغف ہے۔ ڈاکڑ غلام جیلانی برق لکھتے ہیں کہ، ۸۹۱ء میں بغداد میں ایک سو سے زیادہ کتب خانے قائم تھے ۔ بخارا کا سلطان محمد المنصور بیمار ہوا تو ابن سینا جسکی عمر ابھی اٹھارہ سال تھی اس نے سلطان کا علاج کیا۔ وہ صحت یاب ہوااور انعام میں ابن سینا کو اپنا ذاتی کتب خانہ استعمال کر نے کی اجازت دے دی ۔ابن سینا نے تسلیم کیا ہے کہ وہاں میں نے ایسی کتابیں بھی دیکھی ہیں جن کے نام تک بھی لوگو ں نے نہیں سنے تھے قاہرہ میں خلیفہ عزیز اللہ نے جو کتب خانہ قائم کیا تھا وہ اپنے اندر چھ لاکھ کتب رکھتاتھا۔جس میں صرف مطالعہ کرنے والوں کے لیے ۱۸ہال تھے۔

             مسلمانوں کی اس علمی ترقی کے برعکس یورپ میں ایک ہزار سال کے دوران میں صرف ۲۰۰کتابیں لکھی گئیں۔ صرف یہی نہیں کہ انہیں علم سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ جہاں کہیں علم کی کوئی شمع روشن ہوتی تھی وہ اسے بجھانے سے بھی گریز نہ کرتے تھے اور یہ سب مذہب کے نام پر ہوتا تھا۔ بالکل یہی حال آج کی مسلم دنیا کا ہے یہاں بھی علم دشمنی اور تحقیق سے نفرت مذہب کے نام پر ہی کی جاتی ہے۔

             مسڑ ڈریپر نے اپنی مشہور کتاب معرکہ سائنس اور مذہب میں ایسے روح فرسا واقعات لکھے ہیں جس سے یورپ کی ذہنی پسماندگی کا پتا چلتا ہے۔یونان کی ایک لڑکی جسکا نام ہائے بیشہ تھا تحصیل علم کے لیے اسکندریہ آئی ۔علمی فراغت کے بعد فلسفہ کی استاد تسلیم کر لی گئی۔ بشپ سائرل نے اس پر کفر کا فتٰوی لگایا تو جا ہل پادریوں نے اسے زندہ جلا دیا۔گلیلیو اٹلی کا وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے ۱۶۴۲ء میں دوربین ایجاد کی تھی ۔ پوپ نے اسے گرفتار کروا کر جیل میں ڈال دیا۔جہاں وہ شدائد کی تاب نہ لاتے ہوئے ۱۶۴۴ء میں مر گیااٹلی کے مشہور فلسفی مسڑ برونو کو۱۶۰۰ء میں مذہبی عدالت کے حکم پر زندہ جلا دیا گیا۔

            وہ امت جسکا پہلا سبق اقرا تھا جس نے ہزاروں یونیورسٹیاں، لاکھوں دارالعلوم اور ان گنت مدرسے قائم کیے تھے آج وہ کس عالم میں ہے، وہ ہم سب پر واضح ہے۔

             آج اگر مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانا چاہتے ہیں تو اسی ہتھیار کو کام میں لاناہو گا جس کا نام علم ہے اور اپنے اخلاق واعمال کو بھی اسی سانچے میں ڈھالنا ہو گا جس کا نام علم ہے ورنہ بقولِ سعدی ؒ ‘‘ وہ علم جو حق کی طرف رہنمائی نہ کرے محض جہالت ہے۔’’