جاگیے اور جگائے رکھیے

مصنف : مولانا امین احسن اصلاحی

سلسلہ : تربیت اولاد

شمارہ : مئی 2005

تحریر: مولانا امین احسن اصلاحی

تمہید: شبیر قمر

کیا ہم اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم ان کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے کر رہے ہیں؟

            بچے انسان کے لیے اس کائنات میں اللہ کریم کا بہت بڑا انعام ہیں۔ صالح اور نیک اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اوران کے دلوں کا قرار ہوتی ہے۔ ان ہی کے دم سے گھروں کے اندربہار رہتی ہے لیکن اولاد، جہاں انسان کے لیے رب کریم کی بہت بڑی نعمت اور انعام ہے ،وہیں انسان کے لیے اس کو ‘‘فتنہ’’ یعنی آزمائش بھی کہا گیاہے۔ گویا یہ جام شیریں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تلخی کے ذائقے بھی رکھتی ہے۔ مادی قدروں اور نفسا نفسی کے اس پر آشوب دور میں جبکہ ذرائع ابلاغ کی ہوشربا یلغار بھی سروں پر چڑھ کر بول رہی ہے، اگر اولاد کی جانب سے آنکھیں بند کر لی گئیں اور انہیں اچھا مسلمان اور بہترین انسان بنانے کی شعوری کوشش نہ کی گئی تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ کریم کا یہ انعام، انسان کی اپنی کوتاہی کے سبب عمر بھر کے پچھتاوے کا سبب بن جائے۔ دور حاضر کے ذرائع ابلاغ کی اہمیت مسلّم مگر ٹیلی ویژن، کیبل، انٹرنیٹ، ویڈیو گیمز اور بے مقصد لٹریچر کے حامل رسائل و کتب کی راہوں سے نئی نسل میں بے راہ روی اور گمراہی پھیلنے کے امکانات زیادہ قوی ہیں اور اس ضمن میں اگر بے پروائی، عدم توجہی اور بے حسی کو شعار بنایا گیا تو ان ذرائع ابلاغ کے اثرات معصوم ذہنوں کو مسموم بنانے میں نہایت درجہ کارگر ثابت ہوں گے۔ خوش نصیب ہیں وہ والدین جو اپنے حصہ کی ذمہ داری کا ادراک کر کے اپنے بچوں میں دینی قدروں کی لگن اور ذوق وشوق پیداکرنے کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر صاحبِ اولاد کے لیے ہر آن لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں عقل وشعور کے دریچے وا رکھے اور تربیت اطفال کے لیے مسلسل بیدار رہے، ورنہ چند لمحوں کی یہ غفلت کوشی زندگی بھر کا روگ بن سکتی ہے۔

            میں جب سے صاحب اولاد ہوا ہوں اسی وقت سے مسلسل اسی فکر اور پریشانی میں گھل رہا ہوں کہ خداکرے میرے بچے دینی قدروں کے حامل’ اچھے انسان اور سچے مسلمان بن سکیں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کے موضوع پر لکھی گئی کتب اور مضامین اسی لیے میری دلچسپی کا خصوصی موضوع رہے ہیں۔ اللہ کریم اِن اصحاب علم اور اِن درد مند ارباب قلم کو جزائے خیر سے نوازے جنہوں نے اس اہم موضوع پر اپنی بصیرت خیز اور گراں مایہ تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ بر صغیر پاک و ہند کی ایک نابغہ اور نادرروزگار علمی شخصیت ہیں۔ متنوع موضوعات پر ان کی بے شمار وقیع اور قابل قدر کتب امت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ بہ طریق احسن انجام دے رہی ہیں۔ مولانا کے زیر ادارت شائع ہونے والے رسالے سہ ماہی‘‘تدبر’’ کے اگست ۱۹۹۱ ؁ء کے شمارے میں ‘‘جاگیے اور جگائے رکھیے’’ کے زیر عنوان چھپنے والا یہ مضمون ‘‘تربیت اولاد’’ کے سلسلے میں انسانی ضمیر پر مولانا کا ایک زبردست تازیانہ بھی ہے اور والدین پر ان کا بہت بڑا احسان بھی۔ اس مضمون کی اسی اہمیت کے پیش نظر ایک عرصے سے یہ شدید خواہش تھی کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ افراد اس مضمون سے استفادہ کر سکیں۔ اللہ کریم کی عنایت ِ خاص سے اب یہ موقع پیدا ہو چلا ہے۔ لیجیے دل کے کواڑ اور احساس کے دریچے وا کر کے پورے انہماک اور خشوع و خضوع سے اس کا مطالعہ کیجیے، اسے دل کی گہرائیوں میں اتاریے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو آمادہ عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔ خدا اس سلسلے میں ہمارا معین و مددگار ہو۔ (آمین)

 (شبیر قمر)

            ادھر کچھ عرصہ سے یہ خیال مجھے بے حد پریشان کیے ہوئے ہے کہ ہمارے بچے کتنے خوبصورت ہیں ، ان کی شکلیں اتنی موہنی ہیں کہ دیکھ کر پیار آتا ہے۔ ہم ان کو اچھا کھلاتے پلاتے ہیں، عمدہ کپڑے پہناتے ہیں، ان کی تعلیم پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں حتیٰ کہ ان کو یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں، تو کیا ہم ان کی پرورش اور تعلیم کا یہ تمام سامان ان کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے کر رہے ہیں؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان کے پالنے پوسنے اور لکھانے پڑھانے میں تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے لیکن ہماری پوری اسکیم میں کسی مقام پر یہ سوال ہمارے سامنے نہیں ہوتا کہ ہمارے یہ پیارے بچے دوزخ میں جانے والے ہیں یا جنت میں۔

            بچوں کی تربیت کے دو ہی ذریعے ہوتے ہیں۔ ایک خاندا ن کا ماحول،دوسرا تعلیم۔ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے ،اس کے متعلق یہ بات طے ہے کہ اس میں اور سب کچھ ہو تو ہو، مگر دین بالکل نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں دین سے دوری، انحراف اور سرکشی بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر یہ حال ہمارے ملک میں ہے تو یورپ اور امریکہ میں تو اس سے ہزار گنا زیادہ دوری پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود ماں باپ نہایت شوق سے بچوں کو یہ تعلیم دلاتے ہیں۔ وہ اس کے لیے روپیہ بہاتے ہیں اور مطمئن بھی ہوتے ہیں۔ نتیجہ کے اعتبار سے دیکھیے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے خرچ پر ان کو جہنم میں بھیجنے کا سامان کیا جارہا ہے۔

             لیکن ہمیں جیسے بچوں کے انجام سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔

            گھریلو ماحول کی طرف آئیے تو اس دور میں ہمارا رہنے سہنے کا انداز کچھ اس طرح کا ہو چکا ہے کہ لوگ رات گئے تک جاگتے اورصبح آٹھ نو بجے تک بستروں میں انٹا غفیل پڑے سوتے ہیں۔ اس صورت حال میں بچوں سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ ان کی حالت اس وقت نہایت قابل رحم ہوتی ہے جب سکول بھیجنے کے لیے مائیں ان کو بستروں سے اٹھاتی ،منہ دھلاتی اور کپڑے پہناتی ہیں اور وہ بے چارے اس پوری کارروائی کے دوران سوئے ہوتے ہیں۔ گھروں میں نہ دین کا چرچا ہے، نہ شریعت کی پابندی کا احساس۔ آخرت کا تذکرہ تو بالکل ہوتا ہی نہیں، اس لیے کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اسے ایک دن مرنا ہے اور خدا کے حضور جوابدہی کے لیے پیش ہونا ہے۔

            اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ یہ حل تو ممکن نہیں کہ ہم نظام تعلیم تبدیل کر سکیں۔ اس ملک میں انقلاب اسلامی کے بڑے بڑے دعویدار پیدا ہوئے۔لیکن نظام تعلیم میں تبدیلی تو کیا آتی، الحاد اوربے دینی زیادہ ہو کر سامنے آئی ہے اور ہم ہیں کہ اس کے آگے بند باندھنے پر قادر نہیں ہیں۔ بچوں کی تعلیم کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کو روک دینے سے بڑی حماقت نہ ہوگی۔ اس لیے میرے نزدیک جو کچھ کرنا عملاً ممکن ہے وہ گھریلو ماحول کی اصلاح ہے۔ اس کی شکل یہ ہے کہ گھریلو ماحول کے اندر دین کی رمق پید اکی جائے۔ گھر والوں کو نماز کی تاکید کی جائے۔ بچوں میں نماز کی عادت ڈالی جائے۔ اہل و عیال کو یاد دلایا جائے کہ انہیں ایک دن مرنا ہے اور آخرت ضرور آنے والی ہے۔ گھر کی اصلاح کے لیے ایک ہلچل سی پیدا کردینی چاہیے اور اگر اس مقصد کے لیے لڑنے جھگڑنے کی نوبت آجائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ محض سرسری طور پر کہہ دینا کافی نہیں ۔میں اللہ تعالیٰ کے حضور اولاد کی گمراہی کے بارے میں معذرت کافی نہیں سمجھتا کہ ان کو کہہ دیا گیا تھا، آگے ان کی مرضی تھی کہ وہ عمل کرتے یا نہ کرتے۔ مجھے اپنی اولاد کے متعلق یہ جواب مطمئن نہیں کرتا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری اولاد لازماً نیک بنے اور جنت میں جائے۔ میرے نزدیک مسئلہ کا حل اس وقت یہ ہی ہے کہ خود جاگیے اور گھروالوں کو جگائے رکھیے۔

            میرے نزدیک آیت قو انفسکم واھلیکم ناراً ( اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش دوزخ سے بچاؤ) اور حدیث کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (تم میں سے ہر شخص نگران بنایا گیا ہے اور وہ اپنے زیر نگرانی گلے کے بارے میں جواب دہ ہے) کا تقاضابھی یہ ہی ہے۔ گھروالوں کے اندر ہلچل پیدا کر کے اگر دینی بیداری پیدا کی جائے تو مرنے کے بعد ان شا ء اللہ وہ ہی صورت ہوگی جس کی خبر قرآن نے دی ہے کہ جنت میں اہل جنت بعض ساتھیوں سے یہ سوال کریں گے کہ یہ کارنامہ آپ نے کیسے سر انجام دیا کہ آپ جنت میں نہ صرف خود براجمان ہیں بلکہ تمام اہل و عیال بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کے جواب میں وہ بتائیں گے کہ ہم دنیا میں آل و اولاد کے معاملہ میں نہایت چوکنے رہے۔ ہم نے ان کے ذہنوں میں دین کا تصور بٹھایا اور آخرت کی ذمہ داریوں سے ان کو غافل نہیں ہونے دیا۔ آج ہمیں جو کچھ حاصل ہے یہ اسی بیداری اور تلقین کا فیض ہے۔

            میرے نزدیک یہ کام آج ہر مسلمان کے کرنے کا ہے ورنہ بچے پیدا کر کے، ان کو پال پوس کر اور تعلیم دلا کر ان کو دوزخ کے حوالے کرنے کا فائدہ؟