تقلید و جمود

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اپریل 2005

پہلا منظر

                دس بارہ برس پہلے کی بات ہے کہ سرد دسمبر کی ایک شب تھی اور ملک کی ایک اہم دینی جماعت کے مرکز کے ایک کمرے میں چار افراد محو گفتگو تھے۔جن میں سے ایک اس جماعت کے اہم رہنما اور باقی تین ان کے چاہنے والے تھے۔ مذکورہ رہنما اپنی زمانہ طالبعلمی کی یادوں کے دریچے وا کر رہے تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ ‘ ہمارے سالانہ امتحان تھے ۔ مہتمم صاحب نے نتیجے کا اعلان فرمایا اور یہ کہتے ہوئے رو پڑے کہ فلا ں طالب علم میرا انتہائی عزیز شاگر د ہے ۔ ذہین بھی ہے اور با صلاحیت بھی لیکن میں اسے جان بوجھ کرفیل کر رہا ہوں کیونکہ اس نے فقہ کے پرچے میں لکھا ہے کہ امام شافعی کی رائے یہ ہے جب کہ میرے خیا ل میں یہ مسئلہ اس طرح ہونا چاہیے تھا۔ مہتمم صاحب نے فرمایا کہ اس کی اتنی جسارت کہ یہ امام شافعی کے مقابلے میں اپنی رائے ظاہر کر رہا ہے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کل کلا ں کو فتنہ بن جائے گا، اس لیے میں اسے سند جاری نہیں کروں گا۔

دوسرا منظر

                ملک کی ایک دوسر ی ،اہم دینی جماعت کے مرکز میں بعض مرکزی رہنما محو گفتگو تھے ۔ ان میں سے سب سے بزرگ رہنما نے فرمایا کہ فلاں نام کی جو جماعت ہے اس کا تو نام ہی مناسب نہیں۔ دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ حضرت یہ نام تو آپ کے استاد صاحب نے تجویز کیا تھا۔ اس پر پہلے بزرگ فرمانے لگے کہ تب میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ استاد کے تجویز کرد ہ نام کے بارے میں یہ خیال کرنا بے ادبی ہے۔

تیسرا منظر

                 کالج کے ایک طالب علم کو دین پڑھنے کا شوق ہوا ،وہ اس تلا ش میں لاہو ر کے ایک بڑ ے مدرسے میں جا پہنچا ۔ مہتمم صاحب نے اس کو اپنے ایک عزیز استاد کے حوالے کیا ۔ استاد نے تعلیم کا آغاز فارسی زبان سے کیا ۔ ایک دن طالب علم کی سمجھ میں ایک گردان نہ آئی ۔ اس نے سوال کیا ۔ استاد نے کوئی جواب نہ دیا ، دوسرے اور تیسرے دن شاگرد نے پھر وہی سوال دہرایا۔ استاد نے تیز نظر وں سے شاگرد کی طرف دیکھا اور فرمایا ، میرے استاد نے اسی طرح مجھے پڑھایا تھا اور میں نے اسی طرح آگے پڑھانا ہے ۔ اسی طرح پڑھنا ہے تو پڑھو ورنہ جاؤ۔ سوال وغیر ہ مت کر و۔ وہ طالب علم دوبارہ اس مدرسے میں نظر نہ آیا۔

چوتھا منظر

                 استاد صاحب غسل فرمار ہے ہیں اور ایک ننھا شاگرد ان کے کپڑے تھامے غسل خانے کے باہرمؤدب کھڑا ہے ۔ اسی طرح دوسرے استاد صاحب وضو فرمار ہے ہیں اور ان کا شاگرد ان کی ٹوپی اور رومال تھامے ان کے پیچھے مؤدب کھڑا ہے ۔ ایک نمازی نے پوچھا کہ بھئی بچو تم کیوں اس طرح کھڑ ے ہو ۔ انہوں نے کہا کہ جی استاد صاحب کا حکم ہے ۔ نمازی نے اساتذہ سے پوچھا کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور؟ انہوں نے فرمایا کہ جنا ب ان کو ادب بھی تو سکھانا ہے۔

                بہت سے دوست یہ سوال کِیا کرتے ہیں کہ ہمارے دینی مدارس اور مذہبی دنیا آج جس جمود ، تقلید ، فرقہ واریت اور عدم برداشت کا شکا رہے ،اس کی آخر،کیا وجہ ہے ؟ یہ مناظر ہم نے ان ہی دوستوں کی خدمت میں پیش کیے ہیں اور انھیں سے سوال کرتے ہیں کہ جس نظام میں طالب علم کے حقیقی ذہن پر اس حد تک پہرے بٹھا دیے جاتے ہوں ، اس کی سوچ سمجھ کی صلاحیتوں کو بجائے نشو ونما دینے کے دبایا جا تا ہو اور استاد اور بزرگوں کے مقابل بات کرنا گویا اللہ اور رسول کے خلاف بات کرنا سمجھا جاتا ہو ،جہاں تعلیم کا سارا زور قرآن کے بجائے چند کلامی مباحث ، فقہ اور صرف و نحو پر ہواور جہاں قرآن و سنت کے بجائے اسلاف ( اور وہ بھی صرف اپنے فرقے اور مسلک کے ) معیار حق ہوں، وہ نظام سوائے تقلید اور جمود کے اور کیا پید ا کر سکتا ہے ؟ کسی زمانے میں عالم اور مولوی بننا ایک منصب ہوتا تھا اب یہ ایک پیشہ ہے اور اپنے پیشے کا تحفظ کرنا فطر ی سی بات ہے ۔جس نظام کے ساتھ انسان کی ‘‘روٹی ’’ وابستہ ہو جائے وہ پھر ہر حال میں اس نظام کی بقا کا طالب ہوتا ہے ۔ آج کے مولوی کی بقا( مستثنیات کے علاوہ ) اپنے گروہ ، فرقے ، مریدوں ، شاگردوں اور اپنے لوگو ں پر منحصر ہوتی ہے اس لیے اپنے گروہ اور لوگوں کی تعداد برقرار رکھنا بلکہ اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا اس کامسئلہ بن جاتا ہے ۔ اور اس مسئلے میں تقلید اور جمود کی ‘‘قوتیں’’ سب سے زیادہ معاون ہوتی ہیں۔چنانچہ در سِ تقلید کو اپنا وظیفہ بنانا ان حضرات کی مجبوری بن جاتا ہے۔مجبوری کا لفظ اگر گراں ہو تو ‘‘دانشورانہ انداز’’ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘مسئلہ’’ تبدیل ہونے سے انسان کی حکمت عملی اور ترجیحات بدل جایا کرتی ہیں اور اس سے یہ مذہبی دنیا بھی بہر حال مستثنی نہیں ہے۔عدم برداشت ، جہالت، نفرت ، اظہار رائے پر پابند ی اور کفر کے فتوے جیسے امراض تقلید ہی کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ تقلید کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ باقی سب غلط اور صرف ہم اور ہمارے بزرگ درست ہیں۔ اور جب صرف ہم صحیح ہیں تو پھر غلط کی اجاز ت کیوں دی جائے ؟

                وہ مدارس اور ادارے جہاں کبھی امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد ابو یوسف اور محمد برملا اپنے استاد سے اختلاف کرتے نظر آتے تھے آج وہاں قبرستان کی خاموشی ، بد ترین جمود اور خوفناک تقلید جاری ہے۔ دین کو چار اماموں کی آرا میں مقید کر کے گویا ان جلیل القد ر آئمہ ( جو سب کو دلیل کی بنیا د پر اپنے سے اختلاف کا حق دیتے تھے ) کی آرا کو شریعت کا درجہ دے دیا گیا ہے جب کہ شریعت دینے کا حق صرف اللہ اور اس کے رسول کا ہوتا ہے ۔ اور اس سب کے پیچھے کسی غیرکا نہیں اپنوں ہی کا ہاتھ ہے کسی کی سازش نہیں اپنی ہی کم نصیبی اور کوتا ہی ہے۔سوال کر نے والے بہر حال سوال کرتے ہیں کہ جب چار آرا موجو د ہیں تو انہیں اصولو ں پر پانچویں ، چھٹی یا ساتویں رائے کیوں قائم نہیں کی جاسکتی ۔ اس پر پابند ی کیا قرآن نے لگائی ہے یا سنت نے ؟ مگر قرآن و سنت کو دیکھ کر کون جواب دے گا کہ ان تک رسائی میں ‘بزرگ’ اور تقلید حائل ہیں۔ اللہ غریق رحمت کر ے اقبا ل کو، بہت پہلے کہہ گئے ۔گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!