ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ

مصنف : پروفیسر خورشید احمد

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : اپریل 2005

ترکش مارا خدنگ آخریں

بر عظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی افق کو درخشاں کرنے والے تما م ستارے ایک ایک کر کے ڈوب گئے …… !

 علامہ اقبال گئے ’ مولانا اشرف علی تھانوی گئے ’ مولانا ابو الکلام آزاد گئے ’ مولانا شبیر احمد عثمانی گئے ’ سید سلیمان ندوی گئے ’ مفتی محمد شفیع گئے ’ مولا سید ابوالاعلیٰ مودودی گئے ’ ڈاکٹر فضل الرحمان گئے ’ مولانا امین احسن اصلاحی گئے’ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی گئے …… اور اب مشرق سے ابھرنے والے اس سنہرے سلسلے کا آخری تارا ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھی مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا …… انا للہ وانا الیہ راجعون !

 محمد حمید اللہ مرحوم ۱۶ محرم الحرام ۱۳۳۶ ھ بمطابق 19 فروری 1908 ء حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ دولت آصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلٰی تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور عثمانیہ یونیورسٹی سے ’ جو برعظیم کی تاریخ میں اردو کے محوری کردار اور اپنی اعلٰی علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی ’ ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کر کے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ تقسیم ملک سے کچھ عرصہ قبل اعلٰی تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور بون (Boun) یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی ۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف Muslim Conduct of state بنی ۔ جرمنی سے فرانس منتقل ہو گئے اور سوربون ( Sorbonne ) یونیورسٹی سے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی سند حاصل کی ۔

 اس زمانے میں سقوط حیدر آباد ( 1948ء) کا سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمید اللہؒ پیرس ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ میرے استفسار پر ایک مرتبہ بتایا کہ میں دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا ۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کر وں ۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی ۔ پناہ گزین کی حیثیت پر تمام عمر قانع رہے او رمحض وثیقہ راہ داری ( Travel documents ) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھ ماہ کے اندر اندر انہیں واپس آنا پڑتا تھا ۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذہنی اور مادی ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے ۔ 70 سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآ خر وہاں چلے گئے جہاں کسی دنیوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی …… ہاں ان کے پاس ایما ن ’ عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے ۔

 ڈاکٹر حمید اللہ ؒ مشرق اور مغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں ( اردو ’ انگریزی ’ فرانسیسی ’ عربی) بلا وا سطہ تحریر وتقریر کی خدمت سر انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلٰی استعداد جرمنی ’ اطالوی ’ فارسی ’ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی ۔ پیرس کے مشہور تحقیق مرکز Centre National de la Researche Scientifique سے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے ۔

 علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہ ؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھر بار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف علم کا ورثہ چھوڑا ۔ عالم اسلا م کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے ’ خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصے تک متعلق رہے ۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے ۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں بھی چھ خطبات دیے جو خطبات بہاولپور کے عنوان سے شائع ہوئے اور ان کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضال اقبال نے کیا اور یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے ۔

 میری نگاہ میں ڈاکٹر حمیداللہؒ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق ( orientalist) تھے ۔ مستشرق میں ان کو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق ( Methodology ) پر ایسی ہی قدرت حاصل کر لی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر ۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا ۔ ان کے اصل ماخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں ۔ انہوں نے اسلام کو ’ جیسا کہ وہ ہے ’ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ البتہ تحقیق و تصنیف ’ تلاش و جستجو ’ نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا ’ اسے فرض کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا او رساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورے Paying in the same coin کہا جاتا ہے ۔ الحمد للہ !

ڈاکٹر حمید اللہ فکر و نظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے ۔ انہوں نے سلف کے نقطہ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہو گا کہ اسلامی علوم اور دور جدید کے طلبہ اور محققین کے درمیان ایک پل بن گئے ۔

 ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام کثیر جہتی (Multi dimensional ) تھا ۔ انہوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکے کی چیزیں پیش کیں لیکن شایدا ن کی سب سے زیادہ دین(contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انہوں نے علمی دنیا سے یہ منوالیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلما ن فقہاء اور علماء ہیں ’ سترھویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں ۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ہمام ابن منبہّ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حدیث کی کتابت دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور دور خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئی تھی ۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز سے تدوین کر کے اور یہ دکھا کر کہ اس اوّلین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ہے ’ انہوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی ’ آپ ﷺکے غزوات ’ سفر ہجرت ’ خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب …… ان سب میدانوں میں ڈاکٹر حمید اللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کیے ہیں جو تا دیر چراغ راہ رہیں گے ۔

 اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہ ؒ کیMethodology پر ان کا کام راہ کشا حیثیت رکھتا ہے ۔ اسلامی قانون اور قانون روما کے فرق کو بھی انہوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانون روما ہی سے ماخوذ ہے ۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش اساسی اور بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے ۔ ان کے طرز تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی ۔ حضور ﷺ کے سفر ہجرت کی تحقیق میں انہوں نے پا پیادہ اور گھوڑ ے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کو متعین کیا جو روایات میں دھندلا گئی تھی ۔ قرآن پاک اور سیرت مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے ’ ان کی علمی دلچسپی کا بھی محور تھے ۔

 فرانسیسی زبان میں قرآن پا ک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیر ت پاک ﷺ کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہو گیا ہے ۔ سو سے زیادہ مقالے اور مضامین ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دور کرنے کا سبب بنے ۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد 150 سے زیادہ ہے ۔

 ڈاکٹر حمید اللہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستا ن کی پہلی دستو رساز اسمبلی کو اسلامی دستو رسازی میں مدد دینے کے لیے پاکستا ن آئے ہوئے تھے ۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی ’ مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفر احمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا ۔ ان کے علم کی وسعت اور اسکے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا ۔ میں نے ان کو ایک دبلا پتلا اور سادہ سا فقیر منش انسان پایا ۔ اکہرا بدن ’ لمبا قد ’ صاف رنگ ’ کتابی چہر ہ ’ اوسط لمبائی کی مگر کفی داڑھی ’ پر نور آنکھیں …… اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ ’ تواضع کا پتلا ’ سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پا جامے میں ملبوس اور پاؤں میں کھڑاوں …… پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں ۔ ہمارے بچپن میں وضو کے لیے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے کھڑاوں کہا جاتا تھا اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی ۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آسکتا تھاکہ کو ئی اسمبلی کے دفتر میں کھڑاوں پہنے بیٹھا ہو گا ۔

 حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیا ر سے بھری باتوں سے دور ہو گئی اور تبحر علمی کے ساتھ ان کا انکسا ر دل پر نقش ہو گیا ۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں ’ کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگر اس طرح کہ دل میں اتر جاتی تھی ۔

 پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب ‘‘ چراغ راہ’’ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پر بالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا ۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں 10 صفحوں کا لوازمہ موجود تھا ’ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصر حاشیے کے سوا ہر جگہ بھر ی ہوتی تھی ۔ ان سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی ۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے ۔ بڑی فراخ دلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے لیے کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کر رہا ہوں …… اور اس طرح صفحہ اور سطر کی تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انہوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کر دیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ 40 سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا ! آخری خط میری مختصر کتاب Family life of islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا ۔

 ڈاکٹر صاحب نے 1948 ء میں جوفلیٹ پیر س میں کرایہ پر لیا تھا ’ وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا جس میں لفٹ نہ تھی ۔ انہوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی ۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی ۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں او رکھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا ۔ کھانے میں اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانہ طالبعلمی ہی میں گوشت کو خیر باد کہہ دیا تھا ۔ سبزی اور پنیر پر گزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانوروں کی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہو گئے ۔ علم و تقوی ’ قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے ۔

 میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیم ( تربیتی کیمپ ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میں فرانس کی مسلم طلبہ کی اسلامی تنظیم ( UMSO ) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے ۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے ۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمال التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میر ی تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا ۔ جزاھم اللہ خیر الجزاء۔

 وقت کی پابندی میں ڈاکٹر صاحب اپنی مثال آپ تھے ۔ اس کی دوسری مثال میں اگر دے سکتا ہوں تو وہ مولا نا مودودی ؒ کی ہے ۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیر متعلق نہ ہو ( اور اسکے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں ) کہ حیدرآباد کا نوجوان حمیداللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا ( غیر حاضری کا تو سوال ہی نہ تھا ) اور یہ دن وہ تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا ۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہو گیا

 پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

 افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

 ڈاکٹر حمیداللہ ؒ صرف علم و تحقیق ہی کے مرد میدان نہ تھے ’ دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے ۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمات

 سر انجام دیتے رہے ۔ انفرادی ملاقاتوں سے لیکر تبلیغی دورے اور ملکی و بین الاقوامی کانفرسیں …… ہر جگہ انہوں نے دعوت کا کام انجام دیا ۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کاہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا ایک حلقہ بھی ان کے گرد قائم تھا ۔ طلبہ

 او رنوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے ۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخدل تھے ۔

 ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے ۔ ارباب حکومت نے ان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے ۔ علمی اور ادبی اعزازات نے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے ۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انہوں نے معذرت کر لی ۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انہوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونیورسٹی کے لیے وقف کر دی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑ ے دکھے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سر زمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا ۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے ۔

 ڈاکٹر حمیداللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قوٰی نے ساتھ دیا ۔ جب بیماریوں نے اس طرح آ لیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لیے وقف کر دی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے ۔ جب مجھے ایک اعلٰی پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں میں نے صدر مملکت کو خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیشکش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہو گئے ۔ افسوس

 پاکستا ن ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا ۔ 2002ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی ( 95) سال اس عالم نا پائیدار میں گزار کر ’ علم و دعوت کی سینکڑوں شمعیں روشن کر کے اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کی طرف مراجعت کر گیا تاکہ عباد الرحمٰن کے ابدی مسکن کو پا لے ۔ اللہ تعالٰی ان کی خدمت کو قبول فرمائے ’ ان کی بشری لغزشوں سے صرف نظر کرے اور انھیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے۔‘‘ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ’’ ( بشکریہ ماہنامہ افکار معلم لاہور ’ جنوری 2003ء )