نوجوانوں سے چند باتیں

مصنف : مولانا امین احسن اصلاحی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2005

            میں آپ کی اس ذرہ نوازی کے لیے شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنی اس علمی مجلس میں مجھے تقریر کی دعوت دی۔ میں نے آپ کے نمائندوں سے معذرت کر لی تھی کہ میں کوئی تقریر تو نہیں کروں گا ، البتہ آپ کے تجویز کردہ عنوان پر کچھ متفرق باتیں کر دوں گا۔ تقریر کا معاملہ یہ ہے کہ نو جوانی میں تو آدمی تقریر شوقیہ کرتا ہے،ادھیڑ پن میں فرائض اور ذمہ داریوں کے تحت یہ کام کرنا پڑتا ہے ، لیکن بڑ ھاپے میں آ کر یہ چیز بوجھ بن جاتی ہے ۔ میرا حال یہ ہے کہ میں جوانی میں بھی اس ذمہ داری سے گھبراتا رہا ہوں ۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اب اس دور میں میرے لیے یہ کام کتنا مشکل بن گیا ہو گا۔

            بہر حال آپ کا دل رکھنے کے لیے کچھ باتیں کہوں گا۔ آپ ان کو نصیحت کے طور پر سمجھیے ۔ میں اگرچہ اپنے آپ کو نصیحت و موعظت کا اہل نہیں سمجھتا ، لیکن آدمی کو بعض حقوق ، مجرد اس بنیاد پر حاصل ہو جاتے ہیں کہ اس کے بال سفید ہو چکے ہیں ۔ مجھے بھی بزرگی بعقل است ، والی بزرگی چاہے حاصل نہ ہوئی ہو ، لیکن بزرگی بسال، والی بزرگی تو بہر حال حاصل ہے ۔

            نوجوانوں کے فرائض سے متعلق مجھے آپ کے سامنے کوئی نئی بات نہیں کہنی ہے میں بھی وہی بات کہوں گا جو بہتوں کی زبانی آپ نے سنی ہو گی۔ بعض باتیں بڑ ی اہم اور بڑ ے نکتے کی ہوتی ہیں، لیکن وہ ہر مجلس میں بار بار دہرائے جانے کے سبب سے ، بالکل پامال اور فرسود ہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے سننے والے ان کو کماحقہ اہمیت نہیں دیتے ۔ یہ صورت حال بڑ ی افسوس ناک ہے ۔ اس طرح ہمار ی زندگی کے بہت سے بنیادی حقائق نے اپنی اصل معنویت بالکل کھو دی ہے ۔ لیکن حقیقت بہر حال حقیقت ہے ، اس کو اس کی اصل قدرو قیمت سے اس لیے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ اس کو بہتوں نے بیان کیا ہے یا بہت سے بیان کرنے والوں نے محض رسماً بیان کیا ہے۔

             میرے نزدیک انہی مظلوم حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر قوم کے مستقبل کا انحصار اس کے نوجوانوں پر ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ دنیا کی عظیم سچائیوں میں سے ایک سچائی ہے۔خواہ ہم اس کی قدرکریں یانہ کریں۔قومیں اپنے رقبوں’اپنی عمارتوں’ اپنے باغوں اور چمنوں’اپنے دریاؤں اور پہاڑوں سے باقی نہیں رہتی ہیں’ بلکہ اپنی آئندہ نسلوں اور اپنے نوجوانوں سے باقی رہتی ہیں ۔ نوجوان اچھے ہوں تو قوم زندہ رہے گی۔ اگر اس کے پاس دریا اور پہاڑ نہ ہوں گے تو وہ اپنے لیے نئے دریا اور نئے پہاڑ پیدا کر لے گی۔لیکن اگر نوجوان مردہ ہوں تو اشبیلیہ’غرناطہ اور قرطبہ کی عظمتیں تعمیر کرنے والے بھی صرف تاریخ کی داستان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں ۔

             یہی نکتہ ہے کہ دنیا کی ہر زندہ رہنے والی قوم نے سب سے زیادہ اہمیت اپنے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کو دی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں کو یہ بات عزیز ہوئی ہے کہ صفحہ عالم پر ان کا مادی وجود بھی قائم رہے اور ان کی معنوی ہستی بھی کارفرمارہے’انہوں نے اپنے بام و در کی آرائش کے بجائے’ اپنے آگے آنے والے اخلاف کی تہذیب و تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔ میں تاریخ کا طالب علم نہیں ہوں لیکن اسپارٹا کے لوگوں سے لے کر آج تک کی قابل ذکر قوموں کے جو حالات سر سری طور پر معلوم ہوئے ہیں’ ان کی بنا پر یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ رومی و یونانی ہوں یا انگریزو امریکن’دنیا کے نقشے پر کوئی پائدار نقش اسی قوم نے چھوڑا ہے جس نے اپنی آنے والی نسل کی فکر کی ہے۔ اسپارٹا والوں کے متعلق میں نے کہیں پڑھا ہے کہ وہ اپنی عمارتوں میں کوئی تراشا ہوا پتھر لگانے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ ان کا تصور یہ تھا کہ عمارتوں میں تراشے ہوئے پتھر لگانا قوم کے اندر تن آسانی اور تعیش پسندی کے رحجان کی دلیل ہے۔اسی طرح اپنی آئندہ نسلوں کی صحت مندی کے معاملے میں ’ میں نے سنا ہے کہ وہ اس قدر حساس تھے کہ اس کے لیے انہوں نے بعض ظالمانہ طریقے بھی اختیار کر لیے تھے’ مثلاً یہ کہ وہ کمزور بچوں کو سرے سے زندہ ہی نہیں رہنے دیتے تھے۔

             ہمارے ہاں یعنی اسلام میں ’اولاد کی اصلاح و تربیت کا جو اہتمام رہا ہے اس کے لیے ’دوسری چیزوں سے قطع نظر اگر صرف قرآن ہی پر نظر ڈالیے تو اس کی اہمیت واضح کر دینے کے لیے وہ کافی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وصیت اپنی اولاد کو ’ حضرت اسحٰق علیہ السلام کی وصیت و نصیحت اپنی ذریت کو ’لقمان کی تلقین اپنے بیٹے کو ’ یہ ساری سرگزشتیں اسی لیے بیان ہوئی ہیں کہ ہم ان سے یہ سبق حاصل کریں کہ اچھے اسلاف کے نام اور کام اچھے اخلاف ہی سے باقی رہتے ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی سرگزشت پڑھیے تو دل تڑپ جاتا ہے کہ ان کو اپنے بیٹے کی نا اہلی کا کتنا غم تھا اور انہوں نے اس کی اصلاح و تربیت کے لیے کیا کیا زحمتیں اٹھائیں اور کس کس طرح اپنے رب کے آگے آہ و فغاں کی ۔

             یہ چیز بالکل فطرت انسانی ہے۔ افراد ہوں یا قومیں ان کا مادی اور معنوی وجود ان کے اخلاف ہی کے واسطے سے باقی رہتا ہے اور اس بقا کی خواہش ایک امر فطری ہے ۔ جس قوم کے اندر یہ خواہش مردہ ہو جاتی ہے یا اس کے لیے جو اہتمام مطلوب ہے’ وہ اس کے اندر باقی نہیں رہتا تو وہ قوم دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے ۔

             اس وجہ سے مبارک ہے وہ قوم جس کے ذمہ دار اجتماعی بقا کی اس رمز سے آشنا ہیں اور وہ آنے والی نسل کو ان عظیم ذمہ داریوں کے لیے تیار کر رہے ہیں جو ان کے کندھوں پر آنے والی ہیں۔ لیکن عزیز طلبہ اور طالبات’میں یہاں اجتماعیات کی ایک اور رمز سے بھی آپ کو آگاہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔وہ یہ کہ مستقبل کی ذمہ داریاں ’ بہر حال آپ کے کندھوں پر آنے والی ہیں اور مستقبل آپ کو اپنے باٹ اور اپنی ترازو سے تولے گا۔وہ اس معاملے میں کسی رو رعایت اور کسی عذرومعذرت کے قبول کرنے کا روادار نہ ہوگا۔اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کے لیے نا اہل ثابت ہوں گے تو وہ اس بنا پر آپ کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گا کہ آپ کے پچھلوں نے آپ کے معاملات میں اپنی ذمہ داریاں’ کما حقہ ادا نہیں کیں۔ انہوں نے ادا کیں یا نہیں کیں؟ یہ سوال خارج از بحث ہو جائے گا۔کسوٹی پر آپ ہوں گے ’نہ کہ ہم۔ فیصلہ آپ کی اہلیت و نا اہلیت کا ہوگانہ کہ ہماری۔ جواب دہ آپ ہوں گے نہ کہ آج کے لوگ۔اگر آپ نا اہل ثابت ہوں گے تو زمانہ آپ کے خلاف بے لاگ فیصلہ سنا دے گااور دنیا کے نقشے سے آپ کا وجود مٹ جائے گا ۔تلک امۃقد خلت لہا ما کسبت ولکم ما کسبتم‘‘یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا’اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہیں ملے گا جو کچھ تم نے کمایا۔’’ (البقرہ)

             اگر آپ یہ محسوس بھی کرتے ہیں کہ آج آپ کے ذمہ دار آپ کے حق کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے ’تب بھی آپ اپنے فرض کو پہچاننے کی کوشش کریں اور مستقبل میں اپنے بل بوتے پر اپنی بازی جیتنے کی تیاریاں کریں۔ لائق اولاد باپ کی کمزوریوں کو اپنی کمزوریوں کے لیے عذر نہیں بناتی’ بلکہ اپنی محنت و قابلیت سے اپنا نام بھی روشن کرتی ہے اور باپ کا نام بھی۔

             اگر آپ میرا نقطہ نظر اچھی طرح سمجھ گئے ہیں تو میں آگے بڑھتا ہوں اور یہ عرض کرتا ہوں کہ قوم کی خلافت و وراثت سنبھالنے کے لیے آپ کا مقدم فرض یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو’ہر اعتبار سے صحت منداور تندرست نسل بنانے کی کوشش کریں۔ ہر اعتبار سے صحت مند اورتندرست بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی ’عقلی’ایمانی اور اخلاقی تینوں ہی اعتبارات سے ’ جب تک ہمارے نوجوان تندرست نہ ہوں اس وقت تک ان کے اندر فتوت پیدانہیں ہوسکتی اور جب تک ان کے اندر فتوت پیدا نہ ہو’اس وقت تک وہ اس ملت کی خلافت و وراثت کے سنبھالنے کے اہل نہیں ہو سکتے ’ جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قوموں کی امانت کے منصب پر مامور فرمایا ہے۔ اب میں بالاختصار صحت کے ان تینوں پہلوؤں پر کچھ باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

صحت جسمانی

             جسمانی صحت کی اہمیت میرے نزدیک اس پہلو سے نہیں ہے کہ آپ کوئی بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے پہلوان یا گھونسا باز بن جائیں۔میں سانڈ اور کٹے کی صحت پر گفتگونہیں کررہاہوں’بلکہ انسان کی صحت پر گفتگو کر رہا ہوں ۔ انسان کے لیے صحت جسمانی کی اہمیت اس پہلو سے ہے کہ یہ چیز عقلی اور اخلاقی صحت کے لیے بمنزلہ بنیاد ہے۔ عقل کی نشوونما اور اعلیٰ اخلاقی و ایمانی تقاضے پورے کرنے کے لیے جسمانی صحت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ کمزور’ مریض اور ناتواں جسم کے اندر عقل بھی مریض و نا تواں ہوتی ہے اور ضعیف الاعضا اور ضعیف القویٰ لوگ ایمانی و اخلاقی تقاضے پورے کرنے میں بھی ضعیف ہوتے ہیں ۔ اگرچہ یہ لازم نہیں کہ جس کا جسم تندرست ہو اس کی عقل اور اس کا اخلاق بھی تندرست ہو۔ بہت سے لوگ جسماًبڑے تندرست ہوتے ہیں ’ لیکن عقلی اور اخلاقی اعتبار سے بالکل احمق اور سفلہ ہوتے ہیں’ تاہم یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ عقلی و اخلاقی تندرستی کے لیے جسمانی تندرستی بھی ضروری ہے ۔

             میں کوئی طبیب یا ڈاکٹر نہیں ہوں اور نہ میرے پیش نظر اس وقت صحت کے لوازم و شرائط پر کوئی خطبہ دینا ہے۔میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ جسمانی صحت کے لیے چند چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ۔ ان کا اہتمام حتی الامکان ہر شخص کے لیے ضروری ہے:

٭ سادہ اور ستھری غذا

٭ تازہ اور صاف ہوا

٭ محنت اور ورزش

٭ ضبط نفس

سادہ اور ستھری غذا

             جہاں تک سادہ اور ستھری غذا کا تعلق ہے’ اس کا اہتمام اگر آپ کے لیے بہت آسان نہیں تو زیادہ مشکل بھی نہیں ہے ’ بشرطیکہ آپ غذائیات کے متعلق کچھ علم اور تجربہ حاصل کرلیں اور اس کے لیے کچھ زحمت اٹھانے اور کچھ اہتمام رکھنے کی عادت اپنے اندر پیدا کر لیں ۔ آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ صحت کے لیے نہ بہت قیمتی غذا کی ضرورت ہے’نہ اس کے لیے تنوعات اور چٹخاروں کی احتیاج ہے۔اگر آپ غیر ضروری اور مضر صحت چیزوں کا استعمال ترک کر دیں اور چٹخاروں کے درپے نہ ہوں تو آپ میں سے ہر شخص اگر نہیں ’ تو اکثر لوگ باآسانی اپنے لیے صاف ستھری غذا کا اہتمام کر سکتے ہیں۔اگر آپ سادہ غذا اور سادہ لباس کو جماعتی حیثیت سے اختیار کرنے کا ولولہ اپنے اندر پیدا کر لیں تو آپ اس کو فیشن کی حیثیت بھی دے سکتے ہیں اور اس سے ہر شخص کی مشکل آسان ہو سکتی ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم کھانا تو مغلوں کے دورِ زوال کا پسند کرتے ہیں اور لباس انگریزوں اورامریکیوں کے دورِزوال کا۔ ہماری یہ زوال پسندی ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ آپ لوگوں نے تو تاریخ پڑھی ہے’ آپ کو معلوم ہوگا کہ مغلوں نے ایوان نعمت کے یہ دستر خوان جس وقت بچھائے ہیں ’ یہ تاریخ کا وہ منحوس دور ہے ’ جب انہیں دلی کا لال قلعہ انگریزوں کے لیے خالی کردینا پڑا۔ اس دستر خوان کے ساتھ ان کی حکومت کی بساط بھی الٹ گئی ۔ جس دور میں انہوں نے یہ تمام ممالک فتح کیے ہیں’اس دور میں تو ان کے نوجوانوں کا یہ حال تھا کہ وہ خشک گوشت کے ٹکڑے اپنے گھوڑوں کی زین کے نیچے رکھ لیتے۔ جب وہ گھوڑے کے پسینے سے کچھ نرم ہو جاتے تو جہاں بھوک لگتی اس کو چبا لیتے۔ اس غذا نے ان کے اندر یہ طاقت پیدا کی کہ انہوں نے جدھر کا رخ کیا’ ادھر کی دنیا الٹ دی۔ کم و بیش یہی حال انگریزوں کا بھی رہا ہے۔جس دور میں انہوں نے تمام دنیا کو زیرنگیں کیا ہے’ان کے نوجوانوں کی سخت جانی و سخت کوشی مثالی رہی ہے۔ یہ دور تو ان کے زوال کا دور ہے اور یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اس کو ان کی ترقی کا دور سمجھتے ہیں۔

تازہ اور صاف ہوا

             صاف ستھری ہوا کے لیے آپ صبح خیزی کی عادت پیدا کیجیے۔ صبح خیزی کی عادت ہمیشہ سے بیدار بخت لوگوں کی عادت رہی ہے۔آپ کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا وہ شعر یاد ہوگا’جس میں انہوں نے فرمایاہے کہ جس سحر سے شبستان وجود لرزتا ہے وہ طلوع آفتاب سے نہیں پیدا ہوتی ’بلکہ مومن کی اذان سے پیدا ہوتی ہے ’ اس اذان سے دنیا کو آپ ہی نے آشنا کیا’لیکن اب آپ خود اس کی لذتوں سے ناآشنا ہوگئے۔ سویرے اٹھیے’دوسروں کو خواب غفلت سے جگائیے’ خالق کائنات کی بندگی کیجیے اور پھر کھلے میدانوں اور چمنستانوں میں ’ جن کی آپ کے ہاں کمی نہیں ہے۔سیر کیجیے اور تازہ ہوا کا لطف اٹھایئے۔

ورزش اور محنت

             ورزش اور محنت کا مقصود اپنے آپ کوسخت کوش اور سخت جان بنانا ہے’تاکہ آپ چاق و چوبندر ہیں’سردی اور گرمی کو برداشت کر سکیں ’بھوک پیاس کا مقابلہ کر سکیں’وقت پڑنے پر سخت سے سخت مشقت جھیل سکیں۔ بہترین ورزش وہ ہے جو آدمی کو میدان جنگ کی سختیوں کے لیے تیار کرے۔ ہمارے اسلاف میں اسی قسم کی ورزش کا ذوق و شوق تھا۔ آپ بھی اپنے اندر اس کا شوق پیدا کیجیے’نزاکت عورت کے لیے حسن ہے’ لیکن نوجوان کے لیے اس سے بڑا کوئی عیب نہیں ۔

ضبط نفس

             صحت کے نہایت اہم لوازم میں ہے۔ جب تک آپ اپنی خواہشات ’اپنے جذبات اور اپنی شہوات پر قابو پانا نہیں سیکھیں گے’اس وقت تک ان تمام تدبیروں کے باوجود بھی’ جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے’ آپ حقیقی صحت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس زمانے میں ایسے نوجوان بہت کم نظر آتے ہیں جن کے چہروں پر فتوت کا جمال نظر آتا ہو۔معاف کیجیے گا میں آپ پر کوئی طعن نہیں کر رہا ہوں’ میرا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں نوجوانوں کو دیکھیے تو عام طور پر چہرے کملائے ہوئے’ آنکھیں دھنسی ہوئی’ رنگ اڑے ہوئے اور گال پچکے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کا سبب صرف یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں غذاخالص نہیں مل رہی ’بلکہ اس میں بڑا دخل ہے نگاہ کی آوارگی’ دل کی ہرزہ گردی اور جذبات و خواہشات کی بے راہ روی کا اور یہ چیزیں وہ ہیں’ جو نہ صرف غارت گر اخلاق و دین و ایمان ہیں’بلکہ غارت گر حسن و صحت بھی ہیں۔ اگر آپ اپنے جذبات و خواہشات کو ضبط میں رکھنا سیکھ جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ نانِ جویں کھا کر بھی آپ کے چہروں پر اس جمال فتوت کا عکس نظر آئے گا ’ جو علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تھا ۔

             میں جس جمال کا ذکر کر رہا ہوں اس کا تعلق جسم کی جلد اور اس کے رنگ وروغن سے نہیں ہے’ بلکہ اس کا منبع باطن کی صحت ہے جس کے باطن میں صحت ہوتی ہے ’ وہ ضابط نفس ہوتاہے۔ قرآن میں اس کے لیے‘ حصور’ کا لفظ آیا ہے۔اس صفت کے مدارج و مراتب ہیں’ لیکن باطن میں یہ نور اسی صفت سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ نور حضرت مریم اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کی وراثت ہے جس کے اندر اس نور کی کوئی جھلک ہوگی اس کی چمک اس کی پیشانی کے افق پر نظر آئے گی اور خوش قسمت ہے وہ نوجوان جو اس جمال یوسفی میں سے کوئی حصہ پائے۔ جن پیشانیوں پر اس جمال کی کوئی کرن ہوتی ہے’ اگر ان کا رنگ کالا بھی ہوتو وہ رشک آفتاب و ماہتاب ہوتی ہیں۔اصلی روحانی طاقت کا خزانہ بھی اسی ضبط نفس کے اندر ہے۔ جو اپنے نفس سے شکست کھا جاتا ہے’ وہ ہر ایک سے مار کھا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس جو اپنے نفس پر فتح پا جاتا ہے’وہ ہر میدان میں شیطان کو زیر کرتا ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں پہلوان وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ لے’ بلکہ اصلی پہلوان وہ ہے جو اپنے نفس کو پچھاڑ لے۔’’

عقلی صحت

             عقلی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ماضی و حاضر کے عقلی و فکری اندوختوں سے فائدہ اٹھائیں اور پھر اپنی عقل کو کام میں لا کر اس اندوختے میں اگر کچھ اضافہ کر سکیں تو اضافہ کریں۔ انسانیت کا اصل خزانہ’ در حقیقت یہی عقلی و فکری خزانے ہیں۔ اسی کے تحفظ’بقا اور ترقی کے لیے یہ کالج’ یونیورسٹیاں’ لائبریریاں اور تجربہ گاہیں قائم ہیں اور آپ’ درحقیقت اسی لیے اس جامعہ میں جمع ہوئے ہیں کہ آپ اپنی عقل کو درست کریں۔

             عقل انسان کے اندر خدا کا بخشا ہوا نور ہے۔ یہی چیز انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے ۔ دنیا میں ساری بہاراسی کی لائی ہوئی ہے۔انسانیت کے گل سر سبد وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عقلوں کو استعمال کیا’ اس لیے کہ آج انسانیت کے اندوختے میں جو کچھ بھی ہے انہی کا عطیہ ہے۔

             ان دانش وروں اورعاقلوں کی کوشش سے ہمارے علوم میں اب اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ کسی ایک انسان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ ان سب کا احاطہ کر سکے۔اگر آپ اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ کسی ایک فن میں کمال حاصل کر لیں اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ اس فن میں درجہ کمال سے آگے بڑھ کر درجہ اجتہاد حاصل کر لیں’ تاکہ آپ اس فن پر کچھ اضافہ کر کے’ اپنے بعد والوں کے لیے کوئی عملی وراثت چھوڑ سکیں۔ دنیا ہر لمحے ترقی کی طرف جارہی ہے’ اس کی ہم قدی کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان اس علمی و عقلی جدو جہد میں کسی سے پیچھے نہ رہیں’ورنہ انہیں ہر میدان میں پیچھے رہنا پڑے گا۔ اگر آپ میری اس بات کی اہمیت اچھی طرح سمجھ گئے ہیں تو لازم ہے کہ آپ دو باتوں کا اہتمام کریں۔

 علمی اور فنی چیزوں کا مطالعہ

             ایک یہ کہ آپ اپنے اوقات کا لمحہ لمحہ’ اعلیٰ قدرو قیمت رکھنے والی علمی و فنی چیزوں کے مطالعے پر صرف کریں۔ ادنیٰ درجے کی چیزوں پر اپنا وقت ضائع کرنا’اپنے اوپر حرام قرار دے لیں۔ تیسرے درجے کی چیزیں بھی آپ کے لیے اضاعت وقت کے حکم میں داخل ہیں۔ اس زمانے کے نوجوانوں کو جب میں سرسری ’سطحی اورعامیانہ چیزیں پڑھتے دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے۔ناقص اور بے مغز چیزیں پڑھنا’انسان کے لیے فاسد اور مسموم غذا سے زیادہ مہلک ہے۔اس زمانے میں پریس کی سہولت نے جس طرح علوم کے انبار لگا دیے ہیں ’ اسی طرح خرافات کے بھی انبار لگا دیے ہیں اور بد قسمتی سے ہمارے نوجوان اسی دوسری قسم کے انبار سے زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔اس پر مزید ستم یہ ہے کہ اس زمانے میں وہ لٹریچر بھی بہت بڑی مقدار میں شائع ہورہا ہے جو مولانا حالی کے الفاظ میں :عفونت کے لحاظ سے سنڈاس سے بھی بدتر ہے’اس قسم کی چیزیں کسی قوم کے نوجوان اس زمانے میں پڑھتے ہیں جب اس قوم کی موت کا وقت قریب ہوتا ہے۔آپ اپنی قوم کے لیے موت کے بجائے زندگی کے پیغام بر بنیں۔ اس معاملے میں آپ یورپ اور امریکہ کی قوموں کی ریس نہ کریں۔ قومی عروج و زوال کے فلسفے کی رو سے اب ان قوموں کا دم واپسیں ہے۔

فکری و عقلی تربیت

             دوسرے اس بات کا اہتمام آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس فکری و عقلی تربیت کے دور میں آپ اپنے دائرے کے باہر کے سیاسی معاملات و مسائل میں عملاً کوئی حصہ نہ لیں۔ اس دور میں آپ، ان میں عملاً کوئی حصہ لینے کے بجائے اپنے اندر ان میں حصہ لینے کی پختہ قابلیت پیدا کریں۔ کل ساری ذمہ داریاں آپ کے سر پر آنے والی ہیں۔آپ ہی یونیورسٹیوں اور کالجو ں کو سنبھالیں گے ۔آپ ہی اخباروں کے ذمہ دار ہوں گے۔ آپ ہی عدالتوں اور کچہریوں میں ہوں گے۔ آپ ہی قوم کے لیڈر ’اسمبلیوں کے ممبر’ صوبوں کے گورنر’ ملک کے صدر اور باہر کے ملکوں میں ملک کے نمائندے اور سفیر ہوں گے ۔ اونچی سے اونچی کرسی پر آپ ہی بیٹھیں گے اور ملک و قوم کی باگ آپ ہی کے ہاتھ میں ہوگی۔ان ذمہ داریوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں ۔ یہ تیاری کوئی آسان کام نہیں ہے کہ آج آپ کو پرائے جھگڑوں میں ٹانگ اڑانے کا موقع مل سکے ۔ آپ کو کوئی غلط فہمی نہ ہو ۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سیاست میں حصہ ہی نہ لیں ’ ضرور حصہ لیں’ لیکن یہ حصہ لینا فکری و نظری نوعیت کا ہو۔ آپ اپنے ملک کے معاملات و مسائل کو اچھی طرح سمجھیں’ان کے حل سوچیں اور ان کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں ’ لیکن ان میں عملی مداخلت نہ کریں ۔ خام کاروں کی مداخلت معاملات کو سنوارتی نہیں’بلکہ بگاڑتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر رحمۃاللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ بعض لوگ پکنے سے پہلے سڑ جایا کرتے ہیں ’ غالباًان کا اشارہ ایسے ہی لوگوں کی طرف ہوگا ۔ جو قبل از وقت اپنے آپ کو رموز مملکت کا ماہر سمجھنے لگتے ہیں اور قوم کے معاملات کو حل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ پکنے سے پہلے سڑنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

ایمانی و اخلاقی صحت

             سب سے پہلے اس بات کو یاد رکھیے کہ ایمانی و اخلاقی صحت’ عقلی صحت سے کوئی علیحدہ شے نہیں ہے بلکہ یہ اسی کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ جس طرح عقل’ انسانیت کا نور ہے’اسی طرح ایمان عقل کا نور ہے۔ جس طرح انسان کو حیوان سے ممیز کرنے کے لیے خدانے عقل عطا فرمائی ہے’اسی طرح عقل کو جلا دینے کے لیے خدا نے ایمان کی روشنی عطا فرمائی ہے۔ عقل بڑی نعمت ہے’ لیکن اس میں یہ نقص بھی ہے کہ وہ بسا اوقات اسی دنیا کی فانی اور محدود لذتوں اور کاوشوں میں گھر کر رہ جاتی ہے’ جس کے سبب سے وہ ان حقائق کو نہیں دیکھ پاتی جن پر انسانی زندگی کی ابدیت کی بنیادیں ہیں ۔ یہ ایک بڑا خطرناک نقص ہے ۔ اس کے سبب سے انسان کا زاویہ نگاہ بہت تنگ’ اس کے حوصلے بہت پست’ اس کی چاہتیں بالکل مادی اور سفلی اور اس کے اخلاق و اقدار بالکل خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ ہو کے رہ جاتے ہیں ۔

نور وحی

             عقل انسانی کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے ’ اللہ تعالیٰ نے وحی کا نور بھیجا ہے جو دنیا کو انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے ملا ہے۔ یہ نور عقل انسانی کی راہنمائی ’ ابدیت کی منزلوں کی طرف کر تاہے اور اس کو اس معراج پر پہنچاتا ہے جہاں فرش اور عرش دونوں کے ڈانڈے مل جاتے ہیں ۔ یہاں انسان اپنی حقیقی قدرو قیمت سے آشنا ہوتا ہے۔ اس پر یہ راز کھلتا ہے کہ وہ ایک ابدی وجود رکھتا ہے۔ اس کو یہاں مرنے کے بعد پھر جینا بھی ہے۔ اس کے اقوال’ اعمال اور عقاید’ سب ایک ابدی قدرو قیمت رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے اسے ان کو اسی دنیا کے نفع و ضرر کے محدود پیمانوں سے نہیں ناپنا تولنا چاہیے’ بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ اسے اسی حیات چند روزہ کے لیے نہیں جمع کرنا چاہیے بلکہ اصلی فکر اس حیات ابدی کے لیے ہونی چاہیے ’ جو شروع ہو کر کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔

             اس وحی الٰہی کا آخری اور کامل صحیفہ قرآن مجید ہے جس کا نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ اور جس کو لانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس وجہ سے آپ کو اپنی روحانی و ایمانی صحت کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ان سے روشنی حاصل کیے بغیر آپ کی عقل اس عالم فانی کی تنگنائے سے باہر نکل سکتی اور نہ آپ کے اخلاق و کردار میں آفاقیت و ابدیت پیدا ہو سکتی ہے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ صرف دنیا کی قوموں میں سے ایک قوم نہیں ہیں’ جس کو جغرافیے کی حد بندیوں نے پیدا کیا ہو’ بلکہ آپ خلافت الٰہی کے وارث’ خیر امت اور زمین میں خدا کے قانون عدل و قسط کے علمبردار اور گواہ ہیں۔آپ قوموں کے مقلد یا ان کے حریف نہیں ’ بلکہ اپنے منصب کے لحاظ سے ’ ان کے ہادی و مرشد ہیں ۔ آپ کو صرف اپنے ہی لیے نہیں جینا ہے بلکہ اس پوری خدائی کے لیے جینا ہے۔ آپ کی دنیا اسی عالم آب و گل تک محدود نہیں ہے’ بلکہ اس کے ساتھ ایک نا پیدا کنار عالم’ عالم آخرت بھی جڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے وہ محدود نگاہ’ جو ابھی تک چاند و مریخ تک بھی نہیں پہنچ سکی’ آپ کے لیے کافی نہیں ہے۔ بلکہ آپ کو، دنیا کو عرش کا بھی سراغ دینا ہے۔ اسی طرح وہ کردار جونسلی و قومی تعصبات کے خمیر سے پیدا ہوتا ہے’ وہ آپ کے شایان شان نہیں ہے بلکہ وہ کردارآپ کا حصہ ہے جس پر صفات الٰہی کا عکس اور نور محمدی کا جمال ہو۔

کتاب و سنت

             اسی کتاب و سنت کے تعلق اور فیض سے ہمارے نوجوانوں کے اندر وہ فتوت پیداہو گی’ جو حضرت علیؓ کے اندر تھی ۔ ہم مسلمانوں میں بوڑھوں کے لیے نمونہ صدیق اکبرؓ ہیں جن کو ذوشبہ المسلمین (مسلمانوں کے بڑے بوڑھے) کہا جاتا تھا۔ ادھیڑوں کے لیے مثال حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ ہیں۔ دونوں غازی’ دونوں فاتح’ دونوں شہید اور دونوں خدا کی زمین میں خدا کے قانون عدل و قسط اور حکومت الہیہ کے مظہر ہیں اور طالبات کے لیے مثال حضرت عائشہؓ ہیں ’ جن کے علم و عقل کا یہ عالم تھا کہ ان کی روایات اور ان کے اجتہادات پر ہماری فقہ کی بنیادیں استوار ہوئیں اور جن کے زہد و تقویٰ اور طہار ت کی شہادت قرآن نے دی۔

             آپ اپنے اندر یہ فتوت پیدا کیجیے’ یہ فتوت صرف جسمانی بلوغت’ خون کے ہیجان’رگ ،پٹھوں کی قوت اور مرغن غذاؤں سے نہیں’ بلکہ ضبط نفس’ عقلی صحت اور ایمانی و اخلاقی تندرستی سے پیدا ہوتی ہے۔ ہماری قوم کو آج سب سے زیادہ انہی اوصاف کی ضرورت ہے۔ آج ہم اپنے ملک میں جن چیزوں کی کمی سے دوچار ہیں یہ ساری کمیاں پوری ہو جائیں گی’لیکن جو اخلاقی زوال ہمارے ہر طبقے میں عموماً نوجوانوں کے طبقے میں خصوصاً نمایاں ہورہا ہے یہ وہ مرض ہے جو اگر جڑ پکڑ گیا تو اس کا علاج ناممکن ہوگا ۔ ہمارا حاضر جیسا بھی کچھ ہے لیکن مستقبل کا تمام تر انحصار آپ کی صلاحیتوں پر ہے۔

            میری دعا ہے کہ میری یہ معروضات آپ کے دل میں گھر کریں۔ آپ اپنے فرض کو پہچانیں اور آپ کے روز و شب آپ کے اشغال و معمولات اور آپ کے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلی نمایاں ہو جو آپ کے لیے دعا گو اور آپ سے امیدیں باندھنے والوں کو ایک روشن مستقبل کی نوید دے۔