سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، محمد عبداللہ بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اپریل 2005

جواب:  کسی بھی نیک کام کرنے کے بعد آپ کو اس کا جو اجر ملتا ہے، وہ ثواب کہلاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اچھے اور بھلائی کے کام کریں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ترغیب دینے کی غرض سے بعض مواقع پر اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان اور جمعہ کے دن کا ہے۔ ان میں آپ نیکی کرتے ہیں تو اس کا اجر آپ کو زیادہ ملتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اجر زیادہ اور کم اسی نیکی کا ہے ، جو آپ نے کی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے جو جرائم کیے ہیں، وہ بھی ختم ہوگئے۔ یہ نیکی ان فرائض کے برابر نہیں ہو گی، جن کو آپ نے پورا کرنا تھا۔ اگر کسی کے ساتھ آپ نے کوئی زیادتی کی ہو گی یا کوئی ظلم کیا ہو گا تو اس کی سزا آپ کوبھگتنا ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جو آدمی ناجائز کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس کوجان بچانی مشکل ہو گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی لوگوں کے حقوق نہیں دیتا تو وہاں اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوائے نیکیوں کے کہ ان سے تبادلہ کر لے۔ اگر کوئی لوگوں کو تنگ کرتاہے، طرح طرح کے جرم کرتا ہے اور اس کے بعد وہ نماز پڑھتا ہے۔ نماز سے جو اجر ملتا ہے، روزے سے جو اجر ملتا ہے، اس کا ثواب حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اس کی آپ کو عملی طور پر تلافی کرنی چاہیے، لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اصل میں آپ پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ یہ فرائض آپ پر خدا کے حوالے سے بھی عائد ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کے حوالے سے بھی۔ لوگوں کی یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنت اہلیت کے بغیر مل جائے گی، آپ پہلے اپنے آپ کو جنت میں جانے کا اہل ثابت کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے ساری زندگی بے شمار نمازیں پڑھی ہیں۔ کوئی لیلتہ القدر ایسی نہیں، جس میں اس نے عبادت نہیں کی، ہر سال حج کیا ہے۔لیکن ایک معصوم انسان کو قتل کر دیا ہے تو اس کا جنت میں جانے کا استحقاق ختم ہو گیا، اسی طرح ایک آدمی ظلم کرتا ہے، اس کے والد نے جو میراث چھوڑی، وہ اس کی صحیح تقسیم نہیں کرتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

            پہلا مسئلہ تو جنت جانے کے لیے اہل ثابت کرنا ہے۔جنت میں جانے کا اہل ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو جنت میں جانے سے روکے۔ میں نے آپ کو دو جرائم کی مثال دی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح قرآن میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ وہ آدمی جو تکبر کرتا ہے اور تکبر کی تعریف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ کسی صحیح چیز کے مقابلے میں انانیت کی وجہ سے ڈٹ جاتا ہے اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ داخل ہو سکتا ہے، وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔ اگر آپ لیلۃ القدر یا کسی اور رات میں بہت معافی مانگتے ہیں۔ بے شمار استغفار کرتے ہیں۔ آپ حج پر چلے جاتے ہیں، مگر آپ نے کسی کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے، جب تک آپ اسے مالک کو نہیں لوٹاتے، کیسی معافی اور کیسا ثواب؟

(جاوید احمد غامدی)

جواب: آپ کو صرف اس چیز کا اجر ملے گا جو آپ نے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کی ہو گی۔ یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے۔یعنی کہ آپ نے کسی کا روزہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے افطار کروایا ہے تو اجر ملے گا۔ سیاسی افطار پارٹیوں کی رسم جن لوگوں نے قائم کی ہے، ان لوگوں کے پیش نظر نہ اجر و ثواب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ثواب کمانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ کیا ان سیاسی افطار پارٹیوں میں ان لوگوں کو افطار پر بلایا جاتا ہے، جن کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ پہلے آپ یہ سوچیں کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی افطار پارٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے آدمی رمضان میں باہر چلا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ آدمی کس کو انکار کرے اور کس کو انکار نہ کرے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزے کی اصل حقیقت گم ہو گئی ہے۔ روزہ اس لیے تھا کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں، یعنی اپنے آپ کو حدود کا پابند کریں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مجسم بن کر رہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  غریب آدمی کے پاس بھی اتنے ہی مواقع ہیں، جتنے امیر آدمی کے پاس ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا کلمہ منہ سے نکالنا اور راستے سے کانٹے اٹھانا بھی بہت بڑی نیکیاں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  یہ نیکیاں الگ ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی تو وہ کئی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ پتا نہیں امیر آدمی زکوٰۃ، خیرات کرتا ہو، لیکن اس نے کتنے جرائم کیے ہوں، نیکی کمانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کودولت کا محتاج نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار راستے رکھے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جس نے کوئی کام محض اللہ کے لیے کیا ہو گا، اس کو صلہ ملے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس نے یہ کام کس کے لیے کیا۔ اگر کسی نے کام اللہ کے لیے کیا ہو گا تو اس کو اس کا اجر ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  اللہ تعالیٰ نے جتنی مہلت امتحان کے لیے دی ہے، اسی کی نسبت سے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ میں وہاں پر کسی سے ظلم نہیں کروں گا، دنیا میں بھی ایسا ہی ہے کہ ایک کو ہم امتحان کے لیے دو گھنٹے دیتے ہیں او ر دوسرے کو پانچ تو اس وقت کی نسبت سے ہم پیپر کے نمبر لگاتے ہیں۔دو گھنٹے کے پیپر کے بھی سو نمبر اور پانچ گھنٹے کے پیپر کے بھی سو نمبر۔ جب ہم درست اندازہ لگا سکتے ہیں تو اللہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جتنی مہلت اس نے آپ کو دی، اس میں آپ نے کیا کیا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  اگر وہ اس جذبے سے کرے کہ اگر میرے والدین ہوتے تو ان کی خدمت میں اسی طریقے سے کرتا۔ خدا کا بڑا کرم ہے کہ آپ کو ارادے پر نیکی ملتی ہے۔ اگر آپ نے خیر کا ارادہ کر لیا اور موقع نہیں ملا تو ثواب ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ لوگوں کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ احسان کریں،انسانو ں کے ساتھ آپ کا اخلاقی رویہ بنیاد ی کردار ادا کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ دونوں حقوق اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں، اللہ کا حق بھی کہ وہ ہمارا مالک ’خالق ہے اور بندوں کے حقوق بھی۔اللہ سے تو آپ معافی مانگ سکتے ہیں کہ وہ کریم ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ معاف کر دے۔ سوال یہ ہے کہ آپ بندوں کے ساتھ کیا کریں گے اور یہ بڑا نازک مسئلہ ہے۔ بندوں کا حق مارلینے کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ ہماری ساری نیکیاں ختم ہو جائیں۔ جس کے ساتھ ہم نے بد دیانتی کی ہے، جھوٹ بولا ہے، دھوکا دیا ہے، فریب دیا ہے، اس کو نقصان پہنچایا ہے، ملاوٹ کی ہے، بڑے بڑے حاجی اور نمازی جو ہیں بڑے اطمینان کے ساتھ ملاوٹ کرتے ہیں، بڑے اطمینان کے ساتھ لوگوں کو غلط چیزیں کھلاتے ہیں، فرض کریں کہ آپ نے کسی ایسی چیز میں ملاوٹ کی ہے جو لوگوں کی جان کے لیے نقصان دہ بن گئی ہے تو آپ کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم ہو گا۔ آپ دوا بناتے ہیں، دوا بناتے وقت ایسی چیز ڈال دی جو نقصان دہ ہے تو گویا آپ اس بندے کو قتل کرتے ہیں۔ اس کا مقدمہ قائم ہو گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یہ عورت بس اپنے فرائض ادا کر لیتی ہے، اس کے ہمسائے اس سے بہت خوش ہیں، عزیزوں سے بھی بہت اچھا سلوک کرتی ہے اور دوسری عورت کے متعلق کہا گیا کہ وہ بہت نمازیں پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے، مگر اس کے ہمسائے اس سے بہت تنگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول الذکر کو جنتی قرار دیا، اور دوسر ی کو جہنمی ۔ اس کا مطلب ہے، جو چیز فیصلہ کن ہوجاتی ہے، وہ آپ کا اخلاق ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  یہ تو آپ کی نیت پر ہے کہ آپ نے سمجھا کہ وہ مستحق تھا، اس نے ثابت کیا کہ وہ مجرم ہے، آپ نے تو نہیں کیا۔ آپ کا اجر’ آپ کی نیت اور آپ کے ارادے پر ہے، یہ کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں ملتا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جو ذکر و اذکار کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتا ہے، اس کے ایمان کا اظہار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اجر اسے ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جواری، شرابی ہونے کی وجہ سے پہلے وہ جہنم میں جائے گا، پھر اجر ملے گا۔ پہلے تو وہ گناہ معاف ہوں گے، جنت میں جانے کے لیے پہلے ان گناہوں سے بچنا ہے۔ جو لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں، ان کے لیے جنت ہے، پہلے تو آپ ان باتوں سے بچیں اور اگر کوئی کام کر بیٹھے ہیں تو توبہ کیجیے اور اگر کوئی زیادتی آپ نے کسی کے ساتھ کی ہے تو تلافی کیجیے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے بدکاری کی تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا جرم ہے۔ اس پر معافی مانگ لے تو ہو سکتا ہے کہ وہ کریم معاف کر دے، لیکن ایک شخص نے کسی آدمی کو مار ڈالا، کسی آدمی کا مال لوٹ لیا، کسی کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اس میں صرف توبہ کام نہیں کر سکتی۔ تلافی کرنا پڑے گی۔ آپ کو اس بندے کو راضی کرنا ہو گا۔ دنیا میں راضی کرنا پڑے گا۔ اگر موقع نہیں ہے تو قیامت میں راضی کرنا ہو گا۔اور وہاں نیکیاں دے کر راضی کرنا ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ بنیادی بات لوگوں تک پہنچانی چاہیے کہ جنت میں جانے کے لیے کچھ جرائم ہیں،جن سے بچنا ضروری ہے اور کچھ نیکی کے کام ہیں جن کا کرنا ضروری ہے۔

(جاوید احمد غامدی)