’’مان لینا‘‘

مصنف : اسلم نجمی

سلسلہ : گوشہ اطفال

شمارہ : مارچ 2005

            پیارے بچو!‘‘مان لینا’’ بظاہر چھوٹی سی بات لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ بہت بڑی بات ہے۔ممکن ہے بعض نونہالوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ یہ ‘‘مان لینا’’ کیا بات ہوئی تو ٹھہریے پہلے میں آپ کو اس کا مطلب سمجھاتا ہوں۔

            ہم اپنی روز مرہ زند گی میں گھر ’ سکول ’ بازار ’ کھیل کے میدان اور گلی محلے میں دوسروں سے ملتے ’ لین دین کرتے اور ایک دوسرے کی سنتے سناتے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالی نے ہر انسان دوسرے سے مختلف بنایا ہے ۔ ایک بچہ کچھ پسند کرتا ہے جبکہ دوسرا کچھ۔ اسی طرح بچوں اور بڑ وں کی سوچ اور پسند یانا پسند میں فرق ہوتا ہے۔ اس فرق و امتیاز کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان اختلاف ہو گا لہذا

            پہلی بات تو یہ ہم مان لیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہو سکتا ہے

             اور اکثر ہو گا۔لیکن اس اختلاف کی صورت میں ہم یہ مان کر گفتگو کر یں کہ غلطی ہم سے بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے کے ہاں کوئی نقص موجود ہو اور ہم یہ بھی مان لیں کہ اختلاف نہ تو غیر متوقع ہے اور نہ ہی یہ کوئی غیر فطر ی چیز ہے ۔دیکھیے یہ مان لینے سے ہمارے اختلاف کے باوجود ماحول خوش گوار رہے گا۔

            دوسری بات ہم یہ مان لیں کہ اگر غلطی ہمار ی ہوئی تو ہم اسے تسلیم کرنے میں کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کریں گے اور ساتھ ہی اس کی جس قد ر جلد ممکن ہو ’ اصلاح کی کوشش بھی شروع کر دیں گے ۔

            تیسری چیز ہم یہ مان لیں کہ اگر غلطی دوسرے کی ہوئی تو ہم اسے شرمند ہ نہیں کریں گے اور ایسے الفاظ اور ایسے پیرائے میں اسے سمجھانے کی کوشش کریں گے جس سے اس کی عزت پر بھی حرف نہ آئے اور ہماری بات بھی اس تک پہنچ جائے ۔ اور پھر ہم نماز پڑھ کر اللہ کے حضور اپنی اور اس کی اصلاح کی دعا بھی کریں گے۔

            پیارے بچو! یہ کچھ مان لینے کے بعد آپ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہو گا کہ ہمار ا اختلاف مخالفت نہیں بنا’ اختلاف کے باوجود ہمارے درمیان محبت کا رشتہ برقرار رہا اور ہماری اصلاح کا راستہ بھی ہموار ہو گیا۔