موت کے خونیں چُنگل میں

مصنف : محمد فاروق

سلسلہ : جسے اللہ رکھے

شمارہ : مارچ 2005

بریگیڈیر: محمد فاروق

ترجمہ: حسان عارف

ہمالیہ کی بلندیوں پر وادی نیلم کے طوفانی دھارے میں پاک فوج کے جوانوں کی بہادری’ ہمت اور موت و حیات کی کشمکش کی ولولہ خیز روداد اور اس کے ساتھ ساتھ جسے اللہ رکھے کی سچی داستان

             شعلے لپک رہے تھے، انگارے چٹخ رہے تھے، لوک گیتوں کی دھنیں عجب سماں پیدا کیے ہوئے تھیں اور انتالیس سالہ فقیر محمد خیمے کے سائے میں اکڑوں بیٹھا مستقبل کے حالات کی ڈوری سلجھا رہا تھا۔پاک فوج میں بائیس برس گزار کر وہ جے سی او کے عہدے تک پہنچ گیا تھا اوراس کے ساتھی اس پر اعتماد کرتے تھے۔ اب وہ پریشان تھا کہ ایک سپاہی کی تنخواہ میں اپنے چھ بچوں کو کیسے پال سکے گا؟ اس کی آرزو یہ تھی کہ وہ ایک قطعہ زمین خرید لے جو کئی نسلوں تک اس کی اولاد کی ملکیت رہے۔

              اس کی سوچوں کا تانا بانا اس وقت ٹوٹاجب بارش کے موٹے موٹے قطرے اس کے خیمے پر دستک دینے لگے۔ لگاتار طوفانی بارش نے اسے اور اس کے پینسٹھ فوجیوں کو ہمالیہ کے بلند ترین پہاڑوں میں نیکرن کے نزدیک روک رکھا تھا۔ ہر سال گرمیوں میں فقیر محمد کی کمان میں کام کرنے والے خچر سوار ان فوجیوں کو سامان کی سپلائی کرتے تھے جو بھارت سے ملحق پاکستان کے پہاڑی سرحدی علاقے میں مامور تھے اور اسوقت دریائے نیلم کی تنگ گزر گاہ پر اس جگہ کیمپ لگائے ہوئے تھے جہاں اونچے اونچے صنوبر اور بید مجنوں کے درخت تھے۔ یہاں سے چند فٹ دور ایک میڈیکل یونٹ اور ملیشیا کی ایک یونٹ مستقل طور پر تعینات تھیں۔ یہ 8ستمبر 1992ء منگل کا دن تھااور فقیر محمد کے ساتھیوں کی اس برف کے ساتھ دوڑ لگی ہوئی تھی ۔ جو جلد ہی اونچی چوٹیوں کو ڈھانپ لینے والی تھی۔

              ‘‘یہ بارش رکتی کیوں نہیں؟’’فقیرمحمد نے جھنجھلاہٹ میں کہا۔ نزدیکی خیمے میں اڑتالیس سالہ غلام حسین پرچی کھیل رہاتھا۔ صحت مند سپاہی سرد و گرم چشیدہ تھا اور کم عمر ساتھی اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔

              ‘‘چچا !بتاؤ’تمہارے خیال میں بارش کب رکے گی؟’’ایک فوجی نے سوال کیا۔

              ‘‘اس کی پروا نہ کرو۔’’ غلام حسین نے اس کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا:‘‘پہلے بھی بارش ہوتی رہی ہے اور بدستور ہوتی رہے گی۔’’

              ان فوجیوں میں سے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ دریا کے بالائی جانب پہاڑوں سے ایک بہت بڑے سیلاب کا ریلاچلا آرہا ہے۔ موسلا دھار بارشوں سے ندیوں میں طغیانی آچکی تھی۔اس وقت بپھرا پانی فقیر محمد کے کیمپ کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

              کپکپاتے ہوئے نوجوان سنتری محمد نذیر نے بارش کی تاریکی میں سے دور جھانکا۔ اسے نظر آیا کہ دریا کا پانی اب اس ہموار زمین پر چڑھنا شروع ہو گیا ہے جو کیمپ اور دریا کے کنارے کے درمیان واقع تھی اور جس پر فیلڈ اسپتال بنایا گیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو دلاسا دیا۔ تمام پرانے فوجیوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ اس کے علاوہ نذیر کو کئی اور فکریں تھیں ۔ اپنے خاندان کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کے باعث سنجیدہ آنکھوں والا یہ چھبیس سالہ نوجوان نو چھوٹے بھائیوں، ایک بہن اور ایک ماں کی کفالت کر رہا تھا۔اس نے چپکے چپکے دعا مانگنی شروع کر دی۔‘‘قل اعوذ برب الناس ملک الناس ....’’(کہہ دیجیے میں لوگوں کے رب اور ان کے بادشاہ کی پناہ طلب کرتا ہوں....)

              صبح ساڑھے پانچ بجے نذیر اور دوسرے سنتریوں کی گھبرائی ہوئی آوازوں سے لوگ جاگے۔ ‘‘ہمارا رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔’’فقیر محمد ایک صدمے سے چلایا۔ سیلاب کا پانی کیمپ میں داخل ہوچکا تھا۔کیمپ کی زمین اب ایک جزیرہ بن گئی تھی جوایک دریا کے کنارے سے چالیس گز دور بپھری ہوئی موجوں کے درمیان واقع تھا ۔ پہاڑی ڈھلانوں سے بہہ کر آنے والی ایک ٹن وزنی گیلیاں چارچار فٹ اونچی موجوں میں اس طرح بہہ رہی تھیں جیسے ماچس کی تیلیاں ہوں۔ سیلاب کے اس ریلے سے تیر کر نکل جانے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

              دریا کے کنارے مقامی ملیشیا والوں کی جماعت جمع ہوگئی۔ان میں ایک دبلا پتلاگہری آنکھوں والاپچیس سالہ نوجوان چودھری صدیق بھی تھا۔ پچھلے چھ سال سے اس نے ان ہی شمالی پہاڑوں میں اپنے آبائی گاؤں کے قریب ہی خدمات انجام دی تھیں۔ صدیق کا خواب پاکستانی کمانڈو فوج کا رکن بننا تھا۔

              لیکن یہاں صورتحال ایسی تھی کہ صدیق یا ملیشیا کے دوسرے جوان کچھ کر ہی نہیں سکتے تھے۔صدیق کا کمانڈر میجر عظیم خان خچر فورس کے کمانڈر سے اس وقت بھی ٹیلی فون پر یہ کہہ رہا تھا کہ بچاؤ کا کوئی اچھا سامان ان کے پاس نہیں اور اس مقصد کے لیے کوئی کشتی استعمال کی گئی تو گیلیوں سے ٹکرا کر اس کے پرخچے اڑ جائیں گے۔

              فقیرمحمد نے ریسیور رکھتے ہی نوجوانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیمے اکھاڑ کر جزیرے کے وسط میں زیادہ اونچی جگہ پر لگائیں۔ کچھ آدمیوں کو اس نے درختوں کے ساتھ ساتھ گیلیاں ڈھیر کرنے کو کہا تاکہ عارضی طور پر پانی کے لیے رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ کچھ لوگوں کو اس نے حکم دیا کہ وہ درختوں کے درمیان افقی رخ پر مضبوط رسے ڈال دیں اور دوسرے رسوں کو زمین پر لٹکتا چھوڑ دیں۔

              پانچ بجے شام ایک خوفناک بدشگونی ظاہر ہوئی۔ بالائی جانب سے مردہ جانوروں’ مکانوں اور پلوں کا ملبہ نیلم کے سیاہ پانیوں میں بہتا ہوا آن پہنچا۔ آہستہ آہستہ دریا کا پانی مزید چڑھتا گیا۔اور جوانوں کی گھبرائی ہوئی آوازیں بلند ہونے لگیں’جب وہ جانیں بچانے کے لیے خچروں کی کاٹھیوں’ پتھروں اور الٹی ہوئی کھرلیوں کے ڈھیروں پر چڑھنے لگے۔

              فقیر محمد نے دیکھا کہ صورتحال بے حد خطرناک ہوگئی ہے۔‘‘جوانو! اب یہ اپنے آپ کو بچانے کا وقت ہے۔’’وہ چلایا۔

              کچھ سپاہی سو سو فٹ بلند صنوبر کے درختوں کی طرف بھاگے۔ دوسرے بید مجنوں کے درختوں کی طرف گئے جن کی گھنی شاخوں پر چڑھنا آسان تھا۔ خود فقیر محمد ایک ہاتھ میں رسہ لیے سب سے بلند صنوبرکے تنے کے ساتھ جا لگا۔ جب تک اس کے تمام جوان درختوں پر محفوظ نہ ہوجائیں اسے اس وقت تک زمین پر ٹھہرنا تھا اگرچہ اب پانی اس کی ٹانگوں تک پہنچ گیا تھا۔

              غلام حسین نے ایک کمبل لیا اور درختوں کی طرف بھاگا۔ اسے ڈر تھا کہ وہ چڑھ نہ سکے گا ۔ساتھیوں نے اوپر سے آوازیں دیں:‘‘اوپر آجاؤ۔’’لیکن وہ ان کے لٹکے ہوئے ہاتھوں تک نہ پہنچ سکا ۔آخر کار غلام حسین ایک رسے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا جو درختوں کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔لیکن زمین سے چھ فٹ اوپر تھا ۔نڈھال ہو کر وہ رسے پر متوازن کھڑا ہوگیا ۔ اس نے کمبل کو ایک شاخ کے گرد لپیٹا اور پھر اسے اپنی کمر کے گرد باندھ لیا۔ ‘‘یا اللہ ! میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔’’ اس نے زیر لب کہا۔

              اب سیلاب کا پانی فقیر محمد کی کمر تک پہنچ چکا تھا۔جب اسے یقین ہوگیا کہ اس کے تمام جوان بڑھتے ہوئے سیلاب سے اوپر محفوظ ہو چکے ہیں۔ اس نے ٹیلی فون کا تار اپنے کندھے کے گرد لپیٹا اور درخت پر چڑھ کر شاخوں میں بیٹھ گیا۔ فقیرمحمد نے میجر خان کو رپورٹ دی کہ پانی کی سطح مزید بلند ہو رہی ہے۔ میرے لیے ایک ہی وقت میں ٹیلی فون اور درختوں کو پکڑنا مشکل ہو رہا ہے۔ اگر میں مر جاؤں تو میرے بیوی بچوں کا خیال رکھنا۔

              درختوں کے نیچے لکڑی کی گیلیاں سیلاب زدہ کیمپ کی ہر چیز کو بہا کر لے جارہی تھیں۔ خیمے اکھڑ گئے تھے۔ سپلائی کے کریٹ اور جوانوں کے خچر بہہ گئے تھے۔

              ساڑھے نو بجے رات ‘‘جزیرہ’’ پوری طرح پانی میں ڈوب چکا تھا۔ پانی کا درجہ حرارت بمشکل نقطہ انجماد سے اوپر تھا جبکہ بارش زدہ ہوا 4درجے سینٹی گریڈ سے ذرا اوپر تھی۔ ایک پتلے سے بید مجنوں کے درخت پر سیلابی پانی سے تین فٹ اوپر بیٹھا نوجوان سنتری محمد نذیر مایوس ہوگیا۔ اس نے سوچا:‘‘اب زندگی کی کوئی امید نہیں’میرے کنبے کا کیا بنے گا!’’

              دو درختوں کے درمیان لٹکے ہوئے رسے پر پُر خطر انداز میں اپنے آپ کو متوازن کرتے ہوئے غلام حسین نے محسوس کیا کہ پانی اس کے ٹخنوں کو چھو رہا ہے اور بڑھ کر اس کے گھٹنوں تک آیا چاہتا ہے ۔ جس درخت سے وہ چمٹا ہوا تھا’ بہتے ہوئے درختوں کے تنے اس سے ٹکرا رہے تھے اور صنوبر کا یہ درخت اب اپنی جڑیں ڈھیلی چھوڑ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک بہت بڑی گیلی اس درخت سے آ ٹکرائی۔ غلام حسین نے محسوس کیا کہ اب وہ درخت آہستہ آہستہ پانی میں گر رہا ہے۔ اس کے اوپر چڑھے ہوئے آدمیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ جوں جوں غلام حسین بپھری ہوئی سرد موجوں میں ڈوبنے لگا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ وہ سوچ رہا تھا اب وقت آخر ہے۔ حیرت انگیز طور پر درخت کی حرکت بند ہوگئی۔ جس رسے نے اس درخت کو بید مجنوں کے ساتھ باندھ رکھا تھااس نے اسے دھارے میں بہنے سے بچا لیااور درخت پانی کی سطح سے اوپر افقی حالت میں رک گیا۔ اس کے تنے کو اپنے حلقے میں لیے ہوئے غلام حسین پانی میں غوطے کھانے لگا۔ مایوسی کے عالم میں اس نے پوری توانائی صرف کر کے اپنے آپ کو پانی سے باہر نکالا اور تنے کے اوپر چڑھ بیٹھا۔ دوسرے ساتھیوں کی آوازیں تاریکی میں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بھی درخت پر قدم جمانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ‘‘ میں اس حالت میں مزید نہیں ٹھہر سکتا۔’’ایک جوان کی آواز آئی اور اس کے بعد خوفناک خاموشی چھا گئی۔ غلام حسین کودکھائی دے رہا تھا کہ اب موت کا سایہ اس کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

              طلوع آفتاب سے ذرا پہلے صنوبر کابڑا درخت جہاں کمانڈر فقیر محمد نے پناہ لے رکھی تھی۔ بہتی ہوئی بڑی گیلیوں کی زد میں آکر گر پڑا۔ جوانوں کی خوفناک چیخیں رات کی فضا میں ابھریں اور پھر کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی دریا کی گڑگڑاہٹ میں گم ہو گئیں۔ ایک ہی لمحے میں بیس جانیں موت کے آغوش میں چلی گئیں۔

              صبح چھ بجے بارش میں چودھری صدیق کی آنکھوں کے سامنے زمین پر ایک خوفناک منظر ابھرا۔ کچھ درخت تو بالکل غائب ہو چکے تھے۔ جو ہنوز کھڑے تھے ان پر کچھ فوجیوں کی لاشیں جنہوں نے ان کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا’ بے طرح لٹک رہی تھیں۔ سیلاب کے اترنے کے اب بھی کوئی آثار نہ تھے۔ صدیق کو معلوم تھا کہ ساتھیوں کی مدد کرنے کے لیے اسے کچھ اقدام کرنا ہے۔ اب وہ دل گرفتہ ہو رہا تھا کہ میرے کتنے بھائی سیلاب کی نذر ہو گئے۔

              چاشت کے وقت دریا کے کنارے ملیشیا کے لوگوں نے دو جوانوں کو عالم یاس میں دیکھا جو ان کی آنکھوں کے سامنے پانی میں پھسل کر موت کے منہ میں جا پڑے ۔ملیشیا والوں نے تختے جوڑ کر ان کے ذریعے جوانوں تک پہنچنے کی کوشش کی تو تھوڑی دیر کے لیے ان کی امیدیں ہری ہوگئیں’ لیکن موجیں اتنی سرکش تھیں کہ انہوں نے تختے ڈبو دیے اور وہ لوٹ جانے پر مجبور ہو گئے۔

              میجر خان نے 29میل دور کیل میں تعینات علاقائی کمانڈر بر یگیڈئیر قادر کو ٹیلی فون پر بتایا:‘‘ سب امیدیں ختم ہو چکی ہیں’ سرکش پانی سے بچاؤ کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔’’ ‘‘پاکستان میں صرف ایک آدمی ایسا ہے جو اب ہماری مدد کر سکتا ہے۔’’ بریگیڈئیر نے جواب دیا۔

……٭……

              کرنل ذکاء اللہ بھنگو نے ایک دن اپنے دو بیٹوں کے ساتھ راولپنڈی میں گزارنے کا پروگرام بنایا تھا۔ جب اس کو ٹیلی فون پہنچا، وہ ایک آہ بھر کر چونک اٹھا۔ دوسری طرف بریگیڈئیرقادراسے خچر یونٹ کے سیلاب میں پھنس جانے کی خبر دے رہا تھا۔‘‘دریا کا پانی چڑھ رہا ہے اور یہ جوان خوراک اور پانی کے بغیر چھتیس گھنٹے گزار چکے ہیں۔ تمہارے سوا اب ان کو کوئی نہیں بچا سکتا۔’’قادر نے کہا۔

              47سالہ گھنی مونچھوں والا بھنگو پاکستا ن آرمی کا سب سے زیادہ تجربہ کار ہیلی کاپٹرپائلٹ تھا۔ وہ دور دراز شمالی وادیوں میں ہیلی کاپٹراڑاتا رہا تھا اور پہاڑی چوٹیوں کو دیکھتے ہی پہچان سکتا تھا ۔‘‘ایک رسے کی سیڑھی ہمارے لیے تیار رکھو۔’’ کرنل نے جواب دیا۔

              تیس منٹ میں وہ اور اس کا ساتھی پائلٹ 38سالہ میجر شاہد رانا’ پوما ہیلی کاپٹر میں بیٹھ چکے تھے اور اب تیزی سے گہرے طوفانی بادلوں سے بچ کر جنگل سے اٹی ہوئی پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کیل پہنچ کر بھنگو اترا۔ رسے کی سیڑھی لی اور فوراً ہی کیمپ کی جانب پرواز کر گیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر رات ہوگئی تو گھرے ہوئے جوانوں کو دیکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

              چار بجے شام میجر شاہد رانا نے پوما کا رخ دریا کے اس کنارے کی طرف موڑا جہاں ملیشیا والے جمع تھے۔ بھنگو نے باہر لٹک کر ان سے کہا:‘‘ ہمیں رسے کو تناہوا رکھنے کے لیے وزن کی ضرورت ہے۔ تم میں سے کسی ایک شخص کو رسے کی سیڑھی کے دوسرے سرے پر لٹکنا ہوگا۔ مجھے ایک رضاکار کی ضرورت ہے۔’’

              چودھری صدیق کو کبھی ہیلی کاپٹر پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا’ لیکن اس نے 36گھنٹوں سے درختوں میں پھنسے ہوئے جوانوں کی مصیبت برابر دیکھی تھی جو اب کمزو ر سے کمزور تر ہو چکے تھے۔ صدیق کے دبلے پتلے جسم نے زندگی بھر کشمیر کی بے وفا چوٹیوں کے درمیان آتے جاتے ایک طرح کی سختی پیدا کر لی تھی۔ اس نے سوچا:‘‘ قدرت نے مجھے قوت دی ہے اگر اسے کام میں لا سکا تو میں ان لوگوں کو ضرور بچاؤں گا۔’’ وہ ساتھیوں سے آگے بڑھ کر اٹینشن کی حالت میں کھڑا ہوگیا۔‘‘جلدی کرو’ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں !’’ بھنگو گرجا۔

              صدیق نے رسی کے ایک حلقے میں اپنی ٹانگیں پھنسا دیں اور اس کے ساتھ لٹک گیا۔ ہیلی کاپٹر فوراً ہی اوپر اٹھا۔ چند منٹ بعد غلام حسین نے دیکھا کہ سیڑھی صدیق کو اٹھائے ہوئے ان آدمیوں کے پاس آپہنچی جو گیلی پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے۔ اس کی خواہش تو ہوئی کہ وہ سیڑھی کو فوراً تھام لے مگر وہ جانتا تھا کہ اس کا فرض یہ دیکھنا ہے کہ پہلے کم عمر جوان وہاں سے نکلیں۔ جب صدیق اور زیادہ قریب ہواتو غلام حسین چلایا:‘‘جلد بازی مت کرو’ تم بھی گر سکتے ہو۔’’

              صدیق کو معلوم تھا کہ اگر اس کا توازن برقرار نہ رہا تو وہ بھی ایک لمحے کے اندر موت کی آغوش میں جا سکتا ہے۔ جھولتے ہوئے رسے میں اپنے گھٹنوں کو پھنسائے ہوئے اس نے سیڑھی کے اندر سے اپنے بازو پھیلائے اور کہا کہ باری باری میرا ہاتھ پکڑو ۔ پھر ایک ایک کر کے اس نے آدمیوں کو اٹھایا جو سیڑھی کے رسے میں اپنے پاؤں پھنسا لیتے۔ ہیلی کاپٹر اوپر اٹھتا اور ان کو خشک جگہ اتار آتا۔ ایک وقت میں ایک یا دو تین آدمی طوفانی لہروں سے نکل پاتے۔

              آخر کار غلام حسین کی باری آئی۔ جب سیڑھی اس کے آگے ڈالی گئی تواس نے بڑی کشمکش کر کے اپنا زخمی بازو اٹھایا۔ بڑی مشکل سے وہ رسے کو پکڑ سکا ۔ جب اس کابدن ہوا میں اٹھا وہ نیم بے ہوش ہو چکا تھا اور جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ ایک اسٹریچر پر پڑا تھا۔‘‘حوصلہ رکھو’اب تم محفوظ ہو۔’’ ایک آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

……٭……

              بھنگو نے صدیق کو اشارے سے متوجہ کیا اور ہیلی کاپٹر کی گڑ گڑاہٹ میں اس کی آواز آئی:‘‘تم اب تھک چکے ہوگے۔ اب ہم ایک اور تر و تازہ جوان کو بھیجتے ہیں۔’’

              ‘‘نہیں۔ میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔’’ نوجوان صدیق نے جواب دیا۔

              بھنگونے اس کو شاباش دی۔‘‘صدیق جیسا حوصلہ کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا۔ ٹھیک ہے پھر ہم اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔’’ کرنل نے کہا۔

              ہیلی کاپٹر کے بہت نیچے صدیق ان تھک طریقے سے کام میں مشغول رہا۔ باقی جوان گہرائی میں درختوں کے اندر پھنسے ہوئے تھے۔ بسا اوقات ایک ایک آدمی تک پہنچنے کے لیے دس دس ،بارہ بارہ مرتبہ

              کو شش کرنا پڑتی۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے تھے جو کمزور شاخوں کا سہارا چھوڑنے سے بھی ڈرتے تھے۔بھنگو کاک پٹ سے باہر جھک جھک کر اپنے ساتھی پائلٹ کو صحیح پوزیشن پر لے جاتا۔ مضبوط اعصاب والا میجر رانا بلند ترین درخت کی چوٹی پر ہیلی کاپٹر کو معلق کیے ہوئے تھا۔ وہ ٹہنیوں کو اتنا نیچے دباتا کہ سیڑھی نیچے پھنسے ہوئے آدمی تک پہنچ جاتی۔

              ‘‘خوف مت کھاؤ۔’’صدیق جب جوانوں تک پہنچتا تو چلا کر ان سے کہتا ۔ ایک ایک کر کے اس نے جوانوں کو سیڑھی پر آنے میں مدد دی۔ اب صرف محمد نذیر رہ گیا تھا۔ وہ شاخوں میں بہت نیچے درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور پوری طرح نظر نہیں آرہا تھا۔ ‘‘ڈرومت۔ میں تمہیں پکڑ لوں گا۔’’ صدیق نے کہا۔اپنے وزن کو پنڈولم کی طرح استعمال کر کے صدیق نے سیڑھی کو جُھلا کر اتنی حرکت دی کہ وہ شاخوں کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ بار بار ایسا ہوتا کہ نذیر سیڑھی کو پکڑنے کے قریب ہوتا لیکن وہ شاخوں میں الجھ کر اس کے ہاتھ سے پھر پھسل جاتی۔ ادھر صدیق کا حال یہ تھا کہ وہ اب صرف اپنی حوصلہ مندی سے لٹک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پیر تھکاوٹ اور سردی کے باعث اکڑ گئے تھے۔ تاہم وہ اپنا کام کرنے کا عزم کیے ہوئے تھا۔ آخر کار صدیق نے سیڑھی کو جُھلاتے ہوئے خود شاخوں کو پکڑ لیا اور لٹک کر نذیر کے پھیلائے ہوئے بازو کو کھینچا۔ نذیر نے اپنا درد کرتا ہوا بازو بمشکل سیڑھی میں ڈالا اور پھر سیڑھی ان دونوں کو لیے ہوئے پانی کی سطح پر جھولنے لگی۔ خوف زدہ نذیر نے روتے ہوئے کہا:‘‘یا اللہ! تونے مجھے بچا لیا ہے۔’’

              جب آخری جوان بھی بچا لیا گیا تو صدیق کے ساتھیوں نے اس کو رسی سے اتارا۔ لٹک لٹک کر اس کی آنکھیں خون سے سرخ سو چکی تھیں جبکہ چہرے پر مردے کی طرح سفیدی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے دانت سردی سے بج رہے تھے اور اس کے قابو میں نہیں تھے۔ صدیق نے جب کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اس کی آواز بمشکل نکلی:‘‘میں بالکل ٹھیک ہوں۔’’ یہ کہتے ہوئے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کو فوراً اٹھا کر کمبل میں لپیٹا گیا۔

              ہیلی کاپٹر کی اس پر عزم ٹیم نے کل چونتیس جوانوں کو سیلاب سے نکالا۔ فوجی ڈاکٹر کی رائے یہ تھی کہ اگر یہ لوگ ایک رات اور سردی میں گزار لیتے تو ان میں سے کوئی بھی بچ نہ سکتا۔

……٭……

              محمد نذیر اور غلام حسین اب بھی خچر رجمنٹ کے ساتھ کشمیر کی پہاڑیوں پر چڑھتے ہیں۔ فقیر محمدمرحوم کی پنشن اس کی بیوہ کو وہ قطعہ زمین خریدنے کے قابل کر دے گی جو اس کی زندگی کا ایک خواب تھا۔ ذکاء اللہ بھنگو اب ترقی پاکر بریگیڈئیر ہو چکا ہے۔ اور چودھری صدیق کا وہ خواب پورا ہو چکا ہے کہ وہ پاکستان آرمی کے کمانڈوز میں شامل ہو جائے گا۔

(ماخذ: ریڈرز ڈائجسٹ)

……٭……