سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، محمد عبداللہ بخاری)

مصنف : مولانا عبدالماجد دریا آبادی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2005

جواب: سوال پیدا صرف اس بنا پر ہو ا کہ قرآن مجید کا مزاج پوری طرح سائل کے ذہن نشین نہ رہا ۔ اس کو تازہ مستحضر کرنے کے لئے کچھ اور سوالات ذہن کے سامنے آنے بہتر ہوں گے ۔قرآن مجید میں جانوروں کے حوالے سے گائے ،اونٹ ،بندر ،بھیڑ،بکری ،شیر اور بھیڑئیے اور ہاتھی وغیرہ کاذکر ہے ۔مگر نیولے ،بلبل، بھینس،گورخر ،گینڈے ،طوطے ،لومڑی، ریچھ اور شتر مرغ کاذکر کیوں نہیں ؟

            پھلوں میں ذکر انار ،کھجور ،انگور کا آیا ہے، مگر آم ،املی ،تربوز ،خربوزے ،سردے، سنترے کا کیوں نہیں آیا ؟

            ملکوں میں صراحت کے ساتھ نام صرف مصر، بابل،روم کا آیا ہے، عراق،افغانستان ،ایران، ہند،چین ،روس ،جاپان کا نہیں آیا ؟ اور شام و حجاز کا تذکرہ صرف اشارہ و کنایہ میں کیوں آیا ہے ؟فاتحوں اور کشور کشاؤں میں ذکر ذوالقرنین ،طالوت ،فرعون کا آیا ہے ۔داراو جولیس سیزر اور راون کے نام کیوں نہیں آئے ؟

            اسی طرح کے سوال ایک دو نہیں ، بیسیوں اورپیدا ہو سکتے ہیں ۔لیکن ایک کھلا ہوا جواب تو یہی ہے کہ مثلاً اگر کچھ اور ملکوں کے پیغمبروں کے نام بھی لے دیئے جاتے ،تو انہیں چند ملکوں کی تخصیص کیا تھی اور پھر یہ سلسلہ آخر ختم کہاں ہوتا ؟ ہند کے پیغمبروں کے نام اگر آتے توپھر چین کے کیوں نہ آتے اور جاپان کیوں محروم رہ جاتا ! اور پھر امریکا نے کیا قصور کیا تھا ؟ غرض دنیا کے ملکوں کی تعداد یوں ہی کیا کم تھی اور پھرویسے بھی تقسیم کا دور دورہ ہے ،ایک ایک ملک کے ٹکڑے ہو کر اور کتنے نئے ملک بنتے جاتے ہیں ۔اور نئے جزیرے نکلتے آتے ہیں ۔خود ہندوستان کے اندر ہی کتنے مستقل حصے ہیں ۔اب ان سب کو سمیٹنا کیونکر ممکن تھا ۔ اور پھر بعض کو لے لینا اور بعض کو چھوڑ دینا کس اصول انتخاب پر مبنی ہوتا؟

            اصل یہ ہے کہ قرآن اپنی نوعیت ہی میں دنیا کی یکتا ومنفرد کتاب اور ایک ہی وقت میں ایک عالمگیر اور آفاقی کتاب بھی ہے ، ہر ملک ہر زمانے کے لئے اور دوسری طرف اس کی مخاطب ایک متعین زمانے کی متعین قوم رہی ہے ۔یعنی شروع ساتویں صدی عیسوی کی قومِ عرب ۔

            اس کی اس دوگانہ حیثیت کو نباہنے کی کیا صورت تھی ،بجز اس کے کہ پورا اور کھلا ہوا لحاظ تو اس قوم کا رکھا جائے جو اس کے اولین اور براہِ راست مخاطب تھی ۔تشبیہات میں ،تمثیلات میں ،حکائتوں میں ،پوری رعایت قوم ِ عرب ہی کے مذاق و معلومات کی کی جائے اور اصل احکام کے سوا ،کوئی تذکرہ ضمنا ً بھی ایسا نہ آنے پائے جس سے سننے والے کسی نئی الجھن میں گرفتار ہو جائیں اور اسی کے متعلق سوال و جواب میں پڑ جائیں ،ساتھ ہی عبارت میں لچک اتنی ہو اور کلی اور اصولی اثبات ایسے امور کا بھی اشارۃً و کنایتہ کر دیا جائے ،جس سے حسب ضرورت و موقع دوسری قومیں اور آئندہ زمانے کی نسلیں مستفید ہو سکیں۔

            اس دشوار ترین حقیقت کا نباہنا آسان نہ تھا اورقرآن کے معجزہ ہونے پر یہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ قرآن نے اسی نا ممکن کو ممکن کر دکھا یا ہے ۔

ہیئت فلکیات کے سارے مسئلے اصول کے تحت میں آ جاتے ہیں ۔ چاند سورج تارے ،زمین ان سب کی ہیئت و حرکت وغیرہ سے متعلق قرآن نے ظاہری الفاظ وہی استعمال کیے ،جو عرب کے معلومات و معتقدات کے مطابق تھے ، اور ان کے خیالات کو ٹھیس نہ لگنے دی ، لیکن ساتھ ہی انہیں لفظوں اور ترکیبوں کے پیچھے ایسی وسعت بھی رکھ دی کہ وہ ہر زمانے کی تحقیق علمی کا ساتھ دے سکے ۔بلاغت قرآن کے اس اعجاز کو اگر نظر میں رکھ لیا جائے تو بہت سے سوالات جو قرآن پر آج وارد ہوتے ہیں ،از خود ساقط ہو جائیں ۔

            پیغمبروں کے تذکرے بھی اسی قبیل سے ہیں ۔قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکرصرف انہیں کا کیا ، جن کا تعلق عرب و نواح ِعرب سے تھا۔ اور جن سے قرآن کے مخاطبین اول خوب واقف تھے اور جن کے نام سے انہیں کسی نئی الجھن یا پریشانی کا سامنا نہیں ہوسکتا تھا ۔اور باقی دنیا کے لئے اجمالاً صرف اتنا بتا دیا گیا کہ رہبرو رہنما ،ہر ملک ،ہر قوم میں بھیجے گئے ہیں اور اب چونکہ کوئی بھی حکم ِ شریعت موقوف ان لوگوں کی ہدایات پر نہیں ۔اس لئے ان کی تفصیل میں جاناخلاف حکمت ہی ہوتا ۔

            اصل سوال سے الگ عرض یہ ہے کہ قرآن مجید دعویٰ نہیں کرتا کہ ایک قوم میں نبی ورسول اصطلاحی معنیٰ میں بھیجے گئے ہیں ۔ البتہ اس نے یہ کہا ہے کہ مصلح یا ہادی یا پیغام رسانی کے وجود سے کوئی قوم محروم نہیں رہی ہے ۔اصطلاحی رسول ایک مخصوص عہدہ یا مرتبہ کا نام ہے ۔یہ ہر گز ضروری نہیں کہ اس کا وجود ہر ملک و قوم میں ہوا ہو۔

(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )

جوابات:

(۱) اسلامی ثقافت کا بڑا دائرہ ہے ۔اس کے اندر چھوٹے چھوٹے دائرے ہر ملک کی ثقافت کے علاقائی خصوصیات کے لحاظ سے آسکتے ہیں ۔مصری اسلامی ثقافت ،ایرانی اسلامی ثقافت۔ پاکستانی اسلامی ثقافت کے معنی ہوں گے کہ وہ ہے تو اصلاً اسلامی ہی ثقافت، لیکن پاکستان کے مقامی خصوصیات سے متاثر۔

(۲) علاقائی ثقافتوں کے جتنے بھی اجزا’ اسلامیت کے منافی نہ ہوں اور اس کے اندر سمیٹے جا سکتے ہوں ، سمیٹ لیے جائیں۔اور اس طرح ہر مسلم ملک کی اسلامی ثقافت دوسرے مسلم ملک سے کسی قدر مختلف ہوگی ۔ لیکن غالب جزو مشترک ہو گا۔

(۳) اصلی اور سب سے بڑا خطرہ ہی ایک ہے ، جس سے سارا عالم دو چار ہے ۔یعنی وہی فتنہ جسے تہذیب فرنگ کہا جاتا تھا،اب سارے عالم کو محیط ہوتا جا رہا ہے۔کیا یورپ اور کیا ایشیا اور کیا افریقہ اور عالم ِ اسلام بھی کہنا چاہیے کہ پوری طرح اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔فتنہ کا مقابلہ آسان نہیں ۔پاکستان جماعتِ اسلامی اس کام کو کہیں زیادہ قوت و کامیابی کے ساتھ انجام دے سکتی تھی ۔انتہائی قلق ہے کہ سیاسی اقتدار کے پھندے میں پھنس کر اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع کر دیں ۔

(۴) اصل و جوہر کے لحاظ سے یقینا حریف ،البتہ بعض جزئیات میں حلیف بھی بنایا جا سکتا ہے ۔

(۵) عموماً و بیشتر یہ رحجانات اسی فرنگیت کے پیدا کردہ ہیں۔فتنہ کا کہنا چاہیے کہ سب سے بڑا علم بردار گروہ مستشرقین ہے ۔اس کی نیت جو کچھ بھی ہو، بہر حال عملاً صورتحال یہ ہے کہ وہ بے شمار دولت و مال سے اور اپنے ہزار ہا ہزار کارکنوں کو لگا کر پچاسوں ،سیکڑوں ،کالج اور انسٹی ٹیوٹ اوریونیورسٹیاں ہربر اعظم میں کھلواکر اسلامیت کی جڑ براہِ راست کھوکھلی کر رہاہے ۔اس کا توڑ صرف یہ ہے کہ ہم بھی اسی قوت اور زور و تنظیم سے کام لے کر عالمی پیمانہ پر اپنے مبلغ ان سے زیادہ پیدا کریں ۔ اور تحریر،تقریربلکہ ہرمیدان میں ان سے بازی لے جائیں۔

(۶) ایک کام تو یہی ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کو دینی علمی ،تعلیمی ،تہذیبی خدمات کے لئے از سر نو زندہ کیا جائے ۔اور اس کے ذریعے سے دنیا کے ہر ہر گوشہ میں ہر علم اور ہر فن کے اندر اسلامیت کی روح داخل کر دی جائے۔ (صدق جدید 27مئی 1967)

(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )

سوال: ایک صاحب جو اسلامی تاریخ پر عبور رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مُصر ہیں کہ کسی دور میں بھی مسلمانوں نے معاشرتی لحاظ سے اپنے آپ کو نہ علیحدہ رکھا اور نہ تو اسلامی ثقافت و تمدن مسلمانوں کی مخصوص چیز رہی ۔ان کا ارشاد ہے کہ جب عرب مسلمان افغانستان یا صوبہ سرحد گئے ۔وہاں اپنے لباس کی جگہ شلوار وغیرہ پہننی شروع کی ۔انڈونیشیا یا ہندوستان آئے تو وہاں دھوتی باندھنی شروع کی ۔اور جب سمر قندوبخارا گئے وہاں وسط ایشیا کے صدیوں پرانے رواج کے تحت سر پر ٹوپی پہننی شروع کی ،غرض یہ کہ مسلمان جہاں گئے دوسروں کے رسم و رواج اور تمدن و ثقافت کو اپنایا یعنی ان کے نزدیک اسلامی ثقافت و تمد ن کوئی چیز نہیں ۔بلکہ عقائد کو چھوڑ کر مسلمانوں نے ہرملک کے تمدن کو اپنایا۔کیا یہ نظریہ حقائق پر مبنی ہے ۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ فکری ، تمدنی، معاشرتی اور مذہبی تضاد نے یہاں برِ صغیر ہندو پاکستان میں مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کو ختم نہیں کیا ۔ اور غالباً یہ ہی عظیم تضاد ان کے لیے ایک علیحدہ مطالبہ کا پیش ِ خیمہ ثابت ہوا ۔آپ اپنی محققانہ رائے گرامی سے اس معاملہ میں روشنی ڈالیں ۔

جواب: دونوں دعوے اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ۔اور دونوں کے درمیان جو نقیض نظر آئی ہے وہ صرف ظاہری اور لفظی ہے ۔

            مغالطہ لفظ ‘‘ثقافت’’ کے دہرے مفہوم سے پیدا ہوا ہے ۔ایک ثقافت وہ ہے ،جس کا تعلق عقائد ، اخلاق ، دینیات سے ہے ۔وہ ملتِ اسلامی یا امتِ اسلامی کے ساتھ مخصوص ہے ۔خواہ وہ امت کہیں اور کسی زمانے میں ہی بنی ہو ۔بت پرستی کی ہر صورت سے گریز، بلکہ جس میں شائبہ اور شبہ بھی بت پرستی کاپا یا جائے ۔مثلاً تصویر یا شبیہ اس سے بھی گریز۔ایسے لباس سے احتیاط ،جس میں جسم کا کوئی ضروری حصہ کھلا رہ جائے ۔عورتوں کے لئے ایسے لباس کی ممانعت جو جھلی کی طرح باریک ہو ۔مرد کو ایسے لباس سے پر ہیز (مثلاً ریشم ) جس سے بڑائی یا عیش پسندی ٹپکتی ہو۔ مرد و زن کے بے تکلفانہ اختلاط کی حرمت ،بازی لگا کر کھیلنے والے کھیل تماشوں سے احتراز ،قبروں پر چڑھاوے نذرانے سے اجتناب ،یہ چند مثالیں اسلامی ثقافت کی ہیں ۔مسلمان یورپ کا ہو یا آسٹریلیا کا ، افریقہ کا ہو یا امریکا کا اور کسی دور کا بھی ،اس کی تہذیب و ثقافت کالازمی جزو اس قسم کی ساری احتیاطیں اور پابندیاں ہیں ۔ ثقافت کی دوسری قسم میں وہ چیزیں داخل ہیں ۔ جن کا تعلق عقائد ،اخلاق اور دینیات سے نہیں بلکہ تمام تر ملک کی آب و ہوا اور دوسرے رسم ورواج سے ہوتا ہے۔ مثلاً لباس کی وضع قطع، زبان اور رسم خط، علوم و فنون ، صنعتیں حرفتیں وغیرہ۔ یہاں اس دائرے میں ثقافت مقامی ہے اور اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )