وہ درد ناک انجام سے دوچار ہوا

مصنف : ڈاکٹر عبدالغنی فاروق

سلسلہ : مکافات عمل

شمارہ : فروری2015

مکافات عمل
وہ دردناک انجام سے دوچار ہوا
ڈاکٹرعبدالغنی فاروق
حاجی خدا بخش ہمارے علاقے کے بہت ہی نیک نام بزرگ تھے۔ مجھے تو ان کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا، میرے ہوش سنبھالنے سے کچھ ہی پہلے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے، لیکن والدین اور دیگر لوگوں کو ان کی تعریف کرتے پایا۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی کہ ان کے بچپن میں اس علاقے میں ابھی پرائمری اسکول بھی قائم نہیں ہوا تھا، لیکن وہ غیر معمولی ذہین آدمی تھے۔ گاؤں کے مولوی صاحب سے قرآن ناظرہ پڑھا، لفظوں کی پہچان ہوئی تو خود ہی اردو کتابیں بھی پڑھنے لگے اور اس طرح وہ حکمت کی بعض کتابوں سے شناسا ہوئے اور خلق خدا کا مفت علاج معالجہ کرنے لگے، چنانچہ کشتہ سازی کے ساتھ ساتھ وہ سانپ کے کاٹے کا کامیاب علاج بھی کرتے تھے۔ اس طرح وہ دور و نزدیک ’’حاجی ماندری‘‘ کے نام سے معروف ہو گئے۔ حج انھوں نے اس زمانے میں کیا جب اس عمل میں کم و بیش چھ ماہ کا عرصہ صرف ہوتا تھا۔ اس کے لیے بمبئی سے بحری دخانی جہاز چلتے تھے اور جدہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ تک کا سارا سفر اونٹوں پر طے کرنا ہوتا تھا۔ اس دور میں یہ سفر واقعی بڑا جانکسل تھا۔ یہ دل گردہ رکھنے والے، بہت بہادر اور صاحبِ ایمان لوگوں کا دینی فریضہ تھا۔ حاجی خدا بخش کی بہادری اور اولوالعزمی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں جب انگریزوں نے نہری نظام کا اجراء کیا اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں بنجر زمینیں آباد ہوئیں تو حاجی صاحب نے بھی منڈی بہاؤ الدین سے آگے بوسال کے علاقے میں دو مربع خرید لیے اور اپنے دو نو عمر بیٹوں کی مدد سے خون پسینہ ایک کرکے انھیں لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کر لیا، تاہم مستقل رہائش انھوں نے اپنے آبائی علاقے ہی میں اختیار کئے رکھی جہاں انھیں خاص عزت و توقیر حاصل تھی۔ حاجی صاحب نے مختلف اوقات میں تین شادیاں کیں اور اس کی ٹھوس وجوہ تھیں۔ پہلی بیوی دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کو چھوڑ کر وفات پا گئی تو حاجی صاحب نے دوسری شادی کر لی لیکن بد قسمتی سے یہ خاتون خوب صورت تھیں نہ خوش ذوق، نہ سلیقہ مند۔ اس نے ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو جنم دیا اور حاجی صاحب نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ چنانچہ تیسری شادی انھیں مجبوری کے عالم میں کرنی پڑی۔ یہ خاتون نوجوان تھیں، خوب صورت شخصیت کی مالک تھیں اور بڑی ہی خوش اخلاق اور ہوش مند تھیں اور حالانکہ اس وقت حاجی صاحب کی عمر کم و بیش ستر سال تھی، لیکن ان کی صحت، طبابت اور ایمان کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انھیں یکے بعد دیگرے دو صحت مند بیٹے عطا کیے۔ بڑا ہاشم علی تھا اور چھوٹا قاسم علی۔ یہ دونوں بھائی بالترتیب چھ اور چار سال کے تھے، جب حاجی صاحب ۱۹۴۲ء میں انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی اہلیہ کی عمر چھبیس، ستائیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ہاشم علی اور قاسم علی اگرچہ سگے بھائی تھے، لیکن دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ان کی والدہ ان پڑھ ہونے کے باوجود بڑی ہی سگھڑ خاتون تھیں۔ چنانچہ انھوں نے سوتیلے بیٹے سمیت تینوں بھائیوں کو اسکول میں داخل کرا دیا۔ بڑے بیٹے اختر نے میٹرک کر لیا تو اسے فوج میں بھرتی کرا دیا۔ ہاشم علی لا ابالی طبیعت کا لڑکا تھا اور اس میں غیر سنجیدگی اور آوارگی کے جراثیم غالب تھے، چنانچہ وہ میٹرک نہ کر سکا، تاہم ماں نے کوشش کرکراکے اسے بجلی اور ریفریجریٹر کے کورس کرا دیے اور دونوں بڑے بھائیوں کی شادیاں بھی کر دیں۔
قاسم علی سب بھائیوں میں سب سے خوب صورت اور لائق تھا۔ اس نے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کیے اور والدہ نے اسے سیالکوٹ کے ایک کالج میں داخلہ دلا دیا، لیکن بد قسمتی سے ہاشم دیگر اخلاقی کمزوریوں کے ساتھ حسد میں بھی مبتلا تھا۔ وہ والدہ اور قاسم کو پریشان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا اور گھر میں مختلف حوالوں سے ہنگامہ کھڑا کئے رکھتا، نتیجہ یہ کہ حساس طبع قاسم بیمار ہو گیا۔ اس کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے اور اسے ایف اے کا امتحان پاس کیے بغیر تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا اور آئندہ کئی سال کے لیے اسے بے کاری کے عالم میں گھر پر ہی مقیم رہنا پڑا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب قاسم سے میرا تعلق قائم ہوا۔ اس کا گاؤں ہمارے گاؤں سے کوئی تین فرلانگ کے فاصلے پر تھا اور سڑک کے کنارے واقع تھا۔ اتفاق سے اس کا گھر بھی سڑک کے عین متصل تھا اور میں جب بھی کالج جانے کے لیے بس پر سوار ہوتا، تو اسے اکثر و بیشتر اپنے گھر کے سامنے درختوں کی چھاؤں میں چارپائی پر بیٹھے ہوئے دیکھتا تھا۔ چونکہ مطالعے سے میری رغبت جنون کی حد تک تھی اور میں راستے میں چلتے پھرتے ہوئے بھی عموماً کوئی کتاب یا رسالہ پڑھتا رہتا تھا، اس لیے عام لوگوں سے بے تکلف ہونے کی نوبت بہت کم آتی تھی، چنانچہ نظریں چار ہونے کے باوجود بڑی دیر تک ہمارے درمیان علیک سلیک یا تعارف کی تقریب پیدا نہ ہوئی تاآنکہ ایک روز قاسم نے خود پہل کر ڈالی۔ ہوا یوں کہ میں کالج سے واپس آیا اور بس سے اتر کر اپنے گاؤں کے راستے کی طرف بڑھا تو قاسم نے آواز دے کر مجھے بلا لیا، میں اس کے پاس گیا تو اس نے غیر معمولی تپاک اور اپنائیت کا مظاہرہ کیا۔ میری کم آمیزی کا گلہ کیا، مجھے گھر کے اندر لے گیا۔ اپنی والدہ سے ملوایا جو قاسم سے بھی بڑھ کر شفقت اور محبت سے پیش آئیں۔ انھوں نے اصرار کے ساتھ دودھ پلایا، حلوہ کھلایا اور تقاضا کیا کہ میں ان سے ملتا رہوں۔
اس طرح جلد ہی قاسم اور اس کی والدہ سے میرا تعلق بہت تھوڑے وقت میں گہرا ہوتا چلا گیا۔ دونوں ماں بیٹا تھے ہی بہت اچھے۔ دونوں اخلاص، محبت اور مروت میں گویا گندھے ہوئے تھے۔ میں جب بھی جاتا، وہ خوشی سے نہال ہو جاتے اور کچھ کھلائے پلائے بغیر آنے نہ دیتے۔ نتیجہ یہ کہ تعلق گہرا ہوتا چلا گیا اور مجھے بھی قاسم کو ملے بغیر چین نہ آتا تھا۔ قاسم کے حوالے سے میری ہاشم سے بھی شناسائی ہوئی، مگر یہ تجربہ خوش گوار ثابت نہ ہوا۔ ہاشم نے گزر اوقات کے لیے آٹاپیسنے کی چکی لگا رکھی تھی اور وہ اسی گھر کے ایک حصے میں بیوی بچوں سمیت الگ رہتا تھا، لیکن اس کا تعلق نہ اپنی والدہ سے اچھا تھا نہ اپنے بھائی قاسم سے۔ وہ عجیب و غریب ذہنیت کا آدمی تھا۔ حسد، غصے اور تنگ نظری میں مبتلا وہ ہر شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھتا تھا۔ اس کی والدہ، جیسا کہ اوپر اشارہ کر چکا ہوں، بڑے ہی اچھے مزاج کی خدا ترس خاتون تھیں مگر بد قسمت ہاشم انھیں پریشان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا۔ اس کو گلہ تھا، جس کی وہ برملا تکرار کرتا رہتا کہ ماں نے اس کی کسی خوب صورت لڑکی سے شادی نہیں کی حالانکہ اس کی بیوی بد صورت ہرگز نہ تھی، قبول صورت تھی، لیکن سنجیدہ اور خاموش طبع تھی جسے ہاشم کی لڑائی مار پٹائی نے مزید خوف زدہ اور گنگ بنا دیا تھا۔
ہاشم فطرتاً ایک عاشق مزاج اور نظر باز نوجوان تھا۔ جس خوب صورت لڑکی کو دیکھتا، اس کی رال ٹپکنے لگتی اور وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگتا۔ حد یہ کہ گھر میں صفائی کے لیے آنے والی ایک لڑکی کو زبردستی پھانسنے کی کوشش کی۔ ماں اس کی ان حرکتوں پر اسے ٹوکتی، سمجھاتی، تو سخت بد تمیزی کرتا۔ 
قاسم کی والدہ تہجد گزار اور بے حد پارسا خاتون تھیں، قاسم بھی پنج وقتہ نمازی اور صاف ستھرے کردار کا مالک تھا، لیکن ہاشم نماز کے قریب نہ پھٹکتا تھا اور اس کے خیالات بڑے ہی عجیب و غریب تھے۔ کہا کرتا یہ جو کچھ ہم کرتے ہیں، اس کا ذمہ دار خدا ہے۔ اسی نے ہمارے اندر گناہ کی حس پیدا کی، اسی نے شیطان کو تخلیق کیا۔ وہ نہ چاہتا تو ہم گناہ نہ کر سکتے۔ ہم تو تقدیر کے ہاتھوں بالکل ہی بے بس ہیں تاہم وہ بے عمل ملنگوں اور دنیادار درویشوں کا بڑا معتقد تھا۔ نہر کے کنارے چلہ کشی کرتا رہتا۔ جادو اور رمل جفر پر اس کا اعتقاد خاصا گہرا تھا اور پھر یوں ہوا کہ ہاشم کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ اس نے آٹا پیسنے کی مشین لگا رکھی تھی، اور عموماً گاؤں کی جوان لڑکیاں ہی گندم لے کر آیا کرتی تھیں، لیکن وہ اپنی حرکتوں سے اتنا بدنام ہو گیا کہ لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو چکی پر بھیجنا بند کر دیا نتیجتاً اس نے چکی کی مشینری فروخت کر دی اور کوشش کرکے لیبیا چلا گیا۔
چار یا پانچ سال کے بعد ہاشم لیبیا سے واپس آیا۔ آتے ہی اس نے اپنے آبائی مکان کے متصل، شان دار مکان بنایا۔ ٹریکٹر خریدا اور بوسال میں اپنے حصے کی دس ایکڑ زمین پر کاشت کاری کرنے لگا۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کروں کہ باپ کی وفات کے بعد بوسال والی پچاس ایکڑ زمین پانچوں بھائیوں نے آپس میں برابر برابر تقسیم کر لی، نہ ماں کو حصہ دیا نہ کسی بہن کو اس کا حق ادا کیا۔
اور پھر ایک دن سنا کہ ہاشم نے ایک نوجوان کنواری لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ اس کی پہلی بیوی اپنے چھ بچوں(چار بیٹیاں اور دو بیٹے) کے ساتھ گاؤں میں رہتی تھی جبکہ وہ نئی بیوی کے ساتھ بوسال میں مقیم ہو گیا۔ اس کی دوسری شادی پر پورے خاندان میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں، مگر اس نے کسی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ یوں بھی مکان بنوا کر اور ٹریکٹر خرید کر اس کے غرور اور بد تمیزی میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔ بات بے بات بیوی کی پٹائی کرنا اور ماں سے بد اخلاقی کا رویہ اس کا معمول بن گیا تھا۔
ہاشم اپنی دو بیٹیوں کی شادی لیبیا جانے سے پہلے کر چکا تھا۔ اس روز اس کی تیسری بیٹی کی شادی تھی اور وہ ٹریکٹر پر سوار ہو کر اپنی نئی بیوی کے ساتھ شادی میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ اس کی پہلی بیوی، دونوں بیٹے اور سارا خاندان اس کے خلاف بھرا بیٹھا تھا، وہ مزاج کا تیز تو تھا ہی، پتا نہیں کیا بات ہوئی کہ دلہن کی رخصتی کے بعد سب نے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ دونوں بیٹے، دونوں بڑے داماد اور باقی سب لوگوں نے اسے دھن کے رکھ دیا۔ اس کی نئی بیوی کی بھی بے رحمی سے مرمت ہوئی۔ ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ اس کے بڑے بیٹے عامر نے اسے زمین پر گرایا، اور سر پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا، کچھ خدا ترس لوگ آگے بڑھ کر مداخلت نہ کرتے اور جان نہ بچاتے تو شاید دم گھٹ کر وہیں مر جاتا۔
حضور ختم الرسلؐ کی حدیث ہے کہ والدین کا نافرمان انھیں دکھ دینے والا اپنی زندگی ہی میں اتنے دردناک انجام سے دوچار ہوتا ہے کہ اس کا حشر دیکھ کر لوگ کانپ جاتے ہیں۔ (اوکما قال) چنانچہ تاریخ انسانی کے سب سے سچے انسان کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور ہاشم اپنی بیٹی کی شادی والے دن سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کتے سے زیادہ ذلیل ہو گیا۔ بڑی مشکل سے اس کی جان بچی، بیٹوں نے اس کے ٹریکٹر پر بھی قبضہ کر لیا اور وہ ذلیل و خوار ہو کر عجیب ہیئت کذائی کے ساتھ گاؤں سے نکل گیا۔
اب اس نے اپنے حصے کی زمین فروخت کر دی اور وزیر آباد کے قریب ایک گاؤں میں جنرل اسٹور بنا لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنے بڑے سانحے سے دوچار ہونے کے باوجود اس نے عبرت حاصل نہ کی۔ نہ اپنے مزاج اور رویے میں اصلاح کی فکر کی، چنانچہ اس نے اسی گاؤں کی ایک لڑکی سے تعلقات استوار کر لیے اور اس سے شادی کا پختہ پروگرام بنا لیا لیکن اس کی دوسری بیوی اس کے راستے میں حائل تھی۔ یہ رکاوٹ یوں دور ہوئی کہ ایک روز تیل کا چولہا پھٹ گیا، اس کی بیوی کے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور وہ
تڑپ تڑپ کر بھسم ہو گئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہاشم کی سنگ دلی کا کمال تھا۔ اس نے باقاعدہ منصوبے کے تحت بیوی پر تیل چھڑک کر اسے موت کے گھاٹ اتارا۔ لیکن چونکہ بے چاری خاتون ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اس کا باپ مر گیا تھا اور بوڑھی ماں کے سوا اس کا کوئی قریبی عزیز موجود نہ تھا، اس لیے کسی نے اس حادثے کی پیروی نہ کی۔ ہاشم دونوں بچوں کو اپنی ساس کے پاس چھوڑ آیا اور ہر طرف سے بے فکر ہو کر نئے منصوبے کی طرف بڑھنے لگا۔
اللہ کی سنت یہ ہے کہ ظلم ایک حد تک ہی چلتا ہے اور مظلوم کی بد دعا ظالم کا راستہ روک لیتی ہے۔ پتا نہیں ہاشم کی بد نصیب بیوی کی بے بس بوڑھی ماں کی فریاد تھی یا اس کے یتیم و لاچار بچوں کی چیخ و پکار کا اثر کہ ہاشم کے لیے تقدیر خداوندی کا آخری فیصلہ صادرہوگیا۔ بیوی کو قتل کرنے کے بعد وہ نئی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا اور اسی سلسلے میں وہ ایک روز موٹر سائیکل پر وزیر آباد جا رہا تھا کہ راستے میں ایک ویگن نے اسے ٹکر ماردی۔ وہ اچھل کر سر کے بل سڑک پر گرا اور موقع پر دم توڑ گیا۔ ظلم و زیادتی کے ایک لا متناہی سلسلے نے ایک روز آخر اپنا رنگ تو دکھانا تھا۔
اب سنئے وہ صورتِ حال جس میں ہاشم کا بیٹا عامر آج کل مبتلا ہے۔ اس ظالم نے اپنے باپ کو بے رحمی سے پیٹا تھا اور اسے گندی نالی میں گرا کر اس کے سر پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ ایک لمبے عرصے سے شدید مصائب اور مسائل میں مبتلا ہے۔ اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا ہاتھی بچہ (Elephant Baby) ہے۔ یعنی اتنا موٹا کہ زندگی اس کے لیے وبال بن گئی ہے۔ باہر نکلتا ہے، اسکول پڑھنے جاتا ہے تو دوسرے بچے اسے چھیڑتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں، چنانچہ وہ گھر ہی میں گھسا رہتا ہے اور بیشتر وقت سویا رہتا ہے۔ تینوں بیٹیاں خوش شکل ہیں، لیکن تینوں کا قد خاصا پست ہے۔ عامر کی بیوی بھی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اس کے پتے میں پتھری تھی، نتیجتاً آپریشن کرکے پتا نکلوادیا گیا۔ اس کے گردے بھی خراب ہیں اور وہ دل کی بھی مریضہ ہے، شوگر نے بھی اسے ہلکان کیا ہوا ہے۔ میں گاؤں جاتا ہوں، اسے پتا چلتا ہے تو میرے پاس آ کر زار زار روتی ہے۔ اسے سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ وہ مر گئی تو اس کی بچیوں کا کیا بنے گا؟
میں نے ایک روز عامر کی صحت کا پوچھا تو
صرف اتنا کہا کہ اس کا کچھ نہ پوچھیں، کئی بیماریوں میں مبتلا ہے اور سخت پریشان رہتا ہے۔
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
ظ ظ ظ





حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے
یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے
یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
اک تعلق ہے کہ جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے
اے مرے جذبِ دروں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے
جانے میں کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد 
اس قدر دور ہے سورج کہ دیا لگتا ہے
شہزاداحمد
***