سونامی ’ بے سہارا بچے اور ہم

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : فروری 2005

            سونامی تباہی اور برباد ی کی ہزاروں داستانیں رقم کر کے گزر گیا ۔ یقینا اس کی تلخی تا دیر محسوس ہوتی رہے گی ۔ ‘‘تماشائی’’ تو بہت جلد اسے بھول جائیں گے لیکن وہ جو عملی طور پر اس کا شکارہوئے ’ وہ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیار ے انتہائی بے بسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے’ انھیں بھلا یہ کب بھولے گا۔ کتنے بچے اب کبھی اپنے والدین کو نہ دیکھ سکیں گے ’ کتنی بہنیں اب ہمیشہ بھائیوں سے محروم رہیں گی اور کتنے ایسے ہوں گے جنہیں اب زندگی جیون ساتھی کے بغیر ہی گز ارنا ہو گی۔

             اس طوفان کی نذ ر نہ جانے کیاکیا کچھ’ ہو گیا ہو گا۔شاید بہت سی جگہوں پر تو’ بتانے والا بھی کوئی نہ رہا ہوگا۔ کتنے مکین اب اپنے گھروں کو ترسیں گے اور کتنے گھر اپنے مکینوں کو!شہر ’ بستیاں ’ کھیت ’ کھلیان ’ مسجدیں ’مندر’سب ویران ۔لکھنے والے ان کے نوحے لکھتے رہیں گے لیکن نوحوں سے بھلا’ کبھی جانے والے بھی واپس آیا کرتے ہیں!کتنے بچ جانے والے ایسے ہوں گے کہ جن کی صبحیں ’اب ہمیشہ اداس ’اور شامیں ہمیشہ سونی ہی رہیں گی۔بہاربھی آئے گی’ پھول بھی کھلیں گے’ پرندے بھی چہکیں گے مگر ان کے لیے نہیں۔

            مگر نہیں کسی کہنے والے نے میرے کان میں کہا کہ ان کے لیے بھی پھول کھل سکتے ہیں’ ان کی بہاریں بھی واپس آ سکتی ہیں پوری نہ سہی تھوڑ ی ہی سہی ۔ مگر تب ’جب کوئی ان کو اپنا کہہ دے’ کوئی ان کا اپنا بن جائے ’ اور کوئی انہیں اپنا بنا لے۔مگر یہ کوئی’ کہأں سے آْئے گا؟ وہ جنہیں اپنا بننا چاہیے تھا ’اور جن کاپہلا حق تھا ان میں سے کچھ تو سو گئے ’ اور جو نہیں سوئے وہ چیخوں ’ آہوں اور سسکیوں کے مقابلے میں ہیپی نیو ایر منانے لگے ۔ گویا یہ کہنے لگے کہ ڈوبنے والے تو ڈوب گئے اب ہم بھی ان کے ساتھ ڈوب جائیں؟اور باقی جو رہ گئے وہ یہی فخر کرتے رہ گئے کہ ہم تو اس نبی کے امتی ہیں کہ جو یتیموں کا والی ’ غریبوں کا ملجا اور بے سہاروں کا سہارا تھا۔ہمیں تو بس ان کی حکایتیں اور روایتیں سناکے مزہ لینا ہے اور مزہ ہمیں آ رہا ہے اور کیا چاہیے۔

            بے آسرا یتیم بچو!ٹوٹی ہوئی دہلیز پر تم کس کے منتظر ہو ۔ کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا۔اپنوں کو بھول جاؤ!کہنے کو غیر سہی لیکن جو آ جائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ پہلے بوسنیاپھر افغانستان اورپھر عراق میں بھی تو ایسے ہی ہوا تھا اور ہو رہا ہے بس آفت کانام اور طریقہ ذرا مختلف تھا۔ ہم روایت نبھاتے ہیں جب ہم وہاں نہیں گئے تھے تو یہاں کیوں آئیں گے۔وہاں سے بھی ہزاروں بچے چلے گئے ۔آرام دہ کمروں اور خوش نما لباسوں’ میں وہ مزے سے جی رہے ہیں اور علم بھی حاصل کررہے ہیں ’ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ علم قرآن کا ہے یا بائبل کا۔ سونامی سے پریشان ’ بے سہارا بچو ! ’ تمہیں بھی آسرا مل جائے گا اورآرام بھی’ ہما را انتظار نہ کرنا ہمار ے پاس فرصت ذرا کم ہے ’پریشاں نہ ہونا کچھ بھی نہیں ہوگا’ بس اک نام ہی بد لے گا۔ داؤد سے ڈیوڈ اور یعقوب سے جیکب لیکن تم تو جانتے ہو نام بدلنے سے کیا ہوتا ہے۔ اصل تو دل کا خلوص چاہیے اور خلوص تو ہمارے پاس پہلے بھی کافی تھا اور اب بھی کافی ہے!