ایثار و مروت

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : گوشہ اطفال

شمارہ : فروری 2005

            یہ اس دور کی کہانی ہے جب مسلمانوں کی سلطنت بہت وسیع ہوتی تھی۔ عرب، عراق، شام، اردن، ایران، روم، مصر، مراکش، لیبیا سب ایک ملک ہوا کرتا تھا۔ ان سب کا حکمران بھی ایک ہوتا تھا۔ جسے مسلمان خلیفہ کہتے تھے۔

            عکرمہ بہت فکر مند تھا۔ اس کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا ایک تاجر دوست کئی ماہ سے اسے ملنے نہیں آیا تھا۔ عکرمہ کوئی عام آدمی نہیں تھا بلکہ شام کے ایک بڑے شہر الجزیرہ کا گورنر تھا۔ یوں تو وہ عام لوگوں کا بھی خیال رکھتا تھا لیکن اپنے دوستوں کی اسے خاصی فکر رہتی تھی۔ اب وہ جس دوست کے لیے پریشان تھا اس کا نام خزیمہ تھا۔ وہ ایک بہت مال دار تاجر تھا۔ اسے غریبوں اور حاجت مندوں کی بہت فکر رہتی تھی۔ اس کی یہی عادت عکرمہ کو بھی بہت اچھی لگتی تھی۔ اب جب خزیمہ کئی ماہ سے اسے ملنے نہ آیا تو اس نے کچھ لوگوں کو خزیمہ کی بستی کی طرف بھیجا تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ خیریت سے ہے۔

            چند روز بعد اس کے بھیجے ہوئے آدمی واپس آگئے۔ انھوں نے جو خبر دی وہ کوئی خیر کی خبر نہیں تھی۔ اسے بتایا گیا کہ خزیمہ کا ایک تجارتی جہاز ڈوب گیا ہے اور ایک دوسرے تجارتی کاروبار میں بھی اسے بہت نقصان ہوا ہے۔ یوں وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا ہے۔ اسے اپنے جس تجارتی مال سے بہت زیادہ منافع کی امید تھی، اس میں نقصان نے تو اسے بہت پریشان کیا ہے۔ اس نے کئی لوگوں سے قرض لے رکھا تھا اور کئی حاجت مندوں کی اس قرضے سے ضرورتیں پوری کر دی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ جیسے ہی اس کا مال فروخت ہو گا، وہ سارا قرض ادا کر دے گا۔ لیکن جب نقصان ہوا تو اسے قرض اتارنے کے لیے اپنے گھر کا سامان بھی فروخت کر دینا پڑا۔

            عکرمہ نے بتانے والے سے پوچھا کہ اس برے وقت میں اسے میرے پاس آنا چاہیے تھا، وہ آخر گھر کیوں نہیں لیتا تھا۔ خاص طور پر ایسے وقت پر جب اسے کہیں سے آمدنی کی کوئی توقع بھی نہ ہو، وہ بھلا کیسے قرض لے سکتا تھا۔ اگر قرض لیتا تو اتارتا کیسے؟ اس خوف نے اسے گھر میں بند کردیا تھا۔ یوں کئی ہفتوں سے وہ گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔

            عکرمہ کو جب اس خدا ترس اور نیک دوست کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ سخت دکھی ہوا۔ سوچنے لگا کہ خزیمہ کی مدد کا کیا طریقہ ہو۔ ظاہر ہے وہ اگر خود جا کر اس کی مدد کرے گا تو خزیمہ سخت شرمندگی محسوس کرے گا۔ کل وہ غریبوں کی مدد کرتا تھا اور آج خود اسے مدد کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ اسے لازمی طور پر خزیمہ کی مدد کے لیے ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے اسے محسوس بھی نہ ہو کہ اس کی مدد کی گئی ہے۔

            بہت سوچ بچار کے بعد اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے ضرورت مندوں کی مدد کے فنڈ سے ایک اچھی خاصی رقم لی، اسے ایک تھیلی میں بند کیا اور رات کے پچھلے پہر خزیمہ کی بستی کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اپنے منہ کو اچھی طرح ڈھانپ لیا تھا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے۔ اس کی روانگی کا علم بھی اس کی بیوی کے سوا کسی کو نہیں تھا۔

            عکرمہ نے تھیلی میں خزیمہ کے نام ایک خفیہ پیغام بھی رکھا تھا۔ وہ پروگرام کے مطابق فجر سے پہلے ہی اس کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا اور دستک دینے سے قبل اس نے اطمینان کر لیا کہ کسی نے اسے دیکھا نہیں ہے۔

            تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔ دروازہ کھلتے ہی اس نے رقم کی تھیلی اندر پھینکی اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ دروازہ خزیمہ کی بیوی نے کھولا تھا۔ وہ تھیلی اٹھا کر شوہر کے پاس لے آئی۔ خزیمہ نے بیوی کی زبانی جب یہ سنا کہ کس طرح ایک اجنبی بغیر کچھ کہے سنے ایک تھیلی گھر کے اندر اچھال کر بھاگ گیا ہے تووہ بہت حیران ہوا۔ اس نے فوراً تھیلی کھولی۔ اس میں ایک بھاری رقم دیکھ کر ان کی حیرانی دوچند ہو گئی۔ رقم کے ہمراہ انھیں چمڑے کے ایک ٹکڑے پر یہ پیغام بھی لکھا ہوا ملا:

            ‘‘اچھے دوست، آپ کو میرا سلام پہنچے۔ میں آپ سے سخت شرمندہ ہوں کہ آپ سے لیا ہوا قرض اس قدر دیر سے لوٹا رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ تو بھول بھی چکے ہوں گے کہ آپ نے یہ رقم مجھے قرض میں دی تھی۔ میں اپنا قرض اس قدر دیر سے لوٹا رہا ہوں کہ مجھے آپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ آپ سے معافی مانگتا ہوں اور آپ کا بہت شکر گزار بھی ہوں کہ آپ نے قرض دینے کے بعد کبھی مجھ سے اس کی واپسی کا تقاضا بھی نہیں کیا۔ لیکن اب میں اپنا بوجھ اتارنا چاہتا ہوں۔ اس لیے یہ رقم قبول فرمائیے۔ میں اپنا نام نہیں بتارہا کہ کہیں آپ مجھے ملنے میرے پاس تشریف نہ لے آئیں۔ اس طرح میں مزید شرمندہ ہوں گا۔

آپ کا خیر خواہ، ایک دوست’’

            یہ پیغام پڑھ کر خزیمہ کو ایک حیرت انگیز خوشی ہو رہی تھی۔ واقعی اس کی عادت یہی تھی کہ وہ قرض دے کر بھول جاتا اور کبھی بھی مقروض سے اس کی واپسی کا تقاضا نہیں کرتا تھا۔

            خزیمہ اور اس کی بیوی نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا اور اگلے ہی روز وہ پوری شان کے ساتھ گھر سے باہر نکلا۔ جن لوگوں کے چھوٹے موٹے قرض ادا کرنے تھے انھیں فارغ کیا اور فوراً ایک تجارت شروع کر دی۔ جلد ہی اس کا کام چل نکلا۔ ایک آدھ مہینے کے بعد اسے تجارت کی غرض سے بغداد جانا پڑا۔ وہاں اس نے خلیفہ سے ملاقات کی۔

            خلیفہ نے خزیمہ سے دریافت کیا کہ وہ ایک لمبے عرصے کے بعد بغداد آیا ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

            خزیمہ نے بتایا کہ اسے تجارت میں بہت نقصان ہو گیا تھا اور وہ تو کوڑی کوڑی کو محتاج ہو کر گھر میں بیٹھ گیا تھا۔ پھر ایک شخص نے خود ہی اس سے لیا ہوا قرض لوٹا دیا اور وہ دوبارہ زندگی کی گاڑی چلانے کے قابل ہوا۔

            خلیفہ نے حیرت سے پوچھا کہ اے خزیمہ تم کئی ماہ تک غربت کی حالت میں رہے اور تمھارے شہر الجزیرہ کے گورنر عکرمہ نے تمھاری کوئی خبر نہ لی؟

            خزیمہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عکرمہ تو اس کا دوست بھی ہے لیکن اس نے نہ دوست ہونے کے ناتے اور نہ ایک معزز شہری ہونے کی حیثیت سے اس کی کوئی مدد کی۔ اس کا یہ رویہ اسے بالکل سمجھ میں نہیں آیا۔

            خلیفہ اپنے کسی گورنر سے اس طرح کی نااہلی کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ اس وقت کی اسلامی حکومت میں شہر کے گورنر کا سب سے پہلا فرض یہی تھا کہ وہ لوگوں کی مشکلات اور مصیبتوں کا علم رکھے۔ خلیفہ نے کہا کہ اگر عکرمہ، خزیمہ جیسے مشہور آدمی کی خبر نہیں رکھ سکا تو عام شہریوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ اس نے فوراً عکرمہ کو دربار میں طلب کیا۔

            عکرمہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر دربار میں حاضر ہو گیا۔ خلیفہ نے سخت لہجے میں خزیمہ کی موجودگی میں اس سے پوچھا کہ اس نے اپنے فرائض سے غفلت کیوں کی؟

            عکرمہ نے تو اپنی بیوی پر بھی پابندی لگا دی تھی کہ وہ کسی کو نہ بتائے کہ اس نے خزیمہ کی مدد کی ہے۔ اب بھرے دربار میں خزیمہ کے سامنے بھلا وہ کیسے بتلاتا کہ اسی نے خزیمہ کی مددکی ہے اور آج اس کی مدد ہی کے سبب وہ یہاں موجود ہے۔ اس نے اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نہ کہا اور معذرت کی کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔

            خلیفہ کو اس کے اس بیان پر غصہ آگیا اور اس نے عجیب فیصلہ دیا۔ فیصلے کے مطابق عکرمہ کو گورنری سے الگ کر دیا گیا اور اس کی جگہ خزیمہ کو الجزیرہ کا گورنر بنا دیا۔

            اس فیصلے کو عکرمہ نے خاموشی سے سنا اور زبان پر ایک لفظ بھی نہ لایا۔

            گورنر کے فرائض سنبھالتے ہوئے جب خزیمہ نے خزانے کا حساب کتاب لگوایا تو اس سے ایک اچھی خاصی رقم کم نکلی۔ یہ وہی رقم تھی جو نئے گورنر خزیمہ کی مدد کے لیے اس کے گھر پھینکی گئی تھی۔

            خزیمہ نے جب اس رقم کے متعلق عکرمہ سے پوچھا تو وہ خاموش رہا۔ بھلا وہ اسے کیسے بتاتا کہ اے دوست اسی رقم کے سبب تو آج تم مجھ سے گورنر کی حیثیت سے مخاطب ہو۔ ویسے بھی اس مرحلے پر اس راز کے کھلنے پر خزیمہ کو شدید صدمہ ہوتا۔ دوست کی خاطر عکرمہ نے ایک مرتبہ پھر اپنے ہونٹ سی لیے اور بیوی کو سختی سے حکم دیا کہ وہ کسی قیمت پر خزیمہ پر یہ راز ظاہر نہ کرے۔

            خزیمہ کو عکرمہ پر شدید غصہ آ رہا تھا کہ ایک تو اس نے گورنر ہونے کی حیثیت سے اسے مشکل وقت میں سہارا نہ دیا اور خزانے میں بھی بد دیانتی کی۔ اس نے عکرمہ کو جیل میں بند کر دیا۔

            بیوی نے عکرمہ کو بہت مجبور کیا کہ وہ اپنی صفائی پیش کر دے لیکن عکرمہ نے اس راز کو راز رکھنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ جیل میں بند عکرمہ کو اچھی حالت میں نہیں رکھا گیا تھا۔ اس وقت کی اسلامی حکومت میں ایک بد دیانت اور نا اہل گورنرکے ساتھ اچھے سلوک کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور ویسے بھی خزیمہ کو عکرمہ سے شدید نفرت ہو چکی تھی۔

            دن ہفتوں میں بدلنے لگے اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے گئے۔ دو سال کے طویل عرصے کے بعد جیل میں عکرمہ کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ ادھر خزیمہ کا اصرار تھا کہ جب تک عکرمہ اس رقم کے متعلق نہیں بتائے گا کہ ا س نے اسے کہاں خرچ کیا، وہ اسے رہا نہیں کرے گا۔

            جب عکرمہ اس قدر بیمار ہو ا کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو اس کی بیوی نے اپنا وعدہ توڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتی تھی کہ جب وعدے کو توڑنے سے کسی کی جان بچ سکتی ہے تو اسے توڑ دینا ہی بہتر ہے۔

            وہ خزیمہ کی بیوی کے پاس پہنچی اور اسے کہا: ‘‘بہن کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب آپ پر برا وقت آیا تھا تو رات کے پچھلے پہر فجر سے پہلے ایک گھڑ سوار تمھارے گھر رقم کی ایک تھیلی پھینک کر واپس چلا گیا تھا؟’’

            خزیمہ کی بیوی بھلا اس واقعے کو کیسے بھلا سکتی تھی۔ وہ حیرت سے اچھل پڑی، ‘‘تمھیں اس واقعے کا کیسے علم ہوا؟’’

            اس نے کہا: ‘‘بہن وہ شخص عکرمہ ہی تھا۔ اسی نے اپنے دوست خزیمہ کو شرمندگی سے بچانے کی خاطر یہ ترکیب سوچی تھی۔ لیکن حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ یہی احسان میرے شوہر کے لیے ایک پھندہ بن گیا۔ اس نے مجھے قسم دے رکھی تھی کہ میں اس راز کو کبھی ظاہر نہ کروں لیکن اب اس کی جان کو خطرے میں دیکھ کر میں نے اپنی قسم توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ خزیمہ کی بیوی نے اسے گلے لگا لیا اور فوراً شوہر کو بلا بھیجا۔

            خزیمہ کو جیسے ہی حقیقت کا علم ہوا وہ فوراً جیل پہنچا اور جا کر اپنے محسن اور فرض شناس گورنر کے پاؤں پکڑ لیے۔

            جیل سے با عزت رہا کرنے کے بعد خزیمہ نے اس واقعے کی اطلاع فوراً خلیفہ کو پہنچائی۔ خلیفہ سارے حالات سن کر بہت حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ اس نے عکرمہ کو تین ملکوں کا گورنر بنا دیا اور خزیمہ کو بھی گورنری کے عہدے پر برقرار رکھا۔