پردہ پوشی

مصنف : خالد محی الدین

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : فروری 2005

عظیم انسانی جذبوں سے گندھی ہوئی ایک سچی کہانی

            انسان غلطی کا پتلا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھ سے خطا سرزد ہوئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خطا سرزد ہوجانے کے بعد میں جس تجربے سے گزرا وہ ناقابل فراموش بھی ہے اوراس عہد کا سب سے انوکھا واقعہ۔ اس واقعے کوبیان کرتے ہوئے آج بھی مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

            یہ بیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ والد صاحب کی طویل علالت کے باعث گھر کے حالات گوناگوں مسائل سے دوچار ہوگئے تھے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناتے ساری ذمے داری مجھ پر آن پڑی تھی ۔ میں نے سوچا کہ اگر کوئی نوکری مل جائے تو گھر کا کچھ بوجھ تو ہلکا ہو۔میں فیصل آباد سے لاہور آکرنوکری کی تلاش میں دربدر پھرتا رہا۔ شہر میں واقفیت نہ ہونے کے باعث بڑی مشکلات پیش آئیں۔ پھر بھی میں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی سی کوشش جاری رکھی ۔ ایک روز تلاش معاش میں اکبری منڈی میں اچار اور مربوں کی ایک بڑی سی دکان پر جا پہنچا۔ ایک تنومند گورا چٹا شخص کرسی پر براجمان تھا جو غالباً دکان کا مالک تھا۔ دو چار لڑکے ادھر اُدھر مصروف تھے اور گاہکوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ میں نے موقع پا کر دکان کے مالک کوسلام کرنے کے بعداپنا مدعا بیان کیا، اسی دوران دیکھتے ہی دیکھتے دکان پر گاہکوں کا ہجوم بڑھتا گیا۔مصروفیت کے باوجود دکان کے مالک نے پوری توجہ سے میری بات سنی اور مجھے کل صبح نوبجے آنے کے لیے کہا۔ لاہور میں میرا کوئی رشتے دار نہیں تھا۔ جیسے تیسے کرکے رات کاٹی اور صبح ٹھیک نوبجے دکان پر پہنچ گیا۔دکان ابھی بند تھی۔ میں برابر والی دکان پر کھڑے ایک شخص سے پوچھنے ہی والا تھا کہ ایک سرخ رنگت والی کار میرے قریب آکر رکی اور اس میں سے وہی صاحب نمودار ہوئے جنہوں نے مجھے کل آنے کا کہا تھا۔سلام دعا کے بعد میرے ذمے انہوں نے کچھ کام لگائے جو میں نے بڑی دل جمعی سے کیے۔ چونکہ میں پڑھا لکھا تھا، اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں باقی ملازموں سے زیادہ اہمیت حاصل کر گیا۔مالک نے میری رہائش کا مسئلہ بھی حل کر دیا اور دکان کے قریب ہی ایک کمرہ میرے رہنے کے لیے دیاجس کا کرایہ انہی کے ذمے تھا۔میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے اس طرح لاہور میں نوکری مل جائے گی اور میرے مالک اتنے شفیق اور رحم دل ہوں گے۔آہستہ آہستہ دن پھرنے لگے اور میں اپنے گھر معقول رقم بھیجنے لگا۔

            وہ میری شرافت اور دیانتداری سے بہت متاثر ہوئے اور مجھ پر بھر پور اعتماد کرنے لگے اور انہوں نے خاصے اختیارات بھی مجھے دے دیے۔حساب کتاب اور لین دین کے علاوہ دکان کی چابیاں میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دور سے آنا ہوتا ہے اور کبھی کبھی آنے میں دیر ہوجاتی ہے ، لہذا آیندہ تم ہی دکان کھولا اور بند کیا کرو گے۔

            دو تین سال بڑے اچھے گزرے ۔میں ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتا اور دکان کا سلسلہ خوبصورتی سے چلتا رہا۔ایک دن بدقسمتی سے لالچ کا بھوت میرے ذہن پر سوارہوگیا۔میں نے راتوں رات امیر بننے کی ٹھانی اور کسی شارٹ کٹ کی جستجو میں رہنے لگا اور آخر کار میں نے ایک منصوبہ بنایا جس میں کسی اور کو شریک نہیں کیا۔اس روز معمول کے مطابق دکان کھولی ، سارا دن خوب رش رہا اور سیل بھی بہت اچھی ہوئی۔شام سات بجے کے قریب سب ملازم چھٹی کر کے چلے گئے ، تو مالک نے سارے دن کی سیل ایک تھیلے میں ڈالی ، مگر معمول کے مطابق کچھ رقم گلے ہی میں رہنے دی اور چابیاں مجھے دے کر چلے گئے اور جاتے جاتے کہہ گئے کہ دکان دھیان سے بند کرنا، کوئی چیز باہر نہ رہ جا ئے۔ میں دکان بند کرکے اپنے کمرے میں چلا آیا اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ پروگرام کے مطابق میں نے ایک وین کرائے پر لی اور رات بارہ بجے کے قریب دکان پہنچ گیا۔ دکان کھول کر مربوں اور اچار کے کنستر گاڑی میں لادنے لگا۔ اسی اثنا میں چوکیدار بھی آگیا۔ چونکہ وہ مجھے جانتاتھا، اس لیے اس نے کچھ نہیں کہا اور چپکے سے چلا گیا۔ ایک دوگھنٹے میں، ساری گاڑی بھر گئی اورگلے میں جو رقم تھی وہ بھی اڑالی ، غالباً پچیس سو کے قریب تھی۔ پھر دکان بند کی ا ور گاڑی چلاتا ہوا لاہور سے گوجرانولہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ابھی میں مریدکے ہی پہنچا تھاکہ یک دم تیز آندھی آئی ، ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی اور پھر گھن گرج کے ساتھ موسلادھار بارش نے آلیا۔ طوفان تھاکہ تھمنے کانام ہی نہ لیتا تھا۔ کسی متوقع حادثے کے پیش نظرمیں نے گاڑی کی رفتار قدرے آہستہ کر دی اور اسٹیرنگ مضبوطی سے تھام لیا، لیکن قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا۔ ابھی میں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ راستے میں ایک پولیس چوکی پر مجھے روک لیا گیا۔ اس وقت رات کے تقریباً دو بجے تھے۔ جب مجھ سے پوچھا گیا کہ اس وقت کہاں سے آ رہے ہواور کدھر جارہے ہو ،تو میں ٹھیک جواب نہ دے سکا۔ تلاشی پر گاڑی میں سے خاصا مال برآمد ہوا، مگر اس کی کوئی رسید میرے پاس نہیں تھی۔ پولیس انسپکٹر نے مجھ سے رسید کے بارے میں پوچھا، تو میں انجان بنا رہا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔یہ سب کچھ میرے لیے غیر متوقع تھا۔ اس پر پولیس کو شک گزرا اور انہوں نے چپکے سے برآمد شدہ مال پر جو پتہ اور فون نمبر درج تھا اس پر مالکان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم نے فلاں جگہ ایک گاڑی پکڑی ہے جس میں آپ کامال لداہوا ہے، مگر ڈرائیور کے پاس اس کی کوئی رسید نہیں، آپ فوراً پہنچیں اور اپنی تسلی کر لیں۔ادھر پولیس نے مجھے گاڑی سے باہر نکال کر لکڑی کے بنے ہوئے چھوٹے سے کیبن میں بیٹھا دیا اور صرف اتنا کہا چالاکی دکھانے کی کوشش مت کرنا، ابھی دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جواب دے چکی تھی اور میں بے سدھ ہوکر بیٹھ گیا اور اپنے ضمیر کو ملامت کرتا رہا کہ یہ تو نے کیاکیا…………فون پر پیغام ملتے ہی مالک نے گاڑی نکلوائی اور ڈرائیور کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچنے اور کوئی ایسا تاثر نہیں دیاجس سے پولیس مجھ پر شبہ کرتی ۔ میں سخت سردی کے باوجود پسینے سے ، شرابور اور تھر تھر کانپ تھا۔ انہوں نے انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس والوں سے کہا کہ ہاں جی، یہ مال ہمارا ہی ہے، مگر یہ شخص کاغذات دکان میں بھول آیا ہے، لہذا آپ اسے جانے دینں اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہارے ساتھ جو دوسرا آدمی تھا، وہ کہاں ہے۔ بس اتنا کہہ کر وہ لوٹ گئے ۔ میں حیران و پریشان ہو کر سوچتا رہا کہ میرے ساتھ دوسراآدمی کون تھا…… ندامت کے مارے میرا برا حال تھا اور میں حواس باختہ ہو چکا تھا۔

            پولیس نے مجھے باعزت طور پر پر جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ اگر تم بتا دیتے کہ میں کاغذ بھول آیا ہوں، تو ہم تمہیں ہی چھوڑ دیتے مگر تم تو منہ سے کچھ بولے ہی نہیں ، لہذا ہم نے تمہیں مجرم سمجھتے ہوئے روک لیا تھا۔

            میں نے اپنے حواس مجتمع کرنے کی ناکام کوشش کی اور خاصی دیر تک ساکت کھڑا رہا۔ پھر گاڑی تھوڑی دور لے جاکر واپس لاہور کی طرف موڑلی۔ ابھی میں نے کچھ فاصلہ ہی طے کیاتھا کہ فجر کی اذانیں شروع ہو گئیں۔ اللہ کا نام سن کرمیرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ میری عجیب سی کیفیت ہو گئی اور میں زادوقطار رونے لگا، میری ہچکی بندھ گئی ۔اس کے باوجود میں گاڑی چلائے جارہا تھا، میری کوشش تھی کہ منڈی کھلنے سے پہلے پہلے پہنچ جاؤں اور اللہ نے میری مدد کی اور میں ٹھیک وقت پر پہنچ گیا۔صبح سویرے میں نے مال سے بھری گاڑی دکان پر کھڑی کی اور سارا مال واپس دکان میں رکھنے لگا۔ اسی دوران مالک اور دوسرے ملازم بھی آ گئے۔میرا خیال تھا کہ اب جو رسوائی ہوگی اسے پورا بازار دیکھے گا۔میں یہ تہہ کیے ہوئے تھا کہ جو بھی سزا ملے گی ، اسے بخوشی قبول کروں گا۔ میں سخت شرمندہ تھا اور مجھے کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی ، جی یہی چاہتا تھا کہ زمین کا سینہ چاک ہو جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ ندامت کے مارے میرا برا حال ہو رہا تھا۔

            ‘‘مجھے معاف کر دیں…… مجھ سے غلطی ہوگئی ، میں نے لالچ کیا تھا، مجھے معاف کر دیں، آیندہ ایسا نہیں کروں گا۔’’ بس یہی الفاظ میں بار بار دہرائے جارہا تھا۔ میرے ساتھی ملازم حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ اسے کیا ہوگیا ہے اور اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوگئی ہے جس کی یہ باربار معافی مانگ رہا ہے…… تب میرے مالک نے کہا: ‘‘بھئی اگر تم اتنے سے مال میں راضی ہو سکتے ہو اور تمہارا مستقبل سنور سکتاہے، تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ جاؤہم نے تمہیں معاف کیا۔’’

            مجھے یقین تھا کہ اب میری ملازمت نہیں رہے گی ۔ ڈرتے ڈرتے جب میں نے کام کرنے کی اجازت چاہی ، تو انہوں نے صرف اتنا کہا ‘‘تمہاری مرضی ۔’’ وہ دن اور آج کا دن میں انہی کے پاس ملازم ہوں اور مقدور بھر محنت اور ایمانداری سے کام کر رہا ہوں۔ اس واقعے سے مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا: ‘‘بہترین بدلہ معاف کر دینا ہے……’’میرے مالک پر بھی آفرین ہے کہ انہوں نے کبھی مجھے نہیں جتلایا کہ تم نے کیا حرکت کی تھی ۔ انہوں نے میرے اس جرم کی ایسی پردہ پوشی کی کہ کسی دوسرے کو اس واقعے کا آج تک علم نہیں ہوا۔ میں اللہ کے حضورگڑگڑا کر اپنے کیے پر نادم ہوتاہوں اور اپنے مالک کو دل سے دعائیں دیتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے میرے اس عیب پر پردہ ڈالا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالے اورمجھے ایمان کی دولت سے مال مالا رکھے۔