دعوتِ فکر

مصنف : اقبال پاریکھ

سلسلہ : ادب

شمارہ : جنوری 2005

اے بھائی! آ میرے ساتھ قبرستان چل اور زندگی کا انجام دیکھ۔ دیکھ کہ قبریں شکستہ پڑی ہیں۔ کتبے تک مٹ گئے ہیں۔ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ تیرے جگمگاتے شہر کے درمیان یہ شہرِ خموشاں ہے ۔ یہ لوگ جو تو نے اپنے ہاتھوں سے آباد کیے ۔ یہ لوگ کہاں ہیں؟ یہ لوگ جو بچے ’ بڑ ے تھے’ امیر و غریب تھے ’ عالم و جاہل’ ظالم و رحم دل’ خوبصورت و بد صورت’ ذہین و کشادہ دل لوگ تھے۔یہ تیرے یار ’ یہ تیرے عزیز جن کے بغیر تیری ہر شام سونی اور ہر صبح اداس تھی ۔ جن سے تو لڑتا جھگڑتا تھا۔ اب بقا کی طرف کوچ کر گئے ہیں۔ تو اسے فنا کہتا ہے موت تو سب سے بڑ ا سچ ہے۔اور سچ بقا ہے۔زند گی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور جھوٹ فنا ہے۔

اے بھائی ! جو چلے گئے ان کے بعد راستے بند نہیں ہوئے اور نہ موت کی بستیوں کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔وہاں ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ضرورت کیا تیرا اصلی گھر وہی ہے۔ سب کو وہیں ہجرت کر نا ہے اور تو اگر سمجھتا ہے کہ چالاکیوں سے بچ جائے گا’ کسی کونے میں چھپ جائے گاتو اس حماقت سے باز آ۔ تیرے پیچھے بہت سے نادانوں نے حماقت کی اور کبھی چھپ نہ سکے موت نے انہیں ڈھونڈ لیا۔

میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا مگر کوئی پرانی بات بھی نہیں کہہ رہا۔زندگی کو خوبصورت اور بامقصد بناکہ جو آنے والے ہیں وہ تجھے اچھے ناموں سے یاد کریں۔ ا ن کے لیے اچھی مثالیں قائم کرتا جا۔ باقی باتیں چھوڑ۔ جینا نہیں آتا تو موت سے پہلے مر جا۔ دل مت چھوڑ ۔

ایک تیرے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑ ے گامگر تیرے ہونے سے بہت فرق پڑ سکتا ہے۔