ہڈیا ں کہاں جاتی ہیں

مصنف : حافظ عمر فاروق

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جنوری 2005

             چوبیسویں پارے کی سورہ مومن کے آخری رکوع میں اللہ انسان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ۔ ‘‘کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے چارپایوں کو پیدا کیا تاکہ تم سواری کر سکو اور تم ان کو خوراک کے طور پر کھاؤ، اس میں تمھارے لیے بہت زیادہ نفع ہے۔’’ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا گوشت اور اس گوشت سے تیار کی جانے والی سینکڑوں قسم کی ڈشیں ہمارے دسترخوانوں کی زینت بنتی ہیں۔ ان کا خون دوسرے کئی شعبوں کے علاوہ نباتات کو ایک نئی زندگی فراہم کرتا ہے۔ ان کی انتڑیاں خاص پراسس کے ذریعے تیار کرکے انھیں سرجری اور سپورٹس گڈز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے بالوں سے خاص قسم کی بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ہلکی کوالٹی کے برش بنائے جا رہے ہیں۔ ان کی کھال سے انتہائی اعلیٰ چمڑا تیار کرکے اس سے ہزاروں قسم کی لیدر پراڈکٹ تیار کی جارہی ہیں۔ ان کے گوبر سے بڑے بڑے گیس پلانٹ تیار کرنے کے علاوہ ان کے اوپلے بنا کر آگ جلانے اور فصلوں کے کام آ رہے ہیں۔ ان کے سینگوں سے تلوار سازی کے شعبے میں استعمال ہونے والے دستے جیکٹوں اور گرم لباس کے بٹن اور خواتین کے بالوں میں لگنے والے کلپ تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان کے پاؤں (پائے) سے تیار کیا جانے والا سالن پوری دنیا خصوصاً عالم عرب اور پاکستان میں بڑے ذوق و شوق سے استعمال کیا جاتا ہے حتیٰ کہ آج ہم ان کی ہڈیوں سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں قسم کے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہڈیاں کہاں کہاں سے حاصل کرکے ان سے کیا کیا کام لیا جاتا ہے اور انھیں کیسے اور کن مراحل سے گزار کر انسانی استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔یہی ہمارااس وقت کا موضوع ہے۔ مجھے یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ گوشت خور ممالک کے علاوہ سبزی خور معاشروں کے افراد نے بھی اس انڈسٹری میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ پاکستان میں ہڈیوں کے یونٹ کراچی، لاہور، علی پور، کالاشاہ کاکو، وزیر آباد، ٹنڈو آدم، اٹک اور راولپنڈی میں واقع ہیں۔ آپ کے ذہن میں یقینا یہ سوال ابھرے گا کہ آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں پھیلی لاکھوں قصاب شاپوں سے ان ہڈیوں کو کیسے اکٹھا کیا جاتا ہے اسی کے ساتھ آپ یہ بھی سوچیں گے کہ گھر میں گوشت کے استعمال کے بعد بچ جانے والی ہڈیاں کہاں جاتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان ہڈیوں کو جمع کرنے والے کنٹریکٹر پاکستان اور آزاد کشمیر کے تمام علاقوں میں موجود ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کے قصابوں اور ہڈیاں اکٹھی کرنے والوں سے روزانہ کی سطح پر یہ ہڈیاں خرید لیتے ہیں اور انھیں ٹرکوں اور ریلوے کی مال بردار سروس کے ذریعے اسی حالت میں ہڈی کے کارخانہ مالکان کو فروخت کر دیتے ہیں۔ ان ہڈیوں میں زیادہ مقدار بھینسوں ، گائے، بھیڑوں، بکروں اور کچھ مقدار اونٹ کی ہڈیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور کبھی کبھار ہرن کی ہڈیاں بھی آ جاتی ہیں۔ اونٹ کی ہڈیاں زیادہ تر بلوچستان اور سندھ سے آتی ہیں۔ یہ ہڈیاں جب کارخانوں میں پہنچتی ہیں تو سب سے پہلے ان کا وزن کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد انھیں کھلے آسمان تلے دھوپ میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایک خاص مدت تک دھوپ میں پڑے رہنے سے ان کے ساتھ لگا گوشت گل سڑ جاتا ہے۔ پھر ان کی سکریننگ کرکے ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ سینگ، سر، ٹانگوں اور کولہے کی ہڈیوں کو الگ الگ کرکے انھیں کھلے آسمان کے نیچے ہی دھویا جاتا ہے۔ ایک فیکٹری مالک کے بقول انھیں بوائلر سسٹم کے ذریعے ابلتے پانی سے واش کیا جاتا ہے مگر حسن اتفاق یہ کہ اسی فیکٹری کی چار دیواری کے اندر مجھے کہیں بھی بوائلر سسٹم نظر نہیں آیا۔ حقیقتاًان ہڈیوں کو نارمل واٹر کے ذریعے ہی دھویا جاتا ہے اور اتنی دیر ان کو وہیں پڑے رہنے دیا جاتا ہے جب تک ان سے نمی اور کافی حد تک بدبو دور نہیں ہو جاتی۔ کچھ ہفتوں بعد انھیں مزید خشک ہونے کے لیے چھت کے نیچے ڈال دیا جاتا ہے۔ انھیں سے میروبون(مکھ والی ہڈیاں) کے خاص سائز کاٹ کر انھیں مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت کر دیا جاتا ہے۔ خریدنے والے ان خلاء والی ہڈیوں سے تلوار وں کے دستے تیار کرتے ہیں۔ جب ان ہڈیوں سے مکمل طور پر نمی خارج ہو جاتی ہے تو انھیں بڑے بڑے کرشر پلانٹس کے ذریعے گرائینڈ (پیسا) کیا جاتاہے پھر ان پسی ہوئی ہڈیوں کا دو طرح سے استعمال کیا جاتا ہے مرغیوں کی خوراک تیار کرنے والے یونٹ انھیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔ یہ پسی ہوئی ہڈیاں مرغی کی خوراک میں شامل ہو کر اس کی پرورش کے عمل کو کئی سو گنا بڑھا دیتی ہیں اور چھ ماہ میں تیار ہونے والی مرغی ایک ڈیڑھ ماہ میں ہی تیار ہو کر اپنے منطقی انجام سے دوچار ہو جاتی ہے۔ ان پسی ہوئی ہڈیوں سے جو دوسری چیز تیار کی جاتی ہے اسے جیلاٹین کہا جاتا ہے۔ اسے آج ہزاروں شکلوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ گم نما محلول ہوتا ہے۔ آپ یہ پڑھ کر ششدر رہ جائیں گے کہ ہم اس جیلاٹین کو کن کن شکلوں میں اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں۔ جیلاٹین کو فارماسوٹیکل کمپنیاں میڈیسن بنانے میں استعمال کرتی ہیں۔ کیپسول کا خول بھی اسی سے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف قسم کے کالے اور براؤن رنگ کے حلال اور حرام مشروبات میں اس کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ آئس کریم، ایکسرے فلم، بیکری، ڈیری پراڈکشن اور بنی بنائی خشک خوراک میں بھی جیلاٹین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ارد گرد رہنے والے بعض لوگ بھیڑ اور گائے کے پائے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ بعض پائے فروخت کرنے والے اس کے شوربے کو گاڑھا کرنے کے لیے اسی جیلاٹین کا استعمال کرتے ہیں۔ لکڑی جوڑنے کے لیے استعمال ہونے والے گلو میں بھی جیلاٹین شامل ہوتی ہے۔ مختلف حکومتیں جو نئے کرنسی نوٹ چھاپتی ہیں ان کی سطح پر بھی اسی جیلاٹین کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے ان میں سخت پن پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض دودھ بیچنے والے گوالے بھی دودھ کو گاڑھا کرنے کے لیے دودھ میں جیلاٹین شامل کر دیتے ہیں۔ الغرض اس محلول کا استعمال ہزاروں شعبوں میں کیا جاتا ہے۔ اس جیلاٹین کو تیار کرنے میں امریکہ، جاپان اور یورپی ممالک اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن وہ اس پراسیس میں حلال حرام جانوروں کی تمیز نہیں رکھتے اس بات کی گارنٹی کسی کے پاس نہیں ہوتی کہ جیلاٹین بنانے کے لیے حاصل کردہ ہڈی حلال طریقے سے ذبح کیے گئے جانوروں کی ہوتی ہے یا اس میں حرام جانور یا ایکسیڈنٹ کے ذریعے مر جانے والے گدھوں اور کتوں کی ہڈیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے اکثر اتفاق ہوتا ہے کہ کئی جانور بے ہنگم ٹریفک کے نیچے آکر مر جاتے ہیں اور کچھ ہی دیر بعد ہڈیاں اکٹھی کرنے والے انھیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہ کہاں جاتی ہیں اس پر ہڈیاں اکٹھی کرنے والوں کے لب خاموش رہتے ہیں۔ گو پاکستان ہڈی کارخانہ مالکان کہتے ہیں کہ وہ حلال و حرام کی سختی سے پابندی کرتے ہیں مگرپھر بھی آپ اس سچائی پر حتمی رائے نہیں دے سکتے۔ جیلاٹین چونکہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس لیے ہم ہڈی پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ہڈی کے ٹوٹل یونٹ بمشکل بائیس یا تئیس ہیں جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں اس کے تین سو سے زائد یونٹ کام کر رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کا شمار ان ملکوں میں کیا جاتا تھا جو ہڈی برآمد کرتے تھے مگر گزشتہ سالوں اس کے خریداروں نے اس کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ ہوا یوں کہ گزشتہ سالوں آسٹریلیا نے جو گائیں جاپان کو برآمد کیں انھیں ایک خاص قسم کی بیماری لاحق تھی جب ان کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بیماری ثابت ہو گئی جسے میڈ کاؤ کہاگیا۔ جس کے بعد جاپان اور کچھ دوسرے ممالک نے بعض ملوں سے چوپائے اور ہڈی خریدنے پر پابندی لگا دی۔ ان ممالک میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ حالانکہ پاکستان کی ہڈی کی صنعت کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔ پابندی لگانے والے ممالک اس پابندی کی وجوہات میں صرف میڈ کاؤ کا ہی سہارا نہیں لیتے بلکہ ہمارے جیسے ملکوں میں گوشت کے ذبح کرنے کے طریقہ کار، سلاٹر ہاؤسز کی حالت، جانوروں کے ہسپتالوں کے ماحول اور حیوانات کے تحفظ کی ناکافی سہولیات کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ ظاہر ہے جیسی سہولتیں امریکہ اور یورپ میں موجود ہیں ہمارے ہاں ان کا عشر عشیر بھی موجود نہیں ہڈی کی اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے بھی کئی مسائل ہیں جو عرصہ دراز سے حل طلب چلے آ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی بون کرشنگ فیکٹری کے مالک حاجی خالد محمود صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں انڈسٹری سے متعلقہ محکموں کی فوج ظفر موج موجود ہے اور اس فوج کے اہلکار کچھ اس انداز سے دندناتے ہوئے کارخانوں میں داخل ہوتے ہیں جیسے ہم کوئی انڈین جاسوس ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر ٹیکسوں کے علاوہ جب تک اس مافیا کی جیب گرم نہیں کر دی جاتی یہ ہمارے لیے دردسر ہی بنے رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اس گندے پانی کی نکاسی ہے جو ہڈیاں واش کرنے کے بعد بڑی مقدار میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ مگر اس کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں اس سلسلے میں ہم نے کئی مرتبہ مقامی بلدیہ سے اس مسئلہ کے حل کا تقاضا کیا مگرآج چالیس سال گزرنے کے باوجود ہم اپنا مطالبہ منوانے میں ناکام ہیں۔ اس تناظر میں جب میں نے ایک اور ہڈی مالک محمد عمر سے پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئے کہ اسی کے عشرے میں حکومت جاپان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تاکہ یہاں ایک بڑا یونٹ لگایا جا سکے اور اس ہڈی کو جو جاپان پاکستان سے برآمد کرکے پراسیس کرتا ہے یہیں سے خرید کر استعمال میں لایا جا سکے۔ تاکہ دونوں حکومتوں کے اخراجات کم ہو سکیں۔ یہ جاپانی وفد کئی ہفتوں تک پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتا رہا اور آخر کار ایک رپورٹ تیار کرکے اسلام آباد روانہ ہو گیا تاکہ حکومت پاکستان سے حتمی مذاکرات کر سکے۔ پاکستان میں اس وقت جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت تھی۔ ان جاپانیوں نے متعلقہ وزارتوں اور حکام سے کئی میٹنگیں کیں پھر آخر کار وہی ہوا جو ۵۷ سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ہمارے صاحبان اقتدار نے انھیں پیچیدگیوں میں ایسا الجھایا کہ یہ لوگ اسلام آباد سے دہلی روانہ ہو گئے اور وہاں خطیر رقم صرف کرکے متعلقہ یونٹ لگا دیا گیا انھوں نے بتایا کہ اگر یہ یونٹ پاکستان میں لگ جاتا تو آج پاکستان کی ہڈی صنعت کا شمار دنیا میں ٹاپ کی ہڈی صنعتوں میں ہوتا۔

(بشکریہ :نوائے وقت)