میں نے کیسے اسلام قبول کیا؟

مصنف : شیام سندر

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : فروری2015

ن الظمت الی النور
میں نے کیسے اسلام قبول کیا؟
شیام سندر

سوال : اچھا شمیم بھائی ، آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے؟
جواب : میں مظفر نگر ضلع کے سکھیڑہ گاؤں کے پاس ایک گاؤں کے گوجر زمیندار پریوار میں پیدا ہوا، ۱۹؍اپریل ۱۹۸۴ء میری جنم تتھی (تاریخ پیدائش )ہے، میرے پتاجی نے نام شیام سندر رکھا ، میرا خاندان پڑھا لکھا خاندان ہے،میرے چچا سرکاری افسر ہیں، میرے والد بھی ماسٹر تھے اور ستر بیگھہ زمین بھی تھی،میرے بڑے بھائی فوج میں ہیں، ایک بہن ہے ان کی شادی سرکاری اسکول کے ٹیچر سے ہوئی ہے، میں نے ہائی اسکول سے پڑھائی چھوڑ دی اور فلم دیکھنا ، سگریٹ پینا، گٹکہ کھانا اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ رہنا میرا کام تھا۔ میرے پتاجی نے مجھے پڑھنے پر زور دیا تو میں گھر سے بھاگ گیا۔ میری سنگتی اچھی نہیں رہی اور پھر مجھے گولیاں کھانے کی عادت ہوگئی، کافی دنوں کے بعد میں کسی طرح گھر آیا، مگر میرا تعلق غلط لوگوں سے تھا، خرچ گھر والے دیتے نہیں تھے، میں نے خرچ بڑھا رکھا تھا مجبوراً گھر سے چوری کرتا، کبھی کچھ نکال کر بیچ آتا کبھی کچھ گھر والوں نے احتیاط کی تو پھر باہر سے چوری کرنے لگا۔ بات بگڑتی گئی اور میں لوٹ مار کر نیوالے لڑکوں کی گینگ میں جا ملا اور میرے اللہ کی رحمت پر قربان کہ یہ گینگ ہی میری نیا پار لگا گیا۔
سوال : اصل میں گینگ میں رہنا تو نیا کو ڈبوتا ہی ہے، بس اللہ کی رحمت نے آپ کو پھول سمجھ کر اس گندی گینگ کی کیچڑ سے آغوش رحمت میں اٹھا لیا۔
جواب : ہاں آپ سچ کہتے ہیں۔ اصل میں میرا خاندان اور پورا پریوار بڑے سجن لوگوں کا پریوار ہے میرے گھر والوں کے زیاد ہ تر مسلمانوں سے تعلقات رہے ہیں۔ میرا بچپن بھی اسی ماحول میں گزرا، میں بد قسمتی سے اس ماحول سے دور ہوتا رہا مگر مجھے اس غلط ماحول سے سوبھاؤ (فطرت) کے لحاظ سے میل محسوس نہ ہوا۔
سوال : اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں ذرا بتاےئے؟
جواب : احمد بھائی پچھلے سال دکھیڑی جلسہ سے واپس آتے ہوئے رات کو منصور پورسے پہلے آپ کے اور ہم سب کے ابی مولانا کلیم صاحب کی گاڑی پر بدمعاشوں نے گولی چلادی تھی،ہمارے ڈرائیور سلیم میاں کے دوگولیاں لگی تھیں ،ایک ہاتھ میں اندر گھس گئی تھی دوسری گولی بالکل دل کے سامنے سینہ پر لگی تھی ،کرتا بری طرح پھٹ گیا ،۳۱۵ کی گولی ،مگر کلائی سے (اللہ کی رحمت سے ) بس جیسے چھوکر واپس آگئی ،گولی کا نشان دیکھ کر آدمی خود حیرت کرے گا کہ اللہ کی شان تھی ،اللہ تعالی اپنے سچے بندوں کو ساتھی بھی ایسے دیتے ہیں کہ گولی لگنے کے 
با وجود سلیم نے گاڑی کو دو تین کلو میڑ الٹابیک گیر میں دوڑایا اور موقع لگا کر موڑااور دس کلو میڑ دور جاکر بتایا کہ مجھے گولی لگ گئی ہے اور حوصلہ نہیں کھویا ،ورنہ ہمارے ساتھی تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے ایسا نشانہ بنا کر گولی سامنے سے ماری تھی کہ ہم کو یقین تھا کہ ڈرائیورتو مرگیا ہوگا ،کوئی دوسرابرابر والا گاڑی بھگا رہا ہے ۔ 
وہ جو گولی چلانے والے لوگ تھے سب میرے ساتھی تھے ،مگر میرے اللہ کا کرم تھا میں دو ہفتہ سے بیما ر ہوگیا تھا اور مجھے پیلیا ہوگیا تھا، میں مظفر نگر اسپتال میں بھرتی تھا۔ یہ خبر پورے علاقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، ہم آٹھ لوگوں کا گینگ تھا ، صرف میں ایک ہندو تھا اور سب سات لوگ مسلمان تھے۔ اتفاق سے میرے علاوہ ساتوں اس روز اس واقعہ میں موجود تھے ، کھتولی کوتوالی نے سی آئی ڈی انچارج کو بلایا اور دونوں نے قسم کھائی کہ ایسے سجن، بھلے اور مہان آدمی کی گاڑی پر ہمارے چھیتر (علاقہ ) میں یہ حملہ ہوا ہے ہمارے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے، قسم کھاکر عہد کیا جب تک مجرموں کو پکڑ نہ لیں گے اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے۔ بھلا ایسے لوگوں پر گولی چلانے والے کب بچ سکتے تھے، تیسرے روز ان میں سے تین پکڑے گئے اور پٹائی پر سب نے بتادیا، باقی چار بھی ایک ہفتہ میں گرفتار ہوگئے، بہت سے کیس لوٹ مار چوری ڈاکے کے کھلے اور تھانہ انچارج نے ایسے کیس بنائے کہ ضمانت تو سالوں تک ممکن ہی نہیں تھی نہ ہوئی۔
ایک ہفتہ کے بعد میری طبیعت کچھ ٹھیک ہوئی، دوبار خون بھی چڑھا تو میری چھٹی ہوئی، دو ہفتے تک گھر پر ہی رہا، ساتھیوں کے پکڑے جانے کی خبر مجھے مل گئی تھی، میرا خون سوکھتا تھا کہ سختی میں میرا نام نہ لے لیا ہو، مگر دو مہینے تک جب ہمارے گھر پولیس نہ آئی تو کچھ اطمینان ہوا کچھ طبیعت بھی ٹھیک ہوگئی تو میں کسی طرح موقع لگا کر جیل میں ملائی کرنے گیاجیل میں ساتھیوں نے سارا معاملہ بتایا اور مجھے بدھائی دی کہ تو بیمار ہوگیا ورنہ تو بھی ہمارے ساتھ جیل میں ہوتا۔ مظفر نگر جیل میں ان کی ملاقات کچھ قیدیوں سے ہوئی جو مولانا صاحب کے ان ساتھیوں کی کوشش سے جن کو دشمنی میں لوگوں نے جھوٹ ایک قتل کے کیس میں پھنسا دیا تھا مسلمان ہوگئے تھے۔ان قیدیوں سے ملنے مولانا کلیم کئی بار جیل آئے، جیل والوں سے مولانا صاحب اور ان کے گھر والوں اور ان کی والدہ کے بارے میں کہانیاں سی سناتے رہتے تھے، ان کے گھر کا یہ حال ہے کہ اپنے چوروں کو خود چھڑا کر لاتے ہیں ، معاف کرتے ہیں ان کے گھر راشن پہنچاتے ہیں۔ کوکڑا گاؤں کے میرے ایک ساتھی نے جو ہمارا سردرد تھا مجھ سے کہا تو پھلت جانا اور مولانا صاحب سے ہماری پریشانی بتانا اور خوب رونا ، منھ بناکر خوب پریشانیاں بتانا، میں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی ، بھلا ان کے یہاں جانے کا کس طرح منھ ہوسکتا ہے، مگر وہ زور دیتا رہا تو جاکر دیکھنا وہ تجھے کچھ نہیں کہیں گے، ان سے کہنا سب ساتھی دل سے معافی مانگ رہے ہیں اور سبھی عہد کررہے ہیں کہ اب اچھی زندگی گزاریں گے اور آپ کے مرید بھی بن جائیں گے، میری ہمت نہ ہوئی، ہفتے دو ہفتے کے بعد وہ مجھے زور دیتے رہے۔
بار بار کہنے پر مجھے بھی ان کے حال پر ترس آگیا اور میں پتہ لینے کے بعد پھلت پہنچا۔سردی کا زمانہ تھا راستہ میں بارش ہوگئی اور میں بھیگ گیا، مولانا صاحب ظہر کی نماز کے لئے جا رہے تھے نماز کا وقت قریب تھا، مجھے دیکھا معلوم کیا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے اپنے گاؤں کا نام بتایا، مولانا صاحب گھر میں گئے اور میرے لئے ایک شرٹ پینٹ لے کر آئے اور بولے سردی سخت ہورہی ہے آپ اندر جاکر کپڑے بدل لیجئے۔ میرا نام پوچھا میں نے نام بتایا شیام سندر ، تو انھوں نے رضائی میں بیٹھ جانے کو کہا اور اندر سے بچے کو ایک کپ چائے لانے کو کہا۔ نماز کے لئے جاتے وقت ہنستے ہوئے بولے ، آپ تو اس علاقے کے مہمان ہیں جہاں ہماری اچھی مہمانی ہوئی تھی۔ ہمارے ڈرائیور کے گولی لگی تھی، میں یہ سن کر سہم گیا، میرے چہرے کے اترنے سے مولانا صاحب بولے آپ کیوں شرماتے ہیں، کوئی آپ نے گولی نہیں چلائی تھی، آپ تو ہمارے مہمان ہیں، مولانا صاحب نماز پڑھنے چلے گئے۔
نماز پڑھ کر واپس آئے تو میں نے الگ بات کرنے کے لئے کہا۔ برابر کے چھوٹے کمرے میں مجھے لے گئے میں نے اپنا تعارف کرایا اور اپنے ساتھیوں کا حال اور ان کے گھر کا حال خوب بناوٹی رونا بنا کر سنایا اور مولانا صاحب سے کہا آپ چاہیں تو ان کی ضمانت ہوسکتی ہے۔ مولانا صاحب نے کہا نہ ہم نے ان کو گرفتار کیا ہے اور ہم ان کو مجرم کم اور بیمار زیادہ سمجھتے ہیں، ایسے سچے اور اچھے دین کو ماننے والے ، ایسے رحمت بھرے رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھنے والے، ایسی بے دھڑک لوگوں کی جانیں لیں گے تو پھر دنیا کا کیا ہوگا؟ ان کا علاج یہ ہے کہ ان سے کہوں یا عمر قید میں رہو یا تین چلے کے لئے جماعت چلے جاؤ، اگر وہ سچے دل سے اپنی غلطی پر شرمندہ ہیں تو وہ جیل سے سیدھے تین چلے کے لئے ساتوں جماعت میں چلے جائیں، ہم خود گواہی دینے کے بجائے ان کی ضمانت کو تیار ہیں۔
مولانا صاحب نے مجھ سے کہا ، آپ پہلے کھانا کھالیں میں ابھی آتا ہوں، ایک صاحب اندر سے کھانا لے آئے، تھوڑی دیر میں مولانا آئے اور مجھ سے کہا اپنے ساتھیوں کی جیل کی تو تم فکر کرتے ہو تمہیں بھی ایک جیل میں مرنے کے بعد جانا پڑسکتا ہے، وہ جیل ہمیشہ کی ہے جس سے ضمانت بھی نہیں ہے وہ نرک کی جیل ہے، جس میں ایسی سزائیں ہیں جن کا تصور بھی یہ دنیا کی پولیس والے نہیں کرسکتے ۔ اس جیل سے بچنے کے لئے یہ کتاب پڑھو یہ کہہ کر ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں‘‘مجھے دی پھر وہ ایک ساتھی کو میرے پاس بھیج کر چلے گئے ان سے بات کرو، وہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے کہتے رہے اور بولے تم بڑے خوش قسمت ہو کہ مالک نے آپ کو اسی بہانے ہمارے حضرت کے یہاں بھیج دیا، مالک کی مہر ہوتی ہے تو اللہ اس در کا پتہ دیتے ہیں، میں نے ان سے اس کتاب کو پڑھنے کا وعدہ کیا اور اس لحاظ سے خوش خوش گھر لوٹا کہ چار مہینے جماعت میں جانا تو بہت آسان ہے، میں نے اگلے روز جیل جاکر ساتھیوں کو خوش خبری سنائی انھوں نے پوری بات سنی اور بہت روئے ایسے آدمی کے ساتھ ہم نے بڑا ظلم کیا اور پھر ان نو مسلم قیدیوں کے ساتھ رہنے لگے نماز پڑھنی شروع کردی ، روزانہ تعلیم میں بیٹھنے لگے اور تین قیدی ان کے کہنے سے مسلمان بھی ہوئے۔
میں نے دوسرے روز وہ کتاب پڑھی ، ایک اجنبی آدمی کے ساتھ مولانا صاحب کے برتاؤ نے میرے اندر ون کو مولانا کا کردیا اور مجھے اندر میں ایسا لگ رہا تھا کہ میں مولانا کا غلام ہو گیا ہوں، اس کتاب نے مجھے اور بھی جذباتی بنادیا، میں تین دن کے بعد پھلت گیا مولانا نہیں ملے ، بہت مایوس واپس لوٹا دوسری بار گیا، تیسری بار گیا تو معلوم ہوا کہ وہ آئے تھے اور آج ہی حج کے سفر پر چلے جائیں گے اور ایک مہینے بعد آئیں گے۔
ایک ایک دن کر کے دن گنتا رہا ، میں بیان نہیں کرسکتا احمد بھیا، میں نے ایک مہینہ سالوں کی قید کی طرح گزارا، اللہ کا کرم ہوا میں نے پھلت فون کیا معلوم ہوا کہ مولانا صاحب آگئے ہیں اور کل تک رہیں گے، ۱۶؍جنوری کو صبح کے دس بجے میں نے مولانا صاحب کے پاس جا کر کلمہ پڑھا میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میرے پتاجی مجھے مارتے اور ڈانتے تو کہا کرتے تھے کہ نالائق ہمارے بڑے تو یہ کہا کرتے تھے، کہ انسان وہ ہے کہ اس کے دشمن بھی اس سے فائدہ اٹھائیں، تو نے اپنے ہی گھر کو نرک بنادیاہے، میں یہ سن کر کہتا ایسے لوگ کسی دوسرے لوک میں ہوں گے، لیکن آپ کے قاتلوں کے ساتھ رہنا میرے لئے ایمان لانے کا ذریعہ بن گیا، مولانا صاحب نے کہا میں کیا بلکہ وہ مالک جس نے پیدا کیا اس کو آپ پر رحم آگیا، آپ رحمت کی قدر کریں، میرا نام مولانا صاحب نے شمیم احمد رکھا۔
سوال : پھر اس کے بعد آپ جماعت میں چلے گئے؟
جواب : دوسرے روز میرے کاغذات میرٹھ بھجواکر بنوائے اور مجھے ساتھ لے کر مولانا صاحب دلی گئے اور ایک مولانا کے ساتھ مجھے مرکز بھیج دیا، سیتا پور چلہ لگا، کچھ نماز وغیرہ تو میں نے سیکھ لی واپس آکر میں نے کار گزاری سنائی مولانا صاحب نے کہا چالیس دن میں اگر آپ کلمہ بھی اچھی طرح یاد کر کے آگئے تو کافی ہے، آپ کو نما ز بھی خاصی آگئی ہے،دو بارہ جاکر اور اچھی طرح یاد کر لینا۔ کچھ روز میں مظفر نگر ایک مدرسہ میں رہا پھر جماعت میں دوبارہ گیا، الحمدللہ اس بار میں نے ایک پارہ بھی پڑھ لیا اور اردو بھی پڑھنا سیکھ لی، گھر والوں اور ساتھیوں کے لئے دعا بھی کی ، واپس جاکر جیل گیا اور ساتھیوں سے جماعت اور مسلمان ہونے کی کارگزاری سنائی، وہ بہت خوش ہوئے، اب انشاء اللہ جلدی ان کی ضمانت ہونے والی ہے، دو لوگوں کی ضمانت تو کسی طرح ہوگئی مگر میں نے ان کو بھی تیار کیا ہے وہ ساتوں انشاء اللہ جلد چار مہینے کی جماعت میں جانے والے ہیں۔
سوال : جماعت سے واپس آکر آپ گھر گئے؟ تو گھر والوں کو آپ نے کیا بتایا؟
جواب : میرے گھر والے یہ سمجھ رہے تھے کہ پھر گینگ میں چلا گیا ہوں، میرے گھر سے باہر جانے کے وہ عادی تھے ان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ، ٹوپی اوڑھ کر کرتا پاجامہ پہن کر میں گھر پہنچا تو گھر والے حیرت میں پڑ گئے۔ شروع میں میرے پتاجی بہت ناراض ہوئے، پھر میں نے پھلت جانے کی اور وہاں کی ساری رپورٹ سنائی تو وہ خاموش ہو گئے، میں نے ایک دن بہت خوشامد سے ان سے وقت لیا کمرہ بند کرکے دو گھنٹے ان سے دعوت کی بات کی، پھر آپ کی امانت ان کو دی الحمدللہ، اللہ نے ان کے دل کو پھیر دیا اور وہ پھلت جاکر مسلمان ہو گئے۔ہمارے گاؤں میں مسلمان نام کے برابر ہیں مولانا صاحب نے ان سے ابھی اظہار اور اعلان کرنے کے لئے منع کردیاہے، البتہ وہ گھر والوں کو سمجھانے میں لگ رہے ہیں۔ خدا کرے ہمارا سارا گھر جلد مشرف بہ اسلام ہوجائے۔
سوال : ماشاء اللہ بہت خوب ، اللہ تعالیٰ مبارک کرے، آپ کوئی پیغام ارمغان کے واسطہ سے مسلمانوں کو دیناچاہیں گے؟
جواب : میں اپنی بات کیا کہوں میرا منھ کہاں میں کچھ کہہ سکوں ، مگر میں ضرور کہوں گا جو مولانا صاحب کہتے ہیں، کہ مسلمان اپنے کو داعی اور ساری امت کو مدعو سمجھنے لگے تو ساری دنیا رشک جنت بن جائے گی اور داعی طبیب اور مدعو مریض ہوتا ہے وہ آدمی نہیں جو اپنے مریض سے مایوس ہو اور وہ بھی طبیب نہیں جو مریض سے نفرت کرے، اس سے کراہت کرے، اسے دھکے دیدے، مسلمانوں نے اپنے مریضوں کو اپنا حریف ، اپنا دشمن سمجھ لیا ہے، اس کی وجہ سے خود بھی پس رہے ہیں اور پوری انسانیت ایمان اور اسلام سے محروم ہورہی ہے۔
سوال : ماشاء اللہ! بہت اچھا پیغام دیا، شمیم بھائی، بہت دنوں سے میں انٹرویو لے رہا ہوں مگر اتنی اہم بات آپ نے کہی، آپ کو یہ سمجھ مبارک ہو۔
جواب : احمد بھائی! بس یاد کرکے میں نے آپ کو سنادیاہے، سبق تو مولانا صاحب نے یاد کرایا ہے۔
(مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، جون ۲۰۰۷ ؁ء)

0